مطلوبہ طالب علم۔۔۔تلاش گم شدہ

عصری و دینی درسگاہوں کے فارغین پر سماج کی تعمیر نو کی بھاری ذمہ داری

برہان احمد صدیقی

 

گریٹر نوئیڈا کالجز کی بستی کہلاتی ہے۔ اسی بستی کے ایک کالج ’’رامیش‘‘ کے فارما ڈپارٹمنٹ کے صدر کا یہ آفس تھا جہاں میں اپنے بھانجے کے ریزلٹ کے بعد آیا تھا۔ میرے دائیں جانب ایک دوسرے طالب علم کے والد تشریف فرما تھے جن کے ماتھے پر شکن اور آنکھوں میں اداسی عیاں تھی۔ ان کی کرسی کے پاس ان کا بیٹا کھڑا تھا۔ اس کا حاضری فیصد بہت ہی کم تھا۔ اگلے سمسٹر میں بیٹھنے کی اجازت نہیں مل پا رہی تھی۔ اس کے والد ایک غریب آدمی تھے۔ بقول ان کے قرض لے کر تعلیمی فیس ادا کی تھی اور اب ایکسٹرا ڈیوٹی بھی کر رہے تھے، تب بھی بچے کی فیس اور گھر کے اخراجات کے لیے یہ محنت ناکافی ثابت ہو رہی تھی، اس کمی کو مکمل کرنے کے لیے اس اسٹوڈنٹ کی ماں بھی اب کام پر جانے لگ گئی تھی۔ لیکن ان دونوں کی اس انتھک محنت کا اس بچے کو نہ جانے کیوں احساس نہیں تھا تبھی تو تعلیم اور کلاس کے بجائے وہ دوسری سرگرمیوں میں مشغول تھا۔ آج کے اس سماج میں یہ صرف اس ایک بچے کی داستان نہیں ہے۔
عام طور سے جب تعلیمی ترقی کی بات آتی ہے تو اسکولس، کالجز، یونیورسیٹی اور تعلیمی اداروں کی پرمیشن اور ان کی تعمیر کے خاکے پر گفتگو ہونے لگتی ہے جو کہ ضروری بھی ہے لیکن اگر ثمر آور نتائج کی آرزو ہو، کسی فرد اور کسی تنظیم یا گروہ کا ہی فائدہ پیش نظر نہ ہو بلکہ ملت اسلامیہ اور امت مسلمہ کی تعلیمی ترقی کے خواہش ہو تو ہماری پلاننگ میں جہاں منصوبہ بند مقاصد کے لیے اسکولس، کالجز، مدارس اور یونیورسٹی کے قیام کی کوشش ہو وہیں مندرجہ ذیل نکات کا شمول اور ان پر جہد مسلسل کا واضح منصوبہ بھی ہو۔
تعلیمی بیداری مہم
مسلم سماج میں ایسے بہت سے افراد آج بھی مل جاتے ہیں جو اپنے بچوں کی پڑھائی سے زیادہ اس کی کمائی سے خوش ہوتے نظر آتے ہیں چنانچہ کم عمری ہی سے بازار، کاروبار یا فیکٹری کا اپنے بچے کو حصہ بنا دیتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو برملا کہتے سنا ہے کہ ’’ارے زیادہ پڑھا لکھا کر کرنا ہی کیا ہے ابھی سے کاروبار میں ہاتھ بٹائے گا تو گھر کی آمدنی بھی بڑھے گی اور اپنے پیروں پر جلد از جلد کھڑا بھی ہو جائے گا ‘‘ وہیں جب آپ بچیوں کی تعلیم کی بات کریں گے تو کچھ اس طرح کی باتیں سننے کو مل سکتی ہے’’ شادی کر کے کونسا اسے یہاں رہنا ہے دوسرے ہی گھر تو جانا ہے پڑھا لکھا کر کیا کرنا ہے گھر کا کام کاج آجائے یہی کافی ہے‘‘ یہ تو ان افراد کی سوچ ہے جن پر ہمیں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جن کے لیے ہماری تنظیموں اور اداروں کو ایک مستقل ڈپارٹمنٹ بنانا ہوگا اور گھر گھر جا کر ایک ایک فرد سے ملاقاتیں کر کے تعلیم کی اہمیت کو ان کے سامنے مؤثر انداز میں رکھنا ہوگا۔ وقتاٌ فوقتاً منائے جانے والی مہم سے ہم بہت بہتر اور مستقل تبدیلی کی امید نہیں کر سکتے۔
اس مہم کے لیے ہمیں تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہو گی۔ انہیں ہر روز نئے نئے تجربوں کا سامنا ہوگا۔ بہت ہی جاہلانہ رویوں کو بھی برداشت کرنا پڑ سکتا ہے۔
