شاہین باغ تحریک کی عالمی پذیرائی

سی اے اے مخالف احتجاج کا چہرہ بلقیں بانو ٹائم میگزین کی 100 بااثر شخصیات میں شامل

افروز عالم ساحل

امریکہ کے مشہور ’ٹائم‘میگزین‘ نے دنیا کے 100 بااثر افراد کی فہرست میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف دہلی کے شاہین باغ میں ہونے والے مظاہروں کا چہرہ بن کر سامنے آنے والی ’دبنگ دادیوں‘ میں سے ایک دادی بلقیس کا نام بھی شامل ہے۔ یہ شاہین باغ میں سی اے اے کو واپس لیے جانے کے مطالبے کے ساتھ تقریباً 100 روز تک شدید سردی کے موسم میں جاری رہنے والے مظاہروں میں شامل رہیں۔ میگزین نے بلقیس بانو کے لیے لکھا ہے ’وہ انڈیا میں دیوار سے لگا دیے گئے لوگوں کی آواز بنیں۔‘ وہ کئی بار مظاہرے میں صبح آٹھ بجے سے رات بارہ بجے تک شامل رہتی تھیں۔ ان کے ساتھ ان مظاہروں میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین موجود ہوا کرتی تھیں اور خواتین کے اس مظاہرے میں شامل ہونے کو ’مزاحمت کی علامت‘ کے طور پر دیکھا گیاہے۔ بلقیس بانو نے سماجی کارکنان اور خاص طور پر سیاستدانوں کی جنہیں جیل میں ڈال دیا گیا، مسلسل امید بندھائی اور یہ پیغام دیا کہ ’جمہوریت کو بچائے رکھنا کتنا ضروری ہے۔

کون ہیں باقی دو دبنگ دادیاں؟

دلی کے شاہین باغ میں ’دبنگ دادیوں‘ کے نام سے تین دادیاں مشہور ہوئی تھیں۔ اس فہرست میں بلقیس بانو کے علاوہ اسما خاتون اور سروری کا نام بھی شامل ہے۔ان تین دبنگ دادیوں میں سب سے بزرگ اسما خاتون ہیں۔ ان کی عمر فی الوقت 90 سال ہے۔ اس کے باوجود وہ پورے ملک میں شہریت ترمیمی قانون مخالف مظاہروں میں جاکر مظاہرین کی دل و دماغ میں حوصلوں اور جذبوں کے شرارے پھونک رہی تھیں۔یہ بہار کے سیتامڑھی ضلع کے نان پور بلاک کے کوریا رائے پور گاؤں کی رہنے والی ہیں۔ ان کے آٹھ بچے ہیں،4لڑکے اور 4 لڑکیاں۔ سب کی شادیاں ہوچکی ہیں۔ اگر پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کی بات کی جائے تو ان کی کل تعداد 50 کے قریب ہے۔ دلی میں ان کے دو بیٹے رہتے ہیں۔ جن کے پاس اکثر اسما خاتون آتی جاتی رہتی ہیں۔ اسما خاتون کے شوہر مولانا ابوالحسن سال 2012 میں انتقال کر گئے۔ وہ بہار کے مدھوبنی ضلع میں مدرسہ احمدیہ کے پرنسپال تھے۔ یہ ایک سرکاری مدرسہ تھا۔ ہفت روزہ دعوت میں ان سے خاص ملاقات پر مبنی اسٹوری شائع ہوچکی ہے۔

ان کے علاوہ ان ’دبنگ دادیوں‘ میں 75 سال کی سروری بھی شامل ہیں۔ سروری کا تعلق اتر پردیش کے دیوبند شہر سے ہے۔ اپنی شادی کے بعد وہ اپنے شوہر کے ساتھ دلی شہر میں رہنے لگیں۔ لیکن پچاس سال پہلے ان کے شوہر انتقال کرگئے۔ تب ان کی عمر صرف 25 سال تھی، لیکن انہوں نے دوسری شادی نہیں کی۔ اس پوری تحریک میں سروری کافی سرگرم رہیں اور ہر اپنی بات کو بےحد مدلل اور اعداد و شمار کے ساتھ رکھنے کی وجہ سے جانی جاتی ہیں۔

