رزم حق وباطل ہوتو فولاد ہے مومن

کاروان حق کے قافلے میں خواتین بھی ہمیشہ پیش پیش رہیں

شائستہ رفعت،نئی دلّی

 

دعوت حق کی صدا جب بھی بلند ہوتی ہے باطل مقابلہ پر آجاتا ہے۔حق کے مقابلے میں باطل کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی۔کھلے میدان میں مقابلہ باطل کے بس کی بات نہیں۔دلائل کے میدان میں وہ ٹک نہیں سکتا۔مفادات کی قربانیاں اس کے بس کا روگ نہیں۔اقتدار جاہ و منصب کوبچانے کےلیے اپنی زنبیل سےآخری ترکش بھی نکال لیتا ہے۔یہ ترکش ہے مفاہمت کا۔سودے بازی کا۔ پہلےعلمبردارن حق کو تولتا ہے پھر اسی حساب سے وہ قیمت لگاتا ہے۔ مفاہمت اور سمجھوتے کی تاریخ پرانی ہے۔تاریخ نے اپنے اندر ایسی گواہیاں ریکارڈ کرلی ہیں۔
ابو طالب کے پاس سرداران قریش آئے ہیں۔ابوطالب کے پرجلال چہرہ کو دیکھ کر گومگو کی کیفیت میں ہیں۔ان کے خیال میں پانی سر سے گزر چکاہے۔جی کڑاکرکے دل کی بات زبان پر لے آتےہیں۔
ائے ابوطالب! اپنے بھتیجے سے کہہ دو کہ وہ اس کام سے باز آجائے۔ ابو طالب نگاہیں اٹھاکر مخاطب کو دیکھتے ہیں۔وفد کے ارکان میں سے ایک بات کو آگے بڑھاتےہوئے بولا ’’آپ دیکھ رہے ہیں کہ بھتیجے نے مکہ کے گھروں میں کس طرح انتشار پیدا کردیا۔یہ ہماری اولاد کل تک نظر ملاکرہم سےبات تک نہ کرتی تھی آج ہمارےمنہ لگ رہی ہے۔
ایک اور سردار نے معاملہ آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
ہم تمہارے پاس کچھ پیش کش لے کر آئے ہیں اگر تمہارے بھتیجے نے قبول کرلی تو سارا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
ابو طالب استفسارانہ نظر ڈالتےہیں۔
محمد اگر چاہیں تو ہم عرب کی حسین وجمیل عورت سے شادی کروادیں۔یا اگر ان پر آسیب کا اثر ہے تو ہم علاج کروانے تیار ہیں یا اگر وہ عرب کی بادشاہت چاہتے ہیں تو ہم اس کےلیے بھی تیار ہیں لیکن وہ دعوت سے باز آجائیں۔ ابو طالب یہ پیغام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گوش گزار کرتے ہیں۔ابوطالب کی بات پوری ہوتی ہے ۔محمدصلی اللہ علیہ و سلم اپنے شفیق چچا کی طرف دیکھتے ہیں۔استقامت سے پُر آواز بلند ہوتی ہے:’’چچاجان اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے ہاتھ میں چاند لا کر رکھ دیں تب بھی میں اس کام سے باز نہیں آؤں گا یہاں تک کہ اللہ اس کام کو پورا کردے گا یا پھر میں اس کام پر نثار ہو جاؤں گا۔‘‘
سرداران مکہ کو اتنے کرارے جواب کی توقع نہ تھی۔
محمد بن عبداللہ سےتو پوری دنیا دے کر بھی سودا نہیں ہوسکتا تھا۔ سورج اور چاند دے کر بھی نہیں جو انسان کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔ اس جواب نے تو مفاہمت کے امکانات کی راہ بھی مسدود کردی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں یہ نوخیز تحریک اسلامی ہجرتِ حبشہ وہجرتِ مدینہ کے مراحل طے کرتی ہے بدرواحد کے معرکوں سےتوانائی حاصل کرتی ہوئی تئیس برس میں ایک تناور درخت بن جا تی ہے۔سالار قافلہ نے اس کو اتنا مستحکم و مضبوط بنادیا تھا کہ اغیار مفاہمت کا خیال تک دل میں نہ لاتے۔تحریک کا یہ شجر طیبہ تناور ہوگیا اس کی شاخیں دور دور تک پھیل گئیں۔ انسانیت کا چمن مہک اٹھا۔انسانی قافلوں نےاشیائے کائنات میں خوب تصرف کیا۔کائنات میں پوشیدہ قوتوں کے راز ٹٹولے۔دنیا امن وامان کا گہوارہ بن گئی۔باطل نے اپنےلیے کونے کھدرے تلاش کرلیے۔میدان میں مقابلہ تو دور کی بات ،اب مکر وفن سے بھی راستہ نہ بنا سکتاتھا۔
