عام بجٹ 2021-22میں عام آدمی کے لیے کچھ بھی خاص نہیں

تعلیم، روزگار، صحت، اقلیتی بہبود اور زراعت کے شعبے بری طرح نظر انداز

ڈاکٹر جاوید عالم خان

 

اقوام متحدہ کے ایجنڈا 2030کے اہداف کے تناظر میں ایک تجزیہ
ہندوستان ایک فلاحی ملک (welfare state) ہے اور ہم اس کے با عزت شہری ہیں- ہمارا آئین جس طرح ہمیں بہت سی ذمہ داریوں کا پابند بناتا ہے اسی طرح یہ ہمارے بہت سے حقوق کو بھی یقینی بناتا ہے مثلاً صحت، تعلیم، روزگار، غذا، تحفظ اور دیگر ضروریات۔ ہماری حکومت فلاح یابی اور ترقی کے لیے ہر سال ماہ فروری میں ہندوستانی عوام پر خرچ اور آمدنی کے لیے خاکہ بندی کرتی ہے جیسے ہم سالانہ بجٹ کے نام سے جانتے ہیں۔
2015 میں اقوام متحدہ نے ایجنڈہ 2030 بنایا ہے جو Sustainable Development Goals (SDG) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دیگر ملکوں کی طرح ہندوستان نے بھی اس ایجنڈے پر دستخط کیے کہ ہم اپنی پالیسی اور بجٹ کے ذریعے SDG کے 17 اہداف (Goals) اور 169 ٹارگیٹس کو پورا کریں گے۔ SDG بنیادی طور سے معاشی ترقی، سماجی شمولیت اور ماحولیاتی بہتری کو ہر کسی کے لیے یقینی بنانے کی بات کرتا ہے جو کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہیں۔
آئین ہند کی سفارشات اور SDG کے اہداف کی تکمیل کے لیے اس بات کی ضرورت پڑتی ہے کہ بجٹ کو شہریوں کے لیے مختص کیا جائے اسے خرچ کیا جائے اور پھر اس کی نگرنی کی بھی کی جائے۔
دراصل حکومت کے پاس جو محدود وسائل ہوتے ہیں حکومت انہیں بہترین طریقے سے عوام کی لامحدود ضروریات کے لیے استعمال کرتی ہے اور شہریوں کی ترقی کے لیے کام کرتی ہے۔ حکومت شہریوں کی فلاح کے لیے سماجی اور اقتصادی ترقی کو بنیاد بناتی ہے اور اس بات کی کوشش کرتی ہے۔ سماج میں جو سماجی اور اقتصادی غیر برابریاں ہیں ان کو دور کیا جائے اور اسی لیے بجٹ کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ متعینہ اہداف و مقاصد کو پورا کیا جاسکے۔
اگر ہم بجٹ کی بات کریں تو یہ آئندہ مالی سال کے خرچ اور آمدنی کا ایک تخمینہ ہوتا ہے۔ آئندہ سال کس کس سیکٹر سے حکومت کو کتنی آمدنی ہوگی اور کس کس سیکٹر میں حکومت کتنا خرچ کرے گی۔ عام طور سے حکومت بجٹ کو تین بڑے شعبوں پر خرچ کرتی ہے جسے ہم عمومی شعبہ، سماجی شعبہ(Social Sector) اورمعاشی شعبہ (Economic Sector)کے نام سے
جانتے ہیں۔
جاریہ سال کا بجٹ ایسے حالات میں پیش کیا گیا کہ پورے ہندوستان کی اقتصادی حالت کورونا کی وجہ سے چرمرا گئی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں میں بھی حکومت کے ناعاقابت اندیش فیصلوں (GST) اور نوٹ بندی کی وجہ سے ہندوستانی اقتصادی حالت بہت ناگفتہ بہ رہی ہے جس کے واضح ثرات پوری ہندوستانی معیشت پر واضح ہیں۔ سال 1952 کے بعد سے اس وقت تک ہندوستانی اقتصادی حالت میں اتنی گراوٹ پہلی دفعہ دیکھنے کو ملی ہے جس کی شرح فیصد منفی-7.7 ہو گئی ہے۔
