پونا پیکٹ۔ ہندوستانی سیاست کا ایک اہم باب

امبیڈکر کی کوششوں پر حاوی رہاگاندھی کامکر۔۔! دلت سماج آزادی اور مساوات کے خوابوں میں ہنوزدفن

شبیع الزماں (پونا)

 

تاریخ ایک دلچسپ موضوع ہے۔ بالخصوص برِصغیر کی ماضی قریب کی سیاسی تاریخ، جو دلچسپ بھی ہے اور اہم بھی ہے۔ دلچسپ اس لیے کہ سیاست اپنے کمالات دکھانے میں جن اجزاء کا استعمال کرتی ہے جیسے مذہب، زبان، قوم، نیشنلزم، کلچر، ذات، طبقات، تہذیب، شخصیات وغیرہ وہ تمام اجزاء برِصغیر کی اس سیاست میں ہمیں بدرجہ کمال نظر آتے ہیں۔ یہ اہم اس اعتبار سے ہیں کہ اس سیاست کے اثرات راست ہماری زندگیوں پر پڑے ہیں۔ ہم آج جو کچھ ہیں وہ ہمارے ماضی کی وجہ سے ہیں۔ اسی لیے اس سیاسی تاریخ کو نہ صرف پڑھنا بلکہ سمجھنا اور تجزیہ کرنا بھی ضروری ہے تاکہ یہ معلوم ہو کہ ہمارے حاکم سے محکوم بننے کی وجوہات کیا رہی تھیں۔ برطانوی راج کے آخری زمانے کی تاریخ جب ہم پڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ برِصغیر میں ایک بڑا سامراجی دور قریب الختم تھا اور مختلف گروہ یہ کوشش کر رہے تھے کہ نئے ہندوستان میں انہیں زیادہ سے زیادہ مواقع اور تحفظات حاصل ہوں۔ ایک طرف برہمنی سیاست سے پیدا ہونے والے ہندوتوادی تھے جو چاہتے تھے کہ ملک ہندو راشٹر بن جائے، اکثریت کو غلبہ حاصل رہے اور انہیں اقتدار مل جائے۔ دوسری طرف اشتراکی بھی کوشش کر رہے تھے کہ حکومت میں زیادہ سے زیادہ حصہ ان کا رہے۔ مسلم لیگ کی اپنی سیاست جاری تھی اور مولانا آزاد کی اپنی جدوجہد جاری تھی کہ ملک کا بٹوارا نہ ہو۔ ان کا احساس تھا کہ ملک کی تقسیم برِصغیر میں مسلمانوں کی سیاسی قوت کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دے گی۔ اسی طرح دیگر گروہوں اور طبقات کی سیاسی کوششیں بھی اپنے عروج پر تھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان کے سیاسی افق پر مختلف شخصیات، کردار اور قیادتیں ابھر رہی تھیں۔ ہر کوئی اپنے سیاسی وزن کے مطابق قیمت وصول کرنا چاہتا تھا۔ ان ہنگاموں کے درمیان ایک اور تحریک تھی جو آہستہ آہستہ جڑ پکڑ رہی تھی، وہ تھی بابا صاحب امبیڈکر کی تحریک جو کہ ذلت کی زندگی سے عزت کی زندگی کی طرف آنے کی ایک بھرپور کوشش کے طور پر ابھرنے لگی۔ بابا صاحب امبیڈکر چاہتے تھے کہ اچھوت کے نام پر کمزور طبقات کی ذلت بھری زندگی کا خاتمہ ہو اور انہیں بھی دنیا میں دوسرے انسانوں کی طرح عزت سے جینے کے مواقع حاصل ہوں۔ بابا صاحب امبیڈکر کی پیدائش مہار فیملی میں ہوئی تھی۔ مہار اچھوت شمار ہوتے تھے چنانچہ انہیں زمین خریدنے کی اجازت نہیں تھی۔ سترہویں صدی میں یہ لوگ شیواجی کی فوج میں شامل تھے۔ شیواجی کی موت کے بعد یہ لوگ پیشوا کے لیے خدمات انجام دینے لگے۔ پیشوا کے زمانے میں مہار کمیونٹی پر بدترین مظالم ہوئے۔ پیشوا نے لازم کیا کہ ان کے گلے میں برتن لٹکائے جائیں اور پیچھے جھاڑو باندھی جائے تاکہ ان کا تھوک زمین پر نہ گرے اور ان کے منحوس قدموں کو جھاڑو صاف کرتی چلے۔ اس ظلم سے تنگ آ کر مہار، انگریزوں کے وفا دار ہو گئے اور 1818ء میں ان کے ساتھ مل کر کورے گاؤں کے میدان میں پیشوا کو شکست دی۔ تب سے برٹش نے مہار رجمنٹ قائم کی جو اب تک موجود ہے۔ 2018ء میں اسی واقعہ کے دو سو سال مکمل ہونے کا جشن منایا جا رہا تھا جس میں فساد پھوٹ پڑا تھا۔ اس پروگرام کو آرگنائز کرنے والے اور اس میں حصہ لینے والوں کی گرفتاریاں اب تک جاری ہیں۔
اسی مہار سماج میں امبیڈکر کا جنم ہوا تھا۔ امبیڈکر کو عام ہندوؤں کے اسکول میں جانے کی اجازت تو تھی لیکن انہیں اپنے ساتھ بیٹھنے کے لیے پٹ سن کی بوری ساتھ لے کر جانا پڑتا تھا تاکہ اسکول کا فرش ان کے نجس وجود سے گندا نہ ہو جائے۔ انہیں اسکول میں دن بھر پیاسا رہنا پڑتا تھا کیوں کہ اسکول کے نل سے انہیں پانی لینے کی اجازت نہیں تھی۔ ستارا کے حجام ان کے بال نہیں کاٹتے تھے، حتیٰ کے مویشیوں کے بال کاٹنے والے حجاموں نے بھی ان کے بال کاٹنے سے انکار کر دیا تھا۔ امبیڈکر کے ساتھ ہر اسکول میں یہی سلوک ہوتا رہا۔ امبیڈکر نے ایسے سخت حالات میں اپنی تعلیم جاری رکھی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے پہلے ممبئی پھر بیرون ملک سفر کیا۔ امبیڈکر، یونیورسٹی آف کولمبیا نیویارک سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے واپس آئے لیکن ان کی واپسی گاندھی کی طرح شاندار نہیں تھی نہ کوئی شاندار استقبالیہ تھا اور نہ ہی کوئی دولت مند اسپانسر ان کا استقبال کرنے کے لیے موجود تھا بلکہ انہیں اپنی اسکالر شپ لوٹانے کے لیے نوکری تلاش کرنی پڑی تھی۔ نوکری کے دوران بھی امبیڈکر کے ساتھ امتیازی سلوک جاری رہا۔ آفس کے کلرک اس ڈر سے کہ کہیں امبیڈکر انہیں چُھو نہ لیں فائل انہیں پھینک کر دیا کرتے تھے۔ پورے بروڈہ میں انہیں رہنے کے لیے کسی نے مکان نہیں دیا۔ بالآخر وہ ممبئی واپس آگئے۔
کاسٹ سسٹم کے خلاف بابا صاحب امبیڈکر کی کوششیں مستقل جاری رہیں اور انہیں بہت جلد یہ احساس ہوگیا تھا کہ ہندو دھرم میں رہتے ہوئے کاسٹ سسٹم سے نجات ممکن نہیں ہے۔ 1936ء میں امبیڈکر نے اعل
ان کیا ’ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ہندو کہلاتے ہیں اس لیے ہمارے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے۔۔ ہمیں اپنی غلطی کی اصلاح کرنی ہوگی۔ میری بدقسمتی ہے کہ میں اچھوت پیدا ہوا لیکن یہ میری غلطی نہیں ہے مگر میں ہندو نہیں مروں گا کیونکہ یہ میری قدرت میں ہے‘