تاریخ نے انگڑائی لی ،انسانیت کے مسیحا اب سستانے لگے تھے۔سستانےکا جو خیال آیاتو اونگھ اور نیند نے ایسا غلبہ پایا کہ صلیبیوں کے تابڑتوڑحملوں نےنیند کے متوالوں کے ہوش اڑادیے۔صادق ومصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پوری ہوئی۔ وہن اگر ڈیرہ جمالےتو قومیں ٹوٹ پڑیں گی۔صلیب ویہود ایک ہوئے اندلس کے درودیوار مسلمانوں پر تنگ ہوگئے۔۔حق کے متوالے سنبھلتےگرتے اور اٹھتے رہےاور آخر صلیبی جنگوں میں دشمن کو ناکوں چنے چبوادیے۔صلیبیوں نے میدان چھوڑ کر صلح نامے کی اوٹ میں پناہ لی۔
1453 کے آتے آتےصلیبیوں کی بار بارکی معاہدہ شکنی سے تنگ آکر سلطان محمد نے قسطنطنیہ پر حملہ کیا۔قسطنطنیہ صلیبیوں کا بڑا سیاسی اورجنگی مرکز تھا۔1453 میں سلطان محمد نے اس کو فتح کرلیا۔صلیبیوں نے معاہدہ شکنی کرکے خود کو دغاباز ثابت کیا تھا۔اب امکانات کی دنیا ان کو تنگ نظر آرہی تھی۔ 1458 میں اٹلی سے پوپ نے سلطان کو ایک پیغام بھجوایا جس میں دھونس بھی ہے اور لالچ بھی۔
’’تم نے قسطنطنیہ کو فتح کیاہے۔لیکن یورپ کی طاقت کا غلط اندازہ لگانے کی کوشش مت کرو۔اگر تم عیسائیت قبول کرلو توہم وعدہ کرتے ہیں کہ تم کو پورےیورپ کا شہنشاہ بنادیا جائے گا۔‘‘
فاتح قسطنطنیہ نے جو ایک سچا اور پکا مسلمان تھا اس مفاہمتی مراسلے کو مسترد کردیتا ہے اور پیغام دیتا ہے کہ ہمارا فیصلہ میدان جنگ میں ہوگا۔
اٹھارویں صدی کے آتے آتے استعماریت کے جھکڑ چلنے شروع ہوگئے۔دیکھتے ہی دیکھتے مسلم ممالک پر یہ آندھی طوفان بن کر چھاگئے۔لادینیت سرخ آندھی استعماریت کا نوآبادیاتی نظام سب کا نشانہ پھر ایک بار امت مسلمہ تھی۔مسلم ہندوستان، الجزائر، تیونس، مراقش ،ترکستان ازبکستان، افغانستان،مصرغرض کوئی بھی تونہ بچا۔ہرجگہ استعماری طاقتیں اپناایجنڈا پورا کرنے میں لگی تھیں۔ نیل کی وادی بھی بڑی مردم خیز ہے۔ حق وباطل کی کشمکش کے ضمن میں قرآن مجید نے اس قطعہ زمین کو تاریخی سند عطاکردی۔جب بھی فرعونی طاقتیں اٹھیں گی موسوی لشکر ضرور اٹھے گا۔ حسن البنا کی صورت میں مصر میں ایک ستارہ جگمگانے لگا۔ مصر کی عوام اسلام کی شیدائی تھی۔ پروانہ وار اس کی جانب لپکنے لگی۔ استعمار کی تیوریوں پربل پڑ گئے۔ حسن البنا نے عوام کاحوصلہ بڑھایا ’’یا اخوان! اسلام غالب ہونے کےلیے ہے‘‘۔برطانوی استعمار بوکھلاہٹ کا شکار تھا۔دھمکیاں دی جارہی تھیں۔شہروں میں آمدورفت پر پہرے بٹھائے جارہے تھے۔۔البنا کی آواز بلند ہوتی ہے ۔
’’اگرایمان مضبوط ہوگا تو اہل ایمان کمزور وناتواں ہوکر بھی کامیاب ہوجائیں گے۔اور اگر ایمان مضبوط نہ ہوگا توپوری جسمانی ومادی طاقت کے باوجود شکست کھا جائیں گے‘‘۔
برطانوی استعمار نے اپنےپٹھوؤں کو استعمال کرکے البنا سے مفاہمت کرنی چاہی۔
حکومت مصر کاافسر اپنے برطانوی آقا کو رپورٹ دے رہاہے’’سر، ہم نے عہدہ ومنصب کی میٹھی گولی سے اس کا شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔لیکن اس نے حقارت سے ٹھکرادیا ہے‘‘۔
