شراب نوشی کے تباہ کن اثرات:عوامی بیداری کی ضرورت

سرکاری خزانہ بھرنے کے لیے سماج کوکھوکھلا کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

 

ملک میں شراب نوشی عام ہوگئی ہے اور نشہ اب فیشن بن گیا ہے۔ خاص کر نوجوان نسل اس لت کا بڑی تیزی سےشکار ہو رہی ہے۔ وہ شراب نوشی کو شان کی علامت سمجھنے لگے ہیں۔
بھارت میں کچھ ریاستوں میں شراب پر امتناع ہونے کے باوجود بے خوفی سے اس کا استعمال ہوتا ہے مثال کے طور پر ریاست بہار میں شراب پر مکمل پابندی ہونے کے باوجود وہاں دیگر ریاستوں سے زیادہ شراب پی جاتی ہے۔ نیشنل فیملی ہیلت سروے میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ بہار میں شراب پر مکمل پابندی کے ہونے باوجود مہاراشٹرا سے زیادہ شراب پی جاتی ہے۔
سروے کے مطابق بہار میں 15.05 فیصد لوگوں نے شراب پینے کی بات کو قبول کیا ہے جب مہاراشٹرا میں 13 فیصد لوگ شراب کا استعمال کرتے ہیں۔ اگر دیگر ریاستوں کے بارے میں جانیں تو ریاست گوا میں جسے عام طور پر اپنے کھلے کلچر کے لیے جانا جاتا ہے 36.06 فیصد لوگ شراب نوشی کرتے ہیں۔ وہیں ریاستِ تلنگانہ جو اگرچہ گوا کی طرح کھلا سماج نہیں ہے لیکن یہاں گوا سے زیادہ شراب نوشی کی جاتی ہے تقریباً 43.03 فیصد لوگ شراب پیتے ہیں۔ سروے میں اس بات کا انکشاف بھی ہوا ہے کہ بھارت کے دیہی علاقوں میں شہری علاقوں سے زیادہ شراب پی جاتی ہے۔ آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ بھارت میں تقریباً 16 کروڑ سے زیادہ افراد شراب نوشی کرتے ہیں۔ جنوبی بھارت کی پانچ ریاستوں میں سب سے زیادہ شراب کی کھپت ہوتی ہے جو ملک بھر میں فروخت ہونے والی شراب کا نصف حصہ ہے۔ 2016 میں ملک میں شراب کی کھپت تقریباً 5.4 بلین لیٹر تھی اندازہ ہے کہ 2020 میں یہ تقریباً 6.5 بلین لیٹر تک پہنچ جائے گی۔
سدھیر جلاگم نے گزشتہ دنوں تلنگانہ میں شراب کی فروخت سے متعلق ایک آر ٹی آئی دائر کی تھی اس کے جواب میں تلنگانہ اسٹیٹ بیوریجز کارپوریشن لمیٹیڈ نے بتایا کہ حکومت نے شراب کی فروخت کے ذریعہ اپریل سے اگست تک مجموعی طور پر 7908 کروڑ روپے کی کمائی کی ہے۔ اس کمائی نے ماضی کے سارے رکارڈ توڑ دیے ہیں۔ تالا بندی کے دوران جب حکومت نے شراب کی فروخت کی اجازت دی تو ایک ہی دن میں 75 کروڑ روپے کی ریکارڈ شراب فروخت ہوئی جب کہ عام دنوں میں یومیہ 45 کروڑ روپے کی شراب فروخت ہوا کرتی تھی۔ یہ اعداد و شمار صرف برانڈیڈ شراب کے ہیں دیسی شراب نوشی کے بارے میں کوئی اعداد وشمار موجود نہیں ہیں۔ یہ بات تعجب خیز ہے کہ تالا بندی میں لوگوں کے پاس راشن نہیں تھا، لوگ روزگار سے محروم ہوگئے تھے کئی سماجی تنظیمیں لوگوں کی امداد کر رہی تھیں ایسی صورت میں ایک ہی دن 75 کروڑ روپے کی شراب کا فروخت ہونا ذہنوں میں کئی سوال پیدا کرتا ہے۔ یہ تو اعداد و شمار کی بات رہی لیکن اس کے سماج پر ہونے والے منفی اثرات کا اندازہ لگانا ضروری ہے۔ 2016 میں ملک بھر میں شراب نوشی کی وجہ سے جگر کی بیماری میں مبتلا ہو کر لگ بھگ پندرہ لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ سڑک حادثات سے ہونے والی اموات کے اعداد وشمار الگ ہیں۔ وہیں دنیا بھر میں ہر سال 30 لاکھ افراد شراب نوشی کی وجہ سے موت کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
