بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے؟

بے سمت خارجہ پالیسی کی بدولت نیپال کے بعد بنگلہ دیش بھی ہوا چین کا ہمنوا

ڈاکٹر سلیم خان

 

عالمی حالات کی بابت بہت سارے لوگوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ کچھ طاقتیں اسے اپنی مرضی کے مطابق موڑ دیتی ہیں۔ تاریخِ انسانی اس حقیقت پر شاہد ہے کہ جب وقت پلٹا کھاتا ہے تو اچھے اچھوں کے ہاتھ پیر پھولنے لگ جاتے ہیں اور وہ سب ہونے لگتا ہے جس کا تصور محال تھا۔ مثلاً ماضی قریب میں برطانیہ کے یونین جیک پر سورج غروب نہ ہوتا تھا اب حال یہ ہے کہ کئی کئی دن طلوع نہیں ہوتا ۔ جس سوویت یونین سے ساری دنیا تھر تھرکانپتی تھی وہ دیکھتے دیکھتے ہانپتے کانپتے صفحۂ ہستی سے مٹ گیا۔ جاپان اور جرمنی جیسی عالمی طاقتوں کو جس امریکہ نے زیر کردیا تھا ویتنام کے ننگے بھوکے لوگوں نے دھول چٹادی۔ نوزائیدہ افغانی حکومت کا گلا گھونٹنے کی خاطر ناٹو کے ممالک متحد ہوکر آئے اور اپنی پیشانی پر رسوائی کا داغ سجا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ جس طالبان کو کل تک دہشت گرد قرار دیا جارہا تھا آج اس کے ساتھ بصد احترام امن معاہدہ کیا جارہا ہے۔ عالمِ انسانیت کے لیے اس گردشِ زمانہ میں پوشیدہ سامانِ عبرت ہے۔ پس ہے کوئی جو اس سے سبق حاصل کرے ۔
حقیقت یہ ہے کہ سورج کو طلوع کرنا کسی کےاختیار میں نہیں ہے لیکن جب اس کے آثار نمایاں ہوجائیں تو اس سے استفادہ کی خاطر کمر بستہ ہوجانے والا ہی عقلمند ہے۔ اسی طرح سورج غروب ہونے سے روکنا بھی کسی کے قبضۂ قدرت میں نہیں ہے لیکن تاریکی کے چھا جانے سے قبل روشنی کا اہتمام کرلینے والے لوگ ہی دانشمند ہوتے ہیں۔ اس عالمی تناظر میں مودی جی نے 6 سال قبل جب اقتدار سنبھالا تھا تو ہندوستان کے لیے حالات سازگار تھے۔ اسی کے ساتھ ان کی قسمت اچھی تھی جو منموہن سنگھ اپنے پیچھے بھرا ہوا خزانہ چھوڑ کر رخصت ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدا میں مودی جی پر دنیا بھر کی سیر کرنے کا جنون سوار ہوگیا۔ وہ غیر ملکی دوروں کے درمیان چھٹیاں منانے کے لیے ہندوستان آجایا کرتے تھے اور وہ وقت بھی کسی نہ کسی صوبے میں انتخابی مہم کی نذر ہوجایا کرتا تھا۔ آج بھی جب ان اچھے دنوں کی مودی جی کو یاد آتی ہوگی تو وہ اپنے آپ سے کہتے ہوں گے؎
ہاں دکھا دے اے تصوّر پھر وہ صبح و شام تُو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایّام تُو
اس زمانے میں دنیا کے امیر ممالک وزیر اعظم کو اپنا مال یا تکنیک بیچنے کے لیے بلاتے تھے۔ وہ تو ایسا تھا کہ اگر مودی ان کو بلاتے تو وہ دوڑے چلے آتے لیکن سیر و تفریح کا شوق ان کو تھا سو وہ ارمان سرکاری خرچ پر نکالے جارہے تھے۔ مودی جی کے ساتھ ان کے پسندیدہ چنندہ سرمایہ داروں کا قافلہ بھی چلتا تھا ۔ سرکاری خرید و فروخت کے علاوہ مقربین خاص بھی اپنے وارے نیارے کرلیتے ۔ مودی جی کی رفاقت ان کے لیے ضمانت کا کام کرتی اور ان کے وارے نیارے ہوجاتے۔ ان تجارتی سرگرمیوں کی پردہ پوشی کے لیے وہاں موجود ہندوستانیوں کے لیے منعقد کردہ ناچ رنگ کی محفل میں وزیر اعظم تقریر فرماتے اور اسے ہندوستان میں ٹیلی ویژن پر دکھا کر بھکتوں کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائی جاتی ۔ غریب ممالک کے لیے وقت گزاری کا معاملہ تھا ۔ وہ جشن مناتے کہ ایک بڑے ملک کا سربراہ آیا ہے اور مودی جی وہیں اپنا سیر سپاٹا کرلیتے اس طرح بڑا اچھا وقت گزرتا رہا۔ اس دوران ذرائع ابلاغ میں یہ ہوا بنائی گئی کہ 70 سال بعد ایک قدآور عالمی رہنما ملک کو میسر آیا ہے جو بہت جلد ہندوستان کو ’وشوگرو‘ (دنیا کا استاد) بنادے گا ۔
