برما، فلسطین اور سنکیانک۔۔ بربادی کی داستان

ڈیڑھ کروڑ ایغور ڈر کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں

مسعود ابدالی

 

امریکی پارلیمان کے ایگزیکیوٹیو کمیشن برائے چین (CECC) نے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانک (مقامی تلفظ شنجاک) سے ملنے والے نئے شواہد کی بنا پر ترک نژاد چینی مسلمانوں یا ایغوروں (Uighurs) کی نسل کشی کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ جب 20 سال پہلے سابق صدر بش نے بیجنگ سے آزاد تجارت کا معاہدہ کیا، اس وقت امریکی پارلیمان نے چین میں مذہبی اقلیتوں سے بدسلوکی اور امتیازی قوانین یا قوانین کے متعصبانہ استعمال پر نظر رکھنے کیلیے CECC تشکیل دی تھی۔ کمیشن کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی تحقیقات کا اختیار دیا گیا ہے۔ کمیشن اپنے ذرائع کے علاوہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی مدد سے رپورٹ مرتب کرکے امریکی وزارت خارجہ، وزارت خزانہ اور بین الاقوامی تجارت کے شعبوں کو بروقت مطلع کرتا ہے۔ ہر سال ایک تفصیلی سالانہ رپورٹ بھی امریکی کانگریس کو فراہم کی جاتی ہے۔ امریکی وزارت تجارت، وزارت خارجہ اور وزارت محنت کے ایک ایک سینئر رکن کے علاوہ امریکی ایوان نمائندگان (لوک سبھا) کے نو ارکان اور 9 سینیٹرز (ارکانِ راجیہ سبھا) اس ادارے کا حصہ ہیں۔ اس وقت ڈیموکریٹک پارٹی کے جم مگ گورن CECC کے سربراہ اور ریپبلکن پارٹی کے سینیٹر مارکو روبیو ان کی نیابت کر رہے ہیں۔جمعرات (14 جنوری) کو جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنکیانک کے یغور باشندوں کو ہراساں کرنے، قید وبند، بہیمانہ تشدد کے جو نئے شواہد ملے ہیں وہ انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کی تعریف میں آتے ہیں۔ رپورٹ میں اقوام متحدہ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ دس لاکھ سے زیادہ ایغور مسلمان بیگار کیمپوں میں بند ہیں جنہیں چین، فنی تربیت کے ادارے قرار دیتا ہے۔ کمیشن کے سربراہ جم مگ گورن نے کہا کہ انسانی حقوق کی ایسی خلاف وزریوں کی مہذب دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی اور اسے سن کر دل دہل جاتا ہے۔ جناب مگ گورن کا کہنا ہے کہ امریکہ کو یغور عوام سے یکجہتی اور ان کی پشت پناہی کے لیے عملی قدم اٹھانا چاہئے۔
ایغور ترکی النسل مسلمان ہیں جو چین کے شمال مغربی صوبے سنکیانک میں آباد ہیں۔ لسانی و مذہبی تنوع کی بنا پر سنکیانک ایغور خود مختار علاقہ یا (Xinjiang Uyghur Autonomous Region-XUAR)کہلاتا ہے۔ رقبے کے اعتبار سے یہ چین کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اس کی سرحدیں منگولیا، روس، قازقستان، کرغستان، تاجکستان ، افغانستان اور کشمیر کے راستے ہندوستان سے ملتی ہیں۔ سنکیانک کی کل آبادی سوا دو کروڑ کے لگ بھگ ہے جس کا 45 فیصد ایغوروں پر مشتمل ہے۔ نعمتیں بخشنے میں قدرت نے حد درجہ فیاضی سے کام لیا ہے۔ سنکیانک کا بڑا حصہ غیر آباد صحرا پر مشتمل ہے جس کی تہہ میں تیل و گیس کے چشمے ابل رہے ہیں۔ ارضیات کے طلبہ نے ٹیرِم میدان یا Tarim Basin کا نام ضرور سنا ہوگا۔ تیل وگیس کا یہ عظیم میدان سنکیانک کا حصہ ہے۔ ایغور زبان میں ٹیرم کو التی شہر کہا جاتاہے کہ یہ قریب قریب آباد چھ شہروں کا مجموعہ ہے۔ ایغور زبان میں چھ کو التی کہتے ہیں۔ مزےکی بات یہ ہے کہ جہاں سنکیانک کا بڑا حصہ گرم و خشک ہے تو کچھ علاقوں میں درجہ حرارت منفی 4 بھی رہتا ہے۔ ایک طرف ہمارے رب نے اہل سنکیانک کو تیل و گیس کی دولت بخشی ہے تو دوسری طرف اس زرخیز سر زمین کا ساڑھے چھ لاکھ مربع کلومیٹر علاقہ زیر کاشت ہے۔ سنکیانک کپاس کی پیداوار کے اعتبار سے دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ دنیا کا ایک چوتھائی سے زیادہ اور چین کا 84 فیصد کپاس سنکیانک سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ گندم، مکئی اور چاول کی فصل بھی بہت عمدہ ہے۔ عجیب اتفاق کہ ساری خوشحالی سنکیانک کے شمال اور مغربی علاقے میں ہے جہاں ایغور آباد ہیں جبکہ چینی ہن کے علاقے انتہائی پسماندہ ہیں۔
معاشی خوشحالی کے ساتھ ایغور تعلیمی میدان میں بھی آگے ہیں۔ ارضیات، انجنیرنگ اور زرعی تحقیق کے ایغور ادارے سارے چین میں انتہائی موقر سمجھے جاتے ہیں۔ امریکہ کی تیل کمپنیوں میں درجنوں ایغور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ ایغور زرعی ماہرین سے چین کے دوسرے صوبے بھی مستفید ہوتے ہیں۔ چین کے دوسرے علاقوں کے مقابلے میں سنکیانک زبان و تہذیب کے حوالے سے بہت متنوع ہے۔ اکثر لوگ چینی کے علاوہ ترکی، قازق، فارسی اور روسی زبان پر عبور رکھتے ہیں۔ 2012 میں جب افغانستان کے شمالی علاقوں میں تیل و گیس کی تلاش کا کام نئے سلسلے سے شروع ہوا تو اس وقت ہمارا کابل اور شبرغن جانا ہوا جہاں چین کی سرکاری تیل کمپنی CNPC کو تلاش کا ٹھیکہ ملا تھا۔ افغانستان میں تیل و گیس کی تلاش کا زیادہ تر کام قبضے کے دوران روسیوں نے کیا ہے اس لیے افغانستان میں تیل و گیس کے میدان کی زبان روسی ہے۔ جامعہ کابل میں شعبہ ارضیات کے اکثر سینئر اساتذہ روسی زبان پر عبور رکھتے ہیں اور ارضیات کے لیکچر فارسی، پشتو، روسی اور انگریزی کا ملغوبہ ہوتے ہیں۔ ہماری ملاقات کے دوران CNPC کے منیجر اور دوسرے افسران روسی ہی بول رہے تھے۔اور ایک پاکستانی مترجم انتہائی مہارت سے فارسی اور انگریزی میں منیجر صاحب کی گفتگو کا ترجمہ کر رہے تھے۔ بات چیت کے بعد جب کھانے کا دور چلا تو معلوم ہوا کہ موصوف اڑمچی سے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سنکیانک میں تیل و گیس کے میدانوں کی سرکاری زبان روسی ہے۔
بدقسمتی سے سنکیانک کے ایغور علاقوں کی خوشحالی ہی نے بیچاروں کو یہ دن دکھائے ہیں۔صوبے میں آباد ہن نسل کے چینی ایغوروں کی خوشحالی سے حسد میں مبتلا ہیں اور ماضی میں کئی بار فسادات ہوئے۔ کہنے کو تو سنکیانک خود مختار علاقہ ہے لیکن نظم و نسق، عدالت، پولیس اور سب سے بڑھ کر سراغرساں ادارے چینیوں کے قابو میں ہیں۔ وفاقی حکومت نے سرکاری سرپرستی میں ہن چینیوں کو شمال مغرب کے ایغور علاقوں میں آباد کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ ایغوروں کو شروع میں اس بات پر اعتراض نہ تھا کہ اقتصادی ترقی کے لیے اضافی افرادی قوت کی ضرورت تھی اور ہن آبادکاروں کی شکل میں تیل کے میدانوں اور کپاس کی کاشت کے لیے مطلوبہ کارکن میسر آگئے۔ کچھ عرصے بعد تیزی سے بڑھتی ہن آبادی پر مقامی ایغوروں نے تشویش کا اظہار کیا اور مقامی چینی کمیونسٹ پارٹی کو بھی شکایت کی گئی لیکن وفاقی حکومت کا موقف تھا کہ دیہی علاقوں سے غریب ہن افراد کی نقل مکانی کا مقصد ان غریبوں کے لیے روزگار کے مواقع کو بہتر بنانا ہے۔