اتنی تیز اور نہ سنبھلنے والی اقتصادی گراوٹ کے ہندوستانی عوام پر بہت سخت منفی اور مضر اثرات رونما ہوئے۔ سب سے زیادہ شعبے جو اس اقتصادی مندی اور وبائی بحران کا شکار ہوئے ان میں روزگار شرح صَرف (Expenditure) تعلیم، صحت، غذائیت اور زراعت پیش پیش ہیں۔ اس صورتحال میں عام لوگوں کو وزیر مالیات سے بڑی امیدیں تھیں کہ حکومت عوام کے لیے روزگار، صحت، تعلیم اور زراعتی شعبوں میں نئے نئے راستے کھولے گی اور لوگوں کی فلاح اور مفاد عامہ کے لیے کام کرے گی جبکہ حکومت کے اقدامات عام شہریوں کی امیدوں کے بالکل برعکس ہیں۔
محصولات (Resource Moblisation) مالی سال 21-2020 کے وبائی دور میں جبکہ عوام کی معاشی حالت نا قابل بیان حد تک بد حال ہے، شہریوں کو وزیر مالیات سے تعلیم، صحت، غذا اور روزگار کے شعبوں میں کافی امیدیں تھیں کہ حکومت ان کے لیے نئی نئی اسکیموں کو متعارف کرائے گی، عام شہریوں، پسماندہ طبقے اور نہایت ہی غریب لوگوں کو حکومت بلا واسطہ اقتصادی مدد پہنچائے گی۔ اس سے نہ صرف عام لوگوں کے مسائل ختم ہوں گے بلکہ حکومت کا محصولات کو اکٹھا کرنے میں اور آمدنی کو بڑھاوا دینے میں بڑی حد تک مدد ملے گی کیونکہ جب عوام خوشحال رہیں گے تو خریدو فروخت بھی کریں گے اور ایسے میں معیشت کو بھی بہتر بڑھاوا ملے گا اور جب معیشت آگے بڑھے گی تو حکومت کو محصولات جمع کرنے میں مدد ملے گی۔
محصولات کے جمع کرنے کے نظام کو سمجھنے کے لیے ہمیں کچھ چیزوں کا سمجھ لینا بہت ضروری ہے۔ حکومت کے پاس بنیادی طور پر آمدنی کے چار ذرائع ہوتے ہیں۔ سال 22-2021 میں بھی حکومت اپنے انہیں چاروں محدود ذرائع سے آمدنی اکٹھا کرنے کی کوشش کرے گی اور یہ چاروں محصولاتی سیکٹر ہیں:جی ایس ٹی، کسٹم ڈیوٹی، انکم ٹیکس، کارپوریشن ٹیکس۔
مذکورہ تمام سیکٹرس کے محصولات میں گزشتہ برس آمدنی میں بھی کافی حد تک کمی آئی ہے یہاں تک کہ حکومت اپنے پچھلے سال کے بجٹ محصولات میں ۲ لاکھ کروڑ روپے آمدنی جمع کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس لیے اس سال کے پیش کردہ بجٹ اور گزشتہ برسوں کے بجٹ تناظر (Budget Scenirio) میں یہ کہنا بالکل بھی بے جا نہ ہوگا کہ حکومت اپنے اس سال کے 35 لاکھ کروڑ کے بجٹ کی تنفیذ میں ناکام ہی رہے گی۔
حکومت کے پاس اپنے خرچ کے پہلے سارے شعبے اور ترجیحات ہیں ان میں تین ایسے سیکٹرس ہیں جن میں حکومت کا خرچ کرنا اور تخصیصات بہت ضروری ہے وہ سیکٹرس درج ذیل ہیں۔
سوشل سیکٹر (Social Sector) حکومت کے خرچ کرنے کے علاقوں میں سوشل سیکٹر کافی اہمیت کا حاصل ہے اس میں صحت، تعلیم اور صاف صفائی قابل ذکر ہیں۔ اس وبا کے دور میں اگر صحت کی بات کی جائے تو اس وقت میں بھی حکومت نے صحت پر بہت زیادہ خرچ نہیں کیا ہے جو کافی ہو سکے۔ موجودہ بجٹ پالیسی کو دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ حکومت ملک کے تعلیمی معیار اور ضرورت کے سوال پر بالکل بھی سنجیدہ نہیں ہے کیونکہ اس سیکٹر میں حکومت نہ تو بہتری پیدا کر رہی ہے نہ ہی خرچ پر توجہ دے رہی ہے۔ حتیٰ کہ حکومت اپنے گزشتہ برس کے تعلیمی بجٹ کے ہدف کو نافذ کرنے میں بھی نا کام رہی ہے۔ حد تو یہ ہوئی کہ اس سال کے تعلیمی بجٹ کو گزشتہ برس کے بجٹ سے 6 ہزار کروڑ روپے گھٹا دیا گیا ہے۔ البتہ پانی اور صاف صفائی کے شعبے میں حکومت نے پچھلے کچھ برسوں میں کام کیا ہے اور بہتر کارکردگی کی کوشش کی ہے۔