مودی جی کی خوش بختی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت ہمسایہ ملک پاکستان میں نواز شریف جیسے شریف النفس رہنما کے ہاتھوں میں ملک کی زمامِ کار تھی۔ مودی جی نےانہیں بلا تکلف اپنی حلف برداری میں شرکت کی دعوت دے دی اور وہ بلا تردد مہمان بن کر دوڑے چلے آئے ۔ مودی جی بن بلائے ہی ’مان نہ مان میں تیرا مہمان‘ بن کر نواز شریف کے گھر پہنچ گئے۔ انہوں نے تب بھی خوب خاطر تواضع کرکے لوٹایا۔ اس خیر سگالی کے ماحول سے دونوں جانب کے شدت پسند عناصر ناراض ہوگئے تو ان کو خوش کرنے کے لیے نہ جانے کسی نے پٹھانکوٹ فوجی چھاونی پر حملہ کرادیا اور ڈھاک کے تین پات کی طرح باہمی تعلقات پھر سے کشیدہ ہوگئے۔
ان دنوں چونکہ مودی اچھے خاصے مقبول تھے اس لیے انہیں پاکستان کا کارڈ کھیلنے کی ضرورت نہیں پیش آئی ۔ اس دوران گردشِ زمانہ نے پلٹی ماری اور اقتدار کا دامن عمران خان کے ہاتھ میں آگیا۔ اُدھر پاکستان کو ایک نہایت مقبول وزیر اعظم میسر آیا اِدھر مودی جی کی مقبولیت کو گہن لگنا شروع ہوگیا۔نریندر مودی نے اپنی مقبولیت کا خلا پر کرنے کے لیے پہلے سرجیکل اسٹرائیک اور پھر رافیل کی بدعنوانی کو چھپانے کے لیے پلوامہ کے بعد ’ائیر اسٹرائیک‘ کرادی۔ داخلی سطح پر اس کا خاطر خواہ فائدہ ہوا اور مودی جی دوبارہ منتخب ہوگئے۔ مودی جی جس وقت پاکستان کے خلاف عوامی جذبات کو بھڑکا کر اس پر سیاسی روٹیاں سینک رہےتھے اس وقت عمران خان ہندوستان کے
سکھوں کا دل جیتنے کے ایک سوچے سمجھے منصوبے پر کام کر رہے تھے اس کا زبردست فائدہ ان کو نہ صرف عالمی سطح پر بلکہ ہندوستان کے صوبے پنجاب میں بھی ملا ۔
عمران خان نے اپنے مقصد کے حصول کی خاطر گرونانک کی جائے پیدائش پر واقع گرودوارہ دربار صاحب کی نہ صرف تزئین و آرائش کا کام کیا بلکہ ان کے 550 ویں یوم پیدائش کو کرتاپور راہداری کھول کر یادگار بنادیا ۔ مودی جی یہ نہیں چاہتے تھے لیکن اگر وہ اس کی مخالفت کرتے تو پورا صوبہ باغی ہوجاتا اس لیے مجبوراً پاکستان جانے والے زائرین کو الواداع کرنے کے لیے انہیں پنجاب جانا پڑا۔ افسوس کہ اس تاریخی دن کو مودی جی نے بابری مسجد کے خلاف فیصلہ کروا کر داغدار کردیا ۔ اس دن ساری دنیا نے دیکھا کہ ایک سربراہ مملکت اپنے پڑوسی ملک کی اقلیت کا دل جیت رہا ہےاور دوسرا اپنے ملک میں رہنے اور بسنے والی سب سے بڑی اقلیت کا دل توڑ رہا ہے۔
