تذکیر بالقرآن

اللہ کی رحمت

لئیق اللہ خاں منصوری، ایم اے (بنگلورو)

 

’’بس تم اس قرآن کے ذریعہ سے ہر اس شخص کو نصیحت کردو جو میری تنبیہ سے ڈرے ‘‘۔(ق:۴۵)
اَلرَّحْمٰنُ ہ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ ہ خَلَقَ الْاِنْسَانَ ہ عَلَّمَہُ الْبَیَانَ رحمٰن نے اس قرآن کی تعلیم دی ہے۔ اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا۔ (الرحمن:۱تا۴)
یہ سورہ رحمٰن کی ابتدائی چار آیات ہیں۔ قرآن مجید کی یہ واحد سورت ہے جس میں انسانوں کے ساتھ جنوں کو بھی براہ راست خطاب کیا گیا ہے۔ اس سورت میں آیت (فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰن۔ اے جن و انس! تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤگے؟) ۳۱؍ مرتبہ دہرائی گئی ہے۔
٭ کئی سورتوں کے نام محض علامت کے طور پر رکھے گئے ہیں۔ لیکن بعض سورتوں کے نام اُس سورت کے مضمون سے بھی مناسبت رکھتے ہیں۔ انہیں سورتوں میں سے ایک سورت، سورہ رحمٰن بھی ہے۔ سورہ رحمٰن میں اللہ کی رحمت کے مختلف مظاہر بیان ہوئے ہیں۔
٭ الرحمٰن کے معنی ’’بے انتہا مہربانی کرنے والے‘‘ کے ہیں۔ لفظ ’’اللہ‘‘ اس کا ذاتی نام ہے۔ جبکہ اس کے ۹۹؍ صفاتی نام ہیں۔ الرحمٰن خدا کا بلند ترین صفاتی نام ہے۔
٭ الرحمٰن ۔’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ میں شامل ہے۔بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سورہ توبہ کے سوا ہر سورت کے شروع میں لکھا جاتا ہے۔ سورہ نمل کے درمیان میں بھی یہ آیت ہے۔
٭ الرحمٰن۔ سورہ فاتحہ کا بھی حصہ ہے۔ سورہ فاتحہ ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے۔ اس سے بھی اللہ کی اس صفت کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
٭ اللہ کی رحمت ہی کا دوسرا پہلو ’’الرحیم‘‘ میں ظاہر ہوتا ہے۔ جس کے معنی ’’ہر وقت اور ہمیشہ رحم کرنے والے‘‘ کے ہیں۔ خدا کی رحمت بے انتہا بھی ہے اور مستقل بھی ہے۔
٭ حدیث میں آیا ہے کہ بندوں کے ناموں میں اللہ کے نزدیک پسندیدہ نام ’’عبد اللہ‘‘ (اللہ کا بندہ) اور ’’عبد الرحمن‘‘(رحمٰن کا بندہ) ہیں۔ (ابو داؤد)
٭ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے مختلف پہلوؤں کو قرآن مجید میں جگہ جگہ بیان کیا ہے مثلاً : قرآن مجید، قیامت اور بارش کا نزول وغیرہ کو اللہ نے اپنی رحمت قرار دیا ہے۔
٭ سورہ رحمٰن کی ان ابتدائی چار آیات میں بھی اللہ کی رحمت کی تشریح بیان ہوئی ہے۔
٭ ان آیات میں اللہ کی رحمت کے حوالے سے سب سے پہلی بات یہ بیان ہوئی ہے کہ اس نے قرآن سکھایا ہے۔ قرآن کو دیگر آیتوں میں بھی خدا کی رحمت کہا گیا ہے۔
٭ رحمٰن کی دوسری مہربانی ان آیات میں یہ بیان ہوئی ہے کہ اس نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ گویا انسان کی تخلیق بھی خدا کی رحمت کا مظہر ہے۔
٭ رحمٰن کی تیسری مہربانی یہ بیان ہوئی کہ اس نے انسان کو ’بیان‘ سکھایا ہے۔ بیان کا مطلب اظہارِ خیال کی صلاحیت جس میں گفتگو، تقریر، تحریر، تبادلہ خیال سب شامل ہیں۔
٭ ان آیات میں چار بلند ترین باتوں کو بیان کیا گیا ہے۔ (۱) الرحمٰن۔ اللہ کے صفاتی ناموں میں سب سے اونچی صفت ہے۔ (۲) قرآن مجید اللہ کی تمام کتابوں میں عظیم ترین ہے۔ (۳) انسان۔ اللہ کی تمام مخلوقات میں سب سے افضل ہے۔ (۴) بیان۔بولنے کی صلاحیت انسان کو عطا کی گئی صلاحیتوں میں سب سے اہم اور دوسری مخلوقات سے ممیز کرنے والی صلاحیت ہے۔ بولنے کی صلاحیت میں عقل اور فہم کی صلاحیت بھی شامل ہے۔ اس طرح ان آیات میں ایک بڑا سبق یہ بھی ہے کہ اللہ نے قرآن سکھا کر انسان کو قوتِ گویائی یا قوتِ بیان اس لیے دی ہے کہ وہ قرآن کو خود سمجھے اور دوسروں کو بھی سمجھائے۔حضورﷺ نے ایسے ہی شخص کو بہترین قرار دیا ہے۔(بخاری)
اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی رحمت کے مظاہر کو سمجھنے اور اس کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۰

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 24 جنوری تا 30 جنوری 2021