’’مجھے اپنی نہیں آنے والی نسلوں کی فکر ہے‘‘

مقصد حاصل ہونے تک لڑائی جاری رہے گی۔ بلقیس بانو سے ہفت روزہ دعوت کی خاص بات چیت

افرورز عالم ساحل

امریکہ کے معروف ’ٹائم میگزین‘ کی ’دنیا کے 100 بااثر افراد‘ کی فہرست میں جگہ بنانے والی دادی بلقیس سے نمائندہ ہفت روزہ دعوت نے خاص ملاقات کی ہے۔ راقم الحروف اتوار، 27 ستمبر کو جب شاہین باغ میں واقع ان کے گھر پہنچا تو دادی اس وقت اپنے گاؤں کے لیے روانہ ہو رہی تھیں اور تیار ہوکر گاڑی میں بیٹھ چکی تھیں۔ ان کی آنکھوں میں اپنوں سے ملنے کا انتظار صاف جھلک رہا تھا، گویا وہ اپنی اس مسرت کو گاؤں کے لوگوں میں بانٹنا چاہتی تھیں کہ دیکھو، گاؤں کا نام میں نے پوری دنیا میں پہنچا دیا۔ ان کا بیٹا ان سے کہتا ہے: ’’اماں! پانچ منٹ ان سے بات کر لیجیے، اخبار سے آئے ہیں۔‘‘ لیکن دادی کے چہرے پر صاف لکھا تھا کہ وہ گاؤں پہنچنے میں تھوڑی بھی تاخیر کرنے کی روادار نہیں ہیں۔

اب میری بے بسی دیکھنے کے لائق تھی۔ ادھر دادی کو روانہ ہونے کی جلدی تھی اور ادھر میں ان سے کچھ سوالات کرنا چاہتا تھا تاکہ سرورق کی اسٹوری کے لیے کچھ مواد فراہم ہوسکے۔ میری بے تابی کو دادی نے بھانپ لیا، اور بیچ کا راستہ خود انہوں نے نکالا۔ دادی بلقیس نے مجھ سے کہا کیوں نہ میں بھی ان کے ہم راہ ان کے گاؤں چلوں؟ گاؤں کے لوگوں سے بھی ملوں۔ ان کی اس تجویز میں اتنی اپنائیت تھی کہ تمام تر مصروفیات کے باوجود مجھے انکار کا یارا نہ تھا۔ تھوڑی دیر بعد میری کار بھی ان کی گاڑی کے پیچھے چل رہی تھی۔

دہلی سے تقریباً 70 کلو میٹر دور ہاپوڑ کے راستے میں کورانا ٹول پلازا کے قریب گاؤں کے درجنوں نوجوان دادی بلقیس کے استقبال کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے ہوئے تھے۔ جیسے ہی ان کی گاڑی رکی، نوجوانوں کا ایک ریلا آیا۔ دادی کو پھولوں کے ہار پہنا کر ان کا استقبال کیا گیا۔ اب دادی ایک سیلیبریٹی کی طرح اپنے گاؤں کے راستے میں داخل ہوئیں۔ گاؤں کی عورتیں انہیں سڑکوں اور اپنے گھروں کی چھتوں سے دیکھ رہی تھیں۔ تھوڑی ہی دیر بعد دادی اپنے پرانے گھر میں تھیں جہاں ان کی چھوٹی بہن، جن کی بینائی بہت کم زور ہوچکی ہے اور جو ٹھیک سے دادی کو دیکھ بھی نہیں پارہی تھیں، ان کے گلے لگ گئیں۔ ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ گاؤں کے لوگ انہیں گھیرے ہوئے تھے۔ لیکن ان تمام جھمیلوں میں بھی دادی مجھے نہیں بھولیں۔ دادی اب ہر چیز سے بے نیاز ہوکر مجھے اپنے گھر اور اس گھر سے وابستہ پرانی یادوں کے بارے میں بتا رہی تھیں۔