یہ معاملہ یہیں نہیں رکا بلکہ ہندوستان کے اندر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر کے مسئلے پر بی جے پی کے لوگوں نے ہنگامہ برپا کردیا۔ مسلم یونیورسٹی کے نام اور تشخص پر اوٹ پٹانگ اعتراضات کیے گئے ۔ ان سوالات کو ذرائع ابلاغ میں اچھال کر مسلمانوں کے خلاف جذبات بھڑکائے گئے۔ اس کے برعکس پاکستان میں سکھ یونیورسٹی کے قیام کا کام زور شور سے جاری رہا ہے۔ ننکانہ صاحب میں400ایکڑ خطۂ اراضی پر عالمی معیار کی یونیورسٹی کا کام 6 ارب روپیہ کے خرچ سے جاری و ساری رہا۔ اس یونیورسٹی کے قائم ہوجانے کے بعد نہ صرف دنیا کے دیگر ممالک سے سکھ طلبا وہاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آئیں گے بلکہ ہندوستان سے بھی وہاں جائیں گے ۔ عمران خان نےنریندر مودی کو دکھا دیا کہ کامیاب سفارتکاری کے ذریعہ اپنے مدمقابل کو کس طرح شکست فاش سے دوچار کیا جاتا ہے۔ یہ بات بھی ظاہر ہوگئی کہ عالمی سیاست میں شریف کی شرافت اور خان کی ذہانت سے کیا فرق پڑتا ہے؟
وزیر اعظم نریندر مودی نے صدرڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی پیدا کرنے کی خاطر ہیوسٹن میں ہاوڈی مودی نامی جشن کا انعقاد کروایا۔ اس تقریب میں امریکی صدر کا تعارف کرانے کی خاطر اپنی خدمات پیش کرنا کسی ملک کے سربراہ کے شایانِ شان نہیں تھا لیکن مودی جی نے یہ خدمت بھی انجام دی ۔ اس کے باوجود وہ نتائج مرتب نہیں ہوئے جو عمران خان کے امریکی دورے کے وقت نظر آئے ۔ ٹرمپ نے عمران کی تعریف کے پُل باندھ دیے۔ احمد آباد میں نمستے ٹرمپ پر سیکڑوں کروڑ روپیے پھونکنے کے بعد بھی مودی جی کو وہ سب نہیں حاصل ہوسکا جو عمران کو اس کے بغیر مل گیا۔ ویسے دلّی کے اندر ٹرمپ کی موجودگی میں فرقہ وارانہ فساد برپا کرکے بی جے پی والوں نے ملک کی جو بدنامی کی ہے اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں کم ہی ملے گی۔
مودی جی کا بنیادی مسئلہ ان کی بے سمت خارجہ پالیسی ہے جس میں امریکہ کو خوش رکھتے ہوئے چین سے تجارت کرکے روس سے اسلحہ خریدا جاتا ہے ۔ اس طرح نہ ہی دوستی پائیدار ہوتی ہے اور نہ ٹھوس فائدہ حاصل ہوتا ہے بلکہ اکثر ’نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم ‘ کی کیفیت بن جاتی ہے ۔ پاکستان کی چین سے دوستی نہایت مستحکم بنیادوں پر قائم ہے ۔ افغانستان کی وجہ سے پاکستان پر انحصار امریکہ کی مجبوری ہے۔ ایسااسٹراٹجٹیک فائدہ ہندوستان کے پاس نہیں ہے ۔امریکہ ہندوستان کو چین کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے اس لیے چین کبھی بھی ہم پر مکمل اعتماد نہیں کرتا ۔ لداخ میں فوجی مہم کے بعد ہندوستان تیزی کے ساتھ امریکہ کے حلیفوں مثلاً جاپان اور آسٹریلیا وغیرہ کی صف کی شامل ہوتا جارہا ہے لیکن چین کو اس کی پروا نہیں ہے ۔ اس نے ہندوستان کو چہار جانب سے گھیرنے کی حکمت عملی بنا رکھی ہے اور اس پر مستعدی کے ساتھ عمل پیرا ہے۔چین کو اس معاملے میں سب سے بڑی کامیابی نیپال میں ملی ہے۔ ہندوستان کا بہترین حلیف اور سابق ہندو راشٹر نیپال اب پوری طرح چین کی مٹھی میں جا چکا ہے۔ ان دونوں ممالک کے درمیان نہ صرف ریلوے لائن بچھ گئی ہے بلکہ نیپال کے پرائمری طلباء اب ہندی کے بجائے چینی زبان پڑھنے لگے ہیں ۔ نیپال اور ہندوستان کے درمیان جتنے خراب تعلقات آج کل ہیں پہلے کبھی نہیں تھے ۔ نیپال کی دستور سازی میں مداخلت سے شروع ہونے والے اختلافات نئے نقشے کے ایوان میں منظوری تک جاری رہے ۔ اس دوران اپنے ہمسایہ کی دلجوئی کا خیال تک مودی سرکار کو نہیں آیا۔ فی الحال سرحدی تنازعات اس قدر سنگین ہوچکے ہیں سرحد کھلی ہونے کے باوجود بہار کی سرحد نیپالی حفاظتی دستوں کے ذریعہ گولی چلانے کی دو وراداتوں نے آمدورفت پر مکمل روک لگا دی ہے۔ آئے دن ہندوستان کی جانب سے اپنے رشتے داروں سے ملنے کی خاطر جانے والوں کو زدوکوب کرنے واقعات سامنے آرہے ہیں اور بظاہر نیپالی عوام و خواص کے غم غصے کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہند پاک تعلقات نیپال اورہندوستان کے رشتوں سے بہتر ہیں۔
نیپال کے بعد چین نے اس خطے میں ہندوستان کے دوسرے سب سے بڑے حلیف بنگلہ دیش کو بھی بڑی حدتک اپنا ہمنوا بنالیا ہے ۔ چین نے اس مقصد کے حصول کی خاطر معیشت کا راستہ اختیار کیا۔ اس نے عالمی کساد بازاری کے اس دور میں بنگلہ دیش کی کئی مصنوعات پر ٹیکس ختم کردیا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چین کو بنگلہ دیش کے اندر اربوں ڈالر کے ٹھیکے مل گئے ۔ ان میں سلہٹ کے ہوائی اڈ ے کی تعمیر کا پروجیکٹ بھی شامل ہے۔ہندوستان کی سرحد سے قریب یہ ایک حساس علاقہ ہے ۔ ہندوستانی حکومت کے اعتراض کی پروا کیے بغیربنگلہ دیش نے وہ ٹھیکہ چینیوں کو دے دیا۔ بنگلہ دیشی اخبار بھوریر کاگوج کے مطابق پچھلے سال وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد تمام بھارتی منصوبے سست روی کا شکار ہیں اس کےمقابلے میں چینی انفراسٹرکچر کے منصوبوں کو ترجیح دی جا رہی ہے۔چین کی نیپال والی حکمت عملی بنگلہ دیش میں بھی اپنا اثر دکھا رہی ہے ۔
مودی سرکار کے لیے بنگلہ دیش کا دورہوکر چین کی گود میں چلا جانا کسی خاص اہمیت کا حامل نہیں ہےمگر اس کی پاکستان سے قربت یقیناً تشویشناک ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں بنگلہ دیش کے لیے ہندوستان سے پیاز کی برآمد معطل ہو گئی اس کے بعد بنگلہ دیش نے پاکستان سے پیاز درآمد کرنا شروع کردی ۔ پچھلے 15سال میں یہ پہلا موقع تھا جب بنگلہ دیش نے پاکستان سے کوئی زرعی جنس درآمد کی تھی ۔ ایک طرف بنگلہ دیش معاشی سطح پر چین اور پاکستان کے ساتھ پینگیں بڑھا رہا ہے تو دوسری جانب ہندوستان کے ساتھ اس کے تعلقات سردمہری کا شکار ہورہے ہیں ۔ بنگلہ دیش کے ایک معروف اخبار نے حال میں یہ حیرت انگیز انکشاف کیا کہ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے ہندوستانی ہائی کمشنر کی متعدد درخواستوں کے باوجود گزشتہ 4 ماہ میں ان کو ملاقات کا شرف نہیں بخشا ۔حکومتِ ہند نے کورونا کے خلاف جنگ میں بنگلہ دیش کو جو مدددی اس کو سراہنے تک کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ ہند بنگلہ تعلقات میں کشیدگی کا یہ بھی ایک کھلا مظہر ہے ۔
بنگلہ دیش اور ہندوستان کے تعلقات میں بگاڑ کے معاشی ہی نہیں سیاسی اسباب بھی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ متنازع شہریت ترمیمی بل اور شہریت کا قومی رجسٹر (یعنی سی اے اے اور این آرسی) ہے۔ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کو شکست دینے کی خاطر امیت شاہ سمیت بی جے پی رہنماؤں نے دستاویزات سے محروم مسلمانوں کو بنگلہ دیش بھیجنے کی دھمکی دینا شروع کردی ۔ اس سے بنگلہ دیش کے کان کھڑے ہوگئے ۔ پڑوسی ممالک کےعتاب کا شکار اقلیتوں کو ہندوستان لانے کی پیشکش پر بنگلہ دیش نے اعتراض کیا کہ ان کے ملک میں ہندو معتوب نہیں ہیں ۔ اس کے بعد بنگلہ دیشی وزیر خارجہ نے بہانہ بناکر اپنا دورہ ہندملتوی کردیا۔ بنگلہ دیش کو اس بات کا قلق ہے کہ اس نے شمال مشرقی ہندوستان کے شدت پسندوں کو اپنی سرزمین پر پناہ نہ دے کر انہیں ہندوستان کے حوالے کردیا لیکن اس کے عوض حکومت ہند نے تیستا اور دوسرے دریاؤں کے پانی تک پر معاہدہ کرنے میں پیش رفت نہیں کی ۔ امفان سیلاب کے وقت بھی حسینہ نے مودی کے بجائے ممتا سے گفت و شنید کی۔ بنگلہ دیش کو ہندوستان سے یہ شکایت ہے کہ روہنگیا مہاجرین کے معاملے میں وہ میانمار حکومت کی حمایت کرتا ہے۔ اس معاملے میں پاکستان نے بنگلہ دیش کی جانب دستِ تعاون بڑھایا ہے۔
اس تناظر میں شیخ حسینہ واجد کی عمران خان کے ساتھ غیر معمولی فون کال ذرائع ابلاغ میں موضوعِ گفتگو بنی ہوئی ہے۔ ڈھاکہ نے دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی گفتگو کی تفصیلات نہیں دیں لیکن پاکستان کی سرکاری نیوز ایجنسی نے بتایا کہ عمران خان نے شیخ حسینہ کو کشمیر کی صورتحال سے آگاہ کیا اور تنازع کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی۔اخبار ہندو نے لکھا کہ ہندوستان نے ڈھاکہ کے کشمیر کو داخلی معاملہ سمجھنے والے موقف کو سراہا۔ دورانِ گفتگو عمران خان نے بنگلہ دیش میں کووڈ 19 کی صورتحال کا بھی جائزہ لیا اور سیلاب کی تباہی پر افسوس کا اظہار ۔ ان رسمی باتوں سے ہٹ کراس رابطے کا سب اہم حصہ یہ ہے کہ عمران خان نے شیخ حسینہ کو پاکستان آنے کی دعوت دی۔ شیخ حسینہ اگر پاکستان جاتی ہیں تو یہ کسی بنگلہ دیشی سربراہ کا پہلا دورہ ہوگا ۔ یہ اس لیے غیر معمولی پیشکش ہے کہ اس سال کے اوائل تک بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم بھی پاکستان میں ٹسٹ میچ کھیلنے سے کترا رہی تھی اور آئی سی سی کے دباؤ کی وجہ بحالت مجبوری راضی ہوئی تھی اس وقت کون سوچ سکتا تھا کہ ۷ ماہ بعد بنگلہ دیشی وزیر اعظم کو پاکستان کے دورے کی دعوت دی جائے گی۔
یہ تبدیلی اچانک رونما نہیں ہوگئی بلکہ اس کے لیے منصوبہ بند سفارتی کوشش کی گئی ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں 20 ماہ کے بعد ڈھاکہ میں پاکستانی سفیر کی خالی اسامی پر عمران احمد صدیقی کا تقرر ہوا۔ اس کے بعد سے وہ مسلسل اپنے کام میں لگے رہے یہاں تک کہ یکم جولائی کو بنگلہ دیش کے وزیرِ خارجہ اے کے عبدالمومن سے ملاقات کی ۔ اس ملاقات کو بنگلہ دیش کی وزارتِ خارجہ نے محتاط انداز میں ایک ’غیر رسمی ملاقات‘ قرار دیا گیا ۔پاکستانی سفیر نے اس کے بعد کہا تھا کہ ’ہم اپنے برادر ملک بنگلہ دیش کے ساتھ تمام شعبوں میں ایک مضبوط رشتہ استوار کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری تاریخ، مذہب اور ثقافت مشترک ہے۔‘ یہ بیان بنگلہ دیش بنانے کے پیچھے کارفرما نظریہ کو سیندھ لگانے والا تھا۔شیخ حسینہ اور عمران خان کے درمیان رابطہ ہموار کرنے والے سفیر عمران احمد صدیقی کے مطابق سربراہان کی اس گفتگو میں ’آگے کی ضرورتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے دونوں اطراف سے باہمی تعلقات میں مزید بہتری لانے پر اتفاق ہوا ہے۔‘ یعنی یہ کوئی ہنگامی ضرورت نہیں بلکہ دیرپا منصوبے کا حصہ ہے۔
