قسطنطنیہ سے استنبول بننے کی کہانی

آیا صوفیہ کے منبر سے عالمی سیاست کو ترکی کا پیغام

ڈاکٹر عمیر انس، انقرہ، ترکی

 

تاریخ کی سب سے اچھی اور بدترین بات یہ ہے کہ جب اس پر دور سے نگاہ دوڑائی جائے تو لگتا ہے کہ یہ کوئی بنی بنائی فلم جیسی آسان پلاٹ والی کہانی ہے۔ قریب جائیں تو لگتا ہے کہ یہ ارطغرل جیسا نہ ختم ہونے والا ڈرامہ ہے۔ اگر ہم اس کے اور قریب جائیں گے تو ایسا معلوم ہوگا کہ ارطغرل تو صرف ایک حصہ ہے اور کہانی تو اور لمبی ہے۔ ترکی میں آیا صوفیہ نام کا بازنطینی سلطنت کا قلعہ جو عثمانی سلطنت میں ایک مسجد بن گیا تھا اور جسے کمال اتاترک نے میوزیم بنا دیا تھا اب اس کی میوزیم کی حیثیت ختم کردی گئی ہے اور مسجد کی حیثیت بحال کر دی گئی ہے۔ ترکی میں اور ترکی کے باہر بہت سے مسلمان اور غیر مسلم بھی یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ اسلام کی عیسائی عقیدے پر جیت ہے۔ بہت سارے مسلمان جشن منا رہے ہیں اور بہت سے غیر مسلم اس عمل سے ناخوش ہیں۔ اگر دنیا بالکل مثالی نظریاتی طریقوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے یہاں تک پہنچی ہوتی تو آیا صوفیہ مسجد کا چرچ سے مسجد، مسجد سے میوزیم اور میوزیم سے پھر مسجد بنانے کا سارا ڈرامہ ناجائز لگتا۔
کیا ضرورت تھی کہ عیسائیت کے علم بردار ارسطو اور افلاطون جیسے فلسفیوں کے علاقوں میں جاتے۔ لیکن یہ کام تو خود سکندر اعظم نے بھی کیا تھا اور سکندر اعظم نے یہ کام اسی لیے کیا تھا کیونکہ سلطنت فارس نے اس کے ملک کو پریشان کر رکھا تھا۔ ہمیں فلسفیوں کے ملک کی عیسائیت کے علاقے میں تبدیلی کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ لیکن جیسے جیسے یورپ میں عیسائیت کی تشہیر ہوتی گئی روم، استنبول سے زیادہ طاقتور ہوتا چلا گیا، لہذا وہ اپنے آپ کو استنبول کے چرچ سے زیادہ اہم سمجھنے لگے۔ استنبول اور روم کے مسیحی پادریوں کے مابین تنازعہ اتنا بڑھ گیا کہ 1054 میں رومن چرچ نے استنبول چرچ سے اپنے آزاد ہوجانے کا اعلان کردیا اور پورے یورپ میں استنبول چرچ کو الگ تھلگ کرنے کی سازش کرنے لگا۔ یہ ویسے ہی ہے جیسے اسلام عرب سے شروع ہوا اور ایران سے ہوکر مصر پہنچا لیکن کچھ ہی عرصے بعد سب نے آپس میں لڑ جھگڑ کر اپنی الگ الگ اسلامی ریاست کا اعلان کردیا۔ ہندوستان کے ہندو بادشاہوں کے مابین بھی یہی ہوا، وسطی ایشیا کے فارسی اور ترکی بولنے والے پٹھانوں کے مابین بھی یہی ہوا۔ سب جانتے تھے کہ مذہب ایک مرکزی ریاست کی بنیاد نہیں بن سکتا اور سیاست بھی یہی ہے۔ اس دور میں مذہب ہی سیاست تھا اور سیاست ہی مذہب۔ روم کے چرچ نے عیسائی دنیا میں اپنا تسلط بڑھانے کے لیے 1091ء میں صلیبی جنگوں کا اعلان کیا تھا لیکن استنبول چرچ یعنی قسطنطنیہ اس اعلان پر شکوک و شبہات کا شکار تھا کیونکہ اس کو خدشہ تھا کہ رومن چرچ قسطنطنیہ کو اپنے دائرے میں لانے کے لیے سازش کررہا ہے۔ اور یہی خوف قسطنطنیہ کے چرچ اور مسلمانوں کے درمیان اندرون خانہ تعاون کی وجہ بنا۔ جب پہلی صلیبی جنگ میں رومن چرچ کمزور پڑا تو اس نے بازنطین کے کومنوس ( 1143–1180) پر الزام لگایا کہ اس نے مسلمانوں سے مفاہمت کرلی ہے اور جب رومن چرچ نے شام کے متعدد علاقوں کو فتح کر لیا اور اس کو سلطنت قسطنطنیہ میں شامل کرنے سے انکار کردیا تو مغرب اور ایشیاء کے گرجا گھروں کے مابین عدم اعتماد کھل کر سامنے آیا۔ چنانچہ رومن چرچ پھلنے پھولنے لگا اور وینس دنیا میں ایک بڑے تجارتی مرکز کے طور پر ابھرنے لگا جبکہ قسطنطنیہ کے چرچ کا صرف بلقانی ممالک پر ہی مکمل انحصار رہ گیا۔ جب ایڈرونکس، قسطنطنیہ کے تخت پر بیٹھا تھا تو اس کو لاطینی عیسائیوں سے نفرت تھی چنانچہ 80000 لاطینی عیسائیوں کی نسل کشی کی گئی۔ 1185ء میں ایڈورنکس کا بھی تختہ الٹ دیا گیا۔
12 اپریل 1204ء کو صلیبی فوجوں نے روم سے استنبول کی طرف مارچ کیا ،اس وقت استنبول خوفناک ہنگاموں کا شکار تھا۔ کنگ الیکس فرار ہوگیا تھا اور اس کی جگہ ایلیکسو چہارم کو گدی پر بٹھایا گیا تھا۔ لیکن عوام نے الیکسو چہارم کو مار ڈالا کیونکہ وہ لاطینی چرچ کا حلیف سمجھا جاتا تھا اور اس کی جگہ الیکسو پنجم کو لایا گیا جو صلیبی جنگ میں شامل ہونے کے خلاف تھا ۔اس نے استنبول کے باہر منتظر ہزاروں صلیبی حملہ آوروں کو شہر میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کردیا لیکن بالآخر صلیبیوں نے زبردستی داخل ہوکر استنبول کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اس وقت آیا صوفیہ میں سب سے زیادہ توڑ پھوڑ کی گئی۔ بچے کھچے بازنطین سرداروں نے اپنے اپنے علاقوں کو خود مختار قرار دے دیا اور اندیس کے اندر نائکیہ (نقایہ) سلطنت قائم ہوئی۔ پونٹس ریاست کو تشکیل دینے کے بعد ایلیکو بھائی بھی الگ ہوگئے۔ 1261ء میں ریاست نائکیہ، بازنطینی سلطنت استنبول کو دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ نکیٹاس کنیئٹس نے تیرہویں صدی میں اپنی کتاب ہسٹوریا میں آیا صوفیہ پر لاطینی چرچ کے قبضے کی ایک انتہائی تکلیف دہ کہانی لکھی ہے۔
یہ لمبی کہانی سنانی اس لیے ضروری ہے کیونکہ اسلام اور عیسائیت کے مابین تصادم اور عثمانی قبائل کے ترکی میں پھیل
جانے کا سلسلہ خالی ہوا میں شروع نہیں ہوا۔ یہ بات بھی کم دلچسپ نہیں ہے کہ عروج اسلام سے قبل قسطنطنیہ اور عرب قبائل کے مابین بہت دوستانہ مراسم تھے۔ اس کی وجہ سلطنت فارس تھی جس سے عرب قبائل ہمیشہ خوف زدہ رہتے تھے اور توازن بنانے کے لیے قسطنطنیہ سے مدد لیا کرتے تھے۔ عرب قبائل کا سب سے بڑا شاعر عمار مقدم اپنے والد کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے قسطنطنیہ میں بازنطینی بادشاہ سے مدد لینے گیا تھا لیکن واپسی میں ترکی کے انقرہ میں اس کی موت ہوگئی۔ جوڈٹ ہیرن لکھتا ہے کہ اگر چھٹی صدی میں بازنطین عرب ملک کی طرف جو کہ اب مسلمان ہو رہا تھا اپنی توسیع کو نہ روکا ہوتا تو عرب قبائل ترک قبائل سے آٹھ سو سال قبل ہی استنبول پر قابض ہوجاتے۔ عروج اسلام کے بعد قبیلے عیسائیوں اور پارسیوں کو مذہب کی سیاست میں برابر کرنے کے لیے قبائل کی سیاست سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے لیکن انہوں نے جلد ہی منتشر ہونا شروع کر دیا۔ ادھر ترک اور فارسی قبیلوں نے اسلام قبول کرنا شروع کیا اور اپنی جگہ لینے لگے۔ اس درمیان منگولوں کے حملے بھی ترکی تک پہنچ گئے اور اگر مسلم شہنشاہ انہیں یوروپ کی طرف موڑ دیتے اور ان سے مقابلہ نہیں کرتے تو آج دنیا کا نقشہ بہت مختلف ہوتا۔ 1291ء میں پوپ نے بازنطین کے علاقے میں لاطینی بولنے والے عیسائیوں کو آباد کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا جس پر عثمانی سرداروں اور بازنطین چرچ دونوں کے کان کھڑے ہوگئے۔
استنبول پر عثمانیوں کی فتح سے قبل کم از کم تین عثمانی بادشاہوں یا شہزادوں نے بازنطین بادشاہوں کی لڑکیوں یا رشتہ داروں کے ساتھ شادیاں کی۔ اگرچہ مسلم مورخین اکثر اپنے بادشاہوں کی فتح کو مذہبی رنگ میں دکھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ ایسی مثالوں کو چپکے سے نظر انداز کر جاتے ہیں۔ اس میں ایک اور بات یہ ہے کہ کیا واقعی استنبول کی فتح اتنی بڑی تھی جتنی بعد کے مورخین نے اس کو پیش کیا؟ یہ بات تو تمام مورخین جانتے ہیں کہ عثمانی بادشاہوں نے بازنطینی سلطنت کے جس مرکز پر قبضہ کیا تھا وہ کچھ کلومیٹر کا علاقہ تھا کیونکہ اس کا زیادہ تر علاقہ وہ رومن سلطنت کے ساتھ محاذ آرائی اور باہمی لڑائی میں کھو چکے تھے۔ اگر تیمور نے 1423ء میں انقرہ پر حملہ کرکے عثمانی بادشاہ یلدیرم بایزید کو شکست دے کر قیدی نہ بنایا ہوتا تو اسی سال استنبول فتح ہوسکتا تھا۔ لیکن تیمور کے حملے کے بعد بازنطین بادشاہ نے عثمانی بادشاہوں کے ساتھ معاہدہ توڑ دیا اور کھوئی ہوئی زمین کو واپس لینے کے لیے بیرونی مدد لینے لگا لیکن پھر اسے شکست ہوئی۔ اس بار بازنطین بادشاہ کے بیٹوں کو یہ علاقے مختص کردیے گئے۔ جسے بعد ازاں ایک بار پھر رومی سلطنت نے قبضہ کرکے اپنے ساتھ الحاق کرلیا۔ جنگ کے آخری سالوں میں عثمانی بادشاہ استنبول کے بجائے یورپ کی طرف بڑھنا چاہتے تھے لیکن استنبول ان کو دوبارہ واپس کھینچ لیتا تھا۔ اس بار انہوں نے یورپ کے تمام بادشاہوں کو خط لکھ کر مدد کی درخواست کی لیکن کوئی بھی مدد کے لیے آگے نہیں آیا۔ بالآخر استنبول 1453ء میں عثمانی ریاست کا حصہ بن گیا اور سلطان محمد پہلے فاتح کی حیثیت سے استنبول میں داخل ہوا۔ ویسے اسلام میں کسی بھی مذہبی مرکز کو جنگ کے بعد مسجد میں تبدیل کرنا یا اسے توڑنا اور اسے نقصان پہنچانا ممنوع ہے لیکن آیا صوفیہ کو مسجد بنا دیا گیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ آیا صوفیہ صرف ایک چرچ نہیں تھا بلکہ یہ بازنطین طاقت کا مرکز بھی تھا۔ ایک مذہبی ریاست ہونے کی وجہ سے شاہ آیا صوفیہ مذہب کے علاوہ بھی تمام سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ وہ اسے توڑ نہیں سکتے تھے کیونکہ یہ چرچ کے طور پر استعمال میں تھا۔ لہذا اس کو مسجد بنایا گیا اور عیسائی مذہبی رہنماؤں کو بھی وہاں آنے کی اجازت دی گئی۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ جب مسلمانوں اور یہودیوں کو اسپین سے جلا وطن کیا گیا تھا تو انہیں تحریری احکامات کے ساتھ نکالا گیا تھا اور ان کی تمام جائیدادوں پر قبضہ کر لیا گیا تھا۔ لیکن استنبول میں عیسائیوں کو مکمل حقوق کے ساتھ تحریری طور پر رہنے کی اجازت دی گئی تھی۔ کیونکہ عثمانی بادشاہ بخوبی واقف تھے کہ آرتھوڈوکس عیسائیوں کو تو رومن کیتھولک عیسائیوں نے ہی سب سے زیادہ نقصان پہنچایا اور وہ استنبول کے علاوہ کہیں اور نہیں جاسکتے تھے۔
