بہار میں موجودہ حکومت بیساکھوں کے سہارے بہت ہی کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے — اخترالایمان

اخترالایمان کی بہار کی سیاست میں ہمیشہ سے ایک الگ شناخت رہی ہے۔ وہ مسلمانوں کے غم خوار، مظلوموں کے ہمدرد، دلتوں کے دوست، ہرظلم پر سوال کرنے والے، ظالموں کو آنکھیں دکھانے والے اور سب سے اہم ایوان اسمبلی میں آئینی حقوق کی بازیابی کے لیے گرجنے والے لیڈر کے طور پر پہچانے جاتے رہے ہیں۔ اپنی اسی خاص پہچان کے ساتھ راشٹریہ جنتادل کے ٹکٹ پر پہلی بار 2005 میں اسمبلی پہونچے۔ اگلے الیکشن میں بھی جیت درج کی۔ اس طرح تین بار رکن اسمبلی رہے۔ 2014 میں انہوں نے آر جے ڈی چھوڑ کر جنتاد ل یونائٹیڈ جوائن کیا اور پارٹی نے انہیں کشن گنج سے لوک سبھا کا امیدوار بنایا، لیکن پرچۂ نامزدگی کے بعد بھی اختر الایمان نے مولانا اسرارالحق قاسمی کی جیت کے خاطر یہ کہتے ہوئے خود کو مقابلے سے الگ کرلیا کہ ہم نے یہ قربانی گجرات کے دنگائیوں کو روکنے اور سیمانچل میں امن وسلامتی برقرار رکھنے کے لیے دی ہے۔ کیوں کہ ان کا ماننا تھا کہ ان کے میدان میں رہنے بھر سے مسلم ووٹ تقسیم ہوجائے گا، ایسے میں بی جے پی کی کشن گنج سے جیت ہوسکتی ہے۔ اور پھر مسلم قیادت کے سوال پر بہار میں مجلس کی کمان سنبھال لی اور اس اب چوتھی بار بہار اسمبلی کے رکن ہیں۔

اخترالایمان آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (مجلس) کی بہار یونٹ کے سربراہ ہیں۔ بہار میں مجلس کو لانے اور اس کی زمین ہموار کرنے کا سارا سہرا انہی کے سر جاتا ہے۔ انہی کی دعوت پر اسدالدین اویسی پہلی بار 16 اگست 2015 کو کشن گنج کے روئی دھانسا میدان میں منعقد ’کرانتی کاری جن ادھیویشن‘ میں پہونچے تھے۔ یہ پروگرام بہار کی ‘سماجی انصاف فرنٹ’ نامی تنظیم کے ذریعے منعقد کیا گیا تھا، جس کے اصل روح رواں اخترالایمان تھے۔

ہفت روزہ دعوت نے مجلس کے اس لیڈر سے بہار کی سیاست اور آگے ان کی پارٹی کے لائحۂ عمل کے سلسلے میں تفصیلی گفتگو کی۔ پیش ہے یہاں افروز عالم ساحل کے ذریعے اخترالایمان سے اس خاص انٹرویو کے چند اقتباسات:

لفظ ’ہندوستان‘ سے آپ کو دقت کیا ہے؟

مجھے ’ہندوستان‘ سے کوئی دقت نہیں ہے، لیکن آئین مخالف اور ملک کو ’ہندو استھان‘ بتانے والے لوگوں سے دقت ضرور ہے۔ انہیں لفظ ’ہندوستان‘ کا صحیح مطلب معلوم نہیں ہے۔ میں آپ کو بتادوں کہ چوں کہ میں ایک آئینی عہدے پر ہوں اور مجھے آئین و دستور کی روشنی میں حلف لینا تھا۔ اور آئین کی کتاب میں ’بھارت‘ ہی لکھا ہوا ہے۔ اس میں ’ہندوستان‘ لفظ کہیں نہیں ہے۔ سرکاری سطح پر اردو کی جتنی کتابیں شائع ہوئی ہیں، اس میں بھی لفظ ’بھارت‘ کا ہی استعمال ہوا ہے۔ اس لیے مجھے لگا کہ جو آئین کی زبان ہے، جس لفظ کو ہمارے آئین ساز بزرگوں نے طویل بحث کے بعد طے کیا، اسی لفظ کا استعمال میرے حلف میں ہونا چاہیے۔ مجھے لفظ ’ہندوستان‘ سے نہ کوئی نفرت ہے اور نہ کوئی اعتراض۔ لیکن مجھے تعجب ہے تو اس بات پر ہے کہ جو بھارتیہ جنتا پارٹی ’اکھنڈ بھارت‘، ’مہابھارت‘، ’بھارت کی سنسکرتی‘ کی بات کرتی ہے، ان کو میرے بھارت بولنے سے پریشانی کیوں ہے؟ ان کے پیٹ میں اینٹھن کیوں ہوئی؟       

