عالمی یومِ سماجی انصاف،ظلم و جبر کی سالانہ یاددہانی!

اسلامی نظام عدل کا قیام ہی واحد حل

زعیم الدین احمد ،حیدرآباد

 

بین الاقوامی یومِ سماجی انصاف ہر سال 20 فروری کو منایا جاتا ہے۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ آخر یہ دن کیوں منایا جاتا ہے؟ کیا یہ دن اس لئے منایا جاتا ہے کہ عوام کو یہ بتایا جائے کہ اس سال کمزور اور سماجی عدم برابری کے شکار لوگوں پر کتنے مظالم کئے گئے؟ کتنی تکالیف دی گئیں اور کتنے لوگوں کا اس میں اضافہ ہوا؟ ہر سال ایک رپورٹ بھی شائع کی جاتی ہے کہ دنیا میں سماجی انصاف کی کیا صورتِ حال ہے۔ کن کن ممالک میں سماجی انصاف کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے کوششیں کی گئیں۔ لیکن ہم جب رپورٹ پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سماجی انصاف کے معیار میں بہتری کے بجائے اس میں مزید خرابی ہی پیدا ہوئی ہے۔
اسی تناظر میں اگر ہم ہمارے ملک کی صورتِ حال دیکھیں تو صاف محسوس ہوگا کہ بھاجپا کے سرکار میں آنے کے بعد کمزور اور پسماندہ افراد پر مظالم میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) جو ملک میں مختلف جرائم سے متعلق اعداد و شمار جمع کرتا ہے کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں دلتوں کے خلاف جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور تعجب خیز بات یہ ہے کہ جرائم کی سزا کی شرح میں تشویش ناک حد تک کمی واقع ہوئی ہے یعنی مجرمین بغیر کسی سزا کے باعزت بری بھی ہو جاتے ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 2019 میں دلت سماج اور درج فہرست قبائل کے افراد کے خلاف جرائم میں بالترتیب 7.3 فیصد اور 26.5 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے سال دلتوں کے خلاف جرم یا مظالم کے کل 45935 مقدمات درج کئے گئے اسی طرح درج فہرست قبائلی لوگوں کے خلاف جرم کے کل 8257 مقدمات درج کیے گئے۔ یہ اعدد وشمار بھی وہ ہیں جو پولیس نے درج کئے ہیں ظلم کے ایسے کئی واقعات ہیں جو پولیس میں درج ہی نہیں ہو پاتے۔
اتر پردیش ایک ایسی ریاست جہاں ہندو دھرم کے مقدس مقامات اور "پَوِتر استھل” موجود ہیں لیکن یہاں دلتوں کے خلاف سب سے زیادہ جرائم ہوئے ہیں۔ یہں تقریباً 11829 مقدمات کئے گئے جو ملک میں بھر میں درج ہونے والے مقدمات کا 26 فیصد ہے۔ اس ریاست کے بعد نمبر آتا ہے راجستھان کا جہاں 6794 مقدمات درج کئے گئے اس کے بعد بہار (14.2فیصد) اور مدھیہ پردیش (11.5فیصد) آتے ہیں۔ اگر ان اعداد وشمار پر نظر ڈالیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ یہ وہ علاقے ہیں جسے ہندی بولنے والا علاقہ کہا جاتا ہے یا "کاؤ بیلٹ” کہا جاتا ہے۔ ان دلتوں پر اس لئے مظالم کئے جاتے ہیں کہ وہ ان نام نہاد مذہبی ٹھیکے داروں کی نظر میں نچلی ذات کے ہیں ان نام نہاد مذہبی ٹھیکے داروں کا ماننا ہے کہ دلت پر ظلم کرنا کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔ 2017 کا وہ واقعہ ہمیں یاد ہوگا کہ دلت سماج کے تین افراد کو محض اس لئے مار ڈالا گیا تھا کہ انہوں نے ان نام نہاد اونچی ذات والے ظالم شخص کو "رام رام” نہیں کہا تھا اس کے بعد ایک اور واقعہ جس میں ایک دلت حاملہ خاتون کو مار مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا جس کا جرم یہ تھا کہ اس نے نام نہاد اعلیٰ ذات ٹھاکر کی بالٹی کو ہاتھ لگایا تھا۔ اکثر دلت سماج کو معاشرتی بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ بھی ایسے علاقوں میں جہاں ہندو دھرم گروؤں اور ہندو دھرم استھلوں کی آماجگاہ ہے۔ ان علاقوں میں دلت سماج کے ساتھ مظالم اور ان کے ساتھ حیوانوں جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے اور یہ نام نہاد دھرم کے ٹھیکے دار خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ بھارت میں دلت سماج کے ساتھ ظلم و جبر غیر انسانی اور ہتک آمیز سلوک ذات پات کی بنیاد پر روا رکھا جاتا ہے اور اسے مذہبی ٹھیکے دار جائز قرار دیتے ہیں۔
انسانوں کے درمیان ذات پات کی اس تقسیم نے ساری انسانیت ہی کو تباہ کر دیا ہے۔ کچھ کو اچھوت بناکر رکھ دیا گیا ان کو منحوس مان کر انہیں چھوٹی ذات کا قرار دے کر ان کے حقوق سلب کر دیے گئے۔ سماج میں ان کو وہ حقوق نہیں ملتے جو ایک نام نہاد اعلیٰ ذات یا برہمن کو میسر ہیں۔ درحقیقت یہ اونچ نیچ کا مسئلہ صرف ہمارے ملک میں ہی نہیں پایا جاتا ہم نے دیکھا کہ یوروپ و امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی رنگ و نسل کی بنیاد پر مظالم ہوتے ہیں۔ وہاں افریقی نسل کے باشندوں اور ریڈ انڈینس کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے ۔حقیقتِ حال یہ ہے کہ انسانیت کو جس چیز نے تباہ و برباد کیا ہے وہ یہی رنگ و نسل، ذات پات کی تفریق ہے۔ کہیں اسے اچھوت بناکر رکھا گیا اور اس کے حقوق سلب کرلئے گئے، کہیں اسے افریقی نسل کا ہونے پر اس کو پکڑ کر غلام بنالیا گیا اور اس سے جانوروں جیسا سلوک کیا گیا، کہیں اسے ریڈ انڈین ہونے کی وجہ سے اس کی زمینیں چھین لی گئیں۔ اسی تعصب نے سماجی عدم استحکام پیدا کیا، اسی رنگ و نسل اور ذات پات کے امتیاز نے انسانوں کے درمیان لڑائیاں پیدا کیں بلکہ ملکوں کے درمیان جنگیں بھی ہوئیں، اسی تعصب نے پوری پوری نسلوں کو تباہ و برباد کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر اس کا علاج کیا ہے؟ دنیا نے دیکھ لیا کہ کسی مذہب یا دین میں اتنی وسعت نہیں کہ وہ اس مسئلے کو جڑ سے ختم کرسکے۔ کوئی ازم ایسا نہیں جو اس اونچ نیچ، ذات پات، رنگ و نسل یا طبقاتی امتیازات کو ختم کرسکے۔ مختلف سیاسی نظریات کے حامل لوگوں نے اس کے لئے کئی قوانین تدوین کئے لیکن اس کا کوئی حل وہ نہیں نکال سکے۔ وہ اس بیماری کو ختم کرنے میں عاجز نظر آتے ہیں۔ اگر ہم دنیا میں موجود مذاہب کا بغور مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہو جائے کا کہ اس بیماری کا علاج ان کے پاس نہیں ہے۔ بلکہ کئی مذاہب تو ایسے ہیں جو انسانوں کے درمیان ذات پات کے طبقات و نسل کے امتیازات پیدا کرتے ہیں۔ اس بیماری کا علاج اگر کسی کے پاس موجود ہے تو وہ صرف اسلام کے پاس ہے۔ محمد عربی ﷺ نے ذات پات، رنگ ونسل زبان و وطن کے سارے امتیازات کو ختم کر کے انسان کو بحیثیت انسان مخاطب کیا اور ایسے اصول و ضوابط پیش کئے جو تمام انسانوں کے لئے رحمت ہیں۔ اگر آج بھی ان اصولوں کو مان لیا جائے، ان پر عمل کیا جائے تو دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے اور اس مہلک بیماری کا علاج ہو سکتا ہے۔ کوئی شخص خواہ وہ کالا ہو یا گورا ہو، مشرق کا رہنے والا ہو یا مغربی کا رہنے والا ہو، عربی ہو یا عجمی ہو یا جو زبان بھی وہ بولتا ہو یا جہاں بھی وہ رہتا ہو اگر پیغمبر اسلام کے پیش کیے ہوئے اصولوں پر ایمان لاتا ہے تو وہ مساوی حقوق کے ساتھ امتِ مسلمہ میں شامل ہوجاتا ہے۔ کوئی چھوت چھات، کوئی اونچ نیچ، کوئی نسلی یا طبقاتی امتیاز اس امت میں نہیں ہے۔
امریکہ کے مشہور لیڈر میلکم اِکس نے اسلام قبول کرنے کے بعدجب وہ حج کے لیے جاتے ہیں تو ہر دیکھ کر حیرت زدہ ہوجاتے ہیں کہ ہر نسل ، ہر رنگ ، ہر وطن ، ہر زبان کے لوگ چلے آرہے ہیں اور سب ایک ہی لباس پہنے ہوئے ہیں اور لبیک کے نعرے لگارہے ہیں ، ایک ساتھ طواف کررہے ہیں ، نماز میں ایک ساتھ کھڑے ہیں ، تو وہ پکار اٹھے کہ رنگ و نسل کے مسئلے کا صحیح حل یہی ہے ۔ اسلام میں یہ ایک ہی عبادت نہیں بلکہ اگر اس کی تعلیمات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ اس کا ایک ایک اصول اس بات کی گواہی دے گا کہ یہ ساری انسانیت کے لیےہے اس کی نگاہ میں تمام انسان برابر ہیں وہ انسانوں میں کوئی تفریق نہیں کرتا ۔ وہ غیر مسلموں کے ساتھ اچھے سلوک و برتاؤ کی تلقین کرتا ہے ۔وہ کہتا ہے کہ یہ ذاتیں ، یہ برادریاں اس لیے ہیں کہ تم ایک دوسرے کی شناخت کرسکو۔ چنانچہ سورۃ الحجرات میں اللہ نے فرمایا : ’’ لوگو ، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو‘‘ ۔ انسانوں کی یہ بہت سی برادریاں اس لیے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو پہچان سکیں وہ اس لیے نہیں ہیں ایک دوسرے پر برتری جتا ئیں ۔ حقیقی آزادی کا جو تصور اسلام نے دیا ہے وہ کسی نے نہیں دیا وہ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر ایک خدا کی بندے بن کر رہنے کا تصور پیش کرتا ہے ۔ اور ایک ایسے شریعت کا پابند بناتا ہے جس میں کوئی تبدیلی تا قیامت نہیں کی جاسکتی کیوں کہ یہ قانون برِ حق خداوندِ عالم کا قانون ہے اور اسی کو اپنانے میں ساری انسانیت کی نجات ہے ۔
***

اسلام کا ایک ایک اصول اس بات کی گواہی دے گا کہ یہ ساری انسانیت کے لیےہے اس کی نگاہ میں تمام انسان برابرہیں وہ انسانوں میں کوئی تفریق نہیں کرتا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 21 فروری تا 27 فروری 2021