شر جیل عثمانی اور تعفن زدہ تہذیب کا معاملہ

سخت بیانی یا حقائق کا انکشاف ؟

نہال صغیر، ممبئی

 

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق طالب علم شرجیل عثمانی پر کئی جگہوں سے ایف آئی آر درج کی جا چکی ہے مگر اب تک اس نوجوان کی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔ اگر اس کی گرفتاری ہو بھی جاتی ہے تو اس کیلئے یہ کوئی نئی بات نہیں ہوگی۔ یوگی حکومت میں وہ سنت یوسفی اس سے قبل بھی ادا کرچکا ہے۔ ویسے بھی مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کوئی عجوبہ نہیں ہے، یہ تو اس ملک کے ارباب اقتدار کا محبوب مشغلہ ہے۔ حکومت کسی کی بھی ہو کانگریس کے دور میں منصوبہ بند بم دھماکوں اور مخصوص مقام و مخصوص حالات میں بم دھماکہ کرنے کی فرضی کہانی کے تحت سینکڑوں مسلم نوجوان پابند سلاسل کئے گئے۔ اب بی جے پی کی حکومت میں حب الوطنی کے نشہ میں اکثریتی طبقہ کو مدہوش کرکے مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں گرفتار تو غیر مسلم بھی ہو رہے ہیں مگر ان کی گرفتاری بعد میں ضمانت پر رہائی میں تبدیل ہو جاتی ہے جب کہ مسلم نوجوانوں کے نصیب میں مسلسل قید ہی ہے۔ ہندو شدت پسندوں کا الزام ہے کہ اس سال 30 جنوری کو یلغار پریشد کی جانب سے منعقد کئے جانے والے پروگرام میں شرجیل عثمانی نے ہندو تہذیب کو سڑی گلی تہذیب کہہ دیا تھا۔ تنازعہ کے بعد یوٹیوب پر اس کی تقریر سنی جس میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ ممکن ہے انہیں وہ بات بری لگی ہو جس میں شرجیل نے اس سماج کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ شرجیل عثمانی نے کہا ’’آج کا ہندو سماج بھارت میں بالکل سڑ چکا ہے۔ چودہ سال کے حافظ جنید کو چلتی ٹرین میں بھیڑ کے ذریعہ اکتیس بار چاقو مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے اور کوئی انہیں روکنے بھی نہیں آیا“۔ یوٹیوب پر ممکن ہے اسے ایڈیٹ کرکے اپلوڈ کیا گیا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی تقریر کی ویڈیو میں کچھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہو کیوں کہ جس طبقے کی جانب سے یہ الزامات لگے ہیں اسی کی بنیاد پر ایف آئی آر درج ہوئی ہے، اس کا یہ آزمودہ نسخہ ہے۔
اس تعلق سے میرے فیس بک دوست الطاف پٹیل نے لکھا ’’اب یہ شرجیل عثمانی کون آ گیا مہاراشٹر میں؟ اپنی بات رکھو مگر کسی کے مذہب کو گالی دینے کا حق اس کو کس نے دیا‘‘۔ حالانکہ میرا یہ دوست انتہائی باخبر ہے مگر مسلمانوں کے معاملہ میں یہ بھی میڈیا کے گمراہ کن پروپیگنڈہ کا شکار ہو گیا ہے۔ میں نے جواباً لکھا ’’شرجیل عثمانی یا کوئی بھی گالی کیوں دے گا، بس اتنا ہوتا ہے کہ کسی بد صورت انسان کے سامنے آئینہ رکھیں گے تو اسے برا لگے گا ہی‘‘۔ اسی طرح کا جواب علی سہراب نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے دیا ہے۔ علی سہراب نے ٹوئٹر پر لکھا ”اتنا ہنگامہ کیوں؟ چہرے پر داغ ہے تو آئینہ پر غصہ کیوں؟ اصل میں بھارتی اکثریتی سماج کو نصیحت کرنا پسند ہے نصیحت سننا بالکل بھی پسند نہیں۔ بہتر تو یہ ہوتا کہ یہ سماج اپنے گھر کی گندگی کو صاف کرتا جس کی نشاندہی کھل کر شرجیل عثمانی نے کی ہے“۔ شرجیل کے خلاف پروپیگنڈہ یا ایف آئی آر اسی کی علامت ہے کہ کوئی انہیں آئینہ نہ دکھائے۔ اس نے جو بھی بات رکھی وہ بے بنیاد نہیں ہے اور وہ دلیل سے بھی خالی نہیں۔ سوشل میڈیا پر کئی نوجوان ایسے ہیں جنہوں نے وقت کے دھارے میں بہنے کی بجائے مسلم نوجوانوں کو حقیقت سے آشنا کرنے اور اس پر غور کرنے کی دعوت دینے کا کام شروع کر رکھا ہے۔ جس کی پاداش میں وہ جیل کی ہوا بھی کھا چکے ہیں مگر انہیں خوفزدہ نہیں کیا جاسکا، ان کا مشن اب بھی جاری ہے۔ علی سہراب ایسے ہی ایک نوجوان ہیں جن کا ایک بلاگ بھی ہے وہ ہندی میں لکھتے ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر بہت سرگرم رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا پوسٹ کے سبب ہی انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ کسان تحریک سمیت کسی بھی تحریک یا کسی بھی معاملہ کے تعلق سے بے باکانہ ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ شرجیل عثمانی کے سڑے گلے کلچر والے بیان پر وہ ٹوئٹر میں لکھتے ہیں ’’جو سماج مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والوں کو تھوک میں ووٹ دیتا ہے، جو سماج مسلمانوں کے قاتلوں کو پھول مالا پہنا کر ہیرو بناتا ہے، جس سماج کے لوگ مسلم لڑکی کے زانی کی حمایت میں ترنگا ریلی نکالتے ہیں، اس سماج کو سڑا ہوا سماج نہیں کہیں گے تو کیا کہیں گے؟‘‘۔
ہندو سماج واقعی ویسا ہی ہے جیسا شرجیل نے کہا یا علی سہراب سمیت درجنوں نوجوان اس کا اظہار کر چکے ہیں۔ مجھے بھی اس کا ذاتی تجربہ ہے۔ میں ایک ایسے واٹس ایپ گروپ میں شامل ہوں جس میں سنگھ اور بی جے پی سے تعلق رکھنے والے افراد بھی ہیں۔ یہ لوگ اتنے ہی اخلاق و اقدار سے عاری ہیں جیسا کہ فیس بک اور ٹوئٹر پر اپنے غیر مہذب بقول شرجیل عثمانی کے سڑی ہوئی تہذیب کے علمبردار ہونے کا ثبوت دیتے رہتے ہیں۔ یہ اسلام، قرآن اور نبی ﷺ کے خلاف دریدہ دہنی کیا کرتے تھے لیکن گروپ میں شامل دو سو سے زائد ہندوؤں میں سے ایک بھی ایسا نہیں تھا جس نے انہیں ٹوکا ہو۔ اس کے برعکس ایسے واٹس ایپ گروپ جس میں صرف مسلمان ہی ہیں وہاں اگر کوئی ہندوؤں کے خلاف تہذیب واقدار سے گری ہوئی بات کرتا ہے تو درجنوں افراد اس پر تلخ ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کوئی سنی سنائی باتیں نہیں ہیں۔
میرا مقصد ہندوؤں کی توہین نہیں ہے لیکن جو کچھ شرجیل عثمانی نے کہا اور جس پر ہنگامہ آرائی کے بعد ایف آئی آر درج کی گئی، اس کا حقائق کے تناظر میں جائزہ لینا ضروری ہے۔ ہماری جانب سے اخلاق و رواداری کا اتنا بھی مظاہرہ نہ ہو کہ ہمیں بزدل کہا جانے لگے۔ اگر اس دور میں ہم ان لوگوں کو آئینہ نہیں دکھائیں گے تو کب دکھائیں گے جبکہ ایک ایسی تہذیب کو دنیا کی سب سے بہترین تہذیب قرار دینے کی مہم میں پورا قومی سرمایہ لگایا جا رہا ہو، جس تہذیب میں اپنے ہی ہم مذہبوں کے ایک طبقہ کو انسان ہی تصور نہیں کیا جاتا ہے۔ جہاں عورت کو دیوی بناکر پوجنے کی روایت ہو مگر ان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا جاتا ہو۔ جنہوں نے اپنی خامیوں کو پوشیدہ رکھنے کیلئے مسلم خواتین کی مظلومیت کا ڈھونگ رچا اور تین طلاق پر پابندی کا قانون نافذ کیا اگر ان کو آئینہ نہیں دکھائیں گے تو کیا غیر ملکیوں کو آئینہ دکھائیں گے؟ ان ملکوں کو کوسا جائے گا جنہوں نے بہت حد تک قانون و عدلیہ کا بھرم قائم کر رکھا ہے؟ جہاں مسجد کو نقصان پہنچایا جاتا ہے تو اسے بنا کر مسلمانوں کے حوالے کیا جاتا ہے اور مجرموں کو ایک سال کے اندر میں سزا سنا دی جاتی ہے۔ یا ہم انہیں برا بھلا کہیں گے اور اس ملک کو دہشت گرد ملک اور ناکام ریاست کہہ کر گالیاں دیں گے جہاں مندر توڑا جاتا ہے تو سپریم کورٹ خود سے متحرک ہوکر حکومت کو مجبور کرتی ہے کہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچاؤ اور مندر بنا کر ہندو اقلیت کے حوالے کرو۔ اس کے برعکس دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور امن کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرنے والے ملک کی عدلیہ نے کیسے کیسے فیصلے دیے اسے بار بار دہرانے کی ضرورت نہیں۔ اس لئے شرجیل عثمانی نے جو کچھ کہا وہ مسلمانوں کے ساتھ ہی کیا، ہر منصف مزاج ہندوستانیوں کے دل کی آواز ہی نہیں ایک کھلی سچائی بھی ہے۔