بھیڑ کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ ہوا کہ سب ان کے کھیت والے گھر پر پہنچیں۔ گاؤں کی تنگ گلیوں سے ہوتے ہوئے اب ہم کھیت کے راستے پر تھے۔ مسجدوں کے مینار اس بات کی شہادت دے رہے تھے کہ اترپردیش کے ہاپوڑ ضلع میں واقع اس کورانا گاؤں کی بیشتر آبادی مسلمانوں ہی کی ہے۔ ان میں سے بڑا حصہ خود کو راجپوت مسلمان کہتا ہے۔ گاؤں میں تقریباً چار ہزار نفوس آباد ہیں۔ بلقیس دادی کا بچپن اسی گاؤں میں گزرا ہے۔ اسی گاؤں کے محمود خان نامی شخص سے ان کی شادی ہوئی تھی۔ تب دونوں میاں بیوی گاؤں ہی میں کھیتی باڑی کرتے تھے۔ دس سال پہلے ان کے شوہر کے انتقال کے بعد سے بلقیس دادی دلی کے شاہین باغ میں اپنے بیٹوں کے پاس آکر رہنے لگیں۔

کھیت والے گھر پر بھی دادی سے ملنے والوں کا تانتا لگا ہوا تھا۔ ہم نے صورت حال کا اندازہ لگایا اور صحافیوں والا دماغ لگاتے ہوئے دادی کو راستے ہی میں روک لیا۔ اب کھیتوں کے کنارے ٹوٹی پھوٹی سڑک پر ہی دادی سے بات چیت شروع ہوئی۔ دادی اگرچہ پڑھی لکھی نہیں ہیں، لیکن ان کے پاس ہر سوال کا جواب موجود تھا۔ ان کے جوابات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ملک میں ہونے والی ہر تبدیلی سے باخبر رہتی ہیں۔ جہاں ایک طرف انہیں کسانوں کی فکر ہے، وہیں وہ کورونا وبا کے اس دور میں بے روزگار ہونے والے نوجوانوں کے لیے بھی پریشان ہیں۔

دیگر صحافیوں کے رٹے رٹائے سوال کی طرح جب میں نے بھی پوچھا کہ آپ کا نام ’ٹائم میگزین ‘میں آیا ہے، اس پر آپ کیسا محسوس کررہی ہیں؟ تو دادی بلقیس کہتی ہیں: اچھا لگا، لیکن اس سے بھی اچھا تب لگتا جب حکومت شہریت ترمیمی قانون کو بھی واپس لے لیتی۔

آپ کو کیوں لگتا ہے کہ سی اے اے اور این آر سی صحیح قانون نہیں ہے؟ اس پر وہ کہتی ہیں: یہ قانون بہت خطرناک ہے۔ اسے یہاں کے باشندوں کو تنگ کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔ بہار میں تو ہر سال سیلاب آتا ہے، وہاں لوگوں کا گھر بار سب ڈوب جاتا ہے۔ اب وہ کاغذ کہاں سے لاکر دکھائیں گے۔ کاغذ نہیں دکھائیں گے تو کیا اس ملک کےباشندے نہیں رہیں گے! ہمارے تو باپ دادا، نانا نانی سب یہاں کے ہی ہیں، تو اس ملک کو چھوڑ کر کہاں جائیں۔ ہم تو یہیں پیدا ہوئے ہیں، یہیں مریں گے۔ یہاں تو اپنے ملک والوں کے لیے پیٹ بھر کھانا نہیں ہے، لوگ بھوکوں مر رہے ہیں، خودکشی کر رہے ہیں، پیٹ بھر کھانے کو روٹی نہیں ہے۔ تو دوسرے ملک کے باشندوں کو ہم کیسے برداشت کریں گے۔ اپنے ہی ملک کے لوگوں کے پاس روزگارنہیں ہے، تو دوسرے ملک کے لوگوں کو روزگار کہاں سے دیں گے۔ یہ سرکار تو گونگی بہری ہورہی ہے، انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے۔ ہمارا آواز اٹھانا ضروری ہے۔ نہیں تو ہماری آنے والی نسل ہم سے سوال کرے گی کہ جب ہمارے گلے میں پھندا ڈالا جارہا تھا، تب ہم خاموش کیوں تھے۔