یہ بات ہفت روزہ دعوت کے سامنے آئی ہے کہ حلف برداری کے وقت جو اردو ترجمہ دیا جاتا ہے، اس کا فونٹ کافی قدیم زمانے کا ہے، کیا یہ سچ ہے؟

بالکل، وہ جنات کی تحریر لگتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج سے سو سال پرانی مولانا آزاد کی ٹائپ رائٹنگ والی جو مشین تھی، اسی سے اسے ٹائپ کیا گیا ہے۔ اور یہ شرارت جان بوجھ کر کی جاتی ہے۔ آپ دوسری زبانوں میں حلف کی تحریر کو دیکھے تو وہ جدید فونٹ میں ہوتی ہیں۔ لیکن اردو کی تحریر کافی قدیم فونٹ میں ہوتی ہے جسے جناتی تحریر کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ دراصل یہ اردو زبان کے ساتھ عدم توجہی اور سرکاری سوتیلےپن کا ثبوت ہے۔

باوثوق ذرائع کے مطابق مجھے معلوم ہوا ہے کہ لالو پرساد یادو نے آپ کو کال کیا تھا؟

جی! انہوں نے مجھ سے اور پارٹی کے مرکزی لیڈر سے بات کرنے کی کوشش کی تھی۔ ہم لوگوں نے کہا کہ صاحب! آپ حکومت بنانے لائق اعداد و شمار مکمل کر لیں گے تو ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ہمارے پانچوں رکن اسمبلی آپ کے ساتھ کھڑے نظر آئیں گے۔

کیا آپ کو مستقبل میں ایسا کوئی امکان نظر آتا ہے کہ ’مہاگٹھ بندھن‘ حکومت بنا پائے گی؟

بہار میں اور ملک میں غیرمنصفانہ سیاست کے رد و بدل میں کوئی منصفانہ سیاست اور سیکولر طاقت کھڑی ہوتی ہے تو اس کی مدد کی جانی چاہیے۔

آپ کو امید ہے کہ ایسا ممکن ہے؟

بہار میں موجودہ حکومت بیساکھوں کے سہارے پر ہے اور بہت ہی کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے۔ کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ اگر مفاد کی سیاست چھوڑ اصول پسندی پر کچھ لیڈران آ جائیں تو موجودہ حکومت زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ پائے گی۔

زیادہ تر مسلم لیڈران کے جانب سے بھی یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ آپ کی پارٹی ملک کے سیکولرزم کے لئے خطرہ ہے۔اس پر آپ کا کیا کہنا ہے؟

خطرہ سیکولرزم پر نہیں، ان کے خود کے وجود پر ہے۔ اور کچھ لوگوں کی پریشانی یہ ہے کہ ان کا جن سیاسی پارٹیوں سے الحاق ہے، وہاں اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لئے بھی مجلس کو گالی دے رہے ہیں، حالاں کہ ان کے خاندان کے لوگوں نے بھی ہماری حمایت کی ہے اور پس پردہ وہ لوگ بھی ہماری حمایت کرتے ہیں۔ لیکن انہیں اپنی پارٹی میں وفاداری ثابت کرانی ہے تو ایسے میں جب تک وہ ہماری مخالفت نہیں کریں گے، وفاداری کیسے ثابت کر پائیں گے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ دیر سویر انشااللہ بات ان کے بھی سمجھ میں آئے گی اور وہ لوگ بھی ہمارے ہم نوا ہوں گے۔ جو لوگ اس الیکشن کے درمیان ہماری مخالفت کر رہے تھے، اب ان کی طرف سے ہی ہمارے پاس مبارکباد کے پیغام آرہے ہیں، وہی لوگ ہمارے لئے اخبارات میں مضامین لکھ رہے ہیں اور ہمارے اقدام کو مناسب بتارہے ہیں۔

