مجبور انسانوں کی اسمگلنگ ،ایک سنگین مسئلہ

عالمی برادری کا30جولائی کو بین الاقوامی دن برائے مخالف انسانی تجارت منانے پر اکتفا!

محمد انور حسین،ناندیڑ

 

ہمارا میڈیا ،ہماری خبریں ،ٹی وی کے بحث ومباحثے سب سیاست کے اطراف گھومتے رہتے ہیں ۔ہماری معلومات کی توجہ حکومتوں کے گرنے اور بننے تک محدود ہوتی جارہی ہے ۔ساری عوام سیاست کا کھیل ہی بڑے شوق سے دیکھنا چاہتی ہے لیکن اس کھیل تماشے میں وہ بہت سے اہم میدان چھوٹ جاتے ہیں جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
دنیا میں بڑھتی ہوئی انسانی تجارت سماج کا ایک سنگین مسئلہ بنتی جارہی ہے ۔دنیا کی کوئی حکومت بھی اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی ہے جبکہ ہر ملک میں یہ مسئلہ تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔
ہر انسان دنیا میں آزاد پیدا ہوا ہے ۔اسے اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق ہے ۔دنیا کے مختلف ملکوں نے اپنے دستوروں میں انسانوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت بھی دی ہے لیکن اس پر عمل آوری کے معاملے میں دنیا کے وہ ممالک جو عظیم تر جمہوریت اور چمپینس آف لبرٹی کے دعوے کرتے ہیں کھوکھلے نظر آتے ہیں ۔
انسانوں کی تجارت (ہیومن ٹریفکنگ ) وہ عمل ہے جس میں انسانوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے تاکہ ان سے جبراً مزدوری کروائی جاسکے ،جنسی طور پر غلام بنایا جاسکے ،جنسی تجارت میں دھکیلا جاسکے ،ان سے بھیک منگوائی جاسکے وغیرہ ۔ یہ کاروبار کروڑوں ڈالرس کا منافع دینے والا بنتا جارہا ہے۔اس میں معصوم بچوں کا اغوا کیا جاتا ہے اور ان بچوں سے زبردستی مزدوری کروائی جاتی ہے یا بھیک مانگنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ انسانی اعضاء کی تجارت بھی اسی پیشے کا حصہ ہے ۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق سالانہ 15 تا 20 ہزار کروڑ ڈالر کا کاروبار انسانی تجارت کے ذریعے ہوتا ہے ۔غلام بنائے گئے انسانوں میں 70 فیصد عورتیں ہوتی ہیں جبکہ 30 فیصد مرد ہوتے ہیں ۔تقریباً 51 فیصد متاثرین کم عمر بچے اور بچیاں ہوتی ہیں جن کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے ۔اس کاروبار میں 12 سے 14 سال کی لڑکیاں جنسی بازار کا حصہ بن جاتی ہیں ۔
بھارت میں تقریباً سات کروڑ افراد اس تجارت سے متاثر ہیں ۔تھامسن ریوٹرس فاونڈیشن نے سال 2018 میں ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں بھارت کو خواتین کے لیے سب سے غیر محفوظ ملک قرار دیا تھا ۔اس رپورٹ پر بھارت میں تنقیدیں بھی ہوئیں یہاں تک کہ نیشنل کمیشن فار ویمین نے اسے ماننے سے انکار کردیا ۔۔