بلقیس دادی لمبی بات چیت میں کہتی ہیں، یہ سرکار نفرت کی دیوار کھڑی کر رہی ہے۔ پہلے ہم سب ایک تھے، لیکن اس سرکار نے پاور میں آتے ہی سب کو لڑا دیا۔ اس ملک کی آزادی میں سب نے ساتھ مل کر انگریزوں سے لڑائیاں لڑیں، تب جاکر یہ ملک آزاد ہوا۔ اس ملک کے لیے سب کی جانیں گئیں ہیں۔ کبھی ہم نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اس دور سے بھی گزرنا پڑے گا۔ کیا یہ مزدور ہمارے نہیں تھے۔ تو پھر پولیس نے ان کو لاٹھیاں کیوں ماری۔ غریب اس کورونا میں کتنے پریشان ہوئے۔ ان کو کون دیکھے گا۔

دہلی تشدد کے نام پر سی اے اے مظاہرین کی گرفتاریوں کے سوال پر دادی کہتی ہیں: حکومت نے جو بھی گرفتاریاں کی ہیں، سب غلط ہیں۔ بے قصور بچوں کو جیلوں میں ڈال رکھا ہے۔ سرکار ان پر ظلم کررہی ہے۔ سرکار سے میرا مطالبہ ہے کہ سب کو رہا کیا جائے۔

شاہین باغ کی تحریک پر ایک سوال کے جواب میں وہ کہتی ہیں کہ اگر ضرورت پڑی تو پھر سے سڑکوں پر اترنے کے بارے میں ضرور سوچیں گے۔قریب ہی کھڑے ان کے بیٹے منظور سے یہ پوچھنے پر کہ جب شاہین باغ تحریک شروع ہوئی تب دادی کہاں تھیں، اور وہ اس تحریک سے کیسے جُڑیں؟ منظور کہتے ہیں: جس دن جامعہ کے طلبا پر پولیس نے بے رحمی سے لاٹھیاں برسائیں، اماں اس دن شاہین باغ میں میرے گھر پر تھیں۔ اسی رات ٹی وی پر پولیس کی بربریت کے مناظر دیکھنے کے بعد کہنے لگیں کہ مجھے بھی ان کے انصاف کے لیے سڑکوں پر اترنا ہے۔ اس وقت یہ کچھ بیمار بھی تھیں۔ ہم نے انہیں سمجھایا کہ ہمارے پاس تو سو سال پہلے کے بھی کاغذات ہیں، تو اس پر کہنے لگیں کہ میں اپنے لیے نہیں، ہندوستانیوں کے لیے سڑکوں پر اتروں گی۔ یہ مسلسل 101 دن اسی تحریک سے جڑی رہیں۔ کئی بار پوری پوری رات سڑکوں پر رہیں۔ جب لوگ انہیں بلانے لگے تو کئی بار ایسا بھی ہوا کہ ہردن سفر میں گزرتا تھا۔ ہم تھک جاتے تھے، لیکن یہ نہیں تھکتی تھیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمیں تھکن کا احساس ہی نہیں ہونے دیتی تھیں۔

ملحوظ رہے کہ دادی بلقیس کے پانچ بیٹے ہیں مقصود، محبوب، مشکور، منظور، مطلوب اور ایک بیٹی شبنم ہے۔ ان کے علاوہ ان کے 11 پوتے اور 8 پوتیاں ہیں۔ ان کی ایک پوتی رمشہ قریب ہی کھڑی ہے۔ وہ اسے پیار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ تم کو بھی میری طرح ہی بننا ہے۔اب ان سے ملنے والے لوگ بھی میرے ارد گرد کھڑے ہونے شروع ہوگئے تھے۔ ایسے میں مجھے لگا کہ اب دادی کو چھوڑ دینا چاہیے تاکہ وہ ان تمام لوگوں سے مل سکیں۔ ملنے والوں میں ایک بزرگ بھی انتظار کر رہے ہیں جو آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتے۔ جشن کا ماحول ہے۔ گاؤں کے نوجوان یہاں آئے ہوئے لوگوں کو کولڈ ڈرنک اور پانی دے رہے ہیں۔ بریانی کی ایک دیگ بھی اب آچکی ہے۔ دادی سب سے ملتی ہیں۔ لیکن جیسے ہی انہیں احساس ہوتا ہے کہ ظہر کی نماز کا وقت ہوگیا ہے، وہ قریب ہی ایک حوض کے پانی سے وضو کرتی ہیں۔ تب تک ایک بچہ جانماز لا چکا تھا۔ وہ وہیں کھیت کے قریب جانماز بچھا کر نماز پڑھنے لگتی ہیں۔ لوگوں کے آنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