پرانی کتابوں میں یہ کہانی یہ بھی لکھی ہے کہ تین عیسائی پادری جن کو اپنے سیاسی جرائم کی وجہ سے جلاوطنی کا حکم دیا گیا تھا، انہوں نے یہ کہتے ہوئے معافی مانگی کہ انہیں کیتھولک عیسائی مار ڈالیں گے لہذا وہ مسلمانوں کے ساتھ رہنا پسند کریں گے۔ تب محمد سلطان نے انہیں اس کام پر لگایا کہ وہ پوری ریاست میں مسلم افسران کے کاموں کی کوتاہیوں کو نکال کر لائیں اور انہیں بتائیں۔ پوپ نکولس نے 1452ء میں آرتھوڈوکس کے رہنماؤں کو روم کے ساتھ صلح کے لیے قائل کرنے کارڈنل آئسیڈور کو استنبول بھیجا۔ آئیسڈور لگ بھگ 1000 تیر انداز لے کر استنبول پہنچا لیکن اس کی سننے والا کوئی نہیں تھا۔ آرتھوڈوکس، بارہویں صدی میں رومی چرچ کے صلیبی جنگ کے نتیجے میں استنبول پر قبضہ اور آیا صوفیہ کی پامالی کے زخموں کو فراموش نہیں کر پائے تھے اور آئیسڈور آیا صوفیہ میں لڑتے ہوئے پکڑا گیا اور پھر کسی طرح اپنی جان بچانے کے بعد فرار ہوگیا۔ جوڈیٹ ہرین لکھتا ہے کہ جب سلطان محمد نے قسطنطنیہ فتح کر لیا تو آیا صوفیہ کے ایک پادری لوکاس نوٹریس کو چرچ کا سرپرست بنایا۔ لیکن رومن چرچ کی طرف سے اس کو لالچ دیا گیا کہ وہ واپس آجائے تاکہ ساتھ مل کر استنبول واپس لینے کی کوشش کی جائے تو لوکاس نے جواب دیا کہ ترک پگڑی منظور ہے مگر پوپ کا تاج قبول نہیں۔جبکہ دوسری طرف روم میں بیٹھے پوپ جان ہشتم نے سلطان محمد کو استنبول فتح کرنے پر مبارکبادی بھیجی۔ بحث کا دوسرا حصہ آیا صوفیہ اور مسلمانوں سے متعلق ہے، لیکن پہلے حصے سے یہ بات تو صاف ہے کہ استنبول کی فتح اسلام اور نصرانیت کی لڑائی نہیں تھی بلکہ یہ نصرانیت کے مختلف فرقوں کی آپسی خونریزی کا ایک منطقی انجام تھا جس کو اس وقت اناطولیہ کے عثمانی حکمران ہی ایک مستحکم اور پر امن ماحول فراہم کر سکتے تھے، اب اس ضمن میں سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا صوفیہ مسجد کیسے بن گئی جبکہ اسلام دوسرے مذاہب کے عبادت خانے کو اسلامی عبادت گاہ کے طور پر استمعال کرنے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے؟
ہندوستان میں یہ بات کہی جارہی ہے کہ اس جگہ کو خریدا گیا ہے اس لیے اسے مسجد بنانا جائز ہے۔ اگر کسی مذہب کے لوگ اپنی مذہبی عبادت گاہ کو فروخت کرنا چاہتے ہیں تو علماء نے لکھا ہے کہ ایسی عبادت گاہ کو خریدنا بھی جائز ہے اور اس کو مسجد میں تبدیل کرنا بھی جائز ہے۔ ایسی عبادت گاہ کو خرید کر مسجد بنانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن آیا صوفیا کے بارے میں یہ کہنا کہ آیا صوفیا کی خریدی کے بہت مضبوط دلائل یا تاریخی دستاویز پیش نہیں کیے جا سکتے، ممکن ہے کہ علامت کے طور پر بیع منعقد ہوئی ہو۔ لیکن زیادہ درست بات یہ محسوس ہوتی ہے کہ چونکہ مسلمان حکمران عموماً عبادت گاہوں کا احترام کرتے تھے اور ان کی حفاظت پر توجہ بھی دیتے تھے جیسا کہ ہندوستان کے متعدد مندروں کے سلسلے میں عالمگیر اورنگ زیب کے احکامات سے ظاہر ہوتا ہے، سلطان محمد فاتح کی فتح کے بعد دیے گئے احکامات سے بات واضح ہے کہ وہ قسطنطنیہ کی آرتھوڈوکس عیسائی آبادی کے مذہبی اور شہری حقوق کی حفاظت کے لیے نہ صرف متوجہ تھے بلکہ عملاً سرگرم بھی تھے۔ یہ ظاہر ہے کہ کوئی بھی جنگی احکامات عمومی نہیں ہوتے ہیں جیسے کہ خواتین کو نشانہ بنانے پر سخت پابندی ہے لیکن اگر ایک خاتون خود فوجی ہو اور ہتھیار بند میدان جنگ میں موجود ہو تو اسے عام فوجی کی طرح سے مانا جائے گا، اسی طرح سے یہ بات تمام دلائل سے واضح ہی ہے کہ اس زمانے میں چرچ کے ذمہ داران ہی حاکم ہوا کرتے تھے وہی جنگ اور امن کے فیصلے لیا کرتے تھے چرچ ہی سیاسی اور عسکری فیصلے کیا کرتا تھا اور یہ صورتحال مسلمان ریاستوں سے بالکل مختلف ہوا کرتی تھی جہاں مذہب اور ریاست کے ادارے واضح طور پر الگ الگ ہوتے تھے۔ مساجد کے ائمہ کے پاس کبھی بھی سیاسی اور عسکری نوعیت کے اختیارات نہیں ہوتے تھے، اس اعتبار سے آیا صوفیا چرچ کی وہ حیثیت نہیں تھی جو آج کے زمانے کے چرچ کی ہے۔ آج کے چرچ ایک طویل خانہ جنگی کے بعدامور ریاست سے بےدخل کیے جاچکے ہیں۔ آیا صوفیا ہی سیاسی اور عسکری فیصلوں کا مرکز تھا اور بین الاقوامی تعلقات کا مرکز بھی وہی تھا اس لیے اس زمانے کے چرچوں کے ساتھ محض عبادت گاہ کا سلوک کیا جانا عملاً ممکن ہی نہیں تھا۔ مثلا اگر آیا صوفیا کو اس وقت چرچ کے طور پر چھوڑ دیا جاتا تو یا تو اس کو رومن چرچ کے ماتحت کردیا جاتا جس کا آرتھوڈوکس عیسائیوں نے انکار کر دیا تھا، یا پھر آرتھوڈوکس ریاست کو علامتی طور پر تسلیم کرکے ان کے نمائندوں کے حوالے کیا جاتا، اور چرچ اس زمانے میں بلکہ آج بھی اکیلے اپنی بنیاد پر قائم نہیں رہ سکتے۔ اس اعتبار سے آیا صوفیا کو ایک ریاست کے سیاسی اور عسکری مرکز ہونے کی بنا پر قبضے میں لینا ہی واحد حل تھا، لیکن باقی متعدد چرچ جو محض عیسائیوں کی عبادت کے لیے استعمال ہوتا تھا انہیں باقی رکھا گیا اور ان کے ذمہ داران کا تقرر خود سلطان فاتح نے کرکے ان کے وظیفے بھی مقرر کیے۔ 1934 میں مسجد سے میوزیم بنانے پر اعتراضات کیے گئے۔ مسلمانوں کا یہ کہنا تھا کہ مسجد سے جو میوزیم بنایا ہے وہ یوروپ اور امریکہ کے دباؤ میں ان کو خوش کرنے کے لیے بنایا ہے۔ بعض نے الزام لگایا کہ آپ اسلام کو پسند نہیں کرتے اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا یہ فیصلہ غلط تھا لیکن اس فیصلے کو نہیں بدلا گیا۔ 1963میں سلیمان دیمیرل جو بعد میں پرائم منسٹر اورصدر بھی بنے انہوں نے بھی اپنی پارٹی کی جانب سے مطالبہ کیا کہ آیا صوفیا کو مسجد بنا دیا جائے لیکن اس وقت بھی اس بات کو نہیں مانا گیا۔