انٹرنیٹ کی ترقی کی وجہ سے انسانی تجارت کا کاروبار اب آن لائن چل رہا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً 70 فیصد بچے آن لاین خریدے اور بیچے جاتے ہیں ۔بھارت میں غیر ملکوں کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر بھی اس تجارت کو فروغ حاصل ہورہا ہے ،کولکاتہ ،ممبئی اور دلی اس کے اہم مراکز ہیں ۔یونیسیف کے مطابق 12 سال سے کم عمر لڑکوں سے مزدوری کا کام لیا جاتا ہے جبکہ 12 سال سے زائد عمر کی لڑکیوں کو جنسی کاروبار میں دھکیل دیا جاتا ہے ۔۔
اس کاروبار میں عام طور پر تین بڑے کاموں کے لیے انسانوں کی خرید و فروخت کی جاتی ہے۔ زبردستی مزدوری کروانا ،،جنسی تجارت اور غیر قانونی کام جیسے بھیک مانگنا ،پاکٹ ماری ،چوری ،ڈرگس کی سپلائی وغیرہ ۔ اس میں سب سے زیادہ منافع دو طرح کے کاروبار میں ہوتا ہے۔پہلا غیر قانونی طور پر اعضاءکی تجارت جس میں انسان کی ہر چیز بیچی جاتی ہے دل ،گردے ، ہڈیاں یہاں تک کہ جلد بھی ۔ اس کاروبار میں تقریباً سالانہ دوسوکروڑ سے زیادہ کی کمائی ہوتی ہے ۔دوسرا جنسی تجارت ہے ۔ اس کی مختلف شکلیں پائی جاتی ہیں ۔انٹرنیٹ کی ترقی نے اس کاروبار کو کئی گنا بڑھادیا ہے ۔
سشستر سیما بل کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں 2013 کے مقابلے میں انسانوں کی تجارت میں 500 گنا اضافہ ہوا ہے ۔۔ اس سے مسئلے کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے ۔کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ کورونا وباکے بعد پیدا ہونے والی بے روزگاری اور غربت اس تجارت کو مزید فروغ دے سکتی ہے ۔ہمارے ملک کی وزارت امور داخلہ نے بھی ریاستوں کی رہنمائی کی ہے کہ وہ اینٹی ہیومن ٹریفکنگ یونٹس کو مضبوط کریں ۔
ہمارے ملک کے قانون میں بھی انسانی تجارت کو جرم مانا گیا ہے ۔بہت سے قوانین بنائے گئے اور ان میں ترمیمات بھی ہوتی رہی ہیں ۔آرٹیکل(1 ۔23) میں انسانوں کی تجارت کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔دنیا کے بیشتر ملکوں میں بھی اس طرح کا قانون موجود ہے ۔مرکزی حکومت میں اینٹی ٹریفکنگ سیل(2006) بھی موجود ہے ۔لیکن پکڑے جانے کے معاملات کا فیصد صرف 4 ہے ۔ اقوام متحدہ نے دیگر مسائل کی طرح اس مسئلے پر بھی خصو صی توجہ دی ہے ۔2010 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہیومن ٹریفکنگ کے خاتمے کے لیے عالمی سطح کا ایک منصوبہ بنایا گیا ۔اس میں طے کیا گیا کہ تمام ممالک کے تعاون سے اس مسئلے کے خاتمے کی کوشش کی جائے گی ۔اس کے تحت اہم اقدام’’ یو این والنٹیرس فنڈ‘‘ کا قیام ہے۔اس فنڈ کا استعمال مختلف این جی اوز کے ساتھ مل کر متاثرین کی مدد کے لیے کیا جائے گا ۔
اس کے علاوہ 2013 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فیصلہ کیا گیا کہ ہر سال 30 جولائی کو ’’ عالمی دن برائے مخالف ٹریفیکنگ ان پرسنس ‘‘ کے طور پر منایا جائے گا ۔جس کا مقصداس طرح بیان کیا گیا کہ ’’ہیومن ٹریفیکنگ سے متاثرہ افراد کی حالت سے متعلق بیداری پیدا کرنا اور ان کے حقوق کی حفاظت کے لیے ترغیب دینا ‘‘
