فکاہیہ ۔۔۔۔۔۔۔

خوش گمان للن اور بدگمان کلن

ڈاکٹر سلیم خان

 

للن شیخ اور کلن خان حسب معمول گلی کے نکڑ پر بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے کہ دور سے آواز آئی السلام علیکم
کلن ایک پھٹے حال نوجوان کو دیکھ کر آہستہ سے بولا یہ لو خود چل کر آ رہا ہے نیا شکار۔
للن نے ڈانٹ کر کہا چپ کرو۔ اپنی کالی زبان بند رکھو۔
نوجوان نے قریب آکر کلن کی جانب اشارہ کیا اور بولا سر! آپ للن شیخ ہیں؟
کلن نے جواب دیا جی نہیں میں کلن خان ہوں یہ ہیں تمہارے للن شیخ۔
نوجوان نے دوبارہ سلام کیا اور للن سے مخاطب ہو کر بولا سر مجھے آپ سے ایک ذاتی بات کرنی ہے۔
للن نے کہا بولو کیا مسئلہ ہے؟
اس نوجوان نے اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر بولا سر میں اکیلے میں آپ سے اپنی بات کہنا چاہتا ہوں۔
کلن بگڑ کر بولا تو کیا عالم پناہ تخلیہ چاہتے ہیں اور میں یہاں سے دفع ہو جاوں؟ حد ہو گئی یار!
للن نے سمجھایا دیکھو بھائی تم نہیں جانتے کہ ہم ایک جان دو قالب ہیں۔
میں آپ کی بات نہیں سمجھ سکا معافی چاہتا ہوں۔
دیکھو ایسا ہے کہ تم مجھے اکیلے میں بھی جو کچھ بولو گے اس کو پتہ چل جائے گا اس لیے بلا تکلف بولو۔
نوجوان کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ وہ تھوک نگل کر بے یقینی سے بولا اگر ایسا ہے تو۰۰۰۰
اس سے پہلے کہ کلن کچھ اور بولتا للن نے کہا تم کو شاید پیاس لگی ہے۔
وہ بولا جی ہاں جناب میں بہت پیاسا ہوں۔
دیکھو وہ کونے والی دوکان سے بسلیری کی ایک ٹھنڈی بوتل لے آو۔ پہلے ہم پانی پئیں گے پھر بات کریں گے۔
غریب نوجوان حیرت سے بولا بسلیری! میں لاوں؟
کلن نے کہا نہیں تو کیا عالم پناہ کے لیے میں پانی لے کر آوں؟
للن پھر مداخلت کر کے بولا دیکھو تم اس کو میرا نام بتاو گے تو وہ پیسے نہیں لے گا۔ جاو جلدی سے لے کر آو۔
نوجوان کے جاتے ہی کلن بولا دیکھو یہ بہت بڑا کلاکار لگتا ہے۔ پانی کو پوچھا تو کہہ رہا ہے کہ بہت پیاس لگی ہے۔ کھانے کو پوچھو گے تو بولے گا کئی ہفتوں سے بھوکا ہوں۔
ارے بھائی اس بدگمانی کی بیماری سے نکلو۔ کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ واقعی پیاسا ہو؟
جی ہاں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بھوکا بھی ہو۔ ایسے بھوکے پیاسے لوگوں کو ہمارا پتہ نہ جانے کیسے چل جاتا ہے؟
ارے بھائی انسان چھاوں کے لیے سایہ دار درخت کے نیچے ہی آتا ہے اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟
خدا تمہارا سایہ ان کے سر برقرار رکھے لیکن تم جیسے لوگوں نے قوم کو بھیک منگا بنا دیا ہے۔
مجھ جیسے لوگوں نے؟ میں تو کسی کا استحصال نہیں کرتا۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن اس جیسے ہٹے کٹے نوجوانوں کی مدد کرکے ان کو نکھٹو تو بناتے ہو۔
