مصر میں فوجی بغاوت کے سات سال

مخالفین کو پابند سلاسل کیا گیا اور میڈیا کو آداب آمریت سکھائے گئے

ڈاکٹر رضوان رفیقی ، نئی دلی

 

قارئین کو یاد ہوگا کہ سات سال قبل 3؍جولائی 2013 کو جنرل سیسی نے مصر کے پہلے منتخب عوامی صدر ڈاکٹر محمد مرسی کے خلاف فوجی بغاوت کرکے مصر کو دوبارہ ڈکٹیٹر شپ کےاندھے کنویں میں دھکیل دیا تھا ‏، جنرل سیسی 3؍ جولائی کی شام مصری ٹیلی ویژن پر اپنے فوجی وردی میں نمودار ہوئے ،ان کے ایک طرف شیخ الازہر احمد طیب تھے اور دوسری طرف پاپائے اسکندریہ تواضروس ثانی تھے اور آس پاس دیگر فوجی ودینی شخصیات تھیں۔ ان نام نہاد شخصیات کی موجودگی اور عالمی استعمار کی تائید سے جنرل سیسی نے عوام کے ووٹوں سے منتخب پہلے جمہوری صدر کو اقتدار سے بے دخل کیا جو مصری قوم کی تقدیر بدلنے کا خواہاں تھا‏۔ جنرل سیسی نے سب سے پہلے مصری دستور کو معطل کیا اور تمام اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لے لیا‏۔ اپنی اس تقریر میں انہوں نے مصری عوام کو خوب سبز باغ دکھائے ‏اور سات سال کے اس طویل دورانیے میں اپنے ان دعوؤں کا اعادہ کرتے رہے کہ اب مصر امّ الدنیا کی عملی تعبیر بننے جارہا ہے اور کبھی یہ کہ مصر کی تقدیر بدلنے جارہی ہے۔ کل کا مصر گزشتہ کل کے مصر سے بالکل مختلف ہوگا ۔ لیکن مصرکی زمینی صورت حال سیسی کے ان دعوؤں اور وعدوں کی قلعی کھولتی رہی اور قرضوں میں بے تحاشا اضافہ ملک کی معاشی صورت حال کی چغلی کھاتا رہا ہے‏۔
فوجی انقلاب کے شروع میں جنرل سیسی نے کوشش کی کہ وہ دنیا کو یہ دکھائیں کہ مصر کے ہر طبقے کی نمائندگی اور تائید ان کو حاصل ہے اور مختلف مواقع پر اس کا اظہار بھی ہوتا رہا مگر جوں جوں اقتدار پرجنرل سیسی کی گرفت مضبوط ہوتی گئی، وہ بغاوت کے جرم میں شامل شرکاء سے گلو خلاصی کرتے رہے۔ جن لوگوں نے مرسی کو بے دخل کرنےمیں سیسی کا ساتھ دیا تھا سات سال بعد یا تو اب جیل کی ہوا کھا رہےہیں یا پھر گوشہ گم نامی میں اپنےآخری ایام گن رہےہیں یا پھرانہوں نے کسی دوسرے ملک میں سیاسی پناہ لے لی ہے ‏۔ سیسی نے اپنی سیاسی باری کی ابتداء فوج کی مدد سے کی ‏ اور ان کو ہر جگہ بھر پور نمائندگی دی ،جب مصری دستور میں ترمیم کا مرحلہ آیا تو پچاس رکنی دستوری کمیٹی میں اپنے من پسند ریٹائرڈ جنرلوں کو جگہ دی اس کے بعد عبوری صدر عدلی منصور کے ذریعے زمامِ اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کی۔ بغاوت کے وقت اپنے پہلے خطاب میں سیسی نے وعدہ کیا کہ وہ چھ ماہ کے اندر انتخابات کو مکمل کرادیں گے اور یہ کہ ان کا اس انتخاب کا حصہ بننے کا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وہ صدارتی امیدوار بنے اور امیدواری کے وقت بھی سیسی نے اپنی فوجی وردی کو خیرآباد نہیں کہا جو ایک واضح پیغام تھا کہ وہ فوج میں مداخلت سے دست بردار نہیں ہوسکتے جس طرح مصری فوج وہاں کے سیاسی معاملات میں مداخلت سے دست بردار نہیں ہوسکتی ‏۔ پہلے انتخاب میں سیسی کو یہ توقع تھی کہ فوج سے کوئی ان کے سامنے حریف کی حیثیت میں نہیں آئے گا بلکہ فوج اس کی پشت پر کھڑی ہوگی ‏۔لیکن انہیں اسی وقت یہ احساس ہوگیا تھا کہ پانچ سال بعد 2018 میں جب وہ دوبارہ انتخاب کے لیے میدان میں ہوں گے تو انہیں فوج کے اندر اور باہر سے سخت چیلینجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لہذا جنرل سیسی نے اپنے راستے سے متوقع حریفوں کو ہٹانے میں اپنی مصلحت سمجھی، جس کے شکار سابق فوجی جنرل احمد شفیق اور سامی عنان بھی ہوئے ۔
مصرمیں سیسی حکومت کے سات سال کا اگر تجزیہ کیا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہےکہ مصر اس وقت اپنے تاریک ترین دورسے گزر رہا ہے ‏۔مصری معیشت کی حالت انتہائی دگرگوں ہے ‏۔ صدر مرسی کےزمانے میں ایک ڈالرکے مقابلےمیں مصری جنیہ (پاؤنڈ) کی قیمت جہاں چھ ڈالر تھی تو وہ اب گر کر ایک ڈالرکے مقابلے سولہ پاؤنڈ سے زائد ہوچکی ہے ‏۔ جب سیسی نے مصرکے اقتدار پر قبضہ کیاتھا تو اس کے اوپرچھیالیس (46) ارب ڈالر کا قرضہ تھا جو اب بڑھ کر تقریبا ایک سو تیرہ (113) ارب ڈالر ہوچکا ہے ‏۔ تعلیم کے میدان میں مصر اب پچھلے پائیدان کی طرف سرک رہا ہے ، دہشت گردی پر لگام لگانے کے نام پر اخوان المسلمون سے وابستہ لوگوں کی تصنیف کردہ کتابیں پہلے مرحلے میں قابل جرم قرار پائیں اور لائبریریوں اور کتب خانوں سے ان کو نکالا گیا۔ اس کے بعدامام ابن تیمیہ ؒ اور اوردیگر قدیم علماء کی کتابوں پر اس کی گاج گری اور اب تو درسیات پر نظر ثانی کےنام پر قرآن کی ان آیتوں کو خارج از نصاب کیا جا رہا ہے جو” بقائے باہم اور قومی یک جہتی "کے لیے خطرہ ہیں یا یہودیوں کی کارستانیوں کو کھول کھول کر بیان کرتی ہیں‏۔ تعلیم کو اب پرائیوٹائزیشن کی بھینٹ چڑھایا جارہاہے ‏۔ عربی کے بجائے انگریزی، تعلیم وتعلم کی زبان بنتی جارہی ہے اور اس کی سرکاری سرپرستی بھی ہورہی ہے ‏، کیونکہ ایسے اداروں کے مالکان فوج کے سابقین ہیں جو اس کی یافت سے فیض یاب ہورہےہیں ‏۔ قاہرہ کے ایک پرائیویٹ اسکول کی سالانہ فیس دس ہزار ڈالرسے متجاوز نکلی جس پر سوشل میڈیا میں خوب ہنگامہ آرائی ہوئی مگر مصری الکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں یہ موضوع بحث نہ بن سکا ۔ ماضی قریب تک مصر عالمی سطح پر مشرق وسطیٰ کی علمی و سیاسی قیادت کرتا رہا ہے، مگر اس دورانیے میں مصر اپنے اس کردارسے بھی محروم ہوتا دکھائی دے رہا ہے‏۔ ایتھوپیا کے ذریعے دریائے نیل پر ڈیم کی تعمیر سے مصر اپنے آپ کو ٹھگا ہوا محسوس کررہا ہے لیکن اس منصوبے پر قدغن لگانے کا اپنے اندر حوصلہ بھی نہیں پارہا ہے ‏۔ خلیج کی بعض چھوٹی ریاستیں بھی مصر کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کررہی ہیں، جس سے اس کا قائدانہ کردار بری طرح مجروح ہوا ہے۔ فلسطین کے تعلق سے سیسی کے دور اقتدارمیں مصری موقف میں انقلاب معکوس کی کیفیت نظر آتی ہے۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی ہمواری کے لیے مصر پیش پیش نظر آتا ہے اور صدی کی ڈیل میں رنگ بھرنےمیں مصری کردار بہت نمایاں ہے۔ اسرائیل کے حق میں اس اہم مصری کردار کو قاہرہ میں تعینات اسرائیلی سفیر اسحاق لیوانون نے اس طرح بیان کیا کہ ’’مصری صدر عبد الفتاح سیسی مصری عوام میں اسرائیل کی شبیہ بہتر بنانے میں قابل تعریف کردار ادا کررہےہیں ان کی ان کوششوں کے نتیجے میں مصر اور اسرائیل کے درمیان پائی جانے والی خلیج میں کمی واقع ہوگی اور دونوں ملکوں کے عوام میں ہم آہنگی اور یگانگت پیدا ہوگی‘‘ اسرائیلی سفیر نے یہ بیان اس وقت دیا جب ان سے مغربی کنارہ کے اسرائیل کے انضمام کے بارےمیں استفسار کیا گیا کہ اس پر مصر کا کیا ردِّ عمل ہوگا ‏۔ اسرائیلی سفیرکے اس بیان سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مشرقِ وسطی کے سب سے اہم مسئلہ میں مصر نے کس طرح اپنے قائدانہ رول کو ٹھیس پہنچائی ہے ۔ حقوق انسانی کی صورت حال سیسی کے دورِاقتدار میں بری طرح سے داغ دار ہوئی ہے اور جمہوری آوازوں کو دبانے کے لیے جنرل سیسی نے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے ہیں ‏۔ اس وقت مصر کی جیلیں اسّی ہزار (80,000) سے زائد سیاسی قیدیوں سے بھری پڑی ہیں‏ اورانہیں مسلسل ذہنی و جسمانی تشدد کا شکار بنایا جا رہا ہے‏۔
مرسی کے دور میں مصری میڈیا کو جو آزادی حاصل تھی سیسی کے دور میں وہ ناپید ہوگئی ہے ‏۔ میڈیا کی نگرانی اور اور ان کا محاسبہ کرنے کے لیے جنرل سیسی نے اپنے خاص آدمی عباس کامل کو یہ ذمہ داری دے رکھی ہے کہ وہ میڈیا کو ڈکٹیٹرشپ کے آداب سکھائے اور انہیں اپنے حدود میں رہنے کا ہنر بھی۔ اس وقت مصر کے بڑے ٹی وی چینلس اور اخبارات مکمل سرکاری تحویل میں ہیں جو جنرل سیسی اور ان کی حکومت کے سامنے سؤال پوچھنے کی جرأت نہیں کرسکتے ‏جس میں الحیات، النھار، سی بی سی اور ڈی ایم سی خاص ہیں۔ اسی طرح روز ناموں میں ’’الیوم السابع اور الدستور‘‘ مکمل طور سے حکومت کے ترجمان بنے ہوئے ہیں۔ سرکاری فرمان سے اب تک پانچ سو (500) سے زائد ویب سائٹ کو بند کیا جا چکا ہے جن کے ایڈیٹروں نے اپنے حدود سے تجاوز کرنے کی جسارت کی تھی‏۔
عرب بہاریہ سے مصری عوام کو آزادئ رائے، خوش حالی و فارغ البالی کا جو ٹھنڈا جھونکا محسوس ہوا تھا وہ ایک سال بعد ہی اپنوں کی نادانیوں اور غیروں کی مکّاریوں کی بھینٹ چڑھ گیا ۔ آگے یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا قحط سالی کے سات سال گزرنے کے بعد مصری قوم دوبارہ فارغ البالی کے سات سال کا دیدار کرپائے گی یا نہیں؟
(مضمون نگار اسلامی اکیڈمی ،نئی دہلی کے جنرل سکریٹری ہیں)