شراب کا استعمال مختلف ثقافتوں میں صدیوں سے چلا آ رہا ہے اور اس کے مضر اثرات معاشرے کو بڑی تیزی سے اپنی لپیٹ میں لیتے ہیں۔ شراب نوشی کرنے والا نہ صرف اپنے خاندان کے لیے بوجھ بنتا ہے بلکہ وہ سماج کے لیے بھی ایک ناسور بن جاتا ہے۔ یہ نشے کی لت اس کی جسمانی و ذہنی صحت ہی متاثر نہیں کرتی بلکہ اس کو اخلاقی طور پر بھی کمزر کر دیتی ہے۔ اس کے طبی نقصانات جیسے چکر آنا، فیصلے کی کمی، یکسوئی سے کام نہ کرپانا، یادداشت کا کھو جانا، مستقل سر درد، حادثات سے چوٹیں لگنا اور جان بوجھ کر اپنے آپ کو یا دوسروں کو نقصان پہنچانا وغیرہ کیوں کہ شراب میں زہریلے مادے شامل ہونے کی وجہ سے یہ ساری بیماریاں پیدا ہوتی ہیں جو مہلک بھی ہو سکتی ہیں۔ شراب پینے سے شرابی کی صحت پر اس قدر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں کہ اس لت سے اس کے اندر اضطراب و افسردگی پیدا ہوتی ہے جس کے نتیجے میں وہ خود کشی کرنے کی حد تک چلا جاتا ہے۔
در حقیقت شراب معدہ اور چھوٹی آنت کے ذریعہ جسم کے سارے عضلات میں خون کے ذریعہ گردش کرتی رہتی ہے جس سے جگر اور گردے بُری طرح متاثر ہوجاتے ہیں۔ گرو راج جی ایزاک ایم کے نفسیاتی ایپیڈیمولوجی کے ذریعہ کی گئی ایک تحقیق میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ پورے ملک میں الکحل کے استعمال میں اضافہ کی وجہ سے اسپتال میں داخلہ کی شرح میں بھی ۲۰ تا ۳۰ فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔
اگرچہ ملک کے آئین میں شراب کی ممانعت کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے لیکن چونکہ شراب پر پالیسی بنانا ریاست کا موضوع ہے اس لیے اس سے متعلق قانون سازی کا مکمل اختیار ریاست کو ہے۔ ملک میں آزادی کے بعد سے 1960 تک شراب پر پابندی برقرار تھی لیکن اس کے بعد چند ریاستوں کو چھوڑ کر اس پر سے پابندی ہٹا دی گئی۔ 1970 سے صرف ریاست گجرات میں شراب پر مکمل پابندی کی پالیسی کو اختیار کیا گیا ہے۔ بہار میں 4 اپریل 2016 سے شراب کے استعمال پر مکمل پابندی ہے۔ تاہم پابندی کے باوجود غیر قانونی شراب کی تجارت دھڑلّے سے ہو رہی ہے کیونکہ پڑوسی ریاستوں میں شراب پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ نشہ آور ادویات کی غیر قانونی تجارت کے باعث لوگوں نے نشے کے نئے نئے راستے تلاش کر لیے ہیں۔ اگر متوسط طبقے کا کوئی فرد اس لت میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اس کی معاشی زندگی تباہ و برباد ہو کر رہ جاتی ہے۔ وہ اپنی ساری کمائی شراب نوشی میں صَرف کردیتا ہے۔ اس صورت میں اس کا خاندان معاشی طور پر تباہ ہو جاتا ہے۔ شراب کا استعمال نہ صرف پینے والے پر اثر ڈالتا ہے بلکہ اس کے خاندان کو بھی کسی نہ کسی حیثیت سے متاثر کرتا ہے۔ نشے میں مبتلا شخص اپنے گھر والوں کے ساتھ تشدد کرتا ہے۔ اکثر اس کے گھر والے اس کے تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ معاشی طور پر بھی اس کا خاندان متاثر رہتا ہے۔اس کی بچت ختم ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کے بچوں کی تعلیم پر منفی اثر پڑتا ہے اور شرابی باپ کی وجہ سے اس کے بچے نفسیاتی مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں بچوں کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہو جاتے ہیں۔