ارے بھائی اس نے تو ابھی اپنی کوئی حاجت بھی پیش نہیں کی اور تم شروع ہو گئے۔
تم کو تو پتہ ہی ہے ہم اڑتے پنچھی کے پر گن لیتے ہیں۔
ہاں لیکن یہ بیچارہ پر کٹا پنچھی تو اڑنے سے بھی معذور لگتا ہے۔ اس کے پر تم نے کیسے گن لیے؟
ارے بھائی یہ اداکاری ہے اداکاری۔ تم جیسے لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لیے یہ سب کرنا پڑتا ہے۔
دیکھو بھائی ابھی تو اس نے کچھ کہا بھی نہیں اور تم نے اس کے بارے میں نہ جانے کیا کیا گمان کر لیا؟
ارے میاں تم نے نہیں سنا: آدمی پہچان لیتے ہیں قیافہ دیکھ کر خط کا مضموں بھانپ لیتے ہیں لفافہ دیکھ کر
یار کبھی غلطی سے ہی سہی کوئی شعر درست پڑھ لیا کرو
اس میں کیا غلط ہوگیا؟
وہ اس طرح ہے کہ: آدمی پہچانا جاتا ہے قیافہ دیکھ کر۔
اوہو ایک ہی بات ہے تم بھی بال کی کھال نکالنے لگتے ہو۔ وہ دیکھو تمہارا شکار پانی لے کر آرہا ہے۔
ہاں یار مجھے بسکٹ بھی منگوانا چاہیے تھا۔ ممکن ہے بھوکا بھی ہو۔
بسکٹ ہی کیوں چائے بھی پلوادو ۔ بولو تو رامو چائے والے کو فون کر دوں؟
ہاں یہ ٹھیک ہے۔
نوجوان نے قریب آکر کہا معاف کیجیے دوکان پر بہت بھیڑ تھی۔
کلن بولا جی ہاں بڑی برکت والی دوکان ہے وہاں ہمیشہ گاہکوں کا تانتا لگا رہتا ہے۔
للن بولا ارے بھائی تم نے بوتل نہیں کھولی؟ پہلے پانی پیو تب تک چائے آتی ہے۔
سر پہلے آپ پئیں میں بعد میں پیوں گا۔
کیوں تم مہمان ہو تمہارا حق پہلے ہے۔
لیکن میرا جھوٹا پانی آپ کیسے پی سکتے ہیں؟
جب میرا جھوٹا پانی تم پی سکتے ہو تو میں کیوں نہیں پی سکتا پہلے تم پیو پھر ہم پی لیں گے۔
وہ نوجوان سامنے کٹّے پر بیٹھ کر پانی پینے لگا اور پیتا چلا گیا۔ آدھی سے زیادہ بوتل خالی ہو گئی تو کلن نے فون پر چائے اور بسکٹ کا آرڈر دے دیا۔
للن نے کہا اچھا اب بولو تمہارا کیا مسئلہ ہے؟
وہ ۰۰سر۰۰ ایسا ہے کہ میرا بھائی بہت بڑا اداکار ہے۔
کلن نے کہا ویسے تم بھی کم نہیں ہو۔ اس کو چھوڑ کر تم اس للن سے ملنے کیوں چلے آئے؟
سر میرا بھائی میرے خون کا پیاسا ہے وہ مجھے مار ڈالے گا۔
کلن نے سوچا یہ کوئی بڑا منصوبہ لے کر آیا ہے۔ آج تو للن کو کسی بڑی بوتل میں اتارے گا۔ وہ بولا تمہارا بھائی قصائی تو نہیں ہے؟
سر! وہ دوسروں کے لیے بھائی مگر میرے لیے قصائی ہے۔
کلن بولا خیر وہ جو بھی ہے تم کوئی کام وام کیوں نہیں کرتے؟
سر میں کام کرتا ہوں، چمبور کے اندر ایک کارخانے میں مزدوری کرتا ہوں۔
کلن نے حیرت سے کہا اچھا تو برسرِ روزگار ہو؟ تو کیا بہن کی شادی کے لیے مدد یا قرض چاہیے؟ اپنے بھائی سے لے لو وہ اس کی بھی تو بہن ہے؟
جی نہیں سر ہم دو بھائی ہیں ہماری کوئی بہن نہیں ہے۔