کچھ ہی عرصے بعد ہن اور ایغوروں کے درمیان چپقلش شروع ہوگئی۔ ہن کارکنوں کا اعتراض تھا کہ ایغوروں کی گفتگو میں ترکی اور عربی کی آمیزش ہے جس کی وجہ سے انہیں بات چیت میں مشکل ہوتی ہے۔ کچھ کا کہنا تھا کہ صبح سویرے لاوڈ اسپیکر پر فجر کی اذان سے ان کی نیند میں خلل پڑتا ہے۔
اسی دوران کئی ہن لڑکیوں نے ایغوروں سے شادی کرلی۔ چینیوں کے زردی مائل چہروں کے مقابلے میں ترکی النسل ایغور نسبتًا سرخ و سفید ہونے کے ساتھ ستواں ناک کی وجہ سے ہن خواتین کو زیادہ وجیہہ محسوس ہوتے ہیں۔ ایک اور بڑی شکایت مسلمانوں کا دعوتی انداز ہے جس کی وجہ سے بہت سی خواتین مسلمان ہو گئیں۔ سری لنکا اور ہندوستان کے مسلمان بھی اسی وجہ سے آزمائش میں ہیں بلکہ اس کے لیے اب جہادی عشق یا Love Jehad کی پھبتی کسی جارہی ہے۔ زبانی چھیڑ چھاڑ، ہلکی پھلکی مار پیٹ سے بڑھ کر مسلح تصادم کی شکل اختیار کر گئی۔ کئی جگہ آتشیں اسلحہ بھی استعمال ہوا۔ دور حاضر میں دہشت گردی کے نام پر سب کچھ جائز ہوگیا ہے۔ چنانچہ 2014 کے وسط میں چینی فوج نے انسداد دہشت گردی کا علم اٹھا کر ایغوروں کے خلاف بھرپور مہم کا آغاز کیا۔ اسرائیلی فوج کی طرح ‘دہشت گردوں’ کے مکانوں بلکہ پوری کی پوری آبادیوں کو منہدم کردیا گیا۔ بعد میں خالی کرائی گئی ان زمینوں پر ہن بستیاں بس گئیں۔ لا تعداد نوجوان گرفتار کر کے بیگار کیمپ نما عقوبت کدوں میں پہنچادئے گئے۔
یہاں چینیوں نے جدت اختیار کی اور جیل خانوں کو ہنر سکھانے والے پیشہ ورانہ تعلیمی ادارے یا ’ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز‘ کا نام دیا۔ چینی وزرات ثقافت نے بہت فخر سے کہا کہ ہم دوسرے ممالک کی طرح شدت پسندوں کو قتل یا ان کے خلاف طاقت استعمال نہیں کریں بلکہ پیارو محبت اور تعلیم کے ذریعے بیرونی دشمنوں کے جھانسے میں آنے والے ان ’معصوم بچوں‘ کی منفی سوچ کو تبدیل کیا جائے گا۔ تاہم حقوقِ انسانی کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان کیمپوں میں صدر شی پنگ سے حلف، وفاداری کے ساتھ یہاں نظر بند افراد کو اپنے عقیدے پر تنقید اور اسے ترک کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت دس لاکھ سے زیادہ ایغور افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ چینی حکومت نظر بند لوگوں کی تعداد کے بارے میں دس لاکھ کے عدد کو مبالغہ آمیز قراردے رہی ہے لیکن انسانی حقوق سے متعلق ایک اجلاس میں چینی سفیر نے یہ اعتراف کیا ہے کہ مذہبی شدت پسندی کی وجہ سے گمراہ ہو جانے والے ایغوروں کو معاشرے میں دوبارہ ضم ہونے کے قابل بنایا جا رہا ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان سمیت دنیا کے 18 مسلم ممالک نے چین کے اس موقف کی بھرپور حمایت اور ذہنی تربیت کے ذریعے شدت پسندی کے علاج کو قابل تحسین قرار دیا ہے۔
