مجھے دوبارہ غیر قانونی طور پر نظربند رکھا گیا ہے: محبوبہ مفتی

سرینگر، دسمبر 8: جموں وکشمیر کی سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے الزام لگایا ہے کہ انھیں سری نگر میں واقع ان کی رہائش گاہ پر غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے اور انھیں باہر جانے کی اجازت نہیں ہے۔

مفتی کو انتظامیہ کے ذریعے روشنی ایکٹ ختم کرنے کے بعد لوگوں سے ملنے کے لیے بڈگام کے علاقے کا دورہ کرنا تھا، جنھیں ان کی زمینوں اور گھروں سے بے دخل کیا جارہا ہے۔ پولیس اور سول افسران نے سیاست دان کی نظر بندی کے لیے ’’اعلی حکام‘‘ کے احکامات کا حوالہ دیا۔

مفتی نے ایک ٹویٹ میں لکھا ’’غیر قانونی نظربندیاں کسی بھی طرح کی مخالفت کو دبانے کے لیے حکومت ہند کی پسندیدہ حکمت عملی بن چکی ہیں۔ مجھے ایک بار پھر حراست میں لیا گیا ہے کیوں کہ میں بڈگام جانا چاہتی تھی جہاں سیکڑوں خاندانوں کو گھروں سے بے دخل کردیا گیا ہے۔‘‘

انھوں نے کہا کہ مرکزی حکومت بغیر کوئی سوال سنے ’’جموں و کشمیر کی عوام پر ظلم و ستم‘‘ کرنا چاہتی ہے۔

یہ گذشتہ 10 دن میں دوسرا موقع ہے جب حکام کے ذریعہ مفتی کی نقل و حرکت کو مبینہ طور پر روک دیا گیا ہے۔ 27 نومبر کو بھی مفتی نے کہا تھا کہ انھیں ’’پھر سے غیر قانونی طور پر نظربند کیا گیا‘‘ ہے اور دو دن تک انھیں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی یوتھ ونگ کے صدر وحید پرّا کے اہل خانہ سے ملنے سے روک دیا گیا۔ نوجوان رہنما کو معطل جموں و کشمیر کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس دیویندر سنگھ سے متعلق دہشت گردی کے ایک مقدمے میں گرفتار کیا گیا تھا۔

تاہم جموں و کشمیر پولیس نے اس سے انکار کیا تھا کہ مفتی کو نظربند رکھا گیا تھا اور کہا تھا کہ ان سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ پلوامہ کا دورہ ’’مکمل طور پر سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر‘‘ ملتوی کریں۔

واضح رہے کہ مفتی کو 13 اکتوبر کو ایک سال سے زیادہ عرصے کے بعد نظربندی سے رہا کیا گیا تھا۔ وہ 5 اگست 2019 سے عوامی تحفظ ایکٹ کے تحت نظربند تھیں۔