تلنگانہ میں آپ کی پارٹی عوام کے مسئلوں کو لے کر سڑکوں پر نہیں اترتی۔ لیکن بہار کی سیاست تو الگ ہے۔ تو کیا مرکزی قیادت سے اس بات کی اجازت ہے کہ آپ لوگ الگ الگ مدعوں پر سڑک پر بھی اترینگے اور عوام کے لئے لڑیں گے؟

گذشتہ دنوں کے واقعات اس بات کی گواہیں دیں گے کہ ہماری پارٹی سڑکوں پر اتری ہے۔ کیونکہ تلنگانہ میں پارٹی اتنی مضبوط اور مستحکم ہوگئی ہے کہ سڑکوں پر اترے بغیر ہی ایوان میں اپنی طاقت کے نتیجے میں بہت ساری باتیں منوا لیتی ہے، لیکن ضرورت پڑنے پر مظاہرے تو وہاں بھی ہوتے ہیں۔ سڑکوں پر اترنا، جلسہ کرنا، دھرنے دینا، ہڑتال کرنا، یہ سب جمہوری طریقۂ کار ہے، میں سمجھتا ہوں کہ وہاں حکومت کے جمہوری فیصلوں کے خلاف جو مظاہرہ ہوتا ہے، وہ کافی دمدار ہوتا ہے۔ اور ویسے بھی الگ الگ شہروں کا اپنا الگ مزاج ہوتا ہے۔

بہار میں آپ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کی جیت کو کیسے دیکھتے ہیں؟

ایک لمبے عرصے سے مسلم سیاسی جماعت کی بات اٹھتی رہی اور لوگ اس کی مخالفت بھی کرتے رہے اور وہ مخالفت اب بھی باقی ہے۔ بزرگوں اور دانشوروں کو یہ خدشہ ہے کہ ہمارے الیکشن لڑنے سے فرقہ پرست طاقتوں میں خواہ مخواہ ایک طرح کا اتحاد پیدا ہوجائے گا۔ لیکن میں سیمانچل کے عوام کو مبارکباد دیتا ہوں کہ یہاں کے لوگوں نے ہمارے بزرگوں اور دانشوروں کے اس اندیشہ کو ختم کیا۔ موجودہ وقت میں ہندوستان میں جو سیاسی منظرنامہ ہے، اس میں مسلمانوں کے درمیان دو طرح کے آپشن ہیں۔ یا تو وہ مبینہ سیکولر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر کام کریں دوسرے کچھ لوگ علاحدہ ہوکر کام کرنا چاہتے ہیں۔ دونوں تجربات کو سامنے رکھ کر لوگوں نے یہ کہا کہ کیرل، تلنگانہ اور ان دنوں آسام میں جو اشتراک کی سیاست پر عمل ہوا ہے وہ زیادہ مفید ہے۔ لیکن ہم ان پارٹیوں میں ضم ہوکر نہ رہ جائیں بلکہ اپنے وجود کو باقی رکھتے ہوئے اشتراک کی سیاست کریں تاکہ اپنے مطالبات کو بھی منوا سکیں۔ تو اس طرف لوگوں نے پہل کی ہے۔ ہم ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے اس پہل میں ہمارا ساتھ دیا ہے۔

آپ اشتراک کی سیاست کی بات کررہے ہیں، لیکن آپ کی پارٹی مسلم سیاسی پارٹیوں کے ساتھ اشتراک نہیں کرتی۔ بہار الیکشن میں بھی کئی مسلم سیاسی پارٹیاں تھیں، یوپی، مغربی بنگال اور آسام میں بھی مسلم جماعتیں ہیں۔ ان سے اشتراک نہیں کرتے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

میں اس بات کا گواہ ہوں بلکہ میرے سامنے ہی کئی لوگ آسام سے آئے اور آسام میں پارٹی کو آنے کو کہا، لیکن اسدالدین اویسی صاحب نے صاف طور پر کہا، نہیں صاحب! وہاں بدرالدین اجمل صاحب کام کررہے ہیں، اسلئے میں وہاں نہیں جاؤں گا، بلکہ بدرالدین بھائی کے لئے مجھے کام کرنے کی ضرورت پڑی اور ان کا حکم ہوگا تو میں ان کی تائید کے لئے ضرور جاؤں گا۔ جہاں تک بہار کی بات ہے تو میں آپ کو بتا دوں کہ میں نے خود بہار کی مقامی پارٹیوں سے بات کی اور جو باہر کی سیاسی جماعتیں تھیں، ان سے مرکزی لیڈران سے بات کرنے کی گذارش کی، لیکن انہوں نے بات کیوں نہیں کی، وہی بہتر جانتے ہیں۔ ہم لوگ تو چاہتے ہیں کہ مفاہمت کے ساتھ کام ہو۔         