امبیڈکر نے دلتوں کی بڑی بڑی کانفرنسیں کرنا شروع کیں۔ پہلی مہاڈ کانفرنس کی کامیابی کے بعد امبیڈکر نے دوسری کانفرنس کی جس میں امبیڈکر اور ان کے ساتھیوں نے منو سمرتی کی کاپیاں جلائیں۔ امبیڈکر نے انقلابی تقریریں کیں اور دلتوں کے اندر جوش و جذبہ پیدا کیا۔ امبیڈکر کا احساس تھا کہ اس غلامی کی زندگی کا خاتمہ اسی وقت ممکن ہے جب دلتوں کے اندر سیاسی بیداری پیدا ہو اور اس کے لیے ضروری تھا کہ ان کے نمائندے پارلیمنٹ میں جائیں۔ کانگریس دلتوں کو محفوظ سیٹ دینے تیار تھی لیکن امبیڈکر جانتے تھے کہ محفوظ سیٹ سے سیاسی قوت نہیں ملے گی اور دلت اس صورت میں بھی غلام ہی رہیں گے۔ امبیڈکر نے دلتوں کے لیے بھی مسلمانوں کے طرز پر جدا گانہ انتخاب کا مطالبہ کیا۔ کانگریس اس تجویز پر ناراض ہوئی اور اس کا بائیکاٹ کیا۔
ہندوستان اس زمانے میں بڑی سیاسی تبدیلیوں سے گزر رہا تھا۔ بہت جلد وہ ایک نیشن اسٹیٹ بننے والا تھا اور اس اسٹیٹ میں حکومت تعداد کی بنا پر طے ہونا تھی۔ ہندو احیا پرستوں کا احساس تھا کہ نئی ریاست میں انہیں اقتدار حاصل ہوگا لیکن امبیڈکر کے اس اعلان نے انہیں پریشان کر دیا کیوں کہ اگر دلت ہندو سماج سے الگ ہو جاتے تو ایسی صورت میں اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کا اقتدار پانا مشکل ہو جاتا۔
اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے لیے اب کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ کاسٹ سسٹم کو ختم کرنے کی بات کر کے دلتوں کو اپنے ساتھ رکھیں ورنہ اگر دلتوں نے اسلام، عیسائیت یا سکھ ازم قبول کرلیا تو ہندوؤں کی حکومت کا خواب ادھورا رہ جاتا۔ اس لیے ہندو احیا پرستوں نے دلتوں کو اپنے ساتھ ملانے کے ایجنڈے پر کام شروع کیا۔ دلتوں کے مندروں میں داخلے کے لیے کوششیں کی جا نے لگیں۔ چھوت اچھوت کو ختم کرنے کی کوششیں ہونے لگیں۔ مالویہ، ساورکر، گولوالر، ہیڈگیوار اور دوسرے ہندوتوادی لیڈروں نے دلتوں کو اپنے اندر ضم کرنے کی کوششیں بڑے پیمانے پر شروع کردی تھیں۔ ہندو احیا پرست مستقل کوششیں کر رہے تھے کہ کسی طرح دلتوں کو اپنے دین میں لے لیں لیکن ان کی کوششیں زیادہ کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی تھیں۔ امبیڈکر نے خود کو ہندو احیا پرستوں کی ان کوششوں سے بالکل الگ رکھا۔ وہ ان کوششوں کے پیچھے چھپے ہوئے مقاصد کو خوب سمجھ رہے تھے۔
ہندو احیا پرستوں کے علاوہ ایک اور شخص بھی تھا جو دلتوں کو ہندوؤں کو اپنے فولڈ میں رکھنا چاہتا تھا اور یہی وہ شخص تھا جسے روکنا امبیڈکر کے بس میں نہیں تھا کیوں کہ اس کی حیثیت ہندوستان میں محض سیاسی رہنما کی نہیں بلکہ سنت اور مہاتما کی تھی اور جس کے مکر کا کوئی علاج ڈاکٹر امبیڈکر کے پاس نہ تھا۔گاندھی جی ہندو ازم کو پوری دنیا کے سامنے ایک متبادل مذہب کے طور پر پیش کرنا چاہتے تھے۔ اب اگر دلت، ہندو مذہب سے باہر شمار کیے جاتے اور اس کی وجہ کاسٹ سسٹم کے سبب ہو رہے مظالم بتائے جاتے تو یہ بات عالمی سطح پر ہندوازم کی بدنامی کا باعث ہوتی اور یہ بات گاندھی جی کے لیے باعث شرمندگی رہتی۔ دوسرے یہ کہ اگر دلت ہندوؤں سے الگ ہو جاتے تو ایسی صورت میں مسلمانوں کی پوزیشن ہندوؤں کے مقابلے میں مضبوط ہو جاتی اور جو برتری ہندوؤں کو حاصل تھی وہ ختم ہو سکتی تھی۔ ان وجوہات کے علاوہ گاندھی جی کا یہ احساس بھی تھا کہ اگر دلتوں کی الگ شناخت تسلیم کرلی جاتی ہے تو وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کا قتل عام کریں گے۔