جس مثال سے میں نے اپنے مضمون کی شروعات کی ہے اس میں درس عبرت یہ ہے کہ ’’تعلیمی بیداری مہم‘‘ کے مخاطبین صرف وہ نہیں جو اسکول تک نہیں پہنچ پا رہے ہیں بلکہ بہت سے ایسے طلبہ ہیں جن کے لیے تعلیم کا حصول ان کی زندگی کی ایک روٹین سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اس لیے ہمارے اداروں اور تنظیموں کو چاہیے کہ طلبہ کی ذہن سازی کے لیے مختلف پروگراموں کا انعقاد کرتے رہا کریں۔ ان کے درمیان توسیعی لیکچرس کا اہتمام ہو، مختلف مواقع سے ورکشاپ کا انعقاد کیا جاتا رہے، موٹیویشنل پروگرام چلائے جائیں اور کریئر کونسلنگ کا بھی انتظام کریں۔ ان پروگراموں کی ضرورت کالج اور یونیورسیٹی کے طلباء ہی کو نہیں ہے بلکہ مدارس کے طلباء کو بھی ان کی اشد ضرورت ہے۔ اس لیے انہیں نظر انداز نہ کیا جائے۔
تعلیمی فیس اور اخراجات
زمانے کے بدلتے طور طریقوں کے ساتھ ساتھ جہاں بہت کچھ بدلا ہے وہیں تعلیم بھی اب کمرشیل ہو گئی ہے۔ اسکولس، کالجز اور تعلیمی اداروں کے قیام کے لیے کوئی تگ و دو کرتا بھی ہے تو اس کا مطمح نظر پیسے کمانا ہوتا ہے اور نا ہی آپ اسے غلط کہنے کا جواز رکھتے ہیں لیکن اس نظریے نے تعلیم کو بہت مہنگا بنا دیا ہے۔ آبادی کا ایک بڑا حصہ صرف اپنی کم علمی کی وجہ سے اپنے بچوں کو تعلیم سے دور نہیں رکھتا ہے بلکہ اس کے اندر کہیں یہ جذبہ موجزن ہوتا بھی ہے یا کسی صاحب بصیرت کی بات اس کے سمجھ میں آبھی جاتی ہے تو وہ تعلیم کے اخراجات کو دیکھ کر ہمت ہار جاتا ہے کیونکہ اگر وہ اپنے بچے کو اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کا عزم کرتا ہے تو ساتھ ہی اخراجات کی فہرست اس کی نظروں کے سامنے ہوتی ہے جو اس کی بساط سے باہر کی چیز ہوتی ہے۔
ایسے لوگ بھی ہیں جو کچھ محنت و قربانی سے ان اخراجات کا انتظام کر سکتے ہیں لیکن جب وہ یہ غور کرتے ہیں کہ تعلیم پر اتنا خرچ ہوگا لیکن جاب کے لیے مارا ماری کی فضا ہر سو پھیلی ہے تو وہ بھی کام کاج کو تعلیم پر فوقیت دیتے ہیں۔ اب اگر امت مسلمہ کے زندہ دل افراد اس محاذ پر کچھ بامقصد کام کرنا چاہتے ہیں اور مسلمانوں کے تعلیمی معیار کو سنوارنا چاہتے ہیں تو انہیں ایسے ادراے، اسکولس اور کالجز کا قیام عمل میں لانا ہوگا جن کی غرض کسب معاش سے زیادہ متعینہ مقاصد کا حصول ہو۔ امت مسلمہ کے درمیان تعلیمی ترقی ان کا ہدف ہو اور وہ مقصد کے حصول کے لیے تمام ممکنہ ذرائع سے استفادہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور ان کے کالجز کی فیس بھی زیادہ نہ ہو۔ حصول تعلیم کے بعد طلباء کو جاب فراہم کرنے کے لیے سرگرم رہنا ہوگا اور ان سب کاموں کو اخلاص اور منصوبے کے ساتھ انجام دینا ہوگا۔
مطلوبہ طالب علم
مدرسے سے فراغت کے بعد اگر طالب علم کے ذہن میں فکری اعتبار سے کجی رہے نظر میں تنگی اور دل و دماغ پر عصبیت غالب رہے اور زبان پر لاحاصل اختلافی بحثیں ہی رہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مدرسہ میں اس طالب علم کی مطلوبہ تربیت نہیں ہو سکی ہے۔ اسی طرح کالج و یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ کو آوارگی نے اپنے دامن فریب میں سمیٹ لیا ہو، وہ بے حیائی کے کاموں میں دلچسپی لیتا ہو، دنیا کی آسائش ہی اس کے پیش نظر ہو، دین سے بیزاری جھلکتی ہو تو ایسا اسٹوڈنٹ بھی سماج کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔ایسے طلبہ سے مثالی امت کی تعمیر ممکن نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے ان کے رفاہی کام قابل تحسین ہوں، ان کی علمی و تحقیقی کاوشوں سے انسانیت کو فائدہ پہنچے لیکن ایسے طلبہ و فارغین کی جماعت نہ تو اسلام کی صحیح معنوں میں نمائندگی کر سکے گی اور نہ ہی اسلام کی حقانیت ان کے ذریعے لوگوں تک پہنچ سکے گی بلکہ وہ موڈرن اسلام، یا لبرل ازم سے متاثر نظریہ حیات کی ترجمانی کرتے نظر آئیں گے جو سماج میں ناسور بن کر رہے گا۔ جن سے اسلام کے متعلق نہ صرف اپنے لوگوں کے دل میں ہی شکوک وشبہات جنم لیں گے بلکہ دوسروں کو باتیں بنانے کا بھی موقع ملتا رہے گا۔