اب میں دلی واپسی کے راستے پر ہوں۔ میرے ذہن میں بار بار یہ خیال آتا ہے کہ شاہین باغ کی دادیاں واقعی ’مزاحمت کی علامت‘ ہیں، کیونکہ یہ اس تحریک کا حصہ تھیں جس تحریک کو ہندوستان کی سب سے مضبوط حکومت توڑنے یا ختم کرانے کی ہر ممکن کوشش کرتی رہی، لیکن شاہین باغ کی ’دبنگ دادیاں‘ ہمالیہ کی چٹانوں کی طرح ثابت قدمی کے ساتھ کھڑی رہیں۔ نہ ہمت ہاری، نہ اپنے جوش کو سرد پڑنے دیا بلکہ اس ضعیف العمری میں بھی اپنی نئی نسلوں کی خاطر سینہ سپر ہوکر اس طرح جم گئیں کہ جنگ آزادی کی یاد دلادی۔ اس جدو جہد کو بجا طور پر نہ صرف ہندوستان میں سراہا گیا بلکہ پوری دنیا میں، خصوصاً مغرب کی آزاد خیال میڈیا اور تنظیموں نے، اس بات کو تسلیم کہ یہ دادیاں مسلم خواتین میں انقلاب کی ایک علامت ہیں۔اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جب کوئی حکومت اپنے ہی اقلیتی شہریوں کے خلاف کام کرتی ہے تو اس کے اس قدم کے خلاف بھی صدائیں ضرور بلند کی جاتی ہیں۔ اور ان صداؤں کو دنیا نہ صرف سنتی ہے بلکہ سراہتی بھی ہے۔ دادی بلقیس بھی مزاحمت کی وہ زندہ مثال ہے جسے دنیا نے نہ صرف سراہا بلکہ شاہین باغ کے پرامن احتجاج میں ان کے شانہ بشانہ ساتھ بھی دیا۔ اس احتجاج کے جو مطالبے تھے ان پر بھی دنیا نے مہر تسلیم ثبت کی۔ اب ’ٹائم میگزین‘ نے بھی دادی کو بااثر خواتین میں جگہ دے کر یہ ثابت کردیا ہے کہ شاہین باغ کی تحریک ایک انقلابی تحریک اور جائز مطالبہ ہے جسے عوام کی حمایت حاصل ہے۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ ہمارے ملک کی حکومت کو یہ بات کب سمجھ میں آتی ہے۔ 

 

جب کوئی حکومت اپنے ہی اقلیتی شہریوں کے خلاف کام کرتی ہے تو اس کے اس قدم کے خلاف بھی صدائیں ضرور بلند کی جاتی ہیں۔ اور ان صداؤں کو دنیا نہ صرف سنتی ہے بلکہ سراہتی بھی ہے۔ دادی بلقیس بھی مزاحمت کی وہ زندہ مثال ہے جسے دنیا نے نہ صرف سراہا بلکہ شاہین باغ کے پرامن احتجاج میں ان کے شانہ بشانہ ساتھ بھی دیا۔ اس احتجاج کے جو مطالبے تھے ان پر بھی دنیا نے مہر تسلیم ثبت کی۔ اب ’ٹائم میگزین‘ نے بھی دادی کو بااثر خواتین میں جگہ دے کر یہ ثابت کردیا ہے کہ شاہین باغ کی تحریک ایک انقلابی تحریک اور جائز مطالبہ ہے جسے عوام کی حمایت حاصل ہے۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ ہمارے ملک کی حکومت کو یہ بات کب سمجھ میں آتی ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 4-10 اکتوبر، 2020