جواب میں برطانوی عہدہ دارکی آوازابھرتی ہے :’’ہم نے خاص ایجنٹ کے ذریعہ ہزاروں پاؤنڈ مالیت کی پیش کش کی اس شخص کو سونے چاندی کی زنجیروں میں باندھنامشکل ہے۔میٹھی گولیاں یہ نہیں کھاتا تو حکومت مصر کو کڑوا گھونٹ پینا ہی پڑےگا۔‘‘
برطانوی استعمار اور اسرائیل کےمنصوبے کے مطابق مصر کا یہ ابھرتا ہواستارہ جو آسمان دنیا پر باطل کی تاریکی دور کرنے کے لیے جگمگارہاتھا بجھا دیا جاتاہے۔ نیل کایہ بہاؤ رکنے والا نہ تھا۔افق پر سیدی قطب کی صورت میں پھر ایک ستارہ نمودار ہوتا ہے باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سید اعلان کرتے ہیں۔کمیونزم،سوسوشلزم ،سیکولرزم صرف انسانوں کی غلامی کے جال ہیں۔نجات صرف اورصرف اسلام میں ہے۔باطل نے آنکھیں مل مل کر دیکھا۔امریکہ سے تعلیم حاصل کرکے آیا ہےاس کو سنہرے جال میں قید کرکے فائدہ اٹھانا چاہیے ۔وزارت تعلیم کی پیش کش ہوئی۔سید نے صاف الفاظ میں کہہ دیا جب تک پورا نظام اسلام کے مطابق نہ ہو وزارت تعلیم کا کیا فائدہ؟ قید و بند کی صعوبتیں،ناقابل برداشت اذیتیں۔ اس شخص پرکیا کچھ نہیں آزمایا گیا۔لیکن اس نے بھی ایک ہی ٹھانی۔ آئے گا تو اسلامی نظام۔نہیں توجیل منظور۔جیل میں اس نے اپنے آپ کو قرآن کے سایے میں سمیٹ لیا۔تحریکی تفسیر ’’فی ظلال القرآن‘‘الفاظ میں ڈھلنے لگی۔کمیونزم کے حامیوں کواس شخص میں کمیونزم کی موت نظر آنے لگی۔فوجی عدالت کا ڈرامہ ہوا غیرملکی مبصرین نے اس عدالتی کارروائی کی شفافیت پر سوال کھڑے کیے۔بالآخر سید قطب ہنستے مسکراتے پھانسی کے پھندے پر جھول گئے۔
وادی نیل سے اعلائے کلمة الحق کے قافلے میں عہد حاضر کی سمیہ و زنیرہ بھی ہیں ۔طبقہ نسواں کی تابناک شراکت روز اول سے رہی ۔بھلا اس موقع پر کیسے وہ پیچھے رہ جاتی۔۔مصر کی بیٹی زینب الغزالی ،حمیدہ قطب وامینہ قطب اور ان جیسی لاتعداد خواتین مردوں کے دوش بدوش شامل تھیں۔ان کا عورت ہونا راستے کی رکاوٹ نہ تھا۔جمال عبدالناصر زینب کو عہدہ کے بدلے میں خریدنا چاہتا تھا۔صدر سے ملاقات کی کئی بار پیش کش کی گئی۔ زینب کا ہرباریہی جواب ہوتاکہ جس شخص کے ہاتھ عبدالقادر عودہ اورسید قطب کے خون سے رنگے ہوئے ہوں اس سے مجھے کیا مطلب؟وزارت کا عہدہ پیش کیا گیا۔اس پرعزم خاتون نے لالچ دھونس اوردھاندلی ہرچیزکامقابلہ بڑی استقامت سے کیا اور پوری زندگی غلبہ حق کےلیے جد وجہد کرتی رہیں۔
تحریک احیائے دین کی راہ میں استقامت کا ذکر ہو اورسید مودودی کا ذکرنہ ہو ممکن نہیں۔افق ہند کی تاریکیوں میں جگمگانے والے اس ستارے کا وجود باطل کی نظرمیں کھٹک گیا۔ پاکستان کے مقصد وجود یعنی خالص اسلامی مملکت بنانے کی جدوجہد ارباب اقتدار کو منظور نہ تھی ۔تاریکی کو تاریکی کہنے سے وہ ڈرنے والا نہ تھا۔قادیانیت کے مسئلہ پر جنبش قلم ناقابل برداشت ٹھہری ۔اظہار رائے کی آزادی کے حق کےلیے گلے پھاڑ کر آوازیں لگانے والوں پر موت طاری تھی۔ سوسید مودودی کوسزائے موت سنادی گئی ۔اس موقع پر استقامت کے ساتھ فرمایا۔
اگر میرے خدا کی مرضی یہی ہےتو میں راضی خوشی اس سے جاملوں گا۔اور میری موت کا وقت نہیں آیاتو یہ لوگ چاہے الٹے لٹک جائیں میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔‘‘
دنیابھر سے اس پر ہونے والے ردعمل نے سزائے موت کوعمر قید میں بدلنے پر مجبور کردیا۔
