ماسٹر مظہر الحسن خان ایک متاثر کن شخصیت

مرحوم دعوتی واصلاحی جدوجہد کے اچھے اثرات چھوڑگئے

عتیق احمد شفیق اصلاحی بریلی

 

۲۹؍ اکتوبر ۲۰۱۸ کو رامپور میں فارغات مدارس دینیہ کا ایک دو روزہ اجتماع حلقہ اتر پردیش مغرب نے منعقد کیا تھا۔ خاکسار اس موقعہ پر رامپور میں موجود تھا کہ تقریباً چار بجے جناب شمس الحسن صاحب رکن جماعت و پرنسپال درس گاہ نے محترم مظہرالحسن خاں صاحب کے انتقال کی اطلاع دی۔ اس وقت عجیب و غریب کیفیت سے دو چار ہو گیا۔ موت ایسی حقیقت ہے جس کا ہر کسی کو چار و نا چار سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ماسٹر مظہر الحسن خاں مرحوم ضلع بدایوں کے موضع ارولیا میں اپریل ۱۹۳۴ کو پیدا ہوئے اور وہیں پرورش پائی۔ ۵؍ جولائی ۱۹۵۳ میں انہوں نے سرکاری ٹیچر کی حیثیت سے ارولیا پرائمری اسکول میں ملازمت شروع کی۔ ۱۹۹۴ میں ریٹائرمنٹ ہوا۔ اس درمیان انہوں نے کئی مقامات نولی، ٹکرا اور دیوریا مواضعات وغیرہ میں تدریسی خدمات انجام دیں۔
عبید الرحمٰن خاں صاحب عرف بنے خاں، حافظ عبد القیومؒ کی کوشش سے تحریک اسلامی میں شامل ہوئے۔ محترم عبید الرحمن صاحب نے اپنے دوست مظہر الحسن خاں مرحوم پر بہت محنت کی، شروع میں مظہر الحسن خاں مرحوم کتابوں کا مطالعہ کرنے سے کتراتے رہے۔ لٹریچر کا مطالعہ نہ کرنے کا سبب گھریلو پس منظر تھا۔ بقول عبید الرحمٰن صاحب جب انہیں تفہیم القرآن دی گئی تو انہوں نے اسے خوب شوق سے پڑھا۔ یہیں سے ان کے دل کی دنیا کے بدلنے کا آغاز ہوتا ہے۔ ۱۹۶۵ میں مظہر الحسن خاں مرحوم باقاعدہ جماعت اسلامی کے رکن ہو گئے۔ جماعت اسلامی کے لٹریچر نے ان کو ایسا انشراح صدر بخشا کہ اقامت دین کے مشن کے لئے ہی ان کا جینا مرنا ہو گیا تھا اور آخری وقت تک اس پر قائم و دائم رہے۔
بہترین مربی و معلم : مظہر الحسن خاں مرحوم بہترین معلم و مربی تھے۔ زیر تعلیم بچوں کی تربیت کا بہت خیال رکھتے تھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ بچوں کی تربیت ان کے نزدیک زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہے۔ اپنے شاگردوں کو نہ صرف تعلیم دیتے تھے بلکہ ان کی تربیت پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔ مولانا حامد علی ساغر فلاحی صاحب نے بتا یا کہ وہ ہمیں صرف پڑھاتے نہیں تھے بلکہ دینی تعلیم خاص کر نماز وغیرہ کی شدت سے تلقین کرتے تھے۔ نماز پڑھنے کی نہ صرف ترغیب دیتے، بلکہ ہم پر نگاہ بھی رکھتے تھے کہ طلبہ جماعت سے نماز پڑھتے ہیں یا نہیں۔ شاگردوں کو اسکول سے اپنے ساتھ نماز کے لیے جاتے تھے۔مظہر الحسن خاں مرحوم اگرچہ فارغ التحصیل عالم نہیں تھے لیکن درس قرآن و حدیث نہایت موثر دیتے تھے، اسلوب دل کو چھو لینے والا متاثر کن ہوتا تھا۔ اعتماد اور ولولہ اتنا کہ سننے والا آپ کو ایک جید عالم دین ہی سمجھے۔ حدیث کے متن بھی وافر تعداد میں ان کو حفظ تھے۔ مرحوم ایک اچھے خطیب تھے کسی بھی موضوع پر تقریر کرتے تو قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل انداز میں پیش کرتے اور اسلوب اتنا اچھوتا ہوتا کہ سننے والے آپ کے گرویدہ ہو جاتے تھے۔ درس حدیث کے موضوع خاص کر آخرت، ایثار و قربانی اور دعوت الی اللہ ہوتے۔ بہترین درس دیتے اور غافل انسان کو کسی حد تک آخرت کی یاد تازہ کرا دیتے تھے۔ آپ کے دروس میں سوز و گداز اور فکر مندی جھلکتی تھی۔وہ دو اضلاع بدایوں اور ایٹہ کے اعزازی ناظم رہے اور اکثر دورے کرتے رہتے تھے۔ سواریوں کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے سائیکل سے جایا کرتے۔ اقبال صاحب شمس آباد کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میلاد میں ان کی تقریر کرائی گئی اس کا اچھا اثر ہوا۔ ایک مجاور صاحب (گدی نشین) تھے جو میلاد کراتے تھے وہ آج رکن جماعت ہیں۔ اقبال صاحب ہی نے بتایا کہ ایک دفعہ تعزیہ کے جلوس میں بھی انہوں نے تقریر کی۔اجھرؤ میں لوگ دین سے دور تھے نماز تک کا کوئی تصور نہ تھا۔ مظہر الحسن خاں مرحوم اورعبید الرحمٰن صاحب کی کوششوں کے نتیجہ میں وہاں مسجد تعمیر ہوئی۔ مسجد کی تعمیر میں جب شر پسند عناصر نے رکاوٹ ڈالی تو SDM کے توسط سے اس کی تعمیر مکمل کرائی گئی۔ ایک دفعہ کا واقعہ ہے گنگا ندی پار کر کے جانا تھا (اس وقت گنگا پر پل نہیں تھا) کافی پریشان تھے کہ رام اوتار نامی ایک لڑکے نے بیل گاڑی پر بٹھا کر گنگا پار کرائی اس سے تعلقات بنائے اور بالآخر ایک دن یہ بھی آیا کہ اس کو قبول اسلام کی توفیق نصیب ہوئی۔بدایوں کی مقامی جماعت کو مضبوط و مستحکم بنانے میں مظہر الحسن خاں مرحوم کا اہم رول رہا ہے۔ وہ بدایوں کے ہفتہ وار اجتماع میں وقت سے پہلے پہنچ جاتے، رات کو قیام کرتے، رفقاء سے ملتے اور ان کی تربیت کرتے۔
اصلاح معاشرہ اور دعوت و تبلیغ کو انہوں نے اپنی زندگی کا مشن بنا لیا تھا راستہ چلتے، دوران سفر، مساجد، اسکول اور ہر شادی بیاہ کی تقریب حتی کہ کوئی موقع نہ چھوڑتے جہاں دین کی بات پیش نہ کرتے۔
انہوں نے اپنے پیشہ کا مکمل حق ادا کرتے ہوئے جتنا وقت بچا وہ تحریک کی توسیع و استحکام کے لئے وقف کر دیا۔ اگر وہ چاہتے تو کوئی کاروبار کر سکتے تھے کہیں پیسے لگا سکتے تھے لیکن انہوں نے ہر طرح کی مصروفیات سے الگ رہ کر مکمل طور پر پوری یکسوئی سے جماعتی کاموں کو ترجیح دی۔ مرحوم نے مولانا مودودیؒ کی وصیت کہ ’’رفقاء خدا کے کام کو اپنے ذاتی کا موں پر ترجیح دیں‘‘ کے سچے امین نظر آتے ہیں۔ان کی اہلیہ ابتداء میں جماعت کی سخت مخالف رہیں وہ کتابوں کو چھپا دیتی تھیں، بعد میں مظہر الحسن خاں مرحوم کی کوششوں کے نتیجہ میں جماعت کے نصب العین سے اتفاق کیا اور جماعت کی بہترین فعال کارکن اور بعد میں رکن جماعت بن گئی تھیں مرحومہ مجھ سے بڑی محبت و شفقت سے پیش آتی تھیں۔ جولائی ۱۹۷۵ میں جب ایمرجنسی لگی اس وقت مظہر الحسن خاں مرحوم ارولیا کے امیر مقامی تھے۔ اس وقت وہ بھی جیل گئے۔ دو ماہ ۲۲؍ دن جیل کی مشقتیں اٹھائیں۔ ۱۹۷۵ سے تاریخیں پڑتی رہیں ۱۹۷۶ میں کیس ختم ہو گیا۔ ان کی ضمانت ۴؍ برادران وطن اتواری لال، گوکرن لال، ایشوری لال اور ہوری لال کی گواہی پر ہوئی۔ اس بات سے ان کے دعوتی روابط کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اخلاق و کردار:۔ مظہر الحسن خاں مرحوم کی ذات اعلیٰ اخلاق، بہترین سیرت، امانت و دیانت، تقویٰ و پرہیزگاری کی حامل شخصیت تھی۔ اللہ پر کامل بھروسہ رکھنے والے، تحمل وبردباری ان کی خصوصی صفت تھی۔ ہمدردی اور ملنساری کے وہ خوگر تھے۔ لوگوں میں صلح کرانا اور کوئی ان سے ناراض ہو جائے تو اس کو منانا ان کی عادت تھی۔بیماروں کی عیادت اور لوگوں کے جنازے میں شرکت کا بہت اہتمام کرتے تھے۔ مہمان نوازی بھی خوب کرتے تھے۔
