اگر یہ رام راج ہے تو راون راج کسے کہتے ہیں؟

سنیاسی یوگی کی زمین پھسلی، پرینکا کےسامنےکانگریس کی سوکھی جڑوں کی آبیاری کا چیلنج

ڈاکٹر سلیم خان، ممبئی

اترپردیش کی سیاست میں کانگریس اور کانگریس میں سیاست !

سیاست میں انسانی حکمت کے علاوہ حالات بھی بڑا کردارادا کرتے ہیں ۔ فی الحال بی جے پی کے تئیں برہمن سماج کے اندر پائی جانے والی بے چینی کانگریس کے لیے نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہوسکتی ہے۔ وکاس دوبے کے انکاؤنٹر کے بعد اتر پردیش کے برہمن سماج میں حکومت کے خلاف ناراضگی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس بیچ اتر پردیش کے ضلع بلیا کے بی جے پی رکن پارلیمنٹ ویریندر سنگھ مست نے اپنی ہی پارٹی کے رکن اسمبلی وجے مشرا کو یہ دھمکی دے دی کہ اگر ان کے عزت نفس پر بات آئے گی تو وہ خود ہی ٹھوک دیں گے۔ کچھ دن پہلے وجے مشرا نے ویریندر سنگھ پر الزام لگایا تھا کہ وہ اور دوسرے ٹھاکر رہنما ان کا قتل کرانا چاہتے ہیں۔ لکھیم پور کھیری سے تین مرتبہ کے آزاد رکن اسمبلی73 سالہ نیویندر مشرا کو زمینی تنازعہ کے بعدپولس کے سامنے لاٹھی ڈنڈوں سے پیٹ پیٹ کر قتل کردیاگیا۔ پٹائی کرنے والے مجرمین کو دیہاتیوں نے پکڑ لیا مگریو پی پولیس کے سی او کلدیپ ککریتی نےمجرموں کو آزاد کرنے کے لیے گھر کی عورتوں کو زدو کوب کیا اور قاتلوں کولےکر چلے گئے۔
عام آدمی پارٹی کے سوربھ بھاردواج کے مطابق اترپردیش میں برہمن ہونا سب سے بڑا جرم بن گیا ہے۔ ہر دوسرے دن مرنے والا مشرا، دوبے، پانڈے، شرما یا واجپائی ہوتا ہے۔ بھاردواج نے الزام لگایا کہ اتر پردیش میں انتظامیہ پر ٹھاکروں کا غلبہ دیکھا جا سکتا ہے اس لیے یوگی جی کے دور حکومت میں، برہمنوں اور دلتوں کو مسلسل مظالم کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سوربھ بھاردواج نے 14 جولائی 2020 کو ایک نیوز پورٹل کے حوالے سے کہا کہ پچھلے 11 دنوں میں 23 برہمنوں کو قتل کیا گیا۔ پچھلے 2 سالوں میں کم از کم 500 برہمنوں کو قتل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کئی انفرادی انکاونٹر اور اجتماعی قتل کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ اتر پردیش میں ہر دوسرا قتل یا تو دلت بھائی کا ہوتا ہے یا برہمن بھائی کا۔ ایسا لگتا ہے کہ یوگی راج کے اندر ٹھاکروں کے علاوہ کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ عام آدمی پارٹی کو مسلمانوں کے نام سے ڈر لگتا ہے ورنہ سب سے زیادہ عدم تحفظ کا شکار تو مسلمان ہی ہیں۔
اتر پردیش کو 2000ء میں تقسیم کردیا گیا اس کے باوجود وہ آج بھی آبادی کے لحاظ سے ہندوستان کا سب سے کثیر آبادی والا صوبہ ہے۔ اس صوبے میں ہندوستان کے سب سے زیادہ برہمن بستے ہیں اور انہوں نے ہی پہلے چالیس سالوں میں سب سے زیادہ مدت تک حکومت کی ۔ اس کے بعد جب اٹل جی نے محسوس کیا کہ اب ان کے اقتدار میں آنے کا موقع ختم ہو گیا ہے تو انہوں نےاتر اکھنڈ کو الگ کر دیا۔ فی الحال اتر پردیش میں برہمنوں کی تعداد 12 فیصد کے آس پاس بتائی جاتی ہے لیکن کئی حلقۂ انتخاب میں وہ 20 فیصد سے زیادہ ہیں۔ ان کے علاوہ بی جے پی کے منظور نظر راجپوت 7 تا 8 فیصد ہیں۔ پسماندہ 60 فیصد دلت 21 فیصد اور مسلمان 19 فیصد ہیں۔ اتراکھنڈ کو الگ کیا گیا تو وہاں برہمنوں کی آبادی کا تناسب 20 فیصد ہوگیا۔ اتر پردیش کی سیاسی اہمیت کے پیش نظر 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے بڑودہ کے علاوہ مرلی منوہر جوشی کا پتہ کاٹ کر وارانسی سے انتخاب لڑا اور دونوں مقامات سے کامیابی درج کرانے کے بعد وارانسی کے بجائے اپنے آبائی صوبے کے بڑودہ کو چھوڑ دیا۔
اترپردیش میں آزادی سے قبل (جبکہ وہ یونائیٹید پروونس ہوا کرتا تھا) 1937 میں جب پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی بنی تو ایک آزاد امیدوار محمد احمد خان چھتاری وزیر اعلیٰ بنے لیکن چار ماہ بعد ان کی جگہ کا نگریس کے قدآور برہمن رہنما گووند ولبھ پنت نے لے لی اور سن 1954 تک وقفہ وقفہ سے وہ چار مرتبہ وزیراعلیٰ بنے۔ ان کے بعد 1989تک کئی برہمن کانگریسیوں کو ریاست کا وزیر اعلیٰ بننے کا موقع ملا مثلاً سمپورنانند، سچیتا کرپلانی، کملاپتی ترپاٹھی، سری پت مشرا، ہیموتی نندن بہوگنااور این ڈی تیواری ۔ کانگریس نے درمیان میں تین راجپوت رہنما تربھون نرائن سنگھ، وی پی سنگھ اور ویر بہادر سنگھ کو بھی موقع دیا اور چندرا بھانو گپتا نامی بنیا کو بھی دو بارآزمایا۔ اس وقت کانگریس کے ساتھ برہمن، مسلمان اور دلت ہوا کرتے تھے ۔ کانگریس کے اقتدار کو رام منوہر لوہیا کی قیادت میں پسماندہ طبقات کے رہنماوں نے چیلنج کیا اور وہ جب اقتدار میں آئے کسی برہمن کو اقتدار کے قریب پھٹکنے نہیں دیا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ بی جے پی نے بھی کبھی کسی برہمن کو وزیر اعلیٰ نہیں بنایا۔ اس نے پسماندہ طبقات میں سے کلیان سنگھ اور پھر راجپوت راجناتھ سنگھ اورآنند کمار بشٹ عرف یوگی ادیتیہ کو زیر اعلیٰ بنایا ۔ اب تو یہ حال ہے کہ اتراکھنڈ میں بھی بی جے پی نے ایک راجپوت کو وزیر اعلیٰ بنارکھا ہے۔
کانگریس نے اتر پردیش میں پسماندہ طبقات کو نظر انداز کرنے کی قیمت چکائی مگر اس کو پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب کانشی رام نے دلتوں کو بی ایس پی کے جھنڈے تلے الگ کر لیا۔ اسی زمانے میں بابری مسجد کے مسئلہ پر راجیو گاندھی نے تالے کھلوانے کے بعد شیلانیاس کروایا اور نرسمہا راؤ نے مسجد شہید کروائی تو مسلمان پوری طرح سماج وادی پارٹی کے ساتھ ہوگئے کیونکہ ملائم سنگھ نے کارسیوکوں پر گولی چلوائی تھی۔ اس طرح مسلمانوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا اور کانگریس یتیم ہوگئی۔ پچھلے 31 سالوں میں اسے ایک مرتبہ بھی اقتدار میں آنے کا موقع نہیں ملا اور نہ کسی برہمن کو وزیر اعلیٰ بننے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس دوران مسلمانوں کا سیاسی لائحہ عمل تو طے تھا۔ وہ ہر مقام پر بی جے پی کو ہرانے کی سکت رکھنے والے امیدوار کو کامیاب کرنے کی کوشش میں بیشتر مقامات پر ایس پی یا بی ایس پی کی حمایت کرتے رہے۔ مسلمان جس طرح بی جے پی سے دور رہے اسی طرح برہمنوں نے سماج وادی پارٹی سے فاصلہ بنائے رکھا۔ برہمن اقتدار کی امید میں وقتاً فوقتاً کانگریس، بی جے پی یا بی ایس پی کا رخ کرتے رہے۔