اسلام کے نام پر شدت پسندی اور اس کی آڑ میں علیحدگی کی تحریک کو کچلنے کے لیے اب باقاعدہ قانون سازی کی جا رہی ہے۔ اس قانون کے مطابق حلال چیزوں کے تصور کو پھیلانا، سرکاری ٹی وی دیکھنے، ریڈیو سننے اور بچوں کو سرکاری تعلیم دلوانے سے انکار قابل دخل اندازی پولیس جرم ہوگا جس کے مرتکب افراد کو اصلاح اور ذہنی تربیت کے لیے ’ووکیشنل مراکز‘ منتقل کر دیا جائے گا۔ ان مراکز پر Mandarin (چینی زبان) کے علاوہ چینی ثقافت کی تعلیم دی جائے گی۔ انسانی حقوق پر نظر ر کھنے والے ادارے ہیومن رائٹس واچ (HRW) کی ڈائریکٹر برائے چین محترمہ صوفی رچرڈسن کا کہنا ہے کہ ظلم و جبر کے ایسے ہتھکنڈے جو انسان سے اس کے عقیدے کے مطابق عمل کرنے کا حق چھین لیں انہیں قانون نہیں کہا جا سکتا۔ قانون کے ابتدائیہ میں ایک مثال دی گئی ہے کہ دوکانوں میں ٹوتھ پیسٹ خریدتے وقت اس کے حلال وحرام اجزا پر گفتگو سے عوام کی ذہنیت متاثر ہو رہی ہے اور نوجوان مذہبی شدت پسندی کا شکار ہو رہے ہیں۔ چینی حکومت حلال و حرام کی بحث کو ملک کی سیکیولر شناخت کے لیے نقصان دہ سمجھتی ہے۔ گزشتہ ماہ کمیونسٹ پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے سنکیانگ کے دارالحکومت اڑمچی میں لوگوں سے حلال وحرام کی بحث ختم کرنے کا وعدہ لیا۔ نئے قانون کے تحت اسکولوں میں مسلم طلبہ کو گھر سے کھانا لانے کی اجازت نہیں ہوگی اور ان کے لیے انتظامیہ کی جانب سے فراہم کیا جانے والا کھانا نوش جان کرنا ضروری ہوگا اور لحم خنزیر کی صورت میں وہ کھانے سے انکار بھی نہیں کرسکتے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کا کہنا ہے کہ مذہبی بنیادوں پر کھانے کی تقسیم سے ملک کی قومی یکجہتی متاثر ہوتی ہے۔ رمضان میں بھی مسلمان طلبہ کے لیے اسکول میں لنچ کرنا ضروری ہے۔ نئے قانون کے تحت خواتین کو اسکارف اوڑھنےکی اجازت نہیں ہے کہ اس سے معاشرے میں ثقافتی دو رنگی پیدا ہوتی ہے اور تو اور عوامی مقامات اور تقریبات میں تہنیت کے لیے سلام کے بجائے چینی زبان میں نیخاو (Ni Hao) کہنے پر اصرار کیا جا رہا ہے۔ اس جبر کو ثقافتی تطہیر و تجدید کا نام دیا گیا ہے۔
بی بی سی کے مطابق ووکیشنل سینٹر سے فرار ہو کر قازقستان پہنچنے والے ایک پروفیسر نے عدالت کے روبرو بیان حلفی میں کہا کہ وہ سیاسی تربیت کے کیمپ نہیں بلکہ پہاڑوں میں بنی ایک جیل تھی۔ وہ اسی حد تک ایک تربیت گاہ ہے کہ ہر صبح قیدیوں کو ایک ترانہ سکھایا جاتا ہے ہے جس کا پہلا مصرعہ کچھ اسطرح ہے کہ ’کمیونسٹ پارٹی کے بغیر چین کا وجود ہی نہ ہوگا‘ دوسرے دن جو طالب عالم ’آموختہ‘ نہ سنا س کے اس کو ناشتہ نہیں ملتا۔ ایک اور سابق قیدی نے کہا کہ وہاں کلیدی سبق بس ایک ہی ہے یعنی ’چینی کمیونسٹ پارٹی کی عظمت، ایغور ثقافت کی پسماندگی اور چینی ثقافت کی جدت‘
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہناہے کہ ڈیڑھ کروڑ ایغور ڈر کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ’ہر گام پہ چند آنکھیں نگراں ہر موڑ پہ اک لائسنس طلب، یعنی ہر طرف سرکاری جاسوس جھانکتے اور سونگھتے پھر رہے ہیں۔ جن مردوں کو گرفتار کیا گیا ہے ان کے گھروں کی حفاظت کے لیے فوجی تعینات کئے گئے ہیں جو سادہ کپڑوں میں گھروں کے اندر رہتے ہیں تاکہ بچوں پر خوف نہ طاری ہو۔ غیر مردوں کے گھر کے اندر رہنے سے خواتینِ خانہ اور ان کی بچیاں جس ذہنی اذیت و کراہیت سے دوچار ہیں اس کا تصور بھی محال ہے۔جبر وپابندی کے ساتھ زیر حراست قیدیوں سے جبری مشقت بھی لی جا رہی ہے۔ ہزاروں اویغور قیدی کپاس کی چُنائی کرتے ہیں۔ یہ دراصل انہیں کے کھیت ہیں جن پر حکومت نے قبضہ کرلیا ہے اور یہ بدنصیب اپنے ہی مقبوضہ کھیتوں سے کپاس چُن کر سرکار کے حوالے کر رہے ہیں۔ تعمیراتی منصوبوں پر کام کرنے کے لیے ہزاروں قیدی مزدور کی حیثیت سے دوسرے صوبوں کو بھیج دئے گئے ہیں اور یہ قیدی پارچہ جات یعنی ٹیکسٹائل فیکٹریوں میں بھی بیگار کر رہے ہیں۔
ایغور کبھی بھی شدت پسند نہیں رہے۔ بنیادی طور پر یہ کاشتکار، کارخانہ دار اور تیل و گیس کی صنعت سے وابستہ مہندسین و ماہرین ہیں۔ یہ کئی دہائیوں سے چین کا خوشحال ترین علاقہ تھا۔ عوامی جمہوریہ چین کے بانی ماوزے تنگ نے سنکیانک کی منفرد ثقافتی شناخت کا اعتراف کرتے ہوئے اسے 1955میں آزاد وخود مختار علاقے کی حیثیت دی تھی۔ یہاں ہن چینی بھی خوش و خرم رہ رہے تھے اور 2010 سے پہلے کسی قسم کی لسانی یا مذہبی کشیدگی کا نام ونشان تک نہ تھا۔
معلوم نہیں ترمیم پسند کمیونسٹ پارٹی پر یکسانیت کا خبط کیوں اور کیسے سوار ہو گیا۔ ڈیڑھ ارب آبادی والا ملک بالکل یک رنگا کیسے ہو سکتا ہے؟ مغربی یورپ کے چھوٹے سے لکسمبرک میں بھی کہ جس کی آبادی چین کے ایک بڑے محلے سے بھی کم ہے پانچ سے زیادہ ثقافتی اکائیاں اور 7 مذاہب کے ماننے والے آباد ہیں۔ مساجد، گرجے، کنیسہ، مندر اور گردوارے سب شاد وآباد اور حلال، کوشر، ویجیٹیرین ہر نوع کے ریستوران اپنے شائقین سے بھرے ہوئے ہیں۔ شاہراہوں پر مقامی زبان کے ساتھ، فرانسیسی، پرتگالی، انگریزی اور جرمنی زبان کے کتبے اور نشانات ملک کی شان بڑھا رہے ہیں۔ چین میں جنم لینے والا یہ انسانی المیہ تاریخ عالم کا پہلا واقعہ نہیں۔ چند برس پہلے برما کو اراکان مسلمانوں سے ’پاک‘ کر دیا گیا۔ لاکھوں تہہ تیغ ہوگئے جو سخت جان تھے وہ جانوروں کی طرح بنگلہ دیش کی طرف ہانک دئے گئے کہ یہ ’خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا‘۔ ایسا ہی کچھ فلسطین میں بھی ہو رہا ہے۔
سارے مظالم کے دفاع میں چین کا سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز لکھتا ہے کہ ‘کچھ اقدامات تکلیف دہ ضرور ہیں لیکن ان سخت اقدامات ہی کی وجہ سے یہ خطہ ’ شام‘ یا ’لیبیا‘ بننے سے محفوظ رہا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بہت سے مسلم ممالک کے فوجی حکمراں اور پس پردہ ڈور ہلانے والی مقتدرہ بھی جبر کے دفاع میں یہی دلیل دے رہی ہے۔
(مسعود ابدالی معروف کالم نویس ہیں جو مشرق وسطیٰ ، مسلم دنیا اور عالمی سیاست پر لکھتے رہے ہیں)
[email protected]
***

کمیونسٹ پارٹی کے سینئر رہنماوں نے سنکیانگ کے دارالحکومت اڑمچی میں لوگوں سے حلال وحرام کی بحث ختم کرنے کا وعدہ لیا۔ نئے قانون کے تحت اسکولوں میں مسلم طلبہ کو گھر سے کھانا لانے کی اجازت نہیں اور ان کے لیے انتظامیہ کی جانب سے فراہم کیا جانے والا کھانا نوش جان کرنا ضروری ہے اور لحم خنزیر کی صورت میں وہ کھانے سے انکار بھی نہیں کر سکتے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 24 جنوری تا 30 جنوری 2021