تو مطلب یہ ہے کہ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین آسام نہیں جائے گی؟

بالکل، میرے سامنے اسدالدین اویسی صاحب نے کہا ہے کہ ہمیں وہاں بدرالدین بھائی کی مدد کرنی ہے۔ اس سے ان کے من کا اظہار ہی نہیں بلکہ یہ شہادت بھی ملتی ہے کہ ملت کے لئے جو سیاسی پارٹیاں کھڑی ہورہی ہیں، مجلس اس کی اعانت بھی کرے گی۔

اتر پردیش اور مغربی بنگال کی کیا تیاری ہے؟

اتر پردیش میں تو پارٹی پہلے سے ہی کام کررہی ہے۔ 38 سیٹوں پر گذشتہ الیکشن بھی لڑی تھی۔ اب ہمارے لیڈر وہاں بھی مفاہمت کی صورت نکالیں گے، جس طرح سے بہار میں نکالی گئی ہے۔ مغربی بنگال میں بھی اس بار جانے کی تیاری ہے، کیونکہ وہاں کی عوام کا کافی دباؤ ہے۔ وہاں کی عوام یہ چاہتی ہے کہ ہم ان کے حق کے لئے لڑیں۔

بہار میں آپ بہن مایاوتی کے ساتھ تھے، تو کیا اتر پردیش میں بھی یہ گٹھ بندھن قائم رہے گی یا نہیں؟

اگر اتر پردیش میں بہن جی نے ان لوگوں نے اشتراک نہیں کیا، جن سے ہمیں اعتراض ہے تو اشتراک ضرور ہوگا۔ ہماری مرکزی قیادت اس بارے میں ضرور سوچے گی۔ یوپی میں بھی اس طرح کا تجربہ ہونا چاہیے۔

بہار الیکشن میں اس بار سب سے زیادہ مسلم قیادت کی بات ہوئی اور سب سے زیادہ آپ کی ہی پارٹی نے کی، لیکن پچھلے الیکشن کے مقابلے اس بار مسلم رکن اسمبلی کم ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں؟

مسلم قیادت مبینہ سیکولر جماعتوں کے مسلم امیدواروں کے جیتنے سے نہیں بڑھے گی۔ مسلم قیادت مسلم مسائل اور مسلم فلاح کی بات کرنے والوں سے آگے بڑھے گی۔ پچھلے دنوں جو مسلم رکن اسمبلی تھے وہ مسلم اقلیت کی آواز بالکل بھی نہیں تھے۔ اگر یہ اقلیتوں کی آواز تھے تو پھر شہریت ترمیمی ایکٹ مخالف تحریک میں کہاں تھے؟ جب تین طلاق بل کے بہانے ہمارے شریعت پر حملہ ہوا تب کہاں تھے؟ جب وہ بول بھی نہیں پائے تو ان سے کیا امید کی جا سکتی ہے۔ اب کی بار ہم چند لوگ جیتے ہیں۔ لیکن سوال ہے کہ جو دیگر سیاسی پارٹیوں سے جیتے ہیں کیا وہ ملت کی آواز بن پائیں گے، کیا وہ مظلوم اقلیتوں کی آواز بن پائیں گے، ان کے حقوق کی بات کر پائیں گے؟ وہ لوگ نہیں کر پائیں گے۔ وہ ہر ایک قدم پر اپنا لب کھولنے سے پہلے اپنے آقا کی اجازت تلاش کریں گے۔ اگر اقلیت کی ذمہ دارانہ وکالت کوئی کرسکتا ہے تو ہم کر پائیں گے کیونکہ اقلیتوں، دلتوں اور مظلوموں کی وکالت کرنا ہی ہماری بنیاد ہے۔ ہمیں کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اقتدار کی لالچ میں کھڑے نہیں ہوئے ہیں، ہم تو انصاف کی راہ میں محروموں کو ان کا حق ملے، اس کی وکالت کرنے کے لئے کھڑے ہوئے ہیں۔   

بہار میں پہلی بار ایسا ہورہا ہے کہ وہاں اقلیتی فلاح و بہبود کا وزیر اقلیت برادری سے نہیں ہے۔ اس پر آپ کیا کہیں گے؟