ان تمام خطرات کے پیش نظر گاندھی جی نے مسلمانوں، عیسائیوں اور سکھوں کو قریب کرنے کے بعد دلتوں کی طرف اپنی توجہ کی اور امبیڈکر کے مطالبے کی شدید مخالفت کی۔ 1925ءمیں بھاؤ نگر میں صدارتی خطبہ دیتے ہوئے گاندھی جی نے کہا ’اگر میں کوئی مقام اپنے لیے چاہتا ہوں تو وہ بھنگی کا مقام ہے۔ گندگی صاف کرنا ایک مقدس کام ہے جو ایک برہمن بھی کر سکتا ہے اور بھنگی بھی۔ برہمن اس کے تقدس کو سمجھتا ہے جب کہ بھنگی اس کے تقدس کو نہیں سمجھتا۔ میں دونوں کی ایک جیسی عزت کرتا ہوں۔ دونوں کے بغیر ہندو دھرم ادھورا ہے۔ میں خدمت کو پسند کرتا ہوں اس لیے مجھے بھنگی بننا پسند ہے‘ گاندھی بالمیکی سماج کی بستیوں میں جانے لگے اور وہاں قیام کرنے لگے اور دلت بھی گاندھی جی سے قریب ہونے لگے۔
امبیڈکر کی کانفرنس کے مقابلے میں گاندھی جی نے بھی اسی مہینے پچھڑی ذاتوں کی کانفرنس کی اور امبیڈکر کے انقلابی طریقہ کار پر تنقید کرتے ہوئے کہا ’یہ شیطانی طریقہ ہے ہمیں پیار اور محبت سے احتجاج کرنا چاہیے‘
دوسری گول میز کانفرنس میں کانگریس کی طرف سے گاندھی جی نے شرکت کی جس میں امبیڈکر کو بھی دلتوں کے نمائندے کے طور پر بلایا گیا لیکن گاندھی نے امبیڈکر کو دلتوں کا نمائندہ ماننے سے انکار کر دیا اور خود کو دلتوں کے نمائندے کے طور پر پیش کیا۔ گا
ندھی مسلمانوں اور سکھوں کے لیے تو جداگانہ انتخابات کے لیے تیار ہو گئے لیکن دلتوں کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ گاندھی اور امبیڈکر کے بیچ دلتوں کی نمائندگی کے سوال پر ٹکراؤ ہوگیا۔ راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے ایک سال بعد برٹش گورنمنٹ، دلتوں کے جداگانہ انتخابات کے لیے راضی ہوگئی۔ اس اعلان کے بعد گاندھی جی بہت ناراض ہوئے اور بلیک میل کرنے کے لیے پونا کی یروڈا جیل میں مرن برت کا اعلان کر دیا۔ برٹش گورنمنٹ نے گاندھی جی کی بات ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ یہ فیصلہ دلتوں کی رضا مندی سے ہی واپس لے سکتی ہے۔
یہ عجیب صورت حال تھی۔ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے دلتوں کو ہمیشہ الگ رکھا۔ ان کا کھانا پینا، ان کے گھر، راستے، اسکول یہاں تک کہ مندر بھی الگ رکھے لیکن جب وہی دلت اپنا الگ انتخابی پروسیس مانگ رہے تھے تو دلیل یہ دی جا رہی تھی کہ ہندو مذہب ٹوٹ جائے گا اور گاندھی جیسا سنت اور مہاتما آدمی اس کے لیے خود کو بھوکا مارنے کے لیے تیار ہو گیا۔ اعلیٰ ذات کا ہندو بخوبی سمجھ رہا تھا کہ دلتوں کے لیے جداگانہ انتخابات کا مطلب دلتوں کو طاقت ور بنانا ہے اس لیے وہ ہر قیمت پر دلتوں پر اقتدار کا دروازہ بند کرنا چاہتا تھا۔