حال میں اتر پردیش کے اندر برہمنوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے کھیل کی ابتدا کانگریس کے سابق مرکزی وزیر جتن پرشاد نے جولائی کے پہلے ہفتہ میں برہمن چیتنا سمواد (بیداری مہم) سے کی۔ ان کے مطابق چونکہ ہر روز یوگی حکومت برہمنوں کا ناحق خون بہا رہی ہے اس لیے برہمن سماج کو اپنے آپسی اختلافات کو مٹا کر ریاستی حکومت کے خلاف متحد ہو جانے کا یہ بہترین موقع ہے۔ اس مقصد کے لیے جتن پرساد نے ہر ضلع میں اپنی ذات کے رہنماؤں سے رابطہ قائم کیا۔ یوں تو وہ برہمنوں کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کو مجسمے نصب کرنے سے زیادہ اہم سمجھتے ہیں لیکن ان کے مذہبی جذبات کا خیال کرتے ہوئے پرشورام جینتی کی تعطیل کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔ برہما سینا کے کانگریسی رہنما سویم پرکاش گوسوامی نے بھی وکاس دوبے کے ساتھ 5 برہمن نوجوانوں کے انکاونٹر پر تنقید کی۔ راجیش مشرا بھی برہمن خاندانوں کا دکھ درد سننے لگے۔ کل ہند برہمن مہا سبھا (ر) کے صدر راجندر ناتھ ترپاٹھی نے گزشتہ 2 سالوں میں یوگی انتظامیہ کے ہاتھوں مارے جانے والے 500 لوگوں کے نام شائع کر کے معاملہ گرما دیا اور اب تو بی جے پی کے برہمن رہنما بھی یہ کہنے لگے ہیں کہ انکاونٹر سے قبل وکاس کا کوئی حامی نہیں تھا لیکن اب لوگوں میں غم و غصہ ہے اور آئندہ ریاستی انتخاب سے پہلے اس کو ٹھنڈا کرنا ضروری ہے۔
اس موقع کا فائدہ اٹھانے کے لیے پہلی مرتبہ ایس پی کے ابھیشیک مشرا کھل کر میدان میں آئے اور انہوں نے سوال کیا کہ سماج وادی پارٹی کے ذریعہ پرشو رام جینتی کی چھٹی دیے جانے کو ختم کرنے پر بی جے پی پر تنقید کی۔ وہ مایا وتی سے سوال کرتے ہیں کہ اپنے دور اقتدار میں انہوں نے پرشو رام کا مجسمہ کیوں نصب نہیں کیا؟ ویسے ابھیشیک کو یہ بھی بتانا پڑے گا اب 108فٹ کا مجسمہ بنانے والے اکھلیش کو اپنے زمانے میں اس کا خیال کیوں نہیں آیا؟ سماج وادی پارٹی کے پون پانڈے نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’تلک ترازو اور تلوار‘ کا نعرہ لگانے والوں کو برہمنوں کی یاد کیوں آ رہی ہے؟ اب برہمنوں نے پرشو رام کے وارث کرشنا (یادو) کے ساتھ جانے کا ذہن بنالیا ہے۔ کسی سماج وادی لیڈر سے اس طرح کے بیان کی توقع لوہیا تو دور ملائم نے بھی نہیں کی ہوگی۔ اس پر تو بی جے پی کے ہندتوا نواز رہنما بھی شرمندہ ہوں گے۔
اس ملک میں ذات پات کی تفریق ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار نا ممکن ہے۔ بی جے پی تمام تر قوم پرستی کے باوجود ٹکٹ دیتے وقت ذات پات کا خاص خیال رکھتی ہے۔ اس جوڑ توڑ کو اس نے سوشل انجنیرنگ کا خوبصورت نام دے رکھا ہے۔ کانگریس برہمن، مسلمان اور دلتوں کو ساتھ لینا چاہتی ہے جبکہ سماج وادی پارٹی اس بار یادو کے علاوہ کرمی، مسلمان اور برہمن رائے دہندگان پر نظریں گاڑے ہوئے ہے۔ اس چھینا جھپٹی کا نہ صرف 2022 کے صوبائی بلکہ 2024 کے قومی انتخاب پر بھی اثر پڑے گا۔ حزب اختلاف کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے بی جے پی کے منوج مشرا کہتے ہیں کہ یوگی سرکار میں چیف سکریٹری، ہوم سکریٹری، ڈی جی پی اور ایک نائب وزیر اعلیٰ برہمن ہیں اس لیے یہ سارے الزامات بے بنیاد ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان لوگوں کی بدولت اتر پردیش میں نظم و نسق کا نظام پوری طرح چرمرا گیا ہے۔
