وزیر اعظم کا عہدِ واثق یا وعدہ فردا

قصیدہ خوانی نہیں، ٹھوس اقدامات کی ضرورت

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد، حیدرآباد

 

ہمارے ملک کے وزیر اعظم کے تعلق سے یہ بات مشہور ہے کہ وہ جملہ بازیوں کے ماہر ہیں۔ موقع اور محل پر برملا جملوں کا استعمال کرنے کا ہنر وہ بخوبی جانتے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کی صد سالہ تقاریب کے موقع پر افتتاحی تقریر کرتے ہوئے انہوں نے جن باتوں کا تذکرہ کیا اس پر ملک کے بہت سارے با خبر حلقے بڑی حیرت واستعجاب کا اظہار کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے خطاب میں جہاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شاندار روایات کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اس عالمی شہرت یافتہ جامعہ کو منی انڈیا قرار دیا اور اسے ملک کا قابلِ فخر ورثہ تسلیم کیا وہیں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس کے نظریہ کے تحت ملک کے تمام افراد کی فلاح و بہبود کی بارے میں نہ صرف فکر مند ہے بلکہ بغیر کسی مذہبی بھید بھاؤ کے حکومت کی ساری فلاحی اسکیموں سے فائدہ اٹھانے کے پورے مواقع دے رہی ہے۔
وزیر اعظم نے اس تاریخی موقع پر علی گڑھ تحریک کے بانی سر سید احمد خان کا یہ قول دہرایا کہ: اپنے وطن سے لگاؤ رکھنے والے کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ تمام لوگوں کی بہبود کے لیے کام کرے۔ انہوں نے بڑے فلسفیانہ انداز میں یہ بات بھی کہی کہ سیاست، سماج کا ایک اہم حصہ ہے لیکن سماج میں سیاست سے زیادہ اہم دوسرے مسائل ہیں اس لیے سیاست کو بالائے طاق رکھ کر سماج کی ترقی کے بارے میں سوچنا ضروری ہے اور ہر مسئلہ کو سیاست کی عینک سے دیکھنا تنگ نظری ہوگی۔ وزیر اعظم نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اس یادگار تقریب کو اپنے لیے اور اپنی حکومت کے لیے Image Building کا ذریعہ بتاتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ان کی حکومت ملک کے تمام طبقوں کے ساتھ واقعی زندگی کے ہر شعبہ میں مساویانہ رویہ اختیار کی ہوئی ہے اور سماج کا ہر طبقہ ان کی کارکردگی سے مطمئن ہے۔ ۲۲؍ ڈسمبر ٢٠٢٠ کو کیے گئے وزیر اعظم کے اس خطاب کے بعد بیرونِ ملک اور خاص طور پر مسلم ممالک میں بھی مودی حکومت کے تئیں ایک بہتر اور مثبت رائے قائم ہوئی ہوگی۔ علی گڑھ کے حوالہ سے جب ملک کے سر براہ کوئی پیغام دیتے ہیں تو اس کی اہمیت میں اضافہ ہونا یقینی ہے۔ لیکن کیا وزیر اعظم نے جن احساسات کے ساتھ اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے اس کی کوئی جھلک کہیں ملکِ عزیز میں نظر آ رہی ہے؟ وزیر اعظم نے دعویٰ کیا کہ ملک کے وسائل پر بلا کسی لحاظِ مذہب ہر شہری کا حق ہے اور موجودہ حکومت کسی جانب داری کے بغیر ہر ایک کو آ گے بڑھنے کا موقع دے رہی ہے۔ ملک میں دستوری حقوق کی ضمانت دیتے ہوئے ایک آزاد ماحول میں ہر طبقہ ترقی کے فوائد اٹھارہا ہے۔ سارا ملک جانتا ہے کہ وزیر اعظم نے کس قدر حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے صرف جملہ بازی کے ذریعہ ملک کی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی دیدہ و دانستہ کوشش کی ہے۔ انہوں نے سچائیوں سے بچ نکلنے کے لیے خوش کن تصورات کا سہارا لیا۔ ١٠٠ سالہ شہرہ آفاق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے ہوئے انہوں نے اس کی خدمات کو سراہا لیکن اس یونیورسٹی کی ترقی اور یہاں سے فارغِ التحصیل طلباء کے مستقبل کو سنوارنے کے بارے میں کوئی لب کشائی نہیں کی۔ حقیقت پسندی اور لفاظی میں یہی فرق ہے کہ لفظوں کے اُلٹ پھیر سے وقتی طور پر واہ، واہ تو ہوجاتی ہے لیکن جب حقیقت سامنے آتی ہے تو سارے سنہرے خواب ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔
وزیراعظم کے اس خطاب کا اگر معروضی انداز میں جائزہ لیا جائے تو یہی حقیقت سامنے آ تی ہے شری نریندر مودی اپنے الفاظ کے جادو کے ذریعہ یہ بتانے میں کامیاب ہوگئے کہ ان کی حکومت سب کو ساتھ لے کر چلنے پر یقین رکھتی ہے۔ لیکن وہ لوگ جو مودی کی سحر انگیزی کا شکار نہیں ہیں وہ ان سے سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ کب تک قول و فعل کے تضاد کے ساتھ اس وسیع و عریض ملک پر حکمرانی کریں گے۔ انہوں نے اپنے مذکورہ خطاب میں ملک کے عوام سے اپیل تو کی کہ وہ ترقی کے لیے نظریاتی اور سیاسی اختلافات کو ختم کر دیں لیکن کیا وہ خود اور ان کی پارٹی اپنی نظریاتی اساس سے اوپر اٹھ کر ملک کی ترقی کے بارے میں سوچ رہے ہیں؟ کیا اس حقیقت سے انکار کیا جا سکتا ہے آج ملک میں ایک مخصوص نظریہ کو فروغ دینے کے لیے منصوبہ بند انداز میں کام نہیں ہو رہا ہے؟ ملک کے تمام طبقوں کو اس نظریہ کے تحت لانے کے لیے ملک کی پالیسیاں از سر نو نہیں مدوّن نہیں کی جا رہی ہیں؟ اقتصادی اصلاحات کے نام پر آج ملک میں کیا کچھ نہیں کیا جا رہا ہے۔ ملک کے غریب اور کسان کن ناگفتہ بہ حالات سے دوچار ہیں اس کو ساری دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ وزیر اعظم دعویٰ کر رہے ہیں کہ اس ملک میں مذہب کی بنیاد پر کسی سے کوئی امتیاز نہیں کیا جاتا ہے۔ اگر یہ بات سچ ہے تو مذہبی اقلیتوں کا یہ برُا حال کیوں ہو گیا۔ مسلمانوں کے بعد اب عیسائی بھی حکومت کی نظروں میں کھٹکنے لگے ہیں۔ حکومت کی فلاحی اسکیمات سے سب مستفید ہو رہے ہیں تو پھر ملک کا ایک بڑا طبقہ تعلیم سے کیوں محروم ہے۔ کیوں ملک میں بیروزگاری کا فیصد برھتا جا رہا ہے۔ ملک کے دستور نے جب تمام افراد کے حقوق کی ضمانت دی ہے تو ملک کا ایک طبقہ اپنے حقوق کی حفاظت کے بارے میں ہی کیوں ہمیشہ فکر مند رہتا ہے۔ کیا یہ حقیقت حکومت کی نظروں سے اوجھل ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت اقلیتوں کے حقوق پر شب خون مارنے کی کوشش ایک زمانے سے کی جا رہی ہے۔ جب وزیر اعظم یہ کہتے ہیں کہ آج ملک ایک ایسے راستے پر چل رہا ہے جہاں ملک کا ہر شہری مطمئن ہے تو پھر خوف کے سائے میں لوگ کیوں جی رہے ہیں۔ جب سے بی جے پی کے ہاتھوں میں حکومت کی باگ ڈور آئی ہے اور نریندر مودی نے مسندِ اقتدار سنبھالی ہے اس کے بعد ملک میں جو حالات پیدا ہو گئے ہیں اس سے ہر با خبر شخص بخوبی واقف ہے۔ ملک آج فرقہ پرستی کی دلدل میں ایسا پھنستا جا رہا ہے کہ اس کی سیکولر ساکھ اور اس کی دیرینہ جمہوری روایات ایک قصہ پارینہ بنتی جا رہی ہیں۔ آئینِ ہند کی دھجیاں اُڑائی جا رہی ہیں۔ حکومت کی پالیسوں سے اختلاف کرنے والوں کو غدار قرار دیا جا رہا ہے۔ غلط اقدامات پر احتجاج کرنے والوں کو ملک دشمن کہہ کر انہیں پابندِ سلاسل کیا جا رہا ہے۔ جن آرزوؤں اور تمناؤں کے ساتھ ہمارے اسلاف نے اس ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرایا تھا آج ان تمام اصولوں کو پیروں تلے روندے ہوئے فرقہ پرستی کی عفریت کو اس قدر پھیلایا جا رہا ہے کہ ہر محب وطن ملک کی فضاؤں میں گھٹن محسوس کر رہا ہے۔ مجاہدین آزادی کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہ تھی ہوگی کہ جن لوگوں نے ملک کی آزادی کی مخالفت کی تھی اور انگریزوں سے معافی مانگ کر ان کی غلامی کو بخوشی قبول کر لیا تھا، آزادی کے سات دہوں بعد ان عناصر کے ہاتھوں میں ملک کا اقتدار آ جائے گا اور وہ اس ملک کے سیاہ و سپید کے مالک ہو جائیں گے۔ جس ملک میں دستور و قانون ہو اور جہاں قانون پر حکمرانی کی باتیں کی جاتی ہوں وہاں اگر من مانی قوانین بنائے جائیں اور طاقت کے زور پر انہیں نافذ بھی کرنے کی تیاری کرلی جائے تو اس سے بڑھ کر جمہوریت کے لیے اور کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا ہے۔ مودی حکومت کے دور میں جس نوعیت سے قانون بن رہے ہیں اور نافذ کیے جا رہے ہیں اس کی بے شمار مثالیں اہل ملک کے سامنے ہیں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی صد سالہ تقاریب کے موقع پر کیے جانے والے وزیر اعظم کے خطاب کو ہندوستانی مسلمانوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہاں بھی یہی عنصر ابھر کر سامنے آتا ہے۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب کے ذریعہ یہ احساس دلانا چاہا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ ان کی حکومت کا رویہ بڑا فیاضانہ ہے۔ وہ کسی کو مسلمان ہونے کے ناطے ترقی کے راستے سے نہیں روکتی۔ لیکن ان کے سات سالہ دورِ حکومت میں مسلمان جتنے پریشان کیے گئے آزادیِ وطن کے بعد شاید ہی اتنے پریشان کیے گئے ہوں۔ اپنی پہلی معیاد کے دوران مودی حکومت نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے بارے کبھی نہیں سوچا۔ اس دوران ہجومی تشدد کے ذریعہ مسلمانوں کی جانیں لی گئیں۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں اس قسم کے تشدد کے بہت سے واقعات پیش آئے۔ مسلمانوں کی شریعت میں مداخلت کی پوری کوشش کی گئی۔ تین طلاق کے خلاف قانون سازی کی کوشش ہوئی جو دوسری معیاد کے دوران پوری ہو چکی ہے۔ بد نامِ زمانہ شہریت ترمیمی قانون کو لا کر مسلمانوں کو ملک سے نکالنے کا منصوبہ بنایا گیا اور اب بھی مودی حکومت کے عزائم اس بارے میں کم نہیں ہوئے ہیں۔ کورونا وائرس کو مسلمانوں سے جوڑا گیا۔ حکومت خاموش تماشائی بنی رہی۔ مسلمانوں کی سماجی، تعلیمی اور معاشی حالت کو بہتر بنانے میں حکومت نے کبھی اپنی ذ مہ داری کو پورا نہیں کیا۔ آج بھی مسلمانوں کی حالت ابتر ہے، ان کی اکثریت زندگی کی روزمرہ ضرورتوں کو بھی پورا کرنے سے قاصر ہے۔ جب وزیر اعظم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مذہبی بنیاد پر کسی کے ساتھ کوئی امیتازی سلوک نہیں کیا جاتا ہے اور قومی ثمرات سے مستفید ہونے کے مواقع سب کو یکساں طور پر حاصل ہیں تو پھر ملک کے۱۴ فیصد مسلمان آزادی کے ۷۲ سالوں کے دوران پسماندگی کے تحت الثریٰ تک کیسے پہنچ گئے۔ جس قوم نے اس ملک پر آٹھ سو سال تک حکمرانی کی وہ اتنے مختصر عرصہ میں اس قدر پیچھے کیوں ہو گئی۔ کیا یہ سب کچھ ایک منصوبہ کے تحت نہیں ہوا؟ حکومت دیانت داری اور غیر جانب داری کا ثبوت دیتی تو کیا ۱۸ تا۲۰ کروڑ مسلمانوں کی زندگی اس قدر اجیرن ہو سکتی تھی؟ یہ محض اقلیت دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ یکے بعد دیگر حکومتوں نے مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا اور ان کے جائز حقوق بھی انہیں دینے میں کوتاہی برتی گئی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہندوستانی مسلمان زندگی کے ہر شعبہ میں دیگر ابنائے وطن سے کافی پیچھے ہیں۔ نریندر مودی کا یہ دعویٰ حقیقت سے بالکل بر عکس ہے کہ انہوں نے یا ان کی حکومت نے ہر ایک کے حق کی پاسداری کی ہے اور اسے ہر وہ موقع دیا ہے جس سے وہ زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھ سکے۔ حقائق کی روشنی میں دیکھیں تو یہی حقیقت چَھن کر سامنے آتی ہے کہ بات تو سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس کی ہوتی رہی لیکن ان دعوؤں کو عملی جامہ پہنانے کی کوئی سنجیدہ پالیسی حکومت نے نہیں اپنائی۔ اب تو صورتِ حال اس قدر پیچیدہ اور خطرناک ہو گئی ہے کہ مسلمانوں کو ڈرانے اور دھمکانے کا کوئی ذریعہ نہیں چھوڑا جا رہا ہے۔
حالیہ دنوں میں لَو جہاد کے نام نہاد پروپگنڈے کے بیچ بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستوں میں تبدیلیِ مذہب کے خلاف قانون منظور کرلیا گیا۔ اس قانون کی منظوری کے ساتھ ہی مسلم نوجوانوں کو پولیس کی جانب سے پکڑ کر ان پر بے جا الزمات لگا کر جھوٹ مقدمے دائر کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ شکر ہے کہ عدالتیں ایسے بے قصور مسلمانوں کو انصاف دلانے میں دیر نہیں کر رہی ہے۔ بابری مسجد کو آستھا کی بنیاد پر مندر میں تبدیل کردیا گیا اور اب مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کرنے کے لیے ایودھیا میں نئی مسجد کی تعمیر کا اعلان کیا گیا۔ یہ سب کرتے ہوئے وزیر اعظم سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس کی باتیں کرتے ہیں تو یہ محض دکھاوا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

حقیقت یہی ہے کہ یکے بعد دیگر حکومتوں نے مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا اور ان کے جو جائز حقوق بھی انہیں دینے میں کوتاہی برتی گئی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہندوستانی مسلمان زندگی کے ہر شعبہ میں دیگر ابنائے وطن سے کافی پیچھے ہیں۔ نریندر مودی کا یہ دعویٰ حقیقت سے بالکل بر عکس ہے کہ انہوں نے یا ان کی حکومت نے ہر ایک کے حق کی پاسداری کی ہے اور اسے ہر وہ موقع دیا ہے جس سے وہ زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھ سکے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 3 جنوری تا 9 جنوری 2021