تب تو گاوں میں ماں کی طبیعت خراب ہوگی؟ کلن نے خجالت مٹاتے ہوئے کہا۔
جی نہیں سر! ہمارے والدین کا بچپن میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔ نانی نے پال پوس کر بڑ اکیا اور اس کا بھی سورگ باس ہو گیا۔
اس سے پہلے کہ کلن پھر کوئی اوٹ پٹانگ بات بولتا للن نے ڈانٹ کر کہا بہت ہو چکا کلن اب تم اپنی چونچ نہیں کھولو گے کیا سمجھے ؟
سمجھ گیا بھائی سب سمجھ گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کے پاس کہنے کو کچھ بچا بھی نہیں تھا۔
للن نے نوجوان سے سوال کیا تمہارا نام کیا ہے؟
میرا نام جمن ہے۔
کلن سے رہا نہیں گیا بولا پورا نام بتاو یہ صرف جمن کیا نام ہے؟
جی سر میرا ابھی یہی نام ہے جمن۔
اچھا تو کیا پہلے کوئی اور نام تھا؟
جی ہاں سر پہلے میرا نام اچھن سنگھ تھا۔
اچھا یہ تو بڑا اچھا نام تھا اس کو بدل کیوں دیا؟
وہ لوگوں نے کہا کہ دھرم بدل دیا تو نام بھی بدل دو اس لیے بدل دیا۔
دھرم بدل دیا؟ کیا مطلب میں سمجھا نہیں۔
سر ایسا ہے کہ میں نے اسلام دھرم قبول کرلیا ہے۔
کلن سہم کر بولا اچھا تمہیں اسلام قبول کرنے کا خیال کیسے آیا؟
وہ ایسا ہے کہ میرے کارخانے کے پاس مسجد ہے مجھے اذان اچھی لگتی تھی پھر میں اپنے دوست کے ساتھ مسجد میں جانے لگا۔
للن نے پوچھا پھر کیا ہوا؟
مجھے امام صاحب کی تلاوت اچھی لگنے لگی بڑا سکون ملتا تھا اس لیے میں نے کلمہ پڑھ لیا۔
کلن بولا یہ تو بہت اچھا ہوا مگر اب کیا مسئلہ ہے؟
مسئلہ یہ ہے کہ میں خود قرآن پڑھنا چاہتا ہوں۔
تو اس میں کیا مشکل ہے تمہارا دوست تمہیں پڑھا دے گا۔
میرے دوست کو خود نہیں آتا وہ کیا پڑھائے گا؟ اس کو نماز یاد ہے اس لیے پڑھ لیتا ہے۔
اچھا تو امام صاحب؟
جی ہاں میں ان سے پڑھتا ہوں لیکن میرے تلفظ کی وجہ سے وہ بہت ناراض ہوتے ہیں اور ہاتھ بھی چلا دیتے ہیں۔ میں اسی سے پریشان ہوں۔
للن نے پوچھا تو میں کیا کر سکتا ہوں؟
آپ بڑے آدمی ہیں انہیں سمجھا دیجیے کہ وہ میرے ساتھ مارپیٹ نہ کریں میں آہستہ آہستہ اپنا تلفظ ٹھیک کرلوں گا۔
کلن لپک کر بولا دیکھو اب تمہیں اس بدمعاش امام سے پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ میں تمہیں پڑھاوں گا۔ میرے پاس آیا کرو۔
آپ کے پاس؟ کیسی بات کرتے ہیں سر؟
کیوں؟ تم اس بد تمیز کے پاس جا سکتے ہو تو میرے پاس کیوں نہیں آ سکتے؟
سر میں کارخانے کے بغل میں مزدوروں کے ساتھ رہتا ہوں اور پاس میں مسجد ہے لیکن آپ تو پندرہ کلومیٹر پر ہیں میں یہاں ہر روز کیسے آوں گا؟
للن نے کہا جی ہاں یہ نامعقول بات ہے تم ایسا کرو کہ اس گاڑی میں بیٹھو۔
لیکن وہ کس کی گاڑی ہے؟
کلن بولا میری اور کس کی؟ جاو بیٹھو ہم ابھی آتے ہیں۔
لیکن سر؟
میں ریموٹ سے کھول دیتا ہوں جاو۔
جمن چلا گیا تو للن نے پوچھا تم اس کے بارے میں کیا سوچ رہے تھے؟