اس ملک میں ذات پات کی تفریق ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار نا ممکن ہے۔ بی جے پی تمام تر قوم پرستی کے باوجود ٹکٹ دیتے وقت ذات پات کا خاص خیال رکھتی ہے۔ اس جوڑ توڑ کو اس نے سوشل انجنیرنگ کا خوبصورت نام دے رکھا ہے۔ کانگریس برہمن، مسلمان اور دلتوں کو ساتھ لینا چاہتی ہے جبکہ سماج وادی پارٹی اس بار یادو کے علاوہ کرمی، مسلمان اور برہمن رائے دہندگان پر نظریں گاڑے ہوئے ہے۔ اس چھینا جھپٹی کا نہ صرف 2022کے صوبائی بلکہ 2024کے قومی انتخاب پر بھی اثر پڑے گا۔ حزب اختلاف کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے بی جے پی کے منوج مشرا کہتے ہیں کہ یوگی سرکار میں چیف سکریٹری، ہوم سکریٹری، ڈی جی پی اور ایک نائب وزیر اعلیٰ برہمن ہیں اس لیے یہ سارے الزامات بے بنیاد ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان لوگوں کی بدولت اتر پردیش میں نظم و نسق کا نظام پوری طرح چرمرا گیا ہے۔
اس کی دو مثالیں ابھی حال میں سامنے آئیں جس نے ثابت کر دیا کہ وکاس دوبے اور اس کے ساتھیوں کی فرضی مڈبھیڑ میں قتل کے باوجود جرائم پیشہ افراد میں خوف ندارد ہے ورنہ کانپور کی مانند کوشامبی کے کچھوا گاؤں میں چور کو پکڑنے کی خاطر چھاپہ مارنے والی پولیس ٹیم پر حملہ نہ ہوتا۔ اس حملے میں ایک سپاہی سمیت داروغہ زخمی ہو گیا۔ واردات کی تفصیل نہایت دلچسپ ہے۔ پولیس ٹیم نے جب سنتو نامی نوجوان کو حراست میں لیا تو نوجوان کی ماں اور کئی دیگر خواتین نے ان پر اینٹ پتھروں اور لاٹھی ڈنڈوں سے دھاوا بول دیا۔ اس ہنگامہ کا فائدہ اٹھانے والے حملہ آور داروغہ کا سروس ریوالور چھین کر فرار ہو گئے۔ پولیس اہلکاروں نے جان بچا کر بھاگنے میں عافیت سمجھی۔ آگے چل کر پستول بر آمد کرنے کے بعد حملہ آوروں پر این ایس اے لگا دیا گیا لیکن جو لوگ انکاونٹر سے نہیں ڈرے ان پر این ایس اے کا بھلا کیا اثر ہوگا؟
اس سے بھی زیادہ بھیانک واقعہ علی گڑھ کی اگلاس سیٹ سے بی جے پی رکن اسمبلی راج کمار سہیوگی کے ساتھ پیش آیا۔ وہ پولیس تھانہ اس لیے گئے تھے کیونکہ ایس او نے کسی معاملہ میں پیسے لے کر کارروائی کر دی تھی۔ بات چیت کے دوران داروغہ ان پر پل پڑے اور کپڑے پھاڑ دیے۔ اس کے بعد نامہ نگاروں کے سامنے انہوں نے کہا ’’ہم انصاف چاہتے ہیں، عوام اور کارکنان کے ساتھ انصاف ہوگا تبھی ہم مانیں گے‘‘ برسر اقتدار جماعت کا رکن اسمبلی اگر پولسں افسر پر پیسہ لے کر کارروائی کرنے کا الزام عائد کر دے تو ریاستی حکومت اپنے آپ کٹہرے میں کھڑی ہو جاتی ہے۔ راجکمار سے قبل ہردوئی سے بی جے پی کے رکن پارلیمان جے پرکاش راوت نے کہا تھا کہ عوامی نمائندوں نے پچھلے تیس سال میں کبھی ایسی بے بسی محسوس نہیں کی جیسی ا ب کر رہے ہیں۔ جس ریاست میں برسرِ اقتدار جماعت کے منتخب شدہ عوامی رہنماؤں کی یہ درگت بنی ہے تو عام لوگوں کا کیا حال ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ اس لیے سوال ہے کہ اگر یہ رام راج ہے تو راون راج کسے کہتے ہیں؟