ترکی سیاست اپنے آغاز سے تین حصّوں میں تقسیم تھی، پہلا وہ گروہ جو یہ چاہتاتھا کہ عثمانی خلافت کو ختم کرنے کی بجائے ایک نیا عثمانی نیشن اسٹیٹ بنایاجائے جو اگرچہ خلافت کی طرح نہ ہو لیکن جس میں عثمانی خلافت کے تمام علاقوں کے تمام طبقات کو عثمانی نیشنل مانتے ہوئے یکساں حقوق کا تحفظ ہو، دوسرا گروہ وہ تھا جو یہ سمجھتا تھا کہ عثمانی خلافت کی بنیاد اسلام ہے اس لیے دنیا کے سبھی مسلمانوں پر مشتمل ایک نظام حکومت ہو اس فکر کو پان اسلامزم کے نام سے جانا جاتا ہے، جبکہ تیسرا فریق وہ تھا جو یہ سمجھتا تھا کہ دونوں ہی نظریے ناقابل عمل ہیں، اس نظریے کی تائید میں یوسف کراچا نے بیحد موثر تحریریں لکھیں اور مصطفیٰ کمال اس فکر سے بہت قریب تھے، بعد میں سبھی طرح کے ترک سیاستداں مصطفیٰ کمال کے شانہ بشانہ ہو گئے اور مصطفیٰ کمال کی سیاسی جماعت سبھی طرح کے سیاسی افکار کی کانگریس بن گئی لیکن مصطفیٰ کمال کی زندگی میں ہی شدت پسند نیشنلسٹ حضرات نے ترکی کو جدید مغربی اور سیکولر ریاست بنانے میں شدت دکھائی جس کی وجہ سے پارٹی میں مذہبی اور عثمانی فکر کے حاملین پارٹی سے رخصت ہونے لگے اور الگ الگ جماعتیں بننے لگیں۔
انہیں سیاستدانوں میں سے عدنان مندریس تھے جنہیں مذہبی رجحانات رکھنے کے جرم میں پھانسی دی گئی اور دوسرے سیاستداں سلیمان ڈمیریل تھے جنہوں نے آیا صوفیہ کو مسجد میں دوبارہ بدلنے کا مطالبہ کیا، ترکی کی موجودہ حکمران پارٹی ترکی کے موخر الذکر دونوں رجحانات کے حاملین کی جماعت ہے، یہ نہ تو اخوان کی جیسی سیاسی اسلام کی حامل جماعت ہے نہ مسلم لیگ کی طرح خالص قوم پرست جماعت ہے۔ اسی لیے اس جماعت میں ترکی کے سب سے زیادہ سیاسی، سماجی اور فکری رجحانات کی نمائندگی ہو جاتی ہے۔ اور اسی لیے ایک ایسے وقت میں جب ترکی کو متعدد خارجی چیلنجز اور معاشی مسائل نے گھیر لیا ہے صدر ترکی کی سیاسی مقبولیت میں کمی بھی آئی ہے تو آیا صوفیہ کے ایک پرانے مطالبے کو پورا کرکے ترک سیاست کا قبلہ کمالزم سے بدل کر عثمانیزم کی طرف کردیا گیا ہے، لیکن عثمانیزم کی تعریف میں مغربی محققین کی طرح غلط فہمی رکھنے والوں کو ترک محقق بہلول وزکان کی From the Abode of Islam to the Turkish Vatan: The Making of a National Homeland in Turkey کتاب ضرور دیکھنی چاہیے۔
1934 میں ترکی بہت بڑا ایمپائر تھا جو سکڑ کر چھوٹا ہوگیا تھا جسے بیرونی مدد کی ضرورت تھی۔ اس وقت دباؤ کا دور تھا اس لیے ہوسکتا ہے یہ فیصلہ اسی وجہ سے لیا گیا ہو۔ اسی زمانے میں زیادہ تر ممالک آزاد ہوئے۔ یہ فیصلہ 40 سال پہلے اسی زمانے میں لیا گیا ہوتا تو کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا۔ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے تھا اور اس کے بعد ہی یہ قدم اٹھانا چاہیے تھا۔ فیصلہ متنازعہ اس لیے نہیں ہے کہ یہ چرچ کے خلاف ہے بلکہ اسلاموفوبیا کی وجہ سے ہے۔ ترکی بہت زیادہ اسلام پسند ہے اس لیے یہ فیصلہ لیا گیا ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی بات بھی میڈیا میں بڑا ایشو بن جاتا ہے اس لیے یہ فیصلہ بھی ایشو بن رہا ہے۔ ترکی کی حکومت کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ یہ فیصلہ عیسائیوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ وہ معاہدہ پر قائم ہے۔ اس کو مسجد بنانے کے باوجود بھی دنیا بھر کے عیسائی یہاں آسکتے ہیں اور عبادت کرسکتے ہیں۔ کسی کو آنے جانے کی ممانعت نہیں ہوگی۔ ان کو بھی حقوق حاصل ہیں اوروہ بھی برابر کے شہری ہیں۔ اس بات کو اور واضح انداز میں کہنے کی ضرورت ہے۔
