پس مرگ زندہ شخصیت

اردو خاکہ نگاری اور عربی ادب کے محاذ پر بڑا خلا

پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

 

موسم بہار میں غنچے کھلتے ہیں اور پھول اپنی بہار دکھاتے ہیں اور پت جھڑ کے موسم میں پھول گرتے ہیں اور پتے اپنی شاخ سے ٹوٹ ٹوٹ کر مٹی میں مل جاتے ہیں۔ آج کل پت جھڑکا موسم ہے۔ ہر روز کسی پھول کے مرجھانے اور مٹی میں مل جانے کی خبر آتی ہے۔ اس رمضان کے موسم میں ایک پھول اور گرا اور جو پھول شاخ سے ٹوٹ کر گرا وہ علم و ادب کی دنیا کا ایک بیش بہا پھول تھا گل سرسبد تھا جو عربی کا ادیب اور اردو زبان کا انشاء پرداز عربی رسالہ کا ایڈیٹر دارالعلوم دیوبند کا استاد اور بے شمار طلبہ کا مربی تھا۔
مولانا نور عالم خلیل امینی نے بے شمار شخصیتوں کے خاکہ لکھے اور پھر انہیں ’’پس مرگ زندہ‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ پوری کتاب البیلے انداز میں لکھی گئی ہے اور خاکہ نگاری کا بہترین نمونہ ہے۔ مولانا نور عالم خلیل امینی کی خاکہ نگاری سے متعلق کتابیں اردو زبان میں ’’وفیات الاعیان‘‘ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اردو والے مولانا نور عالم خلیل امینی کی ان تحریروں کو خاکہ نگاری کی بہترین مثال قرار دیں گے اور بڑھتے رہیں گے۔ مولانا نور عالم خلیل امینی عربی زبان کے ادیب تھے اور دارالعلوم دیوبند سے نکلنے والے مجلہ الداعی کے ایڈیٹر تھے دارالعلوم دیوبند میں عربی زبان کو زندہ کرنے اور اس کا شوق دلانے میں سب سے بڑا ہاتھ مولانا وحید الزماں کیرانوی کا تھا۔ زبان وادب کے معاملے میں وہ مولانا وحید الزماں کیرانوی کے خلیفہ اور دست گرفتہ تھے۔ بلکہ حسن انشااور ادبی ذوق کے اعتبار سے ان سے ایک قدم آگے تھے اور انہوں نے مولانا وحید الزماں کیرانوی کی شخصیت پر ایک ضخیم کتاب بھی لکھی جس کا نام ہے ’’وہ کوہ کن کی بات‘‘۔ اس کتاب سے وحید الزماں کیرانوی سے ان کی محبت اور عقیدت کا اندازہ ہوتا ہے۔
مولانا نور عالم خلیل امینی کی زیادہ شہرت ان کے اس ترجمے کے کام سے ہوئی جو انہوں نے مولانا ابوالحسن علی ندوی کی کتاب ’’عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح‘‘ کی عربی زبان میں کی تھی۔ اس کتاب کا عربی ترجمہ انہوں نے التفسیر السیاسی للاسلام کے نام سے کیا تھا۔ اس مضمون نگار کو مولانا نور عالم خلیل امینی کے قلم کی روانی اور طبیعت کی جولانی کا پورا اعتراف تھا۔ کبھی کبھی مجھ سے ملاقات ہو جاتی یا ٹیلی فون پر بات ہوتی تو بہت دیر تک گفتگو ہوتی وہ اپنا رسالہ ’’الداعی‘‘ مجھے پابندی کے ساتھ بھیجا کرتے تھے۔ ایک بار دیوبند جانا ہوا تو انہوں نے دعوت کی اور بڑا اہتمام کیا اور بہت سے مسائل پر ہماری ان سے گفتگو ہوئی۔ میں نے اس سے کہا کہ علامہ یوسف القرضاوی نے مولانا ابوالاعلی مودودی اور مولانا ابوالحسن علی ندوی دونوں کی شخصیت پر مفصل کتابیں لکھی ہیں۔ ہندوستان میں کوئی ایک بھی شخصیت نہیں ہے جس نے دو مکتبہ فکر کے ممتاز عالم اور مصنف پر کتاب لکھی ہو۔ یہ کام عالم عرب کا فراخ دل مصنف ہی کر سکتا ہے ہندوستان کا نہیں۔
