صنعت کاروں کو فائدہ پہچانے کی غریب دشمن پالیسی!

ضرورتمندوںکے لیے مختص غذائی اناج خانگی شعبے کو فرخت

زعیم الدین احمد حیدرآباد

 

ہمارا ملک بھارت دنیا میں ہنگر انڈیکس ۲۰۲۰ میں کئی غریب ممالک سے بھی نیچے کی سطح پر آگیا ۔ ۱۱۷ ممالک کی فہرست میں ہمارے ملک کا نمبر ۹۴ ہے۔اس نازک موقع پر نریندر مودی حکومت نے ۷۸ ہزار ٹن چاول سبسیڈی کے ساتھ خانگی صنعتوں کو فروخت کرنے کا ارادہ کر لیا ہے ۔ دراصل یہ چاول حکومت کسانوں سے خرید کر محفوظ کرتی اور اسے سماج کےغریب ترین طبقات میں تقسیم کرتی ہے ، اسکولوں میں طلبا کو دوپہر کے کھانے اسکیم بھی اسی سے چلائی جاتی ہے۔ خانگی کمپنیاں ڈسٹلریز (اسپرٹ) کے ذریعے ایتھنول کی پیداوار کے لیے اسے استعمال کرتی ہیں تاکہ اس کو پٹرول میں شامل کیا جاسکے ۔
گزشتہ سال اکتوبر میں جاری ہوئے گلوبل ہنگر انڈیکس میں ہمارا ملک اپنے پڑوسیوں ممالک پاکستان ، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا جو بالترتیب ۸۸ ، ۷۵، ۷۳ اور ۶۴ویں مقام پر ہیں، سے بھی پیچھے رہ گیا تھا۔ لیکن حکومت نے کارپوریٹ کمپنیوں سے جو وعدہ کیا تھا کہ وہ فوڈ کارپوریشن آف انڈیا (ایف سی آئی) سے رعایتی قیمت والے چاول مہیا کرے گی اس نے شکر بنانے والی اور ڈسٹلریز (اسپرٹ )بنانے والی کمپنیوں سے وعدہ لیا ہے کہ وہ اپنی ایتھنول کی پیداوار کو بڑھائیں جس کے لیے انہیں سستی شرح سود پر قرضے فراہم کرے گی ۔ تاہم حکومت اس معاملے میں اپنی زبان بند کیے ہوئے ہے کہ وہ کس طرح ان خانگی صنعتوں کو رعایتی چاول اور کم شرح سود پر قرضے مہیا کرے گی اور کون اس نقصان کو برداشت کرے گا؟ حکومت کا رویہ بھی بڑا مضحکہ خیزہے کہ بعض صنعتوں کو کھلی چھوٹ دیتی ہے کہ وہ ماحولیاتی اجازت نامہ کے بغیر غذائی اجناس سے ایتھنول تیار کریں۔ غذائی اجناس سے ایتھنول پیدا کرنے کی خاطر بنیادی ڈھانچے کو پروان چڑھانے کے لیے شکر تیار کرنے والی صنعتوں ، اکائیوں اور ڈسٹلریز ( اسپرٹ) بنانے والی صنعتوں کو لازمی پیشگی ماحولیاتی اجازت ناموں سےمستثنیٰ کیا گیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ۲۰۳۰ تک کے لازمی نافذ کرنے والے اہداف جس میں غربت اور بھکمری اور عدم مساوات کا خاتمہ اور ہر ایک کو برابر کے مواقع فراہم کرنا شامل ہیں ان اہداف کے حصول میں بھی ہمارے ملک کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے ۔ ۱۴ جون کو اقوامِ متحدہ نے ۱۶۵ ممالک کی ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں ہمارے ملک کا مقام ۱۲۰ واں ہے جو افریقی ممالک گبون ، بوٹسوانا، نامیبیا اور کینیا جو بالترتیب ۱۱۱ ، ۱۱۵ ، ۱۱۶ اور ۱۱۸ویں مقام پر ہیں ان سے بھی پیچھے ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مودی حکومت کی پالیسیاں ، اس کے منصوبے صرف اور صرف خانگی صنعتوں اور وہ بھی چند چنندہ صنعت کاروں کے لیے ہی ہیں ان پالیسیوں میں غریب عوام کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ۔