مقامی سطح رجب طیب اردوگان کی پارٹی کمزور ہورہی ہے اور دیگر پارٹیاں مضبوط ہورہی ہیں ۔ اس فیصلے سے ان کی پارٹی کو مضبوطی حاصل ہوگی لیکن گلوبل سطح پر اس کا بہت اثر ہوگا۔ 2002ء میں ان کا نعرہ تھا کہ وہ یوروپی یونین کا ممبر بننا چاہتے ہیں۔ 2010ء تک محنت کی لیکن یوروپی یونین انہیں ممبر نہیں بنانا چاہتا ہے۔ صرف اس لیے کہ ترکی مسلم ملک ہے اس لیے انہیں یوروپی یونین میں شامل نہیں کیا جارہاہے۔ اس بات سے اب ترکی باخبر ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ ترکی کے حریف ممالک جیسے فرانس جس نے کبھی ترکی پر قبضہ کیا تھا۔ اور 1915 کے بعد جرمنی نے۔ یہ لوگ خود کو سیکولر کہتے ہیں لیکن اسلاموفوبیا سے متعلق سب سے زیادہ جرائم وہیں پر ہیں۔ حالیہ فیصلے سے اب پورے یوروپ میں اس کے صحیح یا غلط ہونے پر ڈیبیٹ شروع ہوگا۔ اور اس بات کو تو سبھی جاتے ہیں کہ مسجدوں پر پابندی لگانے کے معاملہ میں سب سے آگے روس، چائنا اور فرانس ہیں اور یوروپ کےکئی ممالک میں تو اس پابندی کے لگانے کی وجہ سے ترکی نسلی مسلمان متاثر ہوتے ہیں۔ روس میں ترکی نسل کے مسلمانوں کو سب سے زیادہ ستایا گیا مارا گیا یا ملک بدر کیا گیا، ترک اکثریت علاقہ کریمیا پر ٢٠١٥ میں روس کا قبضہ اس کی تازہ ترین مثال ہے، چائنا میں بھی جن مسلمانوں کو ستایا جارہا ہے وہ ترکی نسل کے مسلمان ہیں۔ یوروپ میں بھی ترکی نسل کے مسلمانوں سے بہت زیادہ نفرت کی جاتی ہے۔ لہذا ترکی نے بھی ان سبھی لوگوں کو جواب دینے کے لیے ایک راستہ اختیار کیا ہے۔ اب دنیا میں کہیں یہ بات نہیں ہوتی ہے کہ روس، چائنا وغیرہ یہ سب کیوں کر رہے ہیں۔ ورنہ ترکی والے یہ کہیں گے کہ آپ ہماری فکر نہ کریں بلکہ اپنی فکر کریں۔ ایک نقطہ نظر یہ بھی ہےکہ جو مسلمان ممالک ہیں ان میں قوم پرستانہ جذبات مضبوط ہوں گے اور انہیں مسلم نیشنلزم کی طرف بڑھنے کی ترغیب ملے گی۔
ترکی کے لوگ ترکی کی داخلی سیاست اور داخلی سطح پر پیدا ہونے والی سیاسی بیداری اور سیاسی عزائم کو مکمل کرنے والی انٹرنیشنل سیاست بھی چاہتے ہیں۔ لیکن کچھ نئے ڈیبٹس آنے والے دنوں میں اسلام اور مسلم ممالک کے بارے میں شروع ہو سکتے ہیں۔ ان نئے مباحث کو مسلم مفکرین پہلے ہی سے سمجھ کر اسے مثبت رخ دے پائیں گے یا نہیں ایک بڑا سوال ہے۔
