معیشت کی تباہی کے بعد زراعت کی کمر ٹوٹی

ذخیرہ اندوزی کو قانونی جوازدینے سے کسان ، کارپوریٹس کے رحم و کرم پر

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

 

بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت بھاری اکثریت کے بل پر غلط یا صحیح طریقے سے آرڈیننسیس کو بڑی جلد بازی میں پاس کرانے کی راویت کو آگے بڑھا رہی ہے اور مسلسل تاناشاہوں کی طرح من مانی کرتی جا رہی ہے۔ پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں حکومت نے اشیائے ضروریہ ترمیمی بل کو لوک سبھا سے منظور کروالیا۔ اس میں اناج، دالیں، تیل کے بیج، خوردنی تیل، پیاز، آلو وغیرہ کو ضروری اشیا کی فہرست سے ہٹانے کا التزام ہے چونکہ یہ سب چیزیں ضروری اشیا کے مد میں آتی تھیں اس لیے ان اشیا کی ذخیرہ اندوزی قانوناً جرم تھی۔ اشیائے ضروریہ قانون 1955 کے تحت کسی بھی زرعی پیداوار کو ضرورت سے زیادہ جمع کرنے اور کالا بازاری کرنے کی ممانعت تھی جس سے کسانوں کو ان اشیا کی مناسب قیمتیں مل جایا کرتی تھیں اور عام لوگوں کو ہر وقت صحیح قیمت پر ضروری اشیا دستیاب ہو جایا کرتی تھیں۔ فی الحال جب یہ قانون اپنی پرانے شکل میں نافذ ہے تو آلو، پیاز کی قیمتوں میں روک تھام کے باوجود بے تحاشہ اصافہ ہوتا جا رہا ہے جب ان اشیا کی ذخیرہ اندوزی کو قانونی جواز مل جائے تو غریب عوام اور غریب کسان کی حالت تو مزید بدتر ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ مرکزی حکومت نے کسانوں کے متعلق مزید دو فیصلے کیے ہیں اول، زرعی پیداوار اور (تجارت میں فروغ اور سہولت) آرڈیننس 2020 لایا گیا ہے اس کے ذریعے کسان اپنی فصل اور زرعی فصل منڈیوں کے باہر تاجروں کو فروخت کر سکیں گے۔ دوم، کنٹراکٹ پر مبنی زراعت کو قانونی حیثیت دے دی گئی ہے۔ یہ دونوں فیصلے کسی طرح بھی کسانوں کے حق میں نہیں ہیں۔ لیکن حکومت اپنے سرمایہ کاروں اور صنعت کار دوستوں کے مفاد کی خاطر ان کو نافذ کرنے پر مصر ہے۔ منڈیوں سے باہر خرید و فروخت کے انتظام سے کسان، بڑے تاجروں کے رحم و کرم پر منحصر ہو جائیں گے۔ اب تک زرعی پیداوار اقل ترین امدادی قیمت (ایم ایس پی) کے آس پاس قیمت منڈیوں میں مل جایا کرتی تھی۔ لیکن تاجر اب کسانوں سے من مانی قیمت پر فصل خرید کر اور ذخیرہ اندوزی کے ذریعے ملک کے کسی بھی علاقے میں بڑی قیمت پر فروخت کرنے کی پوزیشن میں ہوگا۔ اس طرح یہ ملک کے بے حال کسانوں کو مزید بد حال کرنے کی حکومت کی کوشش ہے کیوں کہ اب تک کسان اپنی زرعی پیداوار کو قریب کی منڈی میں لے جا کر قیمت حاصل کر لیتے تھے اور حاصل شدہ قیمت سے اگلی فصل کی تیاری کرتے تھے۔ لیکن حکومت اب اس کا فائدہ بھی کسانوں سے چھین کر کارپوریٹ ہاوسز اور صنعت کار دوستوں کی جھولی میں ڈالنا چاہتی ہے۔ کنٹراکٹ والی زراعت میں کسانوں کو اپنی ہی زمین پر مزدور بن جانے کا اندیشہ بڑھ گیا ہے۔ حکومت کے کسان مخالف اس کالے قانون سے ملک بھر کے کسان کافی ناراض ہیں۔ سرکاری حکمنامے کے خلاف سارے ملک میں تحریکوں کا سلسلہ چل پڑا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ کسانوں کے جائز مطالبات پر کان دھرے۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی طرح حرکتیں نہ کرے جس سے کہ ملک برباد ہو جائے اور معیشت زمین بوس ہو جائے۔ بُرے دور میں زراعت ہی معیشت کے استحکام کے لیے سامنے آئے گی کیوں کہ زراعت ہی ہماری معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔
پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں زراعت سے متعلق آرڈیننس لانے والی مرکزی حکومت کو اس وقت ایک بڑا دھچکا لگا جب مرکزی وزیر اور شرومنی اکالی دل کی رکن پارلیمنٹ ہر سمرت کور بادل نے اس آرڈیننس کی مخالفت کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا کیونکہ بھاجپائیوں نے اکثریت کے زعم میں اپنے حلیف پارٹیوں، کسانوں کے نمائندوں اور متعلقہ ریاستوں سے کسی طرح کا مشورہ کرنا ضروری نہیں سمجھا جب کہ مرکز ہمیشہ کوآپریٹیو فیڈرل ازم کی کھچڑی پکاتی رہتی ہے۔ زراعت ریاستوں سے منسلک اہم مسئلہ ہے اور ریاستوں نے زرعی پیداوار پر کنٹرول اور سپلائی کا اچھا نظم کر رکھا ہے۔ مرکزی حکومت اسے بھی ختم کر دینا چاہتی ہے اور پورے سسٹم کا کنٹرول بڑے کاروباریوں اور کارپوریٹس کے ہاتھوں میں چلا جائے اس کا قانونی انتظام کر رہی ہے تاکہ بڑے ساہوکار بغیر کسی قدغن کے بڑے پیمانے پر زرعی پیداوار کی ذخیرہ اندوزی کر سکیں۔ غذائی اشیا کا مصنوعی قحط پیدا کر کے زیادہ قیمتوں پر بیچ سکیں۔ اس کا اثر خاص و عام امیر و غریب، مزدور اور کسان، بے روزگار اور برسر روزگار سب پر پڑنا لازمی ہے۔ ویسے بھی اپنے پیداوار کی مناسب قیمت نہ پانے اور قرض کی ادائیگی وقت پر نہ کر پانے کی وجہ سے سالانہ ہزاروں کسان خود کشی کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ مرکز عوام کے سامنے زرعی اصلاحات کے نام پر نئے نئے افکار کو لانے کی کوشش کر رہی ہے کہ کسانوں کو ان کی پیداوار کی قیمت 3 دنوں میں ہی مل جایا کرے گی جو اس سے قبل منڈی کے نظام میں ممکن نہیں تھا۔ سوال یہ ہے کہ کسان اور کارپوریٹس کے درمیان تنازعہ پیدا ہونے پر کسانوں کے مفاد کی حفاظت کون کرے گا جب کہ تنازعات کے تصفیہ کی پوری ذمہ داری مجسٹریٹ اور کلکٹر کے کندھوں پر ہے جیسا کہ ہوتا آ رہا ہے۔ اس کا فائدہ کسانوں کو ہونے کے بجائے بڑے ساہوں کاروں اور صنعت کاروں کو ہوگا۔ اگرچہ بظاہر ان بلوں کا مقصد بہت عظیم، سود مند اور صاف ستھرا نظر آتا ہے مگر یہ عملی طور سے کسانوں اور عوام کے لیے تکلیف کا باعث ہوگا۔ یہ ہے نیا بھارت جسے مودی جی بنانا چاہتے ہیں۔ وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے لوک سبھا کو یقین دلایا ہے کہ اب کسان اپنی زرعی پیداوار صرف مخصوص منڈیوں میں فروخت کرنے کی پابندی سے آزاد ہو جائیں گے اور ریاستی قوانین کے تحت قائم کی گئیں منڈیاں بھی جاری رہیں گی۔ وزیر زراعت نے کہا کہ ان بلوں کی منظوری سے مقابلہ بڑھے گا اور نجی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا۔ نتیجتاً زرعی ڈھانچہ مضبوط ہوگا اور روزگار ملیں گے۔ اس سے حاشیہ پر پڑے 86 فیصد کسانوں کی مدد ہوگی۔ مگر اپوزیشن کے رہنما اسے زمین داری کی نئی شکل قرار دے رہے ہیں اس سیاہ قانون سے کسانوں اور زرعی مزدوروں کا استحصال ہوگا اس لیے وہ لوگ ان زراعتی بلوں کو تباہ کن اور بھیانک قرار دے رہے ہیں۔ لوک سبھا میں پاس ہونے کے بعد اس بل کو راجیہ سبھا سے بغیر کسی بحث و مباحثہ کے محض ندائی ووٹنگ سے پاس کرالیا گیا۔ اس پر ناراض ہو کر حزب اختلاف کے اراکین نے زرعی بلوں کی کاپیاں بھی پھاڑ ڈالیں۔ اس سے قبل اپوزیشن کے اراکین نے دستوری طور سے ان بلوں پر بحث کا پر زور مطالبہ بھی کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم مودی امبانی اور اڈانی جیسے ساہوکاروں کی دلالی کر رہے ہیں۔ اس زور دار احتجاج کے بعد ہی چار مختلف پارٹیوں کے 8 ارکان کو معطل کر دیا گیا۔ اس کارروائی کی مذمت اور مخالفت کرتے ہوئے راجیہ سبھا کے ارکان نے سنسد بھون کے صحن میں بیٹھ کر احتجاج کیا اور حکومت کی اس حرکت کو جمہوریت کا قتل قرار دیا۔ کسان مخالف زرعی بلوں کے خلاف ملک بھر میں پر زور احتجاج کا سلسلہ چل پڑا ہے۔ ایک کسان نے مودی جی کو ٹویٹ کر کے کہا کہ صاحب! ہم کسان ہیں ہم بونا بھی جانتے ہیں اور جڑ سے کاٹنا بھی جانتے ہیں۔ سنسد تمہاری ہے مگر سڑک ہماری ہے۔ سڑک پر تم پیر نہیں رکھ پاؤ گے۔ حکومت نے بھلے ہی اسے راجیہ سبھا سے پاس کرالیا ہے مگر کسانوں کا غصہ آسمان پر ہے۔ اس قانون سازی پر ایک اوپینین پول کرایا گیا تو پایا گیا کہ قانون کو جلد بازی میں پاس کرایا گیا ہے۔ 66 فیصد لوگوں نے ہاں کہا اور 26 فیصد لوگوں نے نا میں جواب دیا۔ اس قانون سازی کے دوران دستور کے تمام اصولوں کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ 12حزب اختلاف کے ارکان نے ووٹنگ کا مطالبہ کیا تھا مگر کسی کی نہیں سنی گئی۔ یہ جمہوریت کا قتل ہے۔ صحافی رام سنگھ مان نے ٹویٹ کرکے کہا کہ کل کسانوں نے فتح آباد۔سیرس نیشنل ہائی وے، پنچ کولا۔پانی پت، سنگھ روڈ۔جند پٹیالہ روڈ اور دادری کننا روڈ۔انبالہ چندی گڑھ ہائی وے کو جام کر رکھا ہے۔ کانگریس جب کوئی بل لاتی تھی تو اسے جاریہ سیشن میں رکھتی تھی اس پر بحث و مباحثہ ہوتا تھا اس کے بعد حزب مخالف کو اپنی بات کہنے کا اچھا موقع دیا جاتا تھا پھر اسے سیلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیج دیا جاتا تھا اور اگلے سیشن میں اسے پاس کیا جاتا تھا تاکہ قانون سازی کے پہلے اس کی خامیاں اور کمیاں دور ہو جائیں۔ یہ تھا جمہوری ملک میں حکومت چلانے کا طریقہ۔ مگر اب مودی حکومت کسی بل کو آرڈیننس کے ذریعے لاتی ہے پھر چپکے سے پارلیمنٹ سے پاس کرالیا جاتا ہے۔ حکومت سے سوال کرنا ضروری ہے تاکہ جمہوریت باقی رہے۔ اس بل کی مخالفت میں بھارتی کسان سبھا نے 25 ستمبر کو بھارت بند کا اعلان کیا ہے۔ بھارتیہ کسان سبھا کے قومی سکریٹری نند کشور شکلا نے الزام لگایا ہے کہ زرعی بل کے ذریعے کسانوں کی پیداوار کو لوٹنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے خلاف 25 ستمبر کو ملک گیر تحریک کو بھارت بند کی شکل دیں گے۔ اس میں 180 تنظیموں کے ذریعے بلائے گئے بند میں سبھی ریاستوں کے کسانوں کی نمائندگی ہوگی۔ جب تک یہ کسان مخالف قانون رد نہیں ہوتا یہ تحریک جاری رہے گی۔
وزیر اعظم نے زرعی قانون کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسی اصلاحات 21ویں صدی کے بھارت کے لیے ناگزیر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نہ ایم ایس پی ختم ہوگی اور نہ منڈیاں بند ہوں گی۔ انہوں نے جلد بازی میں ایم ایس پی کو بڑھانے کی بات کہی ہے اور گیہوں کی ایم ایس پی میں 50 روپے فی کنٹل کا اضافہ کیا ہے تاکہ کسانوں کے غصے کو کم کیا جا سکے۔ ویسے وزیر اعظم کا ہر عمل ”تاریخی“ ہی ہوتا ہے۔ نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور ملک گیر لاک ڈاؤن اور زرعی قانون سب ”تاریخی“ اقدام ہیں۔ پہلے معیشت زمین بوس ہوئی اب زراعت کی باری ہے۔ اس قانون کے ساتھ ہی کسانوں کی فصل روایتی خرید و فروخت کا عمل ختم ہو جائے گا اور نیا سرمایہ دارانہ نظام عمل میں آجائے گا۔

مرکزی حکومت نے کسانوں کے متعلق مزید دو فیصلے کیے ہیں اول، زرعی پیداوار اور (تجارت میں فروغ اور سہولت) آرڈیننس 2020 لایا گیا ہے اس کے ذریعے کسان اپنی فصل اور زرعی فصل منڈیوں کے باہر تاجروں کو فروخت کر سکیں گے۔ دوم، کنٹراکٹ پر مبنی زراعت کو قانونی حیثیت دے دی گئی ہے۔ یہ دونوں فیصلے کسی طرح بھی کسانوں کے حق میں نہیں ہیں لیکن حکومت اپنے سرمایہ کاروں اور صنعت کار دوستوں کے مفاد کی خاطر ان کو نافذ کرنے پر مصر ہے

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 4-10 اکتوبر، 2020