ستمبر 2015 میں بنائے گئے منصوبے ’’ سسٹینیبل ڈیولپمنٹ ایجنڈہ2030 ‘‘ میں انسانوں کی تجارت کے مکمل خاتمے کا ہدف طے کیا گیا ۔ساتھ ہی عورتوں اور بچوں سے متعلق تمام جرائم کے خاتمے کا ہدف بھی طے کیا گیا ہے ۔پچھلے سال اقوام متحدہ نے نعرہ دیا تھا کہ تمام حکومتیں اس میدان میں خصوصی عملی اقدامات کریں تاکہ اس ظالمانہ تجارت پر جلد قابو پایا جاسکے اور ساتھ ہی عام عوام میں اس سے متعلق بیداری کی اہمیت پر زور دیا جائے ۔اس سال اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری جناب انٹینیو گیٹرس نے اعلان کیا کہ ’’ آئیے ہم عہد کریں کہ مجرموں کو معصوم انسانوں پر اپنے منافع کے لیے مظالم سے روکیں ۔اور مظلوموں کی زندگی کی تعمیر نو کی کوشش کریں ‘‘۔ تمام ملکوں کے تعاون کے بغیر اقوام متحدہ کی تمام کوششیں ایک رسم سے زیادہ نہیں رہ جاتی ہیں ۔
دنیا سے غلامی کا خاتمہ کرنے کے دعوے تو بہت سے ملکوں نےکیے ،جمہوریت اور قانون کی بالا دستی کا راگ بھی الاپا گیا ،انسانی حقوق اور آزادی کی بانگیں بھی دی گئی لیکن یہ سارے دعوے صرف نعرے بن کر رہ گیے ۔کیونکہ ان سربراہان مملکت کو صرف اپنے سیاسی کھیل میں ہی مزہ آتا ہے ۔بلکہ حقیقی بات تو یہ ہے کہ بغیر سیاسی سرپرستی کے اتنے بڑے پیمانے کی تجارت ممکن ہی نہیں ہے ۔
لاکھوں انسان مرد ،عورت ،لڑکے ،لڑکیاں اور معصوم بچوں پر اس درندہ تجارت نے وہ ظلم ڈھائے ہیں کہ جس کا سننا اور جاننا بھی مشکل ہے ۔اس میں بھی عورتوں کے جنسی استحصال کی داستانیں بڑی کربناک ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے تو انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا تھا لیکن کیوں وہ اپنے ہی جییسے کمزور انسانوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر کاروبار کرنا چاہتا ہے ۔جس عورت نے انسانوں کو جنم دیا اسی عورت پر ظلم اس سماج کی پستی کی مثال ہے ۔۔ امجد علی راجا نے خوب کہا ہے کہ
ہر جرم، پاپ، جسم فروشی کی رذالت
افلاس کا نتیجہ ہے ہر ایک ضلالت
سمجھا گیا غریب کو حیوان یہاں پر
ہر روز لٹ رہا ہے ہر انسان یہاں پر
اسلام کے ماننے والے اس دنیا میں اربوں کی تعداد میں ہیں اور دولت مند اسلامی ممالک کی خاطر خواہ تعداد ہونے کے باوجو پتھروں کے برج اور عمارتیں تو سجائی جارہی ہیں لیکن انسانوں کی عظمت کی فکر اور عمل کسی کے پاس نظر نہیں آتا ہے ۔جبکہ ہمارے رسول پاکﷺ نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ ’’ تمام مخلوق خدا کا کنبہ ہے لہٰذا مخلوق میں خدا کے نزدیک بہترین شخص وہ ہے جو خدا کے کنبے کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔‘‘
***

لاکھوں انسان مرد ،عورت ،لڑکے ،لڑکیاں اور معصوم بچوں پر اس درندہ تجارت نے وہ ظلم ڈھاے ہیں کہ جس کا سننا اور جاننا بھی مشکل ہے ۔اس میں بھی عورتوں کے جنسی استحصال کی داستانیں بڑی کربناک ہیں ۔ اللہ تعالی نے تو انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا تھا ۔لیکن کیوں وہ اپنے ہی جیسیے کمزور انسانوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر کاروبار کرنا چاہتا ہے