گاندھی جی کے مرن برت کے سبب امبیڈکر ویلن بن گئے کیوں کہ ان کی ضد کے سبب فادر آف نیشن کی زندگی داؤ پر لگ گئی تھی۔ نرم اور سخت ہندوتوادی دونوں ان کے خلاف ہو گئے، ٹیگور اور نہرو جیسے لوگ بھی گاندھی کے طرف دار ہو گئے۔ ملک کے سبھی بڑے سیاست داں امبیڈکر کے خلاف ہو گئے یہاں تک خود امبیڈکر کے ساتھی ان کے خلاف ہو گئے۔ دلتوں کا احساس تھا کہ اگر گاندھی جی کو کچھ ہو جاتا ہے تو اس صورت میں دلت ذمہ دار ٹھیرائے جائیں گے اور پورا سماج گاندھی کی موت کا بدلہ دلتوں سے لے گا۔ امبیڈکر اپنی بات دلیل سے رکھنے کی کوشش کرتے رہے لیکن ہندوستانی سماج کے سامنے وہ اکیلے کیا کر سکتے تھے۔ مجبوراً 24ستمبر 1932ء کو امبیڈکر نے یروڈا جیل میں پونا پیکٹ سائن کر دیا۔ اس ایکٹ کے مطابق دلتوں کو جداگانہ انتخابات کے بجائے ان کے لیے ریزرو سیٹ کو دوگنا کر دیا گیا۔
امبیڈکر اپنی جنگ ہار چکے تھے۔ دلتوں کی تاریخ کی سب سے بڑی اور مضبوط آواز گاندھی کے مکر کے سامنے ڈھے گئی۔ پونا پیکٹ کے ذریعہ گاندھی جی نے یہ یقینی بنا دیا تھا کہ اقتدار ہمیشہ اعلیٰ ذات کے پاس رہے۔ آج 80 سال بعد امبیڈکر کے خدشات صد فیصد درست ثابت ہوئے۔ پیکٹ سائن کرتے وقت گاندھی کے ساتھ ان کے بزنس مین دوست برلا، ہندو مہا سبھا کا بانی مدن موہن مالویہ (وہی ہندو سبھا جس کے ایک کارکن گوڈسے نے بعد میں گاندھی کا قتل کیا) ہندوتوا کا نظریہ ساز ونایک دامودر ساورکر اور ایم سی راجہ (دلت لیڈر جس نے اس وقت گاندھی کا ساتھ دیا تھا اور زندگی بھر پچھتاتا رہا) تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گاندھی نے امبیڈکر کی دستخط دلتوں کے نمائندے کے طور پر لی جب کہ گول میز کانفرنس میں وہ خود کو دلتوں کا نمائندہ بتا رہے تھے۔ امبیڈکر نے گاندھی کے برت کے بارے میں لکھا ’اس برت میں کوئی نیکی نہیں تھی بلکہ وہ ایک گندی اور گھناؤنی حرکت تھی۔ یہ مظلوم لوگوں پر جبر کی بد ترین شکل تھی تاکہ وہ اپنا آئینی حق چھوڑ دیں اور ہندوؤں کے رحم و کرم پر زندگی گزاریں۔ یہ ایک مکاری اور بدمعاشی سے بھری حرکت تھی۔ دلت کیسے اس آدمی کو سنجیدہ اور ایمان دار مان سکتے ہیں؟‘
امبیڈکر خود کہا کرتے تھے ’اگر سماج آپ کے بنیادی حقوق دینے تیار کے لیے نہ ہو تو کوئی پارلیمنٹ اور قانون آپ کو حقیقی معنوں میں وہ حقوق نہیں دلا سکتا‘
