عید کی ملاقاتوں میں فاصلہ رکھیں

رسم دنیا پھر کبھی ۔۔ فی الحال احتیاط ضروری

فرحت الفیہ

 

یقیناً گزشتہ دو سال عالم انسانیت کے لیے بہت بڑی آزمائش ثابت ہوئے ہیں۔ بالخصوص رواں ماہ میں ہمارا ملک صدی کے سب سے بد ترین دور سے گزر رہا ہے۔ کووڈ کا قہر اپنے شباب پر ہے۔ پچھلے ایک ماہ میں ملک بھر میں ہزاروں جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ سیکڑوں مریض اسپتالوں کے خراب انتظام کے سبب سرگرداں اور پریشان حال ادھر سے ادھر دھکے کھانے پر مجبور ہیں۔ پچھلے ایک ڈیڑھ سال سے ہم کووڈ پروٹوکول کے بارے سوشل میڈیا پر پڑھ اور سن رہے کہ اس وبائی دور میں مخصوص احتیاطی تدابیر کا اختیار کرنا ازحد ضروری ہے۔ احتیاطی تدابیر کی تاکید اتنی بار کی جا چکی ہے کہ بچوں کو بھی یہ بات ازبر ہو چکی ہے کہ ’’دو گز کی دوری ماسک ہے ضروری‘‘۔ مگر ستم ظریفی دیکھیے کہ ملک کی اکثریت نے ان باتوں کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔ لاک ڈاؤن کی سختی میں کمی واقع ہوتے ہی پورے ملک بھر میں شادیاں، جمگھٹے، پارٹیاں سیاسی ریلیاں، مذہبی میلے وغیرہ پورے عروج پر پہنچ گئے تھے ۔ جس کا بھیانک نتیجہ وباء کی دوسری شدید ترین لہر کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
قارئین کرام! پچھلے سال کی طرح امسال بھی کووڈ کے دوران یہ ہماری دوسری عید ہو گی (ان شاءالله) جیسا کہ اس بات کا انکشاف ہو چکا ہے کہ کووڈ اپنی ہئیت بدل چکا ہے اور پہلے سے زیادہ بھیانک اور مہلک شکل اختیار کر چکا ہے۔ ہمارے کئی عزیز و اقارب جو پچھلے سال عید کی خوشیوں میں شریک تھے وہ اب ہم میں موجود نہیں ہیں۔ اللہ سبحانه تعالیٰ ان تمام کی مغفرت فرمائے، انہیں غریق رحمت کرے (آمین)
عید المبارک کا پر لطف سماں اور موقع ہو اور ہم اپنے رشتے داروں اور احباب سے نہ ملیں ایسا بر صغیر کے مسلمانوں کی تہذیب میں دور دور تک تصور نہیں ہے۔ مگر برا ہو اس وبائی مرض کا کہ جس نے ہمیں اپنوں سے دوری بنا کر رکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اول تو مادی ترقی اور مال واسباب میں ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرنے کی بھاگ دوڑ نے انسان کو مصروف کر دیا ہے دوم انسانی تعلقات اور رحمی رشتوں میں اس وبا کی وجہ سے ایک خلیج حائل ہو گئی ہے۔ اس خلیج کو پر کرنے کے لیے عید ہی وہ موقع فراہم کرتی ہے جس سے انسان اپنوں کے ساتھ مل کر عید کی خوشیاں مناتا ہے۔
عید کا دن اپنوں سے ملنے اور گلے شکوے دور کرنے کا بہترین موقع ہوتا ہے جہاں افراد خاندان اور دوست واحباب مل بیٹھ کے خوشیاں مناتے ہیں۔ مصافحہ اور معانقہ ہوتا ہے۔ لیکن موجودہ صورتحال کے پیش نظر سوشل ڈسٹنس کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ یہ فاصلہ برقرار رکھنا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم اپنے رشتے داروں اور احباب کے محب اور خیر خواہ ہیں۔ گزشتہ عید کے موقع پر علماء کرام اور دیگر ماہرین صحت کے ذریعے سوشل میڈیا پر اس بات کی تاکید کی گئی تھی کہ بزرگوں اور اپنے رشتے داروں کا خیال کریں اور ان سے مصافحہ اور معانقہ نہ کریں لیکن بعض لوگوں نے نہ صرف اس تاکیدی نصیحت کا مذاق بنایا بلکہ عید کے موقع پر سوشل ڈسٹنسنگ کی دھجیاں بکھیر دیں۔ لیکن اب صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔ حالات بد سے بد تر ہو گئے ہیں۔ہمیں ہوش کے ناخن لینا چاہیے اور کووڈ پروٹوکول کی سختی سے پابندی کرنی چاہیے۔ ہمیں نہ صرف دوسروں کا بلکہ اپنے آپ کا بھی خیال کرنا چاہیے۔
رسول ﷺ نے فرمایا ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ (کے شر) سے دوسرے محفوظ رہیں‘‘۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے ۔’’اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو‘‘ (القرآن)
گویا قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہمیں اپنی ذات اور دوسروں کی جان کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے۔
عیدین کے موقع پر تخصیص کے ساتھ مصافحہ اور معانقہ (گلے ملنا) نہ نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے اور نہ صحابہ کرام سے۔ صحابہ کرام ایک دوسرے سے عام حالات میں بھی باہمی ملاقات کے وقت مصافحہ کرتے تھے اور جب کسی سفر سے لوٹتے تو معانقہ کرتے تھے۔ علامہ البانی کہتے ہیں کہ کسی سے معانقہ کرنا خوشامد یا تعظیم کے لیے ہو تو وہ مکروہ ہے، تاہم اگر کوئی سفر کا ارادہ رکھتا ہو یا اس نے سفر سے واپسی کی ہو یا بعض حالات کی پیش نظر عرصہ دراز سے ملاقات نہ ہونے کی صورت میں للّٰہیت کے جذبے سے سرشار ہو کر معانقہ کیا جائے تو وہ درست ہے۔ساری گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ عید کے موقع پر ہمیں سوشل ڈسٹنسنگ پر سختی سے عمل کر نا چاہیے اور دوسروں کو بھی اس بات کی تاکید کرنی چاہیے کہ ایک دوسرے سے معانقہ ومصافحہ کرنے سے گریز کریں، ساری احتیاطی تدابیر اختیار کریں تاکہ لوگ اس وبائی مرض کی زد میں آنے سے بچ جائیں۔ سماجی اور جسمانی دوری پر عمل پیرا ہونے میں ہی حفظان صحت کے تمام راز مضمر ہیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 16 مئی تا 22 مئی 2021