عبادات: عبادات کا بڑا اہتمام کرتے تھے۔ نماز با جماعت کے لئے سب سے پہلے مسجد پہنچتے اور دیر تک نماز پڑھتے۔ تہجد کی نماز کے پابند تھے۔تلاوت اور قرآن کا مطالعہ خوب کرتے تھے۔اللہ کی راہ میں خرچ کرتے تھے۔ انہوں نے دفتر حلقہ کی تعمیر میں ایک لاکھ ۳۲؍ہزار روپے براہ راست حلقہ کو دیے۔ مرکز کی مسجد کی تعمیر میں 12000 روپوں کا ایک کوپن لیا تھا۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے کتنے کا کوپن لیے؟ کہا ایک کوپن لیا۔ میں نے کہا آپ کو تو پوری بک لینا چاہئے تو مسکرائے کہ چلو یہ بھی کر دوں گا۔
انتقال سے تقریباً دو ماہ قبل ارولیا میں اپنی ۱۵؍ بسوا جگہ میں مسجد کا سنگ بنیاد رکھا اور اس کے لئے بیس لاکھ روپے کی رقم بھی مختص کی۔وہ مسجد سے متصل ایک دینی ادارہ کے قیام کا خواب بھی دیکھ رہے تھے۔ اس کا ذکر ڈاکٹر اتحاد عالم صاحب ناظم ضلع بدایوں نے مجھ سے کیا تھا۔ مزید ڈاکٹر اتحاد عالم صاحب نے ان کی تدفین کے موقع پر بھی لوگوں سے اس کا ذ کر کیا کہ وہ ادارہ کا قیام چاہتے تھے اس کے لئے رقم بھی خرچ کرنے کا ارادہ تھا۔ مظہر الحسن خاں مرحوم نے شاہدہ خاتون مسجد ارولیاکی تعمیر کے ابتدائی مرحلہ میں کافی تعاون دیا۔ اس کے علاوہ بھی مساجد کی تعمیرات اور غریب بچوں کی دینی تعلیم پر خاص توجہ دیتے تھے۔ در س گاہ اسلامی ٹھریا کے لئے بھی چندہ کرایا۔ ارولیا کی جامع مسجد کے خازن رہے۔
نظم جماعت۔ نظم جماعت کی پابندی کرتے تھے۔تنظیم و تربیت میں ہمہ تن مستعد رہتے۔ بعد نماز فجر تفہیم القرآن سے درس قرآن اور بعد نماز عشاء اسٹڈی سرکل مستقل ان کا معمول رہا۔ ان دونوں پروگراموں کی مدد سے بہت سے اہل ارولیا کو اقامت دین کا ہمنوا بنایا ۔ضلع بدایوں میں جو جماعتیں اور ارکان ہیں ان میں سے ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو مظہر الحسن صاحب کی کوششوں سے جماعت کے قریب آئے اور رکن بنے۔ ارولیا جماعت کے تو وہ بانی و روح رواں تھے۔
تعلیمی اداروں میں رول : وہ ملت کے بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔ فلاح عام انٹر کالج ککرالہ اور جامعۃ الحسنات کے بانیوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ کئی سالوں تک وہ فلاح عام انٹر کالج کے صدر اور جامعۃ الحسنات کی مجلس عاملہ کے رکن رہے۔ درس گاہ اسلامی ککرالہ اور ارولیا کی کمیٹیوں کے بھی رکن تھے۔
ملت کا درد : ملت کی زبوں حالی پر ہمیشہ فکر مندی کا اظہار کرتے تھے۔ نوجوانوں کو ہمیشہ حوصلہ دیتے اور ان کو دعوت دین اور اشاعت اسلام کی تلقین کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی کوششیں قبول کرے اوران کی مغفرت فرمائے۔ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ وہ جس دعوت و پیغام کے لئے سرگرم تھے اس کو ان کے متعلقین اور ان کے رفیق کار سمجھیں اور اس کے علمبردار بنیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 24 جنوری تا 30 جنوری 2021