جب ہم مجموعی طور پر سوشل سیکٹر کو دیکھتے ہیں تو کل جی ڈی پی (GDP) کی شرح فیصد جو اس میں خرچ کیا جا رہا ہے وہ اس کا صرف 9 فیصد ہے۔ اگر صحت اور تعلیم کو علیحدہ کرکے دیکھیں تو صحت پر کل جی ڈی پی کا 1.25 فیصد اور تعلیم پر 3.1 فیصد خرچ کیا جا رہا ہے۔ جبکہ صحت پر 3 اور تعلیم پر 6 فیصد خرچ کیا جانا چاہیے۔ اس کمی کے اثرات ہم کو صحت اور تعلیم پر واضح طور پر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
البتہ حکومت نے پانی اور صاف صفائی (Water sanitation) پر کسی قدر دھیان دیا ہے جس سے بہتری کی امید کی جاتی ہے۔ اس سیکٹر کو پردھان منتری جل جیون مشن اسکیم کے تحت بڑھاوا دینے کی امید ہے۔
۳۔ معاشی شعبہ: وبائی مندی کے دور میں جب کہ پورے ملک میں اقتصادی صورتحال بگڑی ہوئی ہے معاشی شعبہ (Economic Sector ) کافی اہمیت کا حامل ہے جس سے اقتصادی گراوٹ کو کم کیا جاسکتا ہے اور معاشی صورتحال کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرائے جا سکتے ہیں اور زراعت میں بھی بہتری لائی جا سکتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ شہریوں کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ حالانکہ حکومت نے درج بالا شعبوں میں کوئی توجہ نہیں دی اور گزشتہ برس کے بجٹ پلان سے بھی اس سال کے بجٹ کو کم کر دیا گیا مثلاً NAREGA اور پی ایم کسان اسکیم جو کہ عوام کو بلا واسطہ راحت پہنچانے میں کافی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کررہی تھی جبکہ پی ایم سکیم سے حکومت نے دس ہزار کروڑ اور Narega میں 38 ہزار کروڑ کی کمی کر دی ہے۔ اس بجٹ میں حکومت نے نجکاری Privatization) پر خاص توجہ دی ہے۔ یعنی حکومت نے بہت سے حکومتی شعبوں کو پرائیویٹ کمپنیوں کے ہاتھوں میں دینے کا منصوبہ بنایا اور ہیوی انفراسٹرکچر پرائیویٹ کمپنیوں کے ذریعہ کھڑا کرنے کی پالیسی بنائی گئی ہے۔
تبدیلی آب و ہوا (Climate Change) ایک بہت ہی اہم مسئلہ ہے جس پرحکومت نہ تو کوئی خاص توجہ دے رہی ہے اور نہ ہی بجٹ کی تقرری میں بہتر مقام دے رہی ہے۔ پچھڑے طبقات (Marginalized sections of the) population): لوگوں کا وہ گروہ جو معذور اور کمزور ہے۔ عورتیں، بچے، دلت، مسلم اور دیگر ایس سی( SC)، یس ٹی (ST) کی عوام کو شامل کیا جاتا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو کورونا وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہوا لہذا ان کو اس سال حکومت سے بڑی امید تھی کہ حکومت ان کے لیے کچھ خاص اقدام کرے گی اور بجٹ میں اضافہ کرے گی۔ حالاں کہ حکومت نے Department of Social Justice and Empowerment کے بجٹ کو پچھلے سال کے بجٹ کے برابر ہی رکھا۔ ان کے لیے اسکالر شپ پروگرام کے بجٹ میں کمی کر دی گئی جبکہ وہ بجٹ ان کے لیے پہلے سے ہی بہت کم تھا۔ اس طرح آدی واسی کے بجٹ میں بھی پچھلے سال کے 7.5 ہزار کروڑ کے بجٹ میں سے ڈھائی ہزار کروڑ کاٹ دیے گئے ہیں۔ نیز معذوروں اور صنف پر مبنی مسائل (Gender Based Issues) کے بجٹ میں بھی کمی کر دی گئی۔جب ہم مسلمانوں کے تئیں بجٹ کو دیکھتے ہیں تو وزارت اقلیتی بہبود کی دو اسکیمیں وزیر اعظم کا پندرہ نکاتی پروگرام اور ملٹی سیکٹرل پروگرام جسے اب ہم Pradhan Mantri Jan Vikas Karyakram (PMJVK) کے نام سے جانتے ہیں قابل ذکر ہیں۔ مذکورہ بالا دونوں پروگرام گزشتہ چھ برسوں سے بالکل ٹھپ پڑے ہیں ان میں بالکل بھی کام نہیں کیا جا رہا ہے۔