دلّی کے اقتدار کا راستہ اتر پردیش سے ہو کر گزرتا ہے کیونکہ یہ ہندوستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ آج جو قومی منظر نامہ نظر آ رہا ہے اس کی بنیادی وجہ اتر پردیش میں کانگریس کا حاشیے پر چلا جانا اور بی جے پی کا صوبائی سیاست پر غالب آ جانا ہے۔ اس کے لیے کوئی خاص چانکیہ نیتی نہیں بلکہ اتفاق سے پیدا ہونے والے سیاسی حالات ذمہ دار ہیں جس کا فائدہ بی جے پی کو ہوتا چلا گیا اور کانگریس خسارے میں جاتی چلی گئی۔
1989میں این ڈی تیواری اتر پردیش میں کانگریس کے آخری وزیر اعلیٰ تھے اور اس کے بعد صوبے میں اقتدار کانگریس کے لیے ایک خواب بن گیا۔ یہ اور بات ہے آگے کے پندرہ سالوں میں کانگریس نے مرکز میں حکومت کی اور اتر پردیش کی علاقائی جماعتیں سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی اس کی حلیف بنی رہیں۔ ان کی ناراضی سے بچنے کے لیے کانگریس نے اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 2017کے اسمبلی انتخاب میں کانگریس کو سماج وادی پارٹی کے ساتھ الحاق کے باوجود صرف 7نشستوں پر اکتفاء کرنا پڑا اور 2019میں راہل گاندھی امیٹھی کی سیٹ بھی ہار گئے۔ نرسمہا راؤ نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر شمالی ہندوستان میں کانگریس کو کمزور کرنے کی جو ابتدا کی تھی یہ اس کی انتہا تھی۔ آگے چل کر سونیا گاندھی نے بڑی احتیاط کے ساتھ سیکولر طاقتوں کو ناراض کیے بغیر بھان متی کا کنبہ جوڑا لیکن چونکہ اس وقت متحدہ آندھرا پردیش، مہاراشٹر، کرناٹک اور آسام وغیرہ سے اس کے اچھی خاصے ارکان منتخب ہوجایا کرتے تھے اس لیے اترپردیش کے حلیفوں کی مدد سے بات بن جاتی تھی۔ اب چونکہ جنوب اور مشرق کے صوبوں میں علاقائی جماعتیں اور بی جے پی طاقتور ہوگئی ہے اس لیے کانگریس کے وجود پر سوالیہ نشان کھڑا ہوگیا ہے اور اس نے دوسروں کی پروا کیے بغیر اتر پردیش کو اپنی توجہات کا مرکز بنانا شروع کردیا ہے۔ اترپردیش میں کانگریس کے زوال کی اولین وجہ مسلمانوں کی اس سے کنارہ کشی تھی جس نے آگے چل کر برہمنوں کو بھی اس سے دور کردیا ۔ اب ہوا کا رخ بدلنے لگا ہے۔
ہندوستانی سیاست کی ایک سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ مسلمانوں کی خوشنودی کے لیے راجیو گاندھی نے شاہ بانو کے معاملے میں آئینی ترمیم کروائی اور اس کے جواب میں رام مندر کی تحریک چل پڑی جس کے نتیجے میں بی جے پی برسرِ اقتدار آگئی۔ یہ جھوٹ اتنی بار بولا گیا کہ ہر کس و ناکس اس پر اعتبار کرنے لگا جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ 1964 سے وشو ہندو پر یشد نے رام مندر کی تحریک کا آغاز کیا اور کافی کچھ ماحول سازی کے بعد 1983 میں ایک ملک گیر ایکاتمتا یاترا نکالی جس میں گنگا جل تقسیم کیا گیا اور بھارت ماتا کا نقشہ دکھا کر ہندوؤں کو منظم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے بعد رام کی مورتی کو سلاخوں کے پیچھے دکھا کر آزاد کرنے کا مطالبہ شروع ہو گیا۔ بی جے پی نے وی پی سنگھ کے منڈل کا مقابلہ کرنے کے لیے کمنڈل تھام کر رام مندر کی خاطر رتھ یاترا نکالی۔
