محنت کشوں کا درد اور پی ایل ایف ایس کی بازیگری

بے روزگاری کے سرپٹ دوڑتے گھوڑے سے آنکھیں چرارہی ہے حکومت

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

 

حالیہ دنوں میں پریاڈک لیبر فورس سروے (پی ایل ایف ایس) جولائی 2019تا جون 2020کا ڈیٹا جو مرکزی حکومت نے شائع کیا ہے اس میں وضاحت کی گئی ہے کہ معیشت میں بدترین تنزلی کے وقت بھی لیبر فورس کی شراکت کی شرح بہت زیادہ اور تشفی بخش ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز انکشاف ہے کیونکہ سال بہ سال روزگار کی جستجو میں لیبر فورس کی تعداد میں اضافہ ہی ہورہا ہے مگر روزگار ندارد۔ یہ ایک ایسے سال کے اعداد وشمار ہیں جس میں شرح نمو بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ اس دعویٰ کو سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی (سی ایم آئی ای) کا سروے جھٹلارہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ طریقہ کار میں واضح فرق سے حکومت کے لیے ایسا کرنا ممکن ہوا ہو۔ عالمی پیمانہ جسے سی ایم آئی ای اپناتی ہے وہ ہفتہ واری روزگار سے منسلک ہے۔ مگر دوسرا طریقہ کار جسے حکومت نے اپنایا ہے وہ سروے کے پہلے 365دنوں کے روزگار سے جڑا ہوا ہے۔ محنت کشوں کا جواب دونوں سروے میں مختلف آتا ہے۔ مثلاً ایک مزدور جو گزشتہ ایک سال میں روزگار سے جڑا تھا مگر درمیان میں اس کی چھٹی ہوگئی اسے Usual Status(یو ایس) طریقہ کار سے روزگار والا سمجھا جاتا ہے۔ مگر وہ Current Weekly Status(سی ڈبلیو ایس) طریقہ کار سے وہ بے روزگار ہی رہے گا۔ اس طرح سے بھارت کے کم لیبر فورس پارٹیسیپشن ریٹ (ایل ایف پی آر) سے واضح ہوتا ہے کہ کام کی جستجو میں آنے والے بہت کم محنت کش روزگار سے لگے۔ بڑھتی اور آسمان کو چھوتی بے روزگاری سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ بڑی تعداد میں کام کی تلاش میں آئے مگر کم ہی کو روزگار ملا جس نے ہماری معاشی پستی کو اور بھی واضح کردیا۔ اس طرح کا انحراف اعداد وشمار میں یو ایس طریقہ کار کو استعمال میں لانے سے ہوا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ کورونا وبا کے دوران بہت سارے کاروباریوں اور تاجروں کو اپنی آمدنی میں بڑے پیمانے پر نقصان اٹھانا پڑا اور وہ لوگ ایسے حالات میں محنت کشوں کی صف میں شامل ہونے پر مجبور ہوئے۔ اس طرح لیبر فورس کی شرح شمولیت بڑھی۔ اس سے بے روزگاروں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا۔ اس طرح یو ایس طریقہ کار سے شرح بے روزگاری (یو ای آر) 5.8فیصد سے کم ہوکر 2018-19اور 2019-20میں 4.8فیصد رہ گئی۔ لیکن یو ای آر سی ڈبلیو ایس پیمائش سے دو سالوں میں لگاتار 8.8فیصد رہی۔ ماہرین کی اکثریت کا ماننا ہے کہ سی ڈبلیو ایس کے ذریعہ ناپا گیا یو ای آر ہی صحیح ہے کیونکہ یہ موجودہ شرح بے روزگاری کو دکھاتا ہے نہ کہ گزشتہ سال کے احوال کو؟ اگرچہ حکومت کے ذریعہ پیش کردہ اعداد وشمار بہت دلفریب ہیں جو حکومت کو ہی دھوکے میں رکھنے والے ہیں۔ ویسے بھی ہماری حکومت غلط اعداد وشمار کی بازیگری میں کافی ماہر ہے۔ مگر ملکی معیشت کی ترقی کے لیے زہر ہلاہل ہے اس ناکامی پر بھی ہماری حکومت اپنی کامیابی کی ڈفلی بجاتی آرہی ہے۔ اب حکومت سرمایہ دارانہ نظام کے قیام میں زیادہ ہی متحرک ہے۔ کیونکہ ہندوتوادی حکومت کا ماننا ہے کہ جب ان کے پاس سرمایہ دار ہوں گے تو ان کا اقتدار پر براجمان رہنا آسان ہوگا کیونکہ وہی سرمایہ دار ان کو سیاسی فنڈنگ کرتے ہیں۔ جس سے بے دریغ پیسہ بہاکر ان کو الیکشن جیتنے میں مدد ملتی ہے۔ اگر کسی وجہ سے ہار بھی ہوگئی تو منتخب قانون سازوں کو خرید کر حکومت بنائی جاسکتی ہے اس طرح سرمایہ دار حکومت اپنی سہولت سے قانون سازی کرواکر اپنی تجارت کو خوب فروغ دے سکتے ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جان بوجھ کر پونجی وادی اور بکاو میڈیا ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی کے مسلئہ پر بات نہیں کرتا۔
بے روزگاری کا موجودہ بحران ملک کی تاریخ میں سب سے زیادہ نمایاں ہے حالیہ پی ایل ایف ایس کا ڈیٹا بے روزگاری پر جھوٹ کا پلندہ ہے۔ حکومت ملک کے باشندوں کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کررہی ہے جبکہ ملک میں بے روزگاری کا گراف پینتالیس سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ لیبر فورس کی مشغولیت اور روزگارکی شرح تین سالوں میں بہتر ہوئی ہے جب کہ کورونا کی لہر نے ملک کی معیشت کو تباہ کردیا اور کروڑوں کی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوگئے۔ موجودہ ڈیٹا میں ان لوگوں کے روزگار سے محرومی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ حکومت کی طرف سے بے روزگاری پر یہ پہلی رپورٹ ہے۔ حکومت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ بے روزگاری کورونا وبا سے پہلے بھی اونچائی پر تھی اور کورونا قہر کے بعد ایل ایف پی آر اور شرح بے روزگاری کی حالت مزید ابتر ہوئی ہے کیونکہ اس دوران ملکی معیشت سب سے خراب دور سے گزر رہی تھی لہٰذا بے روزگاری میں بہتری کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟ 2019-20میں معاشی شرح نمومیں 4.2 فیصد تک گراوٹ آئی تھی اس لیے حالیہ پی ایل ایف ایس کا ڈیٹا ناقابل اعتماد ہے۔ جولائی تا ستمبر 2019میں ایل ایف پی آر 36.8فیصد تھی جو کچھ بہتر ہوکر اگلے سہ ماہیوں میں بالترتیب 37.2فیصد اور 37.5فیصد ہوئی لیکن آخری سہ ماہی اپریل تا جون میں 35.9 فیصد ہوگئی جو پہلی سہ ماہی سے 0.9فیصد کم تھی۔ اس وقت شرح بے روزگاری بالترتیب 8.4فیصد، 7.9فیصد،9.1 فیصد اور 20.9 ہوگئی ۔ان اعداد وشمار سے بے روزگاری میں مزید ابتری ہی دکھائی دیتی ہے ۔ مذکورہ چاروں سہ ماہیوں میں 15تا 19سال کے نوجوانوں میں شرح بے روزگاری بالترتیب20.6 ،19.2،21.1اور37.7فیصد رہی ہے۔ کیونکہ اسی دوران کورونا وبا نے زور دار دستک دی۔ اس وقت 24مارچ 2020 میں سخت ترین لاک ڈاون لگ گیا۔ ایسے حالات میں شرح بے روزگاری 9.1فیصد تھی اور ایل ایف پی آر 375فیصد تھی اور مئی 2020میں 23.5فیصد شرح بے روزگاری ہوگئی۔ اس کے بعد اعداد وشمار جنوری2021تک ماہانہ بنیاد پر تغیر پذیر ہی رہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک ماہ لوگوں کو روزگار ملا مگر دوسرے ہی مہینے میں وہ بے روزگار ہوگئے۔ 2021کی شروعات سے ہی صورتحال بگڑتی چلی گئی۔ سی ایم آئی ای کے ڈیٹا کے حساب سے شرح بے روزگاری جنوری میں 6.52فیصد تھی جو اپریل اور 9مئی میں بالترتیب 7.9فیصد اور 8.20فیصد ہوگئی۔ مئی 2021میں شرح بے روزگاری 11.9فیصد تک پہنچ گئی اور جون میں 9.17فیصد ہوگئی جو جولائی 23تک 7.26فیصد پر آگئی۔ 23جولائی تک شہری بے روزگاری 8.39فیصد تھی جبکہ دیہی شرح بے روزگاری کچھ کم یعنی 6.74فیصد رہی کیونکہ وہاں لوگوں کو منریگا نے روزگار مہیا کیا۔73.5لاکھ لوگ اپریل میں روزگار سے محروم ہوگئے۔ اس وقت محض 39کروڑ لوگ ہی جاب پر تھے۔ اپریل اور مئی 2021میں کل روزگار سے 2کروڑ 27لاکھ لوگ محروم کردیے گئے۔ 27جون 2021کے اخیر تک ایل ایف پی آر 39.6فیصد تھا جو 201920کے سی ایم آئی ای کے ڈاٹا کے حساب سے ایل ایف پی آر 42.7فیصد تھا جو اوسط سے بہت کم ہے۔
معیشت کی بہتری کے لیے اب بہت ضروری ہے کہ اسٹیٹسیکل سسٹم کو درست اور چست رکھا جائے۔ ابھی تک کوئی سرکاری ڈیٹا 2011-12 سے غربت پر اور 2013سے زرعی آمدنی پر نہیں آیا ہے۔ اس طرح حالیہ مہاجر مزدوروں کے کوئی اعداد وشمار نہیں آئے ہیں جبکہ خریداروں کے اخراجات پر اعداد وشمار 2017-18میں تیار ہونے کے باوجود شائع نہیں کیے جاسکے اور نہ ہی کاشتکاروں کے احوال و کوائف ہی کو عام کیا گیا جبکہ یہ کام پی ایل ایف ایس کے قبل ہی 2019میں مکمل کرلیا گیا تھا۔ اس کا تھوڑا سا حصہ حالیہ شائع شدہ پی ایل ایف ایس میں سامنے آیا ہے جس سے زراعت سے آمدنی اور اس کے اخراجات کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہاں بھی شفافیت کا فقدان ہے۔ پی ایل ایف ایس سے قبل نیشنل سیمپل سروے ایمپلائمنٹ اور ان ایمپلائمنٹ سروے میں بہت ساری تفصیلات آگئی تھیں۔ آخر پی ایل ایف ایس میں اتنی خامیاں کیونکر رہ گئیں کہ زراعت پر کیے گئے اخراجات اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کے ٹھیک ٹھیک اعداد وشمار حاصل ہوجاتے ہیں؟ یہ بھی حقیقت ہے کہ صحیح اعداد وشمار کے حصول میں وقت اور محنت اور اخراجات زیادہ ہی لگتے ہیں جو صحیح اور بروقت پالیسی سازی کے لیے زیادہ مفید ہے۔ روزگار میں فروغ اور محنت کشوں کو سماجی سلامتی مہیا نہ ہوتو ایسی ترقی کافی نہیں ہے۔ اگر اس کو وقت کے رہتے درست کرنے کی کوشش نہیں کی گئی تو بے روزگاری پر نکیل کسنے اور معاشی وسماجی ترقی کے حصول میں بڑی رکاوٹ ہوگی۔
***

حکومت ملک کے باشندوں کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کررہی ہے جبکہ ملک میں بے روزگاری کا گراف پینتالیس سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ لیبر فورس کی مشغولیت اور روزگارکی شرح تین سالوں میں بہتر ہوئی ہے جب کہ کورونا کی لہر نے ملک کی معیشت کو تباہ کردیا اور کروڑوں کی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوگئے۔ موجودہ ڈیٹا میں ان لوگوں کے روزگار سے محرومی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ حکومت کی طرف سے بے روزگاری پر یہ پہلی رپورٹ ہے۔ حکومت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ بے روزگاری کورونا وبا سے پہلے بھی اونچائی پر تھی اور کورونا قہر کے بعد ایل ایف پی آر اور شرح بے روزگاری کی حالت مزید ابتر ہوئی ہے کیونکہ اس دوران ملکی معیشت سب سے خراب دور سے گزر رہی تھی لہٰذا بے روزگاری میں بہتری کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 اگست تا 21  اگست 2021