امبیڈکر نے دستور بھی بنا کر دیکھا اور مذہب بھی تبدیل کرکے دیکھ لیا لیکن دلتوں کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ نیشنل کرائم ریکارڈس بیوریو کے مطابق ہر سولہ منٹ میں ایک دلت پر غیر دلت کے ذریعے ایک کرائم کیا جاتا ہے۔ ہر روز چار دلت عورتوں کے ساتھ زنا بالجبر کے واقعات ہوتے ہیں۔ ہفتہ میں تیرہ دلتوں کا قتل ہوتا ہے اور چھ اغوا ہوتے ہیں۔ صرف 2012 میں جس سال دہلی گینگ ریپ کا واقعہ ہوا تھا 1574 دلت خواتین کے ساتھ ریپ کیا گیا اور 651 دلتوں کا قتل ہوا۔ ان جرائم کے علاوہ دلت خواتین کو برہنہ کرکے پریڈ کروانا، زبردستی پاخانہ کھلانا، سماجی بائیکاٹ، زمینوں پر ناجائز قبضہ، پانی لینے پر پابندی وغیرہ،، اس طرح کے واقعات تو درج تک نہیں ہوتے اور جو کچھ واقعات درج ہوتے ہیں وہ اصل واقعات کا صرف دس فی صد ہوتے ہیں۔
اس کے برعکس اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی صورت حال کا اندازہ خشونت سنگھ کے 1990 میں چھپے مضمون brahmin power سے لگایا جا سکتا ہے۔ ’برہمن ہندوستان کی کل آبادی کا صرف 3.5 فی صد ہیں لیکن آج ان کے پاس 70 فی صد گورنمنٹ جابس ہیں۔ سول سرویسیز میں، ڈپٹی سکریٹری سے اوپر کی رینک کی 500 میں سے 310 یعنی 63 فی صد پوسٹ برہمنوں کے پاس ہیں۔ 24 اسٹیٹ چیف سکریٹیز میں سے 19 برہمن ہیں۔ 27 گورنروں میں سے 13 برہمن ہیں۔ سپریم کورٹ کے 16 ججوں میں سے 9 برہمن ہیں۔ہائی کورٹ کے 330 ججوں میں سے 166 برہمن ہیں۔ 140 سفارت کاروں میں سے 58 برہمن ہیں۔ 3300 آئی اے ایس آفیسرز میں سے 2376 برہمن ہیں۔ اسی طرح سیاست میں بھی ان کا پرفارمنس اچھا ہے۔ 508 لوک سبھا ممبرز میں سے 190 برہمن ہیں۔راجیہ سبھا میں 244 میں ان کی تعداد 89 ہے۔ یہ ڈاٹا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ 3.5 فی صد کی یہ آبادی ہندوستان کی 35 سے 63 فی صد اہم پوسٹس پر قابض ہے۔ یہ کیسے ممکن ہوا مجھے نہیں معلوم لیکن میرا یہ یقین ہے کہ یہ برہمن کی شاطر ذہانت کے ذریعہ ہی ممکن ہوا ہے۔ بلاشبہ یہ ڈاٹا تیس سال پرانا ہے لیکن اس سے ہندوستان میں برہمنوں کی معاشی اور سماجی صورت حال کا اندازہ ہوتا ہے۔ سی ایس ڈی ایس کی اسٹدی کے مطابق ہندوستان میں 1950 سے 2000 کے بیچ سپریم کورٹ میں 47 فی صد چیف جسٹس برہمن تھے۔ اسی طرح ہائی کورٹ اور نچلی عدالتوں میں ان کا تناسب 40 فی صد رہا ہے۔
2007 کے سروے کے مطابق ہندوستانی بیورو کریسی میں 37 فی صد برہمن ہیں جن میں اکثر ٹاپ پوسٹ پر ہیں۔سی ایس ڈی ایس کا 2004 کا میڈیا ہاؤز سے متعلق سروے بتاتا ہے دہلی میں قائم شدہ 90 فی صد انگلش پرنٹ میڈیا اور 70 فی صد ٹیلی ویژن میڈیا اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کا ہے جس میں سے 49 فی صد برہمن ہیں۔ ٹائمز گروپ جو ہندوستان کا سب سے بڑا میڈیا ہاؤز ہے جس میں ٹائمز آف انڈیا اور ٹائمز ناؤ بھی شامل ہیں کا مالک بنیا (جین) ہے۔ ہندوستان ٹائمز اور انڈین ایکسپریس مارواڑی بنیا کے ہیں۔ دینک جاگرن جو ہندوستان کا سب سے زیادہ فروخت ہونے والا اخبار ہے جس کا سرکیولیشن 55 ملین سے زیادہ ہے اس کا مالک بھی بنیا ہے۔ اسی طرح دینک بھاسکر سب سے اثر انداز ہونے والا ہندی روزنامہ جس کا سرکیولشن 17 ملین سے زیادہ ہے وہ بھی اگروال فیملی یعنی بینے کا ہی ہے۔ریلائنس انڈسٹری (مکیش امبانی۔گجراتی بنیا) اس کے شیئرز 37 سے زیادہ نیوز چینلز میں ہیں۔ اسی طرح زی نیٹ ورک جیسے بڑے نیٹ ورک کا مالک سبھاش چندرا بھی بنیا ہی ہے۔