بنگلورو میں کی گئی ایک تحقیق میں یہ پتہ چلا ہے کہ شراب نوشی کرنے والے افراد کی ازدواجی زندگی بھی شدید متاثر رہتی ہے وہ اپنی بیوی کے ساتھ بدسلوکی کرتے اور انہیں جسمانی طور پر اذیت پہنچاتے ہیں۔ انہیں زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مارکوزٹز کے ذریعہ کی گئی اس تحقیق میں 20 فیصد خواتین نے گھریلو تشدد کی شکایت کی ہے اور یہ گھریلو تشدد بھی انہیں اپنے شوہروں نے شراب نوشی کی حالت میں کیا ہے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ شراب کا استعمال ان لوگوں میں زیادہ ہے جو معاشی طور پر کمزور ہیں یا وہ جو متمول ہیں۔ ایسے لوگ جو سماجی و معاشی طور پر کمزور ہیں شراب کے استعمال کی وجہ سے ان معاشی حالت اور بد تر ہو جاتی ہے وہ شراب کی خاطر اپنے اثاثے یا تو ادھار رکھتے ہیں یا فروخت کر دیتے ہیں۔ بینیگل وی ویلیٹن کے ذریعہ کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ شراب نوشی کرنے والا فرد اپنی کمائی سے زیادہ رقم شراب پر خرچ کرتا ہے وہ شراب نوشی کے لیے قرض لینے سے بھی نہیں شرماتا کیوں کہ وہ اس لت کے ہاتھوں مجبور ہو جاتا ہے۔
حقیقت میں شراب انسان کی عقل کو ماؤف کر دیتی ہے صحیح و غلط، اچھے اور بُرے کی تمیز ختم کر دیتی ہے۔ جب انسان کی عقل ماؤف ہو جاتی ہے تو وہ حیوان بن جاتا ہے چنانچہ اس سے جانوروں جیسے کام ہی سرزد ہونے لگتے ہیں۔ انسان دیگر جان داروں سے اسی لیے ممتاز ہے کہ وہ عقل سے کام لیتا ہے اس کو سمجھنے کی صلاحیت ہے اگر وہ اپنی اس صلاحیت سے ہی محروم ہو جاتا ہے تو وہ انسان کہلانے کے قابل نہیں رہتا ہے۔ اسی وجہ سے شراب کو اسلام میں حرام قرار دیا گیا ہے۔ لیکن نہ جانے کیوں انسان ایسی چیز کا استعمال کرتا ہے کہ جو اسے جسمانی فائدہ پہنچاتی ہے نہ مادی فائدہ۔ اسے شراب سے ہر طرح کا نقصان ہی پہنچتا ہے۔ اس لت سے نہ صرف فرد اور اس کا خاندان تباہی کا شکار ہوتا ہے بلکہ اس کے تباہ کن اثرات سماج پر بھی پڑتے ہیں۔ اگرچہ ریاستوں کو اس سے کچھ مالی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں لیکن سماج اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہو جاتا ہے۔
شراب پر مکمل پابندی کے لیے ساری ریاستی حکومتیں قانون سازی کریں جس طرح گجرات، بہار اور دیگر ریاستوں نے اس پر پابندی لگا رکھی ہے۔ سماجی تنظیمیں، خواتین و بچوں کی تنظیمیں اور سماج کے باشعور افراد ریاستی حکومتوں سے مطالبہ کریں کہ وہ مکمل شراب بندی کا قانون نافذ کریں تاکہ کوئی بھی فرد اس لت میں مبتلا نہ ہونے پائے۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 3 جنوری تا 9 جنوری 2021