اس سارے معاملے میں جو بات سب سے زیادہ ناقابل فہم ہے وہ یہ ہے کہ مودی حکومت نے خانگی اسپرٹ بنانے والی صنعتوں کو محض دو ہزار روپے فی کوئنٹل رعایت پر چاول دینے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ اسی چاول کو کوٹے سے زیادہ خریدنے پر ریاستوں کو دو ہزار دو سو روپے فی کوئنٹل ادا کرنا پڑتا ہے حالانکہ ریاستیں اس چاول کو عوامی تقسیم کے نظام (پی ڈی یس ) کے تحت غریب عوام میں تقسیم کرتی ہیں ۔ کووڈ۔۱۹ کے بعد سے ریاستیں معاشی طور پر شدید بحران کا شکار ہیں ، ریاستوں کو اجناس کی شدید قلت کا سامنا ہے انہیں چاول کی ضرورت ہے تاکہ معاشی طور پر بدحال عوام میں تقسیم کیا جاسکے ۔ ان ریاستوں کو رعایتی چاول دینے سے انکار کرنا اور اسی چاول کو خانگی صنعتوں کورعایتی قیمت میں دینا کہاں تک صحیح ہے؟
ڈاکٹر امبیڈ کر یونیورسٹی کی ماہر معاشیات ڈاکٹر دیپا سنہا کا کہنا ہے کہ ’’ ریاستوں میں کووِڈ۔۱۹ کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں تھم سی گئی ہیں جس کی وجہ سے وہ محصولات کی وصولی پر زور دے رہی ہیں ، کئی خاندان غربت کی سطح سے نیچے دھکیل دیے گئے ہیں اور یہ خاندان ایسے ہیں کہ جو (پی ڈی یس ) کے نظام سے مربوط نہیں ہیں انہیں کسی قسم کا اناج نہیں ملتا ، وہ تکنیکی طور پر اس کے لیے اہل نہیں ہیں۔ ایسے وقت مرکزی حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ اپنے (پی ڈی یس ) کے نظام کو مزید بہتر بناتی اور غریب خاندانوں میں اناج کی تقسیم میں تیزی لاتی تاکہ اس بحران کو ختم کیا جاسکے ، لیکن بجائے اس بحران کو ختم کرنے کے وہ اس اناج کو خرید رہی ہے اور ایف سی آئی کےگودام بھررہی ہے حالانکہ اسے چاہیے تھا کہ اس اناج کو ضرورت مندوں میں تقسیم کرتی۔یہ تو ذخیرہ اندوزی ہے ‘‘۔
۳۰ اپریل کو دو الگ حکمنامے جاری کیے گئے۔ ایک حکمنامہ محکمہ خوراک اور عوامی تقسیم نے جاری کیا جس میں یہ طے کیا گیا کہ رعایتی قیمت پر چاول ریاستوں کو نہیں بلکہ ڈسٹلریز (اسپرٹ )بنانے والی صنعتوں کو دیا جائے گا ۔ دوسرا حکمنامہ یہ کہ چاول کے ساتھ غذائی اجناس سے ایتھنول پیدا کرنے والی صنعتوں کو پیداوار بڑھانے کے لیے یعنی انفراسٹرکچر کو وسعت دینے کے لیے مالی مدد فراہم کی جائے گی ۔ اس کے لیے اس نے ۴۱۸ صنعتی اکائیوں کو منتخب کیا ہے۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ ان منتخبہ صنعتوں میں سے ستر محض اترپردیش میں ہی ہیں، وہی اترپردیش جہاں آئندہ سال کے اوائل میں انتخابات ہونے والے ہیں ۔