گاندھی جی کا یقین تھا کہ کاسٹ سسٹم لوگوں کی سماجی اور معاشی ذمہ داریاں متعین کر دیتا ہے جس سے سماج میں انتشار کے بجائے توازن پیدا ہوتا ہے اور سماج ایک مضبوط اکائی بن جاتا ہے اور اسے توڑنا مشکل ہوتا ہے۔ البتہ وہ ذات پات کی تفریق کے قائل نہیں تھے۔ ان کے نزدیک یہ مثالی ماڈل تھا اور وہ اسے دنیا کے سامنے بھی پیش کرنا چاہتے تھے۔ ان کی شدید خواہش تھی کی جدید ہندوستان کی تعمیر اسی بنیاد پر ہو۔ آج آزادی کے 73 سال بعد ہم دیکھتے ہیں کہ گاندھی جی کا خواب پورے ہونے والا ہے۔ ہندوستانی سماج کاسٹ سسٹم کی بنیاد پر ایک مضبوط سماج بن چکا ہے جہاں علم وحکمت برہمن کے پاس ہے، تجارت پر ویشیا کا قبضہ ہے اور شتریہ اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ رہی بات شودروں کی تو وہی ذلت بھری زندگی ان کا مقدر ہے جس سے بابا صاحب انہیں نکالنا چاہتے تھے۔ اب بہت جلد ہندوستان میں رام راج بھی قائم ہو جائے گا۔ چودہویں صدی کی ثقافت کی علامت بابری مسجد بابا صاحب امبیڈکر کی موت کے دن یعنی 6 ڈسمبر کو شہید کر دی گئی تھی اب اس کی جگہ بھگوے رام مندر کا نرمان ہوگا۔
پونا پیکٹ اور اس کے نتائج دیکھنے کے بعد یہی کہا جا سکتا ہے کہ گاندھی جی کے مکر نے بابا صاحب امبیڈکر کی کوششوں کو نگل لیا ہے۔ کروڑوں لوگوں کو پھر سے کبھی نہ ختم ہونے والی ذلت بھری زندگی میں دھکیل دیا گیا ہے۔ ایسی ہی صورت حال کے لیے اقبال نے کہا تھا ۔
آبتاؤں تُجھ کو رمز آیۃ اِنَّ الْمُلُوْک
سلطنت اقوام غالب کی ہے اک جادوگری
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری

گاندھی جی کے مرن برت کے سبب امبیڈکر ویلن بن گئے کیوں کہ ان کی ضد کے سبب فادر آف نیشن کی زندگی داؤ پر لگ گئی تھی۔ نرم اور سخت ہندوتوادی ان کے خلاف ہوگئے تھے۔ ٹیگور اور نہرو جیسے لوگ بھی گاندھی کے طرف دار ہو گئے۔ ملک کے سبھی بڑے سیاست داں امبیڈکر کے خلاف ہو گئے یہاں تک خود امبیڈکر کے ساتھی بھی ان کے خلاف ہو گئے۔ دلتوں کا احساس تھا کہ اگر گاندھی جی کو کچھ ہو جاتا ہے تو اس صورت میں دلت ذمہ دار ٹھیرائے جائیں گے اور پورا سماج گاندھی کی موت کا بدلہ دلتوں سے لے گا۔ امبیڈکر اپنی بات دلیل سے رکھنے کی کوشش کرتے رہے لیکن ہندوستانی سماج کے سامنے وہ اکیلے کیا کر سکتے تھے۔ مجبوراً 24ستمبر 1932ء کو امبیڈکر نے یروڈا جیل میں پونا پیکٹ سائن کر دیا ۔اس ایکٹ کے مطابق دلتوں کو جداگانہ انتخابات کے بجائے ان کے لیے ریزرو سیٹ کو دوگنا کر دیا گیا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 4-10 اکتوبر، 2020