یہ تو المیہ ہے کہ اس ملک میں سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کہی جاتی ہے۔ ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کرنے کی بات کی جارہی ہے۔ اور ان پارٹیوں کے لئے المیہ یہ ہے کہ ان کو ایک عدد ایسا مسلمان نہیں مل سکا، جس کو یہ وزیر بنا سکیں۔ تاہم اس بات کی گنجائش تھی کہ وہ کسی ایم ایل سی یا کسی باہر کے آدمی کو بنا سکتے تھے۔ آخر مکیش ساہنی کو بھی تو وزیر بنایا گیا ہے۔ وہ تو ایم ایل اے یا ایم ایل سی نہیں ہیں۔ دراصل اس سے کسی حکومت کی نیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ پہلی صف میں انہوں نے کسی اقلیت کا خیال نہیں رکھا۔ یا پھر وہ اپنے فرقہ پرست دوست کو یہ پیغام دینا چاہتے ہوں کہ دیکھو ہم بھی مسلمانوں کو نظرانداز کررہے ہیں۔ اور شاید اقلیتوں کو بھی بتانا چاہتے ہوں کہ وہ دوسرے درجے کے شہری ہیں۔ ویسے آپ کو بتادوں کہ اقلیت کا کوئی آدمی اس حکومت میں وزیر تب ہی بنتا ہے، جب تک وہ اقلیت کے تعلق سے اپنے ضمیر کا سودہ نہیں کرتا ہے۔ اگر کوئی مسلمان وزیر بن بھی جاتا تب بھی وہ وزارت کو سنبھال نہیں پاتا اور اس سے اقلیت کا بھلا ہونے کے بجائے نقصان زیادہ ہوتا، کیونکہ اسے اپنی پارٹی میں اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے اقلیتوں کا ہمدرد نہیں بلکہ اپنی پارٹی کے اصولوں کا علم بردار بننا پڑے گا۔ ایسے میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اقلیتی وزیر اقلیتی برادری سے ہے یا اکثریتی برادری سے۔ فرق اس سے پڑتا ہے کہ حکومت کا اقلیت کے تعلق سے کیا رویہ ہے۔ پچھلی حکومتوں میں محکمہ اقلیتی فلاح و بہبود کے وزیر مسلمان بنتے رہے ہیں۔ لیکن ہوا کیا اور انہوں نے کیا کیا؟ چاہے وقف کے مسائل ہوں، مدرسہ بورڈ کا مسئلہ ہو، اردو زبان کا مسئلہ ہو، اقلیتی برادری کے نوجوانوں کے روزگار کا مسئلہ ہو، اقلیتی برادری کی بیٹیوں کی تعلیم کا مسئلہ ہو، اقلیتوں کے محلوں میں سڑک، بجلی اور پانی پہنچانے کا مسئلہ ہو، ان کے تحفظ کا مسئلہ ہو،  ابھی گل ناز کے ساتھ کیا ہوا اور ہماری حکومتیں کیا کررہی ہیں؟ کتنے مسلم لیڈر اس پر بول رہے ہیں؟ اس معاملے میں تو گل ناز کا قتل ہی نہیں ہوا بلکہ چوتھے ستون کا بھی قتل ہوا ہے۔ ذرا سوچیے کہ اگر دوسرے کنبے کی بچی ہوتی تو اس الیکشن کے دوران یہ میڈیا کیا کرتی۔ افسوس ہے کہ سیکولر پارٹیوں کو بھی میر جعفر قسم کے لوگ ہی چاہئیں۔

’’دعوت‘‘ کے قارئین کے لیے آپ کا کیا پیغام ہے؟

میں خود بھی دعوت کا قاری رہا ہوں۔ دعوت کے قارئین کا ایک بڑا طبقہ دانشوروں کا ہے۔ ان دانشوروں سے گذارش کریں کہ ملک کی حالات اور سیاسی منظرنامہ کو سامنے رکھیں اور اشتراک کی سیاست پر جن صوبوں میں عمل ہوا اور جن صوبوں میں انضمام کی سیاست پر عمل ہوا ہے، دونوں کا تجزیہ کریں۔ اگر اشتراک کی سیاست مسلم اقلیت، دلت اور پسماندہ کے لئے مناسب ہے تو بہار میں ہم لوگوں کی ہم نوائی کرنی چاہیے، ساتھ دینا چاہیے اور فضابندی کرنے میں مدد کرنی چاہیے۔