وزیر اعظم راجیو گاندھی نے یکم فروری 1986 کو ہندوؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ پانڈے کے ذریعہ سازش کر کے بابری مسجد کا تالہ کھلوا دیا۔ اس فیصلے نے اتر پردیش کے مسلمانوں کو کانگریس سے بدظن کر دیا اور 15فروری کو اس کے خلاف بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔ مسلمانوں کی اس ناراضی کو دور کرنے کے لیے راجیو گاندھی نے 31 جولائی 1986 کو شاہ بانو کیس کے فیصلے کو آئینی ترمیم کی مدد سے بدل دیا۔ حقیقت میں مسلمانوں کی منہ بھرائی کے جواب میں رام مندر تحریک نہیں چلی تھی بلکہ ہندوؤں کی بے جا خوشنودی کے جواب میں پیدا ہونے والی بے چینی کے رد عمل میں آئینی ترمیم کی گئی تھی۔ خیر اگلے الیکشن سے قبل راجیو گاندھی نے این ڈی تیواری کے ذریعہ شیلا نیاس کروا کر مسلمانوں کو اور بھی دور کر کے سماج وادی کی جانب دھکیل دیا۔ دلت پہلے ہی بہوجن سماج پارٹی کی آغوش میں جا چکے تھے۔ برہمنوں نے سوچا اب اس ڈوبتے جہاز میں رہنے کا کیا فائدہ اس لیے وہ بی جے پی میں کود گئے۔ اس طرح کانگریس کی جو درگت بنی تھی وہ اب بھی ہے۔ اس کے بعد وی پی سنگھ، چندرشیکھر، نرسمہا راؤ، دیوے گوڑا، آئی کے گجرال، اٹل بہاری واجپائی، منموہن سنگھ اور نریندر مودی وزیر اعظم بنتے رہے اور ادھر گاندھی خاندان کے ہاتھ سے اقتدار جاتا رہا۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ اس قدر طویل عرصے تک کانگریس اور گاندھی خاندان کے اقتدار سے دور رہنے کے باوجود اس کا نام سنتے ہی بی جے پی کی نانی مر جاتی ہے۔ مودی اور امیت شاہ ملک کے سارے مسائل کے لیے اٹھتے بیٹھتے نہرو اور ان کی اولاد کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں حالانکہ وہ 31سال سے اقتدار سے دور ہے۔ کانگریس نے اس سے قبل اتر پردیش کے حوالے سے جو حکمت عملی اختیار کر رکھی تھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب اس میں بنیادی قسم کی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ گزشتہ سال لوک سبھا انتخابات کے وقت کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے اعلان کیا تھا کہ ان کی بہن پرینکا گاندھی وڈرا کو اتر پردیش میں کانگریس کی سوکھی جڑوں کی آبیاری کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ اس بیان میں کانگریس کی جڑوں کے سوکھنے کا اعتراف بہت اہم بات تھی۔ اس کے بعد یہ چیز حقیقت بن گئی کہ یوگی آدتیہ کی نا اہلی اور بد انتظامی کے خلاف اتر پردیش میں سب سے زیادہ طاقتور آواز پرینکا گاندھی ہی کی بن گئی۔ دلتوں پر ہونے والے مظالم ہوں یا سی اے اے کے خلاف یوگی کی دھاندلی پرینکا نے ہر بار کھل کر مذمت کی۔ مہاجر مزدوروں کا معاملہ ہو یا ڈاکٹر کفیل خان کا، پرینکا کا بیان بہت صاف اور واضح حمایت میں سامنے آیا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ جس طرح دیگر سیاسی جماعتیں ہندو رائے دہندگان کی ناراضی کے خوف سے مظلوم مسلمانوں کی حمایت سے کنی کاٹ رہی ہیں کم ازکم پرینکا اس سے ابھر چکی ہیں۔ اسی لیے انہوں نے ڈاکٹر کفیل خان کی اہلیہ شائستہ خان سے بات کر کے اپنے تعاون کا تیقن دلایا۔ پچھلے سال راہل گاندھی نے اپنی بہن پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ پارٹی سال 2022کے اسمبلی انتخابات کے بعد حکومت سازی میں اہم کردار ادا کرے گی۔ اتر پردیش کے صوبائی انتخاب کو دو سال سے زیادہ کا وقت باقی ہے لیکن پارٹی نے ابھی سے زمینی سطح پر اپنے آپ کو منظم کرنا شروع کر دیا ہے۔