ملک میں زرعی ماہرین کا ایک مخصوص طبقہ اناج کے دوسرے کاموں میں استعمال کو درست قرار دیتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ملک میں اناج کی کوئی قلت نہیں ہے اناج (ایف سی آئی) کے گوداموں کو میں بھرا پڑا ہوا ہے۔ بھارت نے وافرخوراک رکھنے کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔ لیکن حقیقت اس سے بہت مختلف ہے ۔ مرکزی حکومت کے اندازوں کے مطابق گزشتہ تیس سالوں میں فی کس خوراک کی دستیابی میں کمی آئی ہے۔ مرکزی وزارت زراعت اور کسانوں کی فلاح و بہبود کے ڈائریکٹوریٹ آف اکنامکس اینڈ اسٹاٹیسٹکس (شماریات) کی طرف سے مرتب کردہ تازہ اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ سال ۱۹۹۱ میں چاول فی کس ۸۹ اعشاریہ ۹ کلو فی سال دستیاب تھا وہیں ۲۰۱۹ میں یہ گھٹ کر ۷۰ اعشاریہ ۱ کلو گرام رہ گیا ۔ اگر ہم پورے اناج کا حساب لگائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سال۱۹۹۱ میں ایک شہری کے لیے سالانہ اناج ۱۸۶ اعشاریہ ۲ کلو گرام دستیاب تھا۔ وہیں ۲۰۱۹ میں کم ہو کر ۱۸۰ اعشاریہ ۵ کلو رہ گیا۔
مودی حکومت ایک طرف صنعتوں کو رعایتی قیمت پر اناج اور قرضے فراہم کررہی ہے دوسری طرف اس نے غریب عوام کو اس طرح بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے گویا وہ انسان ہی نہیں ہیں ۔ کسانوں سے وہ سستے داموں پر اناج خرید کر اسے غریب عوام میں تقسیم کرنے کے بجائے صنعتوں کو مزید رعایتی قیمت پر فروخت کررہی ہے جب کہ اپنی ہی ریاستوں کو مہنگی قیمت پر فروخت کررہی ہے ۔ مودی حکومت کی ساری پالیسیاں عوام دشمن ہی نظر آتی ہیں۔ وہ سارے منصوبے اس کے اپنے صنعتکاروں کو خوش کرنے اور ان کی جیبیں بھرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہیں ۔ منصوبے اور پالیسیاں ایسی بنائی جارہی ہیں جس سے محض اپنے من پسند صنعتکاروں کا فائدہ ہو۔ بی جے پی یا مودی حکومت کی سرشت میں غریبوں کی مدد کرنا ، انہیں غربت سے اٹھانا ، ان کی تعلیم کے لیے مواقع فراہم کرنا ، ان کی معیشت کو پروان چڑھانا ہے ہی نہیں ۔ ان کے سارے منصوبے انتخابات کو پیش نظر رکھ کر بنائے جاتے ہیں۔ ان کی ساری کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی طرح اقتدار حاصل کیا جائے اور اس پر برقرار رہا جائے ۔ ان سے اچھائی کی توقع بے سود نظر آتی ہے ۔
***

۱۴ جون کو اقوامِ متحدہ نے ۱۶۵ ممالک کی ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں ہمارے ملک کا مقام ۱۲۰ واں ہے جو افریقی ممالک گبون ، بوٹسوانا، نامیبیا اور کینیا جو بالترتیب ۱۱۱ ، ۱۱۵ ، ۱۱۶ اور ۱۱۸ویں مقام پر ہیں ان سے بھی پیچھے ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مودی حکومت کی پالیسیاں ، اس کے منصوبے صرف اور صرف خانگی صنعتوں اور وہ بھی چند چنندہ صنعت کاروں کے لیے ہی ہیں ان پالیسیوں میں غریب عوام کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 اگست تا 21  اگست 2021