نظام تعلیم اور عصری تقاضے

امت کے اندر‘ گمشدہ میراث’ کی طلب بڑھانے کی ضرورت

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی، علی گڑھ

 

قوموں کی تعمیر وترقی اور عصری و جدید تقاضوں سے ہم آہنگی کا انحصار لازمی طور پر نظام تعلیم وتدریس اور نصاب تعلیم پر ہے۔ جو قومیں اپنے نظام تعلیم اور اس کے طریقہ کار کو مستحکم اور حالات و کوائف کے مزاج کو مد نظر رکھتے ہوئے مرتب و مدون کرتی ہیں وہ ہمیشہ سرخ رو اور فوز و فلاح سے ہمکنار ہوتی ہیں۔ جن کا تعلیمی معیار بلند وبالا ہوتا ہے ان کی کار کردگی تاریخ کے صفحات میں جلی حروف سے درج کی جاتی ہے۔ اس لیے معاشروں اور قوموں کی جدید خطوط کی جانب رہنمائی کرنے کے لیے ہمیں اپنے تدریس و تحقیق اور نظام تعلیم میں حشو واضافہ کی گنجائش محسوس ہونا فطری بات ہے۔ چنانچہ یہ مسئلہ ارباب فکر ودانش اصحاب علم و فضل کے یہاں ہمیشہ موضوع بحث رہا ہے کہ مدارس دینیہ کا نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کیا ہو؟ مدارس میں کون کون سے موضوعات کو شامل درس کیا جائے موجودہ دور میں وہ کون سے مضامیں ہیں جن کی بدولت مدارس کے طلباء کی ایسی کھیپ تیار ہو سکے جو دین کی مبادیات سے واقف ہونے کے ساتھ ساتھ عصری تحدیات وچیلنجیز کا مقابلہ کرنے کے لیے علمی و منطقی طور پر تیار ہوسکے۔ آج کا دور کئی اعتبار سے بدلا ہوا ہے۔ اب چیزیں ہی نہیں بدلی ہیں، بلکہ ان کی قدریں بھی بدل چکی ہیں۔ اب ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے ان کا مقابلہ اب سے پہلے یقیناً نہیں تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اب جدید ٹیکنالوجی اور سائنسی ایجادات نے دنیا کو گلوبل ولیج میں تبدیل کر دیا ہے نیز، پوری دنیا تہذیبی تنوع اور مذہبی تعدد کی کہکشاں معلوم ہوتی ہے۔ اس نئے دور اور ایجادات واکتسابات نے جہاں علوم و فنون کے جہان کو آباد کیا ہے تو وہیں نوع انسانیت تہذیبی اور فکری طور بھی بری طرح تنزلی کا شکار ہوئی ہے۔ ان حقائق وشواہد کا کسی طور بھی نہ انحراف کیا جا سکتا ہے اور معاشرے میں رہتے ہوئے نہ ان حالات کی خوبیوں یا خامیوں سے کنارہ کشی اختیار کی جا سکتی ہے۔ بناء بریں فارغین مدارس اور اصحاب دانش و حکمت پر یہ بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ یہ سوچیں کہ ان چیزوں کا مقابلہ کیسے کریں! لا محالہ ہماری نظریں مدارس میں جاری وساری نصاب تعلیم کی طرف اٹھتی ہیں۔ لیکن سوال یہاں یہ بھی ہوتا ہے کہ مدارس کے نظام تعلیم کو کس طرح موثر بنایا جاسکتا ہے؟ اس بابت معروف محقق و اسلامی اسکالر ، ماہنامہ’ تہذیب الاخلاق‘ کے مدیر پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی نے رواں ماہ میں’ تہذیب الاخلاق‘ کے شمارے میں ایک مضمون ’اسلامی نظام تعلیم اور عصری ضرورت‘ کے عنوان سے تحریر فرمایا ہے۔ اس مضمون میں پروفیسر موصوف نے مسلمانوں کا نظام تعلیم کیا ہو اور موجودہ وقت میں مدارس میں کن مضامین وموضوعات کی ضرورت ہے اس پر نہایت مفید گفتگو کی ہے۔ مضمون میں پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی نے ارباب مدارس کو جن نکات کی طرف توجہ دلائی ہے وہ درج ذیل ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جو علوم ابدی ہیں ان میں کسی بھی طرح ترمیم و تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے۔ اس تناظر میں انہوں نے لکھا ہے۔ ’’مدارس میں قرآن، حدیث، فقہ، منطق، عقائد، تصوف اور فلسفہ جو بھی مباحث پڑھائے جاتے ہیں ان کو سامنے رکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ کچھ مضامین ایسے ہیں جو غیر متبدل ہیں، قرآن کبھی نہیں بدلے گا، حدیث اور اصول دین کبھی نہیں بدلیں گے۔ یہ چیزیں لافانی ہیں اور لافانی رہیں گی۔ زمانے، حالات اور جغرافیہ کے بدلنے سے ان علوم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اس لیے کہ مسلمانوں کی قومی زندگی کا اساس انہیں علوم پر ہے۔ اگر ان علوم میں تبدیلی آئے گی تو مسلمان باقی نہیں رہیں گے۔ ان کا نظام تعلیم اسلامی نہیں رہے گا‘‘۔ مذکورہ اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مدارس میں ان علوم کو قطعی تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے جو اسلامی تشخص کی علامت ہیں یا جن کی وجہ سے ہمارا نظام تعلیم سنت و شریعت کے مطابق ہے۔ پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی نے اپنے مذکورہ مضمون میں دوسرا پہلو یہ بیان کیا ہے کہ آج مدارس کو ان علوم کی طرف بھر پور توجہ دینی چاہیے جو علوم دوسری قومیں جانتی ہیں۔ اس بابت وہ لکھتے ہیں۔ ’’یہ نصب العین مسلمانوں کا ہونا چاہیے کہ جو علم ان کے پاس نہیں ہے اس کو وہ حاصل کریں۔ مدارس اسلامیہ کو پہلی توجہ اس بات پر دینی چاہیے کہ جو علوم ہمارے پاس موجود ہیں وہ تو ہمارے ہیں اور جو دوسرے لوگ جانتے ہیں وہ بھی ہماری میراث ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’حکمت تو مومن کی گمشدہ میراث ہے۔ وہ جہاں کہیں بھی پائے گا اسے حاصل کرے گا‘‘ خواہ انڈیا، چائنا، برطانیہ، امریکہ یا فرانس کہیں پر بھی ہو جا کر اسے حاصل کر لے گا۔ امت مسلمہ کی شان یہ ہے کہ وہ علم کی متلاشی رہے گی۔ ثریا پر بھی اگر علم ہوگا تو مسلمان اس کو حاصل کرلیں گے۔ مسلم امت کو یہ طے کرلینا چاہیے کہ علم کے معاملے میں ان کے سامنے کوئی باؤنڈری نہیں، کوئی جغرافیہ نہیں اور کوئی دیوار نہیں ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی تعمیر و ترقی کے لیے ضروری علوم موجود ہیں تو اسے حاصل کرنا مسلمانوں کا نصب العین ہے یہی قرآن وسنت کی تعلیم و تلقین ہے‘‘۔ پتہ یہ چلا کہ آج ہمیں اپنے اندر تحقیقی اور فکری مزاج پیدا کرنا ہوگا اس کے لیے لازمی طور پر کشادگی اور توسع کو جگہ دینی ہو گی۔ جدید دریافت و اکتسابات اور نئے علوم و فنون کے فیوض سے ہم اور ہماری نسل اسی وقت متمتع ہو سکتے ہیں جبکہ ارباب مدارس کے اندر ان کو حاصل کرنے کا شوق جاگزیں ہو۔ عصری تبدیلیوں اور ضروریات سے واقفیت اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ ہم معاشرے کی شرعی احکام و ہدایات کے مطابق مکمل و مدلل رہنمائی کرسکیں۔ پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی نے اپنے اس مضمون میں ارباب مدارس کو مطالعہ ادیان اور تقابل ادیان کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ ہندوستان ہی نہیں بلکہ آج پوری دنیا تعدد وتکثیریت کی کہکشاں نظر آتی ہے چنانچہ ہندوستان کو تو ادیان ومذاہب اور افکار ونظریات کا مرکز و محور کہا جاتا ہے۔ اس تناظر میں مدارس کے نظام میں تقابل ادیان کے مطالعہ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ چنانچہ پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی نے لکھا ہے’’مسلمان اساتذہ اور مسلمان علماء آگے بڑھیں اور دوسرے مذاہب کا اس طرح مطالعہ کریں جس طرح وہ ہمارے مذہب کا مطالعہ کرتے ہیں۔ صرف سرسری اور اخباری مطالعہ کافی نہیں ہے بلکہ تحقیقی اور تنقیدی مطالعہ، گہرائی اور گیرائی کے ساتھ ضروری ہے۔ ان مذاہب کو پڑھنا ہمارے مدارس کے نصاب کا حصہ ہونا چاہیے جو مدارس میں اس وقت بالکل نہیں ہو رہا ہے۔ دوسرے مذاہب کو ہم نے پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کی تو ہم اپنے مذہب کی نمائندگی نہیں کر سکیں گے‘‘۔ لہذا مطالعہ ادیان کی طرف نہ صرف توجہ دی جائے بلکہ ہماری دیگر ادیان پر خاصی گرفت ہونی چاہیے، اس حوالے سے پروفیسر موصوف نے کئی ہم نام مسلم علماء اور ان کی کتب کے بھی بتائے ہیں کہ انہوں نے دیگر ادیان سے متعلق زبانوں کا سیکھا کتابیں لکھیں اور پھر ان کا تجزیہ وتحلیل کیا۔ اسی طرح مدارس کے طلباء کو مختلف زبانوں کا سیکھنا اسلام کے اثر ونفوذ کے لیے ضروری ہے۔ ہمارے ملک میں تو بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی ہیں، وطن عزیز لسانی تکثیریت کا عظیم سنگم ہے چنانچہ پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی نے لکھا ہے ’’ہندوستان کثیر لسانی ملک ہے۔ بائیس زبانیں تو وہ ہیں جو سرکاری کہلاتی ہیں۔ یہاں ہر صوبے اور علاقے کی زبان الگ ہے۔ ہمارے مدارس میں عام طریقے سے اُردو کے بعد صرف عربی پڑھائی جاتی ہے۔ انبیائی مشن یہ ہے کہ انبیاء قوم کی زبان میں لوگوں سے خطاب کرتے تھے۔ مگر ہمارے مدارس لسان قوم کی تعلیم و تربیت اپنے طلباء کو نہیں دیتے۔ مثال کے طور پر تلنگانا کی زبان تیلگو ہے تو مدارس کے بچوں کو تیلگو آنی چاہیے تاکہ جس علاقے میں وہ جائیں وہ نبی کی دعوت کو عوام تک پہنچا سکیں‘‘ لسان قوم اور متعدد زبانوں پر توجہ دینا مدارس کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اگر اس جانب سنجیدگی سے نہیں سوچا گیا تو یقیناً مدارس کے قیام کا جو تصور یا مقصد ومنشا ہے وہ کسی حد تک مفقود ہوجائے گا۔ پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی کا کہنا یہ بھی ہے کہ مدارس میں مسلک و مشرب کی قید کو ختم کیا جانا چاہیے بلا تفریق تمام مسالک ومذاہب کے افراد مدارس سے فیض حاصل کرسکیں‘‘۔ ہندو پاک کے مدارس مسلکوں کی بنیاد پر چل رہے ہیں۔ ہمارے یہاں جو علم حاصل ہوتا ہے وہ مسلک اور حلقہ میں محصور ہو کر ہوتا ہے۔ حالانکہ علم تو ایک نا پید کنار سمندر ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ چین میں بھی علم حاصل کرنا چاہو تو چلے جاؤ۔ پہلے زمانے میں مسلک علم حاصل کرنے میں حائل نہیں ہوتا تھا۔ ایک طالب علم کسی سے بھی فن کی بنیاد پر حاصل کر سکتا تھا مثلاً حدیث کسی سے پڑھتا تھا، منطق کسی اور سے، تفسیر کسی اور سے اور ریاضی کسی اور سے پڑھتا تھا۔ آج کے زمانے میں ہر طرح کے مضامین ایک مدرسے میں پڑھائے جاتے ہیں خواہ معلمین کا معیار کچھ ہو، تدریس کیسی بھی ہو، اس نظام نے ذہنوں کو محدود کیا ہے اور مسلکی اختلاف کی جڑیں مدارس میں گہری ہوگئی ہیں” جس طرح ہمارے مدارس کے دروازے دوسرے مسالک کے لیے کھلنے چاہئیں اسی طرح دیگر ادیان کے حاملین کے لیے بھی کھلنے چاہیے اس کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں "ماضی میں مسلمانوں نے اندلس میں غیر مسلموں کو اپنی درسگاہوں میں پڑھایا تھا۔ وہاں بڑے بڑے سائنس دان مثلاً بادشاہ بیکن وغیرہ مسلم درسگاہوں سے پیدا ہوئے۔ آج پھر ضرورت ہے کہ کہ اہم اپنی کھوئی ہوئی میراث کو حاصل کریں اور اپنے نظام تعلیم کو کشادہ رکھیں”
پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی نے اپنے اس مضمون میں ارباب مدارس کو جن نکات کی طرف توجہ دلائی ہے اگر ان پر عمل درآمد ہوجائے تو یقیناً مدارس دینیہ سے معاشروں اور قوموں کے لیے اچھا پیغام جائے گا۔ بنیادی طور پر ہمیں مدارس میں تقابل ادیان، متعدد زبانیں اور دیگر قوموں کے علوم کو سیکھنے کا مزاج بننا چاہیے۔ اسی طرح اپنی درسگاہوں کے اندر تنگ نظری اور گروہی تعصب کو ختم کر کے دیگر مسالک اور دیگر مذاہب کےلوگوں کے لیے بھی دروازے کھولنے کی ضرورت ہے۔ آج دنیا میں مدارس اور اسلام کے خلاف جو غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اسلام کی صحیح تصویر کو نہیں پہنچایا ان شکوک وشبہات کو رفع کرنے کے لیے اسلام کے آفاقی اصولوں کو مد نظر رکھنا ہوگا۔ امید ہے سطور بالا میں جن نکات و مباحث کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے اس بابت ہمارے مدارس میں مثبت پیش رفت ہوگی۔ اسی طرح ہم اپنی عظمت رفتہ کو بحال کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ آخر میں یہ عرض کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ مدارس دینیہ میں جو چیزیں داخل نصاب ہیں ان پر بھی ہمیں نظر ثانی کرنی ہوگی نیز یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ان مضامین سے معاشروں کی عصری خطوط پر رہنمائی ہو رہی ہے یا نہیں! آئے دن ایسے مسائل و مباحث آتے ہیں جن کا حل صرف اسلام کے پاس ہی ہوتا ہے اس لیے اب وقت کے ساتھ ساتھ ہمیں مدارس سے طلباء کو اس طور پر تیار کرنا ہوگا جو ہر طرح سے اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دے سکیں۔ حالات و کوائف پر نظر رکھنا اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا باشعور اور زندہ قوموں کی علامت ہے۔ اگر جدید تقاضوں اور عصری اسلوب سے ہمارے مدارس ہی لیس نہ ہوں تو پھر بھلا بتاؤ ہم یہ امید کس سے کر سکتے ہیں کہ وہ ان چیلیجیز کا مسکت جواب دے سکیں گے۔
[email protected]
***

آئے دن ایسے مسائل و مباحث آتے ہیں جن کا حل صرف اسلام کے پاس ہی ہوتا ہے اس لیے اب وقت کے ساتھ ساتھ ہمیں مدارس سے طلباء کو اس طور پر تیار کرنا ہوگا جو ہر طرح سے اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دے سکیں۔ حالات و کوائف پر نظر رکھنا اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا باشعور اور زندہ قوموں کی علامت ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 28 فروری تا 6 مارچ 2021