اس دوران کانگریس کے اندر ایک بہت بڑا تنازع ابھر کر سامنے آگیا ۔ ہوا یہ کہ کانگریس کے 23پرانے رہنماوں نے پارٹی کے صدر کو ایک خط لکھا جس میں تنظیم نو اور داخلی انتخاب جیسی باتیں تھیں اور بین السطور جمہوری طور انتخاب کروا کر گاندھی خاندان سے باہر کسی فرد کو پارٹی کی کمان سونپنے کا مشورہ دیا گیا تھا ۔ اس کے بعد سونیا گاندھی نے استعفیٰ دیا اور انہیں واپس لینے کے لیے مجبور کیا گیا وغیرہ۔ اس بیچ راہل گاندگی کا یہ تبصرہ سامنے آیا کہ یہ بی جے پی کے اشاررے پر ہوا ہے۔ اس نے غلام نبی آزاد اور کپل سبل کو بے چین کردیا لیکن بعد میں کپل سبل نے یہ لکھ کر اپنا ٹویٹ واپس لے لیا کہ انہیں خود راہل نے کہا کہ ایسی بات نہیں کہی گئی ۔ اس کے بعد کانگریس کے اندر جمہوریت اور وراثت کی پرانی بحث چھڑ گئی۔ حزب اختلاف نے یہ قیاس آرائی شروع کردی کہ پارٹی ٹوٹ جائے گی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔
اس بحث کے دوران جو سوالات اٹھے وہ اہم ہیں ۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ کانگریس میں انتخاب ہو اور غیر گاندھیائی صدر کو کمان سونپی جائے ۔ یہ دونوں باتیں فی الحال بیک وقت ناممکن ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ قومی سطح پر فی الحال نریندر مودی کے بعد سب سے مقبول رہنما راہل گاندھی ہے ۔ اس لیے کانگریس میں اگر انتخاب ہوگا تو وہی صدر بنیں گے۔ ہندوستان کی سیاسی جماعتوں میں فی الحال جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ ہر سیاسی جماعت کا ایک مالک ہے اور سارا کچھ اسی کی مرضی سے ہوتا ہے ۔ امیت شاہ کو پارٹی کا صدر ان کی صلاحیت کی بناء پر نہیں بلکہ مودی جی کی وفاداری اور مہربانی کے سبب بنایا گیا۔ فی الحال وہ صدر نہیں ہیں لیکن جس طرح ایک ویڈیو میں انہوں نے جے پی نڈا کو بازو پکڑ کر پیچھے کیا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جے پی نڈا اپنی مرضی سے ایک مکھی بھی نہیں مارسکتے۔ بہار کا انتخاب ہو یا بنگال کی تیاری سب کچھ امیت شاہ کے ذریعہ ہی ہوتی ہے ۔ اس لیے بی جے پی سمیت ہر جماعت میں آمریت ہے اور جمہوریت کی بات خام خیالی ہے۔
کانگریس میں جن لوگوں نے خط لکھا وہ یقیناً کانگریس کے وفادار لوگ ہیں اور ان کی بڑی خدمات رہی ہیں لیکن اب ان کا وقت نکل گیا۔ وہ اپنے آپ کو وقت کے ساتھ نہیں بدل سکتے اس لیے اب ان کو بدلنے کا وقت آگیا ہے۔ نریندر مودی نے ہندوستان کی سیاست میں اپنے بزرگوں کو مارگ درشک منڈل کا راستہ دکھا کر سے شرافت کا گلا گھونٹ دیا ۔ اب اس کا جواب دینے کے لیے ’چوکیدار چور‘ ہے کہنے والے رہنما کی ضرورت ہے ۔ یہ لب و لہجہ پرانے کانگریسیوں نے گلے سے نہیں اترتا ۔ اس لیے وہ راہل کو اب بھی بچہ سمجھ کر سمجھاتے رہتے ہیں حالانکہ راہل اب بچے نہیں ہیں ۔ اسی وجہ سے ان بزرگوں کے درمیان راہل گاندھی کا دم گھٹتا ہے۔ کانگریس کے اندر اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر یہ سارے لوگ جو اس کی حالیہ خستہ حالی کے لیے نادانستہ طور پر ذمہ دار ہیں اگر ازخود سبکدوش نہ ہو ں تو مشکلا ت ہوں گی۔ وہ اپنے آپ مشوروں تک محدود کرلیں یہی پارٹی کےحق میں بہتر ہے ۔