جنوب مشرقی ایشیا میں ہندوستان یکے بعد دیگرے اپنے حلیف گنوا رہا ہے۔ امریکہ کے دباؤ میں آکر مودی جی نے اپنے قدیم بہی خواہ ایران سے تعلقات خراب کرلیے ۔ چین نے اس کا فائدہ اٹھا کر ہندوستان کو چاہ بہار سے الگ کروادیا اور گوادر کے خلاف جس حکمت عملی میں منموہن سنگھ نے کامیابی حاصل کی تھی اس کو ضائع کردیا گیا۔ اس طرح چاہ بہار سے ہوکر افغانستان میں داخل ہونے کا راستہ ازخود مسدود ہوگیا ۔ صدر براک اوباما نے افغانستان سے نکلنے کا ارادہ کیا تو ہندوستان کو یہ کہہ کر افغانستان میں بلایاکہ اس طرح وہ پاکستان کو دوسری جانب سے گھیرنے کے قابل ہوجائے گا ۔ اس وقت چونکہ طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کا امکان مفقود تھا اس لیے حکومت ہند نے اس پر لبیک کہا ۔ اب حالات بدل گئے ہیں اس لیے افغانستان میں ہندوستان کی دلچسپی ختم ہوگئی ہے۔ نیپال اور بنگلہ دیش سے بے اعتنائی برت کر انہیں چین کی گود میں دھکیل دیا گیا ۔ بنگلہ دیش تو پاکستان کی جانب بھی بڑھنے لگا ہے ۔ آخر یہ کون سی خارجہ پالیسی جس میں پڑوسی ملکوں کو ناراض کرکے اپنے دشمن چین کا دوست بنایا جارہا ہے؟ اصل میں اگر داخلی سیاسی مفاد علمی قومی ترجیحات پر حاوی ہونے لگیں تو ایسی صورتحال رونما ہوجاتی ہے۔
بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والی یہ تبدیلیاں حیرت انگیز ضرور ہیں لیکن لیل و نہار کی گردش گواہی دیتی رہی ہے کہ نظامِ کائنات حرکت کے اصول پر کاربند ہے۔ آسمان سے جن تاروں کو توڑ کر پھینک دیا جاتا ہے وہ جمود کا شکار ہوکر فنا کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ کائناتِ ہستی میں جس طرح عروج و عظمت کو بقاء نہیں ہے اسی طرح زوال و ذلت بھی دائمی نہیں ہے ۔ اس لیے اہل ایمان کو ڈھارس بندھائی گئی ہے : ’’دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘۔ یعنی آخری کامیابی تو مومنین کے ہی قدم چومنے والی ہے۔ درمیانی مراحل کے بارے میں فرمایا گیا :’’اس وقت اگر تمہیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں‘‘۔ یعنی گردش زمانہ کا شکار ہر کوئی ہوتا ہے ۔ مومنین پر یہ وقت اس لیے لایا جاتا ہے تاکہ اچھے اور سچے کو بروں اور جھوٹوں سے چھانٹ کر الگ کرلیا جائے ۔ ظالم و مظلوم کے درمیان تفریق و امتیاز کی خاطر یہ شرطِ لازم ہے ۔ اس لیے قدرت کے کارخانے کی یہ چکی مسلسل چلتی رہتی ہے اور بقول علامہ اقبال حقیقت یہی ہے کہ ؎
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات فقط تغیر کو ہے زمانے میں
***

افغانستان میں ہندوستان کی دلچسپی ختم ہوگئی ہے۔ نیپال اور بنگلہ دیش سے بے اعتنائی برت کر انہیں چین کی گود میں دھکیل دیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش تو پاکستان کی جانب بھی بڑھنے لگا ہے ۔ آخر یہ کون سی خارجہ پالیسی ہے جس میں پڑوسی ملکوں کو ناراض کرکے اپنے دشمن چین کا دوست بنایا جارہا ہے؟ اصل میں اگر داخلی سیاسی مفاد عملی قومی ترجیحات پر حاوی ہونے لگیں تو ایسی صورتحال رونما ہوجاتی ہے۔