شرجیل امام اور شرجیل عثمانی سمیت دیگر مسلم نوجوانوں نے اس کے سوا اور کوئی کام نہیں کیا کہ مہذب ہونے کا دعویٰ کرنے والی قوم کے سامنے آئینہ رکھ دیا ہے۔ شاید آئینہ میں انہوں نے اپنی شکل پر غور بھی کیا ہے اس لئے شرجیل عثمانی کے معاملہ میں اب تک صرف ایف آئی آر ہی درج ہوئی ہے، اسے گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔خوفزدہ ہو کر ان نوجوانوں پر لعنت ملامت کرنے کی بجائے ہمیں اپنے نوجوانوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے۔ ویسے بھی مہاراشٹر میں بی جے پی اپنی زمین کھونے کے بعد کسی طور بھی برسر اقتدار آنا چاہتی ہے۔ اسی لئے اس نے شرجیل عثمانی والے معاملہ کو اپنے لئے بہت بڑا موقع سمجھ کر اس پر ہندو اکثریت کو ورغلانے کی کوشش کی مگر عوام نے اس پر توجہ نہیں دی کیوں کہ شرجیل نے سچائی بیان کی تھی، اپنا درد بیان کیا تھا۔ مہاراشٹر میں اور دوسرے عوامی مسائل بھی ہیں اور اب تک مہاراشٹر کووڈ کے شکنجے سے بھی نہیں نکل پایا ہے اس کے علاوہ شرجیل کے معاملہ پر بی جے پی کو کامیابی نہ ملنے کی ایک اور وجہ ہے کہ یلغار پریشد بھی شرجیل کے دفاع میں آگیا ہے۔
کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کیسے مان لیا جائے کہ پوری قوم سڑی گلی تہذیب کی علمبردار ہے جبکہ ہماری تحریکوں اور ہمارے لئے انصاف کی لڑائی میں وہ شامل ہوتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جناب جس طرح ایک دو لوگوں کے گمراہ ہونے سے پوری قوم گمراہ نہیں کہی جاتی اسی طرح ایک ارب کی آبادی میں سے کچھ لوگوں نے حق و انصاف کی لڑائی میں ساتھ دیا تو اس سے پوری قوم مہذب نہیں ہو جاتی۔ ہمیں بتایا جائے کہ ہماری لڑائیوں میں اکثریتی طبقہ کے کتنے عوام شامل ہوئے؟ اس کا جواب نفی میں ہی ملے گا۔ پوری سی اے اے اور این آر سی کے خلاف تحریک میں چند لوگ ہمارے اسٹیج پر نظر تو آئے لیکن یا تو انہوں نے عوام کو اس میں شامل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی یا بقول عثمانی کے پوری قوم کا احساس سڑ گل گیا ہے اس لئے وہ ہمارے ساتھ نہیں آئے۔ ہم کسی بھی قوم کو لعنت ملامت کرنے کے خلاف ہیں مگر جب حالات ایسے ہوں جیسا بیان کیا گیا ہے تو بتائیں کہ پھر کیا کہا جائے۔ ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ہماری طرف سے بھی کوتاہی ہوئی ہے کہ ہم نے اسلام کے نظریہ مساوات کو عام کرنے کیلئے اس قدر محنت نہیں کی جتنی ضرورت تھی اور اب بھی ہماری جانب سے اس طرح کی کوئی اثر انگیز کوشش نہیں ہو رہی ہے اس ملک کے طول وعرض میں ہمارے اپنوں نے بھی برہمنوں کا طریقہ اپنا رکھا ہے۔ یہاں کی اکثریت پر برہمنوں کی خود ساختہ تہذیب کو تھوپا گیا مگر ہم تو الہٰی احکامات کی حامل قوم تھے۔ ہم کو تو کہا گیا تھا کہ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں، یہاں کسی کو کسی پر کوئی فوقیت نہیں ہے، کسی کو اگر فوقیت ہے بھی تو تقویٰ کی بنیاد پر۔ مگر ہم نے اس کے برعکس مسلمانوں میں پھیلی عدم مساوات کی گندگی کو صاف کرنے کیلئے خاطر خواہ کام نہیں کیا۔ ہم نے اگر برہمنوں کا طریقہ اپنایا ہے تو ہمیں بھی انہی کی طرح نفرت کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ یعنی اس سڑی گلی تہذیب کو صاف کر کے انہیں مہذب اور اقدار آشنا بنانے کا کام بھی تو ہمارے ذمہ ہی ہے۔
***

ہم کو تو کہا گیا تھا کہ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں، یہاں کسی کو کسی پر کوئی فوقیت نہیں ہے، کسی کو اگر فوقیت ہے بھی تو تقویٰ کی بنیاد پر۔ مگر ہم نے اس کے برعکس مسلمانوں میں پھیلی عدم مساوات کی گندگی کو صاف کرنے کیلئے خاطر خواہ کام نہیں کیا۔ ہم نے اگر برہمنوں کا طریقہ اپنایا ہے تو ہمیں بھی انہی کی طرح نفرت کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ یعنی اس سڑی گلی تہذیب کو صاف کر کے انہیں مہذب اور اقدار آشنا بنانے کا کام بھی تو ہمارے ذمہ ہی ہے

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 28 فروری تا 6 مارچ 2021