ہماری کاوشوں کا ثمر اس وقت ملے گا، ہمارے علمی منصوبے اس وقت کامیاب ہوں گے جب ہمیں مدارس سے ایسے فارغین ملیں جو تعصب و تنگ نظری سے پاک ہوں، جو دوسروں کی آراء کے قدر داں ہوں، جو اختلافات میں الجھاتے نہ ہوں، جو مکمل اسلام کا ضابطہ حیات پیش کرنے پر قادر ہوں، جو اسلامی مراجع سے استفادہ کرتے ہوں اور اپنی وسعت نظری سے صحیح اسلام کی ترجمانی کرتے ہوں، جن کے دم سے مسالک نہیں مذہب اسلام پروان چڑھے۔ ہم اپنی جہد مسلسل میں اس وقت کامیاب کہلائیں گے جب ہمارے کالجز اور یونیورسٹیوں سے ایسے اسٹوڈنٹس تیار ہوں جو اپنے موضوع وسبجیکٹ پرقابل داد گرفت رکھتے ہوں اور ان کی سوچ اسلامی فکر کی عکاسی بھی کرتی ہو۔ اگر ہم ایسے فارغین تیار کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ ایک مستقل حل ہوگا۔ ان کے ہوتے ہوئے امت مسلمہ کا علمی معیار کبھی زوال کا شکار نہیں ہوگا لیکن صرف خیالات کی چادر تان لینے سے یہ جوہر و گوہر ہاتھ نہیں آئیں گے بلکہ ان کے لیے ایک منصوبہ بند کوشش کرنی ہوگی۔ نرسری و پرائمری سے لے کر کالجز تک متعینہ پیریڈس اسلامیات کے لیے رکھنا ہوگا جن کا نصاب ماہرین اسلامیات کی جماعت نے تیار کیا ہو اور وقتاً فوقتاً قرآنیات، سیرت، تاریخ و اسلامیات پر علماء و محقیقن کے لیکچرس کا اہتمام کرنا ہوگا اور ایک منصوبے کے تحت مختلف مواقع سے مختلف موضوعات پر پروگراموں کا سلسلہ جاری کرنا ہوگا۔
آخری بات۔۔۔
ایک خوشحال معاشرہ اور ترقی یافتہ امت کبھی بھی صلاحیت مند افراد سے خالی نہیں ہوتے۔ ہر محاذ و ہر علمی و عملی میدان میں اس کی نمائندگی کرنے والے قائدین و رہنما موجود ہوتے ہیں۔ لیکن ان کا نزول آسمان سے نہیں ہوتا ہے وہ اسی سماج کے درمیان میں سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ بس ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ تصنیف رجال کا کام کرنے والے مربی سامنے آئیں اور انفرادی واجتماعی طور پر اپنے فرض کی ادائیگی میں لگ جائیں۔ سائنس کی ترقی نے ان گنت علمی محاذ کھول دیے ہیں اور ہر میدان میں ہمارے نمائندوں کا ہونا ضروری ہے تب ہی جا کر ہم علمی ترقی کا دعویٰ کرنے کے اہل ثابت ہوں گے۔لیکن علوم کی دوڑ میں اسلامیات کا موضوع ہم سے نہ چھوٹ جائے کہ یہی ہماری پہچان ہے یہی ہماری شناخت ہے اور مدارس ان کا سرچشمہ ہیں۔
***

ایک خوشحال معاشرہ اور ترقی یافتہ امت کبھی بھی صلاحیت مند افراد سے خالی نہیں ہوتے۔ ہر محاذ و ہر علمی و عملی میدان میں اس کی نمائندگی کرنے والے قائدین و رہنما موجود ہوتے ہیں لیکن ان کا نزول آسمان سے نہیں ہوتا ہے وہ اسی سماج کے درمیان میں سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ بس ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ تصنیف رجال کا کام کرنے والے مربی سامنے آئیں اور انفرادی واجتماعی طور پر اپنے فرض کی ادائیگی میں لگ جائیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 4 اپریل تا  10 اپریل 2021