مجھے حیرت ہوئی کہ یہ دونوں کتابیں مولانا نور عالم خلیل امینی کی نظر سے نہیں گزری تھیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ التفسیر السیاسی للاسلام کے پڑھنے کے بعد علامہ یوسف القرضاوی نے مولانا علی میاں سے یہ عرض کیا تھا کہ ہم تمام دین کے داعی اور عرب ملکوں میں اسلام کو غالب اور حکمراں دیکھنے کے آرزو مند دنیائے عرب اور دنیائے اسلام میں جب اپنی کوشش شروع کرتے ہیں تو ہر جگہ حکمرانوں کی جانب سے ہم پر یہی الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ہم دین اسلام کے سیاسی تشریح اور تعبیر کرتے ہیں۔ آپ کی اس کتاب کے نام سے ایسے مسلم حکمرانوں کو تائید اور حمایت حاصل ہو جائے گی۔ علامہ یوسف القرضاوی نے لکھا ہے کہ مولانا علی میاں صاحب نے یہ سن کر کہا کہ اس پہلو کی طرف ہمارا دھیان نہیں گیا ورنہ میں اس کتاب کا یہ نام ہرگز نہیں رکھتا۔
مولانا نور عالم خلیل امینی کو میری اس بات سے سخت حیرت ہوئی کیونکہ انہوں نے یوسف القرضاوی صاحب کی کتاب نہیں پڑھی تھی۔ ہمارے ملک کے علماء میں ایک کمزوری پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے علاوہ دوسرے مکتب فکر کے علماء اور اہل قلم کی کتابیں نہیں پڑھتے ہیں اور نہ ہی ان کی خدمات سے پورے طور پر آگاہ ہوتے ہیں۔ ہندوستان کے قدیم دینی مدارس کے علماء اور طلبہ بالعموم مولانا ابوالاعلی مودودی کی خدمات سے آگاہ نہیں ہے۔ انہوں نے بہت سی عبارتوں سے مولانا مودودی صاحب کی ان غلطیوں سے واقفیت حاصل کی جن میں کسی قدر فکری بے اعتدالی پائی جاتی ہے۔ اس لیے ہونا یہ چاہیے تھا کہ ان بے اعتدالیوں پر گرفت ہوتی اور ان کی خدمات کا وسیع القلبی کے ساتھ اعتراف کیا جاتا۔ افسوس ہے یہ وسیع القلبی اور اعلی ظرفی ہمارے قدیم طرز کے علماء میں نہیں پائی جاتی ہے۔ اس پر بھی دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ ہندوستان کا عالم دنیا کا سب سے بڑا عالم ہوتا ہےراقم الحروف نے اس خلیج کو پاٹنے کے لیے ’’عالم اسلام کی دو عظیم شخصیتیں مولانا ابوالاعلی مودودی اور مولانا مولانا ابوالحسن علی ندوی‘‘ کے نام سے کتاب لکھی ہے جو مکتبہ شباب الاسلام لکھنو اور ہیومن ویلفیئر کونسل ابوالفضل انکلیو، اوکھلا، دہلی سے حاصل کی جاسکتی ہے اور یہ کتاب اس خلیج کو پاٹنے میں یقیناً مفید اور مددگار ثابت ہو گی۔ ہمارے علماء کی دوسری بیماری یہ ہے کہ اپنے حلقہ سے باہر کی کوئی کتاب پڑھتے نہیں ہیں۔
مولانا نور عالم امینی صاحب نے بہت ساری کتابیں عربی زبان کا ذوق پیدا کرنے کے لیے لکھی ہیں۔ ہندوستان کے عربی مدارس کے طلبہ کو ان کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اردو زبان میں خاکہ نگاری اور مرثیہ نگاری اور سوانح نگاری پر مولانا نور عالم خلیل امینی کا کام ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔پس مرگ زندہ کے علاوہ فلسطین پر ان کی ضخیم اردو اور عربی کتابیں اہل ذوق میں پڑھی جائیں گی۔ دینی مدارس کے طلبہ کو خاص طور پر ان کی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے ان کے درجات کو بلند کرے۔ وہ علمی ذوق رکھنے کے ساتھ ساتھ عبادت گزار اور ذاکر و شاغل آدمی تھے اور ان کے روزانہ کے معمولات میں بزرگوں کے لیے ایصال ثواب اور دعا مغفرت کا معمول بھی تھا اور وہ مختلف شخصیات کے لیے دعائے مغفرت روزانہ کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالی مولانا نور عالم خلیل امینی کی مغفرت فرمائے اور ان کے حسنات کو قبول فرمائے۔ یہ پت جھڑ کا موسم ہے ہر روز کسی پھول کے شاخ سے ٹوٹ کر گرنے کی خبر آتی ہے۔ کتنے علم وادب کے شاداب خوشنما پھول تھے جو گزشتہ تھوڑے عرصہ میں خاک میں مل گئے
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
(بستر علالت سے املا کرایا ہوا مضمون)
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 29 مئی تا 05 جون 2021