یو پی کانگریس نے 2022کے اسمبلی انتخابات کے لیے حال میں نئی کمیٹیوں کی تشکیل کا اعلان کیا ہے۔ اس میں نیا خون شامل کرنے کی خاطر راج ببر اور جتن پرساد جیسے لوگوں کو باہر رکھا گیا ہے۔
اتر پردیش میں اجے کمار للو ایک تیز طرار رہنما ہیں وہ ہمیشہ میدانِ عمل میں رہتے ہیں ۔ اقلیتی سیل کے ذمہ دار شہنواز عالم نے کھل کر ڈاکٹر کفیل کے لیے مہم چلائی فی الحال کانگریس کو ایسے ہی رہنماوں کو آگے بڑھانا ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کے نزدیک آج کل مینوفیسٹو ایک رسمی سی چیز بن کر رہ گئی ہے لیکن کانگریس نے اس کی تیاری کا کام سابق وفاقی وزیر سلمان خورشید کی کمیٹی کے حوالے کیا ہے جو اس کی سنجیدگی کا ثبوت ہے۔ اس کمیٹی میں پی ایل پنیا، ارادھنا مشرا مونا، وویک بنسل، سوپریا سری نیٹ اور امیتابھ دوبے کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ توسیع کار کے لیے رکن سازی کمیٹی، کارکنان تربیت کی کمیٹی اور پنچایتی راج الیکشن کی کمیٹی کے ساتھ ذرائع ابلاغ ایڈوائزری کمیٹی بھی بنائی گئی ہے۔ یہ لوگ اگر حقیقی معنیٰ میں کام کریں گے تو یقیناً زمینی سطح پر اس کا اثر نظر آئے گا۔
اس سے بہت پہلےکانگریس کی مجلس عاملہ نے قانون ساز پارٹی کے لیڈر اجے کمار للو کو اتر پردیش کانگریس کا صدر منتخب کیا تھا جن کا تعلق ویشیہ سماج سے ہے اور وہ دوسری مرتبہ بی جے پی کے جگدیش مشرا کو شکست دے کر کامیاب ہوئے ہیں۔ للو مختلف عوامی مسائل کے خلاف ہمیشہ خبروں میں رہتے ہیں اور کورونا کے دوران بھی کئی ہفتہ جیل میں گزار چکے ہیں۔ کانگریس کو اب سوشیل انجینیرنگ کا مطلب بھی سمجھ میں آنے لگا ہے اس لیے اس نے اپنی کمیٹی میں تقریباً 45 فیصد پسماندہ ذات لوگوں پر توجہ دی ہے۔ دلت آبادی کو تقریباً 20فیصد نمائندگی ملی ہے اور مسلم قیادت تقریباً 15 فیصد ہے یہ خوش آئند بات ہے کہ کانگریس کا ارادہ اب صرف گاندھی نہرو کے نام پر سیاست کرنے کا نہیں ہے۔ کانگریس اگر کسی بیساکھی کے بغیر اگر اترپردیش میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کرتی ہے تو اس کے لیے اس سے بہتر موقع نہیں ہے۔ براہمن اور مسلمان پھر ایک بار اس کی جانب متوجہ ہورہے ہیں ۔ شہری علاقہ کی نوجوان آبادی یوگی اور مودی کے مقابلے راہل اور پرینکا کی جانب کشش محسوس کرسکتی ہے اس لیے کانگریس کو اپنے بل بوتے پر اتر پردیش کے راستے دہلی کا سفر شروع کرنا چاہیے۔

ہندوستانی سیاست کی ایک سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ مسلمانوں کی خوشنودی کے لیے راجیو گاندھی نے شاہ بانو کے معاملے میں آئینی ترمیم کروائی اور اس کے جواب میں رام مندر کی تحریک چل پڑی جس کے نتیجے میں بی جے پی برسرِ اقتدار آگئی۔ یہ جھوٹ اتنی بار بولا گیا کہ ہر کس و ناکس اس پر اعتبار کرنے لگا جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