حکومت نے ان پروگراموں سے استفادہ کرنے والے افراد کے اعداد و شمار دینا ہی بند کر دیے اور بجٹ کو کم کر دیا ہے۔ حالاں کہ ان پروگراموں میں بہت سی اسکیمیں عام شعبے سے تعلق رکھتی ہیں اور ابتدا میں حکومت نے وزیر اعظم کے پندرہ نکاتی پروگرام کے ذریعہ اقلیتوں کے لیے بجٹ کا پندرہ فیصد خرچ کرنے کا ہدف بنایا تھا جو اب بالکل ہی ختم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اب مسلمانوں کو محض وزرات برائے اقلیتی امور سے ہی مختص شدہ پروگراموں سے استفادہ کا موقع حاصل رہے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ حکومت نے وزارت برائے اقلیتی امور پر گزشتہ برس 21-2020 میں صرف پانچ ہزار کروڑ مختص کیے تھے اور نظر ثانی شدہ بجٹ میں 800 کروڑ کم کر دیے اور اس سال کے بجٹ 22-2021 میں گزشتہ سے مزید 200 کروڑ کم کر دیے گئے۔ اب اس وزارت کا بجٹ صرف چار ہزار کروڑ ہے جس کا آدھا بجٹ تو اسکالر شپ پروگرام میں ہی چلا جاتا ہے اور بقیہ امور دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ اسکالر شپ پروگرام اقلیتوں کے لیے یقیناً بہت اہم ہیں۔ ملک میں اقلیتوں کی کل تعداد 21 فیصد ہے۔ جن کے کروڑوں طلبہ ہیں جو اسکالر شپ فارم بھرتے ہیں اور مشکل سے حکومت پری میٹرک (Pre Matric) اور پوسٹ میٹرک (Post matric) کو ملا کر 60 لاکھ طلبہ کو ہی اسکالر شپ دے پائی ہے اور جو رقم ان کو دی جاتی ہے وہ بہت ہی معمولی اور طلبہ کے لیے ناکافی ہے۔ گزشتہ بارہ برسوں میں اس میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔
لہٰذا ضروری ہے کہ حکومت بجٹ بناتے ہوئے عام شہریوں کی ضرورت اور مطالبات کو مد نظر رکھے نیز، اس دوران عام شہریوں اور پسماندہ طبقات کا خاص خیال رکھا جائے اور صحت و تعلیم کے ساتھ ساتھ روزگار سے متعلق اسکیموں کے تعین میں بجٹ شرح فیصد میں اضافہ کیا جائے۔ بجٹ اسکیموں کے بنانے میں Sustainable Development Goals (SDG) کے 17 اہداف اور 169 ایجنڈوں کو بھی مد نظر رکھا جائے جو اس بات کی یقین دہانی کرتے ہیں کہ (No One Left Behind) کسی کو پیچھے نہیں رہنے دینا ہے کیوں کہ ملک کو صحیح معنی میں ترقی یافتہ اسی وقت بنایا جا سکتا ہے جب پسماندہ طبقات کی ترقی کے لیے کوششیں کی جائیں اور ان کو ساتھ لے کر چلا جائے۔
*(BE) Budget *(A)Actual * (R) Revised
(مضمون نگار انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اینڈ ایڈووکیسی (IPSA)کے ڈائرکٹر ہیں )
***

حکومت نے وزیر اعظم کے پندرہ نکاتی پروگرام کے ذریعہ اقلیتو ں کے لیے بجٹ کا 15فیصد خرچ کرنے کا ہدف بنایا تھا جو اب بالکل ہی ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔ اب مسلمانوں کو محض وزرا ت برائے اقلیتی امور سے ہی مختص شدہ پروگراموں سے استفادہ کا موقع حاصل رہے گا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 21 فروری تا 27 فروری 2021