ان ’دبنگ دادیوں‘ نے سخت سردی اور بارش کے موسم میں بھی ہمت نہیں ہاری تھی۔ یہی نہیں، ان دادیوں نے تمام بڑے چینلوں کے تیز طرار صحافیوں کا نہ صرف سامنا بخوبی کیا تھا بلکہ این ڈی ٹی وی کے اسٹوڈیو میں پہنچ کر اپنی بات پُرزور طریقے سے رکھنے کا کام بھی کیا تھا۔

ان دبنگ دادیوں نے لیفٹیننٹ گورنر سے کی تھی ملاقات

21 جنوری 2020 کو ان تینوں دبنگ دادیوں نے ایک وفد کے ساتھ دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر انل بیجل سے ملاقات کی۔ایل جی نے ان سے مظاہرہ ختم کرنے کو کہا تو انہوں نے صاف طور پر کہا تھا کہ پہلے بھی ایمبولینس اور اسکول کی بسوں کو راستہ دیا جارہا تھا، اب پھر سے وعدہ کرتے ہیں کہ ایمبولینس اور اسکولی بسوں کو جانے سے نہیں روکیں گے۔

اور جب امیت شاہ کو کیا تھا لاجواب

شاہین باغ مظاہروں کے دوران ایک بار وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا تھا کہ ’سی اے اے پر ہم ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘ تو اس کے جواب میں ’دبنگ دادیوں‘ میں شامل بلقیس نے کہا تھا ’اگر وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ وہ ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے تو میں کہتی ہوں کہ ہم بھی بال برابر پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘

13 فروری 2020 کو ایک ٹی وی پروگرام کے دوران وزیر داخلہ امیت شاہ نے شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہرہ کرنےوالوں کو ملاقات کی پیش کش کی، تب ان ’دبنگ دادیوں‘ نے اعلان کیا کہ ہم تمام شاہین باغ کی خواتین امیت شاہ سے ملنے جائیں گی۔ اسی ملاقات کے مقصد سے 17 فروری کو شاہین باغ سے امیت شاہ کی رہائش گاہ کی جانب مارچ کیا تو پولیس نےانہیں شاہین باغ میں ہی روک دیا جبکہ مظاہرین نے امیت شاہ سے ملاقات کی اجازت کے لیے تحریری درخواست بھی دی تھی۔

پی ایم مودی کے بارے میں ’ٹائم‘ نے کیا لکھا ہے؟

اسی میگزین کے 100 بااثر افراد کی فہرست میں ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کا نام بھی شامل ہے۔ لیکن اس میگزین نے پی ایم مودی کی تعریفی کلمات میں لکھا ہے: ’’جمہوریت کے لیے بنیادی بات محض آزادانہ انتخابات نہیں ہیں۔ انتخابات محض یہی طے کرتے ہیں کہ کسے سب سے زیادہ ووٹ حاصل ہوئے۔ لیکن اس سے زیادہ اہمیت ان لوگوں کے حقوق کی ہے، جنہوں نے جیتنے والوں کو ووٹ نہیں دیا۔ انڈیا گزشتہ سات دہائیوں سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر برقرار ہے۔ یہاں 1.3 ارب آبادی میں مسیحی، مسلمان، سکھ، بودھ، جین اور دیگر مذاہب کے لوگ رہتے ہیں۔ یہ سب انڈیا میں رہتے ہیں، جس کی دلائی لاما ہم آہنگی اور استحکام کی مثال کے طور پر تعریف کرتے ہیں۔ نریندر مودی نے ان تمام باتوں کو تشویش کے دائرے میں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ حالانکہ اب تک کے تقریباً سبھی بھارتی وزیر اعظم ہندو برادری سے آئے ہیں جو کہ آبادی کا 80 فیصد ہیں، لیکن مودی اکیلے ایسے ہیں جنہوں نے حکومت ایسے چلائی جیسے انہیں کسی اور کی کوئی پروا ہی نہیں۔ ان کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی نے حکمراں اشرافیہ کے علاوہ تکثیریت کو بھی مسترد کردیا ہے، خاص طور پر مسلمانوں کو ہدف بنا کر۔ کورونا وبا ان کے لیے مخالف آوازوں کا گلا گھونٹنے کا بہانہ بن گئی اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت مزید تاریکی کی گہرائیوں میں چلی گئی۔‘‘