آنے والی نئی بحثوں میں ترکی کی عالمی سیاست بہت گہرا اثر ڈالنے والی ہے، جس طرح سے گزشتہ کئی دہائیوں میں اسلام اور سیاست کی بحث میں ایران اور سعودی عرب کے فکری اور مذہبی افکار کا غلبہ رہا ہے اسی طرح سے آنے والی دہائی میں ترکی اور اس کی فکری انجینئرنگ عالمی سیاست میں موضوع بحث بننے جارہی ہے، سعودی عرب نے پہلے ہی خود کو اسلام کا نمائندہ ہونے کی تاریخی ذمہ داری سے تقریباً دستبرداری اختیار کر لی ہے اور ایران، سیریا اور عراق میں اپنے سنی دشمنانہ موقف کی وجہ سے اور اپنی داخلی سیاست کو ترکی کی طرح ترقی والی سیاست میں بدلنے میں ناکام ہونے کی وجہ سے عالم اسلام میں اپنا وزن کھو چکا ہے، لہٰذا حالیہ دنوں میں ترکی کی سیاسی تاریخ، عثمانی مفکرین اور عثمانی سیاست کو بین الاقوامی تعلیمی اور تحقیقی اداروں میں بڑی توجہ سے مطالعہ کیا جارہا ہے۔ ترک تاریخ میں شاید یہ پہلی بار ہے کہ بہت بڑی تعداد میں ترک حضرات عربی زبان سیکھ چکے ہیں اور ترک سیاست کے بارے میں عالم عربی سے براہ راست گفتگو کر سکتے ہیں۔ عثمانی سیاست کے آخری دور میں یہی کمزوری ترکوں اور عربوں میں بے اعتمادی کی وجہ بنی تھی لیکن اب عرب عوام اور مفکرین ترکی کی حمایت جس طرح سے کر رہے ہیں اس سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عالم عربی میں ترکی ایک قائدانہ کردار کے لیے خود کو تیار کر چکا ہے، بڑے پیمانے پر ترک عربی مزاکرات ہو رہے ہیں اور عالم عربی میں ترک سیاستدانوں کے لیے پہلے سے زیادہ اعتماد کی فضا ہموار ہو رہی ہے، اسی کے ساتھ ایشیاء میں بھی ترکی کے تجارتی اور ثقافتی تعلقات گہرے ہو رہے ہیں، چین اور روس کے ساتھ ترکی کے تعلقات محض بیچنے اور خریدنے والے ملکوں کے نہیں ہیں بلکہ سلامتی اور دفاعی نوعیت کے بھی ہو چکے ہیں، اس لیے ترکی کی سیاست ایشیاء کی سطح سے بھی خود کو مضبوط کر رہی ہے۔ ان سب تیاریوں کے ساتھ جب ترک حضرات مغربی ممالک سے مذاکرات کرتے ہیں تو ان کی خود اعتمادی اور فیصلہ کن گفتگو یورپ کے کئی ممالک کو خوفزدہ کرتی ہے۔ لیبیا، شام اور قبرص میں ترک سیاست بدل چکی ہے، مسجد آیا صوفیہ ہی نہیں بلکہ ترکی سے متعلق ہر چھوٹے اور بڑے موضوع کواسی لیے بہت باریکی سے مطالعہ کیا جاتا ہے اور اسے تنقید کا موضوع بنایا جاتا ہے۔ اور یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ خود ہندوستان میں جہاں ایک بڑا طبقہ مغرب نواز ہے وہ اسرائیل، چین، فرانس، روس اور امریکہ میں اسلاموفوبیا کے جرائم اور مساجد کے انہدام یا مسلمانوں کے قتل عام کے واقعات پر عموماً خاموش رہتا ہے لیکن ترکی سے متعلق واقعات کو غیر متوقع توجہ حاصل ہوتی ہے، یہ اسی بدلتی عالمی سیاست کا نتیجہ ہے۔ لیکن اگر ترک ہندوستان تعلقات اس نازک موقع پر بہتر نہیں بنائے گئے تو ہندوستان مغربی ایشیاء میں ایک پائیدار اور مستحکم سیاست کی حد حاصل کرنے کا ایک موقع کھو سکتا ہے۔
***

عروج اسلام سے قبل قسطنطنیہ اور عرب قبائل کے مابین بہت دوستانہ مراسم تھے۔ اس کی وجہ سلطنت فارس تھی جس سے عرب قبائل ہمیشہ خوف زدہ رہتے تھے اور توازن بنانے کے لیے قسطنطنیہ سے مدد لیا کرتے تھے۔ عرب قبائل کا سب سے بڑا شاعر عمار مقدم اپنے والد کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے قسطنطنیہ میں بازنطینی بادشاہ سے مدد لینے گیا تھا لیکن واپسی میں ترکی کے انقرہ میں اس کی موت ہوگئی۔