جی ہاں وہ میری غلطی تھی لیکن تم بلاوجہ اس بد دماغ امام پر وقت خراب کر رہے ہو۔ ایسے کند ذہن مولیوں کی سمجھ میں کوئی بات نہیں آتی۔
للن نے جواب دیا دیکھو بھائی اپنا کام کوشش کرنا ہے۔ چلو اب اس نوجوان کے پتے پر لے چلو۔
ایک گھنٹے کے بعد وہ لوگ چمبور پہنچے تو عشاء کی نماز کی تیاری تھی۔
نماز کے بعد للن نے کلن اور جمن کو نیچے بھیجا اور تنہائی میں امام صاحب سے کہا مولانا! میں آپ سے عہد چاہتا ہوں ۔
مولانا بولے کیا بات ہے کہیے۔
بات یہ ہے کہ جو راز کی بات میں اب کہوں گا وہ آپ کسی کو نہیں بتائیں گے۔
ٹھیک ہے یہ راز میرے ساتھ قبر میں جائے گا۔
شکریہ۔ کیا آپ کے پاس جمن نام کا کوئی نوجوان قرآن پڑھتا ہے؟
جی ہاں لیکن اس کا تلفظ بہت خراب ہے اس لیے مجھے بہت غصہ آتا ہے مگر کیا کروں قرآن کا سوال ہے ورنہ بھگا دیتا؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ کون ہے؟
جی ہاں۔ یہیں پاس میں ریڈی میڈ گارمنٹ کی کمپنی میں ملازم ہے۔
سو تو ہے مگر وہ ایک بڑے اداکار کا بھائی ہے اور اس کی جان کو خطرہ ہے۔
جان کا خطرہ؟ وہ کیوں؟؟
اس لیے کہ وہ خاندان کی مرضی کے خلاف مذہب اسلام قبول کرنے کے سبب گھر سے فرار ہے۔
اوہو! یہ تو مجھے پتہ ہی نہیں تھا۔
خیر اب تو پتہ چل گیا اس لیے امید ہے کہ آپ اس کے ساتھ نرمی کا سلوک کریں گے؟
جی ہاں۔ اب تو میں اسے اپنے بیٹے کی طرح رکھوں گا۔ آپ بے فکر رہیں۔
جی بہت شکریہ۔ میں یہی استدعا کرنے کے لیے حاضر ہوا تھا۔
امام صاحب بولے آپ نے اچھا کیا جو میری آنکھ کھول دی ورنہ میں جہنم رسید ہو جاتا۔
للن نے فون کر کے کلن کو جمن کے ساتھ بلایا تو مولانا نے کہا بیٹا جمن کل سے تم کھانا میرے ساتھ کھاو گے اور پھر پڑھائی ہوگی۔
کلن یہ سن کر حیران رہ گیا۔ جمن سوچ رہا تھا کہ مولانا شکایت کرنے کی وجہ سے ناراض ہو جائیں گے لیکن ان کی آنکھوں میں ندامت تھی۔
واپسی میں کلن نے کہا یار اس امام نے تو کمال کر دیا۔ میں سمجھ رہا تھا تمہیں دھتکار کر بھگا دے گا اور اس کو پڑھانا بند کردے گا۔
للن بولا بھائی تمہارا مسئلہ یہی ہے کہ تم ہر کسی سے بدگمان ہو جاتے ہو۔ پہلے جمن سے ہوئے پھر امام سے ہو گئے۔
یہ بات تو درست ہے لیکن آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟
اس لیے کہ تم دوسروں کو اپنے جیسا سمجھتے ہو۔
اور تم؟ اپنے جیسا نہیں سمجھتے اس لیے بدگمانی سے بچ جاتے ہو۔
جی نہیں میں بھی اپنے جیسا ہی سمجھتا ہوں۔ اس لیے خوش گمان رہتا ہوں۔
یہ معمہ کلن کی سمجھ سے پرے تھا کہ للن بھی وہی سمجھتا ہے جو وہ سمجھتا ہے لیکن کوئی خوش گمان رہتا ہے اور کوئی بدگمان ہو جاتا ہے۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 21 مارچ تا  70 مارچ 2021