دور حاضر کابدترین المیہ ہے کہ جمہوریت کے مداری مسلم ملکوں پر پنجے گاڑنے کےلیے جمہوریت اورحقوق انسانی کی دہائی دیتے نہیں تھکتے۔لیکن جب اسی جمہوری راستہ سے اسلام پسند منتخب ہوجاتے ہیں توان کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں۔
اکیسویں صدی نے جمہوریت کے ان کھوکھلے دعویداروں کی دوغلی پالسیوں کے بل پر اٹھاپٹخ کے کئی نظارے دیکھے ہیں۔محمد مرسی مصر کے منتخب صدر تھے۔قران کو دستور زندگی ماننے والےمرسی قرآن کو مصر کا دستور بنانے کا اعلان کرتے ہیں۔مسلم امت کی ناگفتہ بہ حالت کو درست کرنے کا منصوبہ بناتے ہیں۔واشنگٹن سے تل ابیب تک کمیونزم کے ایوانوں میں ہاہا کار مچ جاتاہے۔اسٹیج سجایا جاتا ہے۔پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔مرسی کے خلاف خریدے ہوئے غلاموں سے دھرنے منظم کروائے جاتےہیں۔جمہوری طریقے سے منتخب حکومت کو ختم کردیا جاتاپے۔دنیا اپنے کانوں میں روئی رکھے بیٹھی رہی۔رابعہ عدویہ میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔مرسی نذر زنداں ہوگئے۔زنداں میں ان کو مشق ستم بنایاگیا۔مفاہمت کےلیے ہاتھ بڑھے۔پیش کش ہوئی ۔مصر چھوڑدیں اور چپ چاپ امریکہ منتقل ہو جائیں ۔آسائشات سے پر زندگی انتظار کررہی ہے‘‘۔اخروی زندگی کی خدائی ضیافت کا تمنائی محمد مرسی کا جواب تھا۔میں خدا کو کیا منہ دکھاؤں گا؟میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سامنا کیسے کروں گا؟ امریکہ نادانوں کی جنت ہوسکتا ۔مرسی جیسےمجاہدین کا مطلوب بالکل نہیں۔مرسی اپنی جان ومال کاسودا اپنے رب سے کر چکے تھے۔پھر بھلا سودے پر سودا کیسا؟جیل میں اس مرد آہن پر زندگی تنگ کردی گئی ضروریات زندگی اور علاج ومعالجہ سے محروم کر دیا گیا۔یہ مرد حق پرست حق کی آواز بلند کرتے کرتے اپنے پروردگار کے پاس پہنچ گیا۔
یہ امت فولاد جیسے مومن مردوں کے وجود سےکبھی خالی نہیں رہی۔امام ابن تیمیہ، امام احمد ابن حنبل، سید احمد شہید، شاہ اسماعیل شہید اسی طرح کے ان گنت لوگ جو زمین کا نمک تھے۔حالات کو بدلنے کا عزم رکھتے تھے انہوں نے اپنی زندگیوں کو اسلام کی راہ میں لگاکراپنا فرض ادا کیا۔
مکی زندگی کے تیرہ سالوں میں اسلام کےبنیادی واساسی تصورات کو قلوب میں مستحکم کروایا گیا۔آزمائشوں کی بھٹی میں تپا کر کندن بنایا گیاتب کہیں جاکر داستان بدر مرتب ہوئی۔آج پھر ضرورت اس بات کی ہے کہ عقائد میں کجی کو درست کرکے پھر اسی شاہ راہ پر امت کو گامزن کیا جائے جس شاہراہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےاس کو رواں کیا تھا ۔ایمان کے سوداگر قوت خرید ہاتھ میں لیے ہوئے ضمیر فروشوں کی تلاش میں ہیں۔اپنی جانوں کو باطل کے ہاتھ بیچنے کی کوشش وہی کریں گے جن کو اپنے رب کےساتھ کیا ہو سودا یاد نہ رہے گا۔ربنا لاتزغ قلوبنا بعد اذ ھدیتنا۔

وادی نیل سے اعلائے کلمة الحق کے قافلے میں عہد حاضر کی سمیہ و زنیرہ بھی ہیں ۔طبقہ نسواں کی تابناک شراکت روز اول سے رہی ۔بھلا اس موقع پر کیسے وہ پیچھے رہ جاتی۔مصر کی بیٹی زینب الغزالی ،حمیدہ قطب وامینہ قطب اور ان جیسی لاتعداد خواتین مردوں کے دوش بدوش شامل تھیں۔ان کا عورت ہونا راستے کی رکاوٹ نہ تھا۔