ٹائم میگزین کو ان تینوں دادیوں کا نام دینا چاہیے

ملک کے مشہور سینئر صحافی و ’شاہین باغ فرام اے پروٹسٹ ٹو اے موومنٹ‘ کے مصنفوں میں سے ایک ضیاءالاسلام ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں کہتے ہیں: بلقیس دادی کا نام آنا بہت خوشی کی بات ہے۔ مگر میری ذاتی رائے ہے کہ ان کا اکیلے نام نہیں آنا چاہیے۔ شاہین باغ صرف ایک دادی کی وجہ سے نہیں تھا۔ یہ کسی خاص لیڈر کے چلائی جانے والی تحریک نہیں تھی۔ یہ ایک عوامی تحریک تھی۔ اور یہ دادیاں اس شاہین باغ تحریک کی علامت تھیں۔ ایسے میں ان تینوں دادیوں کا نام ایک ساتھ آنا چاہیے تھا بلکہ 80 سال کی نورالنساء کو بھی ان سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ میں چاروں دادیوں کے جذبے کی قدر کروں گا۔ اب 90 سال کی اسما خاتون دن میں 10-10 بار قومی ترانہ کے لیے کھڑی ہوتی تھیں۔ کتنا مشکل ہے اتنی بزرگ خاتون کا بغیر کسی کے سہارے کھڑا ہونا۔ بہرحال ٹائم میگزین میں بلقیس کا نام آنا شاہین باغ تحریک کے لیے کافی بڑی کامیابی ہے۔ دہلی پولیس چاہے جو ثابت کرے لیکن انٹرنیشنل میڈیا نے شاہین باغ کو نوٹس کیا۔ یہ آئین کے تحفظ کی اب تک کی سب سے بڑی لڑائی تھی، جسے مسلم خواتین نے لیڈ کیا ہے۔

 

’جمہوریت کے لیے بنیادی بات محض آزادانہ انتخابات نہیں ہیں۔ انتخابات محض یہی طے کرتے ہیں کہ کسے سب سے زیادہ ووٹ حاصل ہوئے۔ لیکن اس سے زیادہ اہمیت ان لوگوں کے حقوق کی ہے، جنہوں نے جیتنے والوں کو ووٹ نہیںدیا۔ انڈیا گزشتہ سات دہائیوں سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر برقرار ہے۔ یہاں 1.3 ارب آبادی میں مسیحی، مسلمان، سکھ، بودھ، جین اور دیگر مذاہب کے لوگ رہتے ہیں۔ یہ سب انڈیا میں رہتے ہیں، جس کی دلائی لاما ہم آہنگی اور استحکام کی مثال کے طور پر تعریف کرتے ہیں۔ نریندر مودی نے ان تمام باتوں کو تشویش کے دائرے میں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ حالانکہ اب تک کے تقریباً سبھی بھارتی وزیر اعظم ہندو برادری سے آئے ہیں جو کہ آبادی کا 80 فیصد ہیں، لیکن مودی اکیلے ایسے ہیں جنہوں نے حکومت ایسے چلائی جیسے انہیں کسی اور کی کوئی پروا ہی نہیں۔ ان کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی نے حکمراں اشرافیہ کے علاوہ تکثیریت کو بھی مسترد کردیا ہے، خاص طور پر مسلمانوں کو ہدف بنا کر۔ کورونا وبا ان کے لیے مخالف آوازوں کا گلا گھونٹنے کا بہانہ بن گئی اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت مزید تاریکی کی گہرائیوں میں چلی گئی۔‘‘

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 4-10 اکتوبر، 2020