سی ای سی – ای سی تقرری کیس: مرکز کی سخت سرزنش کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ رکھ لیا

سپریم کورٹ کی پانچ ججوں کی آئینی بنچ نےچیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) اور الیکشن کمشنر (ای سی) کی تقرری کے لیے ایک آزاد سلیکشن پینل تشکیل دینے کی مانگ سے متعلق درخواستوں پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا ۔

نئی دہلی، 24 نومبر :جسٹس کے ایم  جوزف کی سربراہی والی آئینی بنچ نےمسٹر پرشانت بھوشن،مسٹر اشونی کمار اپادھیائے اور دیگرلوگوں کی طرف سے دائرعرضی گزاروں کے موقف اور مرکز سے بھی تفصیلی دلائل سننے کے بعد آج اپنا فیصلہ محفوظ رکھا۔
عرضی گزاروں نے عدالت عظمیٰ کے سامنے دعویٰ کیا ہے کہ تقرریاں ایگزیکیوٹیو کی مرضی اور خواہشات کے مطابق کی جا رہی ہیں۔ لہذا،وہ سی ای سی اور ای سی کی تقرری کے لئے ایک آزاد سلیکشن پینل کی تشکیل کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
جسٹس جوزف کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی پانچ ججوں کی آئینی بنچ جس میں جسٹس اجے رستوگی، جسٹس انیرودھ بوس، جسٹس رشی کیش رائے اور جسٹس سی ٹی روی کمار نے تمام متعلقہ فریقوں کے دلائل کوسنا۔
عدالت نے الیکشن کمشنرکے طور پر سابق آئی اے ایس افسر ارون گوئل کی تقرری سے متعلق فائلوں کا جائزہ لیا اور مرکز سے پوچھا کہ کیا اس فائل کو جلد بازی میں منظوری دی گئی ہے۔
مرکز نے سپریم کورٹ کے بدھ کے حکم کی تعمیل کرنے کے بعد آج جواب داخل کیا تھا۔ عدالت نے مرکزی حکومت سے پوچھا تھا کہ مسٹر گوئل کو الیکشن  کمیشن کے طور پر مقرر کرنے میں اس نے کس طرح کے طریقہ کار پر عمل کیا ہے۔
سماعت کے دوران، مرکز نے عدالت کو بتایا کہ سابق انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس (آئی اے ایس)افسر ارون گوئل کو ای سی کے طور پر مقرر کرتے وقت تمام ضابطوں،قوانین اور رہنما خطوط پر عمل کیا گیا ہے۔

اس سے قبل سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے الیکشن کمشنر وں کی تقرری کے عمل پرسماعت کے دوران کہا  تھاکہ” ہمیں ایسے الیکشن کمشنر کی ضرورت ہے جو وزیراعظم کیخلاف بھی کارروائی سے نہ ہچکچائے، ایسے موقع پر ہمیں ٹی این سیشن یاد آ رہے ہیں لیکن افسوس کا پہلو یہ ہے کہ ایسی شخصیات خال خال ہی ہوتی ہیں۔”بنچ نے الیکشن کمشنروں کی تقرری کے پراسیس اور ان کی تقرری کے لئے سپریم کورٹ کے کالجیم جیسےسسٹم کی ضرورت کے تحت داخل کی گئی پٹیشنوں پر سماعت کرتے ہوئے   مذکورہ تبصرہ کیا تھا۔عدالت نے مرکزی حکومت سے گزشتہ ہفتے مقرر کئے گئےالیکشن کمشنر(ای سی) کے انتخاب کے طریقہ کار کی وضاحت کرنے کو بھی کہا بلکہ کورٹ نے مرکزی حکومت سے وہ فائل ہی طلب کرلی جس کے تحت مرکزی حکومت نے ارون گوئل کو  چند روز قبل ہی الیکشن کمشنر مقرر کیا ہے۔واضح ر ہے کہ اس تعلق سے عرضی گزاروں میں سے ایک کے وکیل پرشانت بھوشن نے بنچ کو بتایا کہ کس طرح   ارون گوئل کو الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد تو بنچ نے مرکز پر سوالوں کی بوچھار کردی تھی۔
جسٹس کے ایم  جوزف کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ نے دوران سماعت کہا تھا کہ ہمیں ایک سی ای سی کی ضرورت ہے جو  ہر طرح سے کارروائی کرنے کے معاملے میں آزاد ہو ۔ ان کی تقرری کا سسٹم بالکل شفاف ہو لیکن یہاں معاملات مختلف نظر آرہے ہیں۔

بنچ نے حکومت کے وکلاء کو مثال دیتے ہوئے کہا کہ مثال کے طور پر فرض کریں کہ وزیر اعظم کے خلاف کچھ الزامات ہیں اور سی ای سی کو کارروائی کرنی ہے لیکن سی ای سی کمزور ہے تو وہ کوئی کارروائی نہیں  کرے گا ۔ بنچ نے مرکز کے وکیل سے پوچھا کہ کیا یہ نظام کی مکمل خرابی نہیں ہے۔  اسی لئے ہم کہہ رہے ہیں کہ سی ای سی کو سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد ہونا چا ہئے اور اسے  آئینی طور پر خود مختار بھی  ہونا چا ہئے۔ بنچ نے کہا کہ یہ وہ پہلو ہیں جن پر آپ (مرکز کے وکیل) کو غور کرنا چاہئے کہ ہمیں سی ای سی کو منتخب کرنے کے لئے ایک آزاد بڑے ادارے کی ضرورت کیوں ہے؟
آئینی بنچ  میں مرکز کی نمائندگی اٹارنی جنرل آر وینکٹ  رمانی، سالیسٹر جنرل تشار مہتا اور ایڈیشنل سالیسٹر جنرل بلبیر سنگھ نے کی۔ بنچ نے مرکز کے وکیل سے یہ بھی کہا کہ وہ الیکشن کمشنر کی تقرری کے عمل کی مکمل وضاحت کریں۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ کنونشن کے مطابق الیکشن کمشنر کی تقرری کرتے وقت ریاست اور مرکزی حکومت کے تمام سینئر بیوروکریٹس اور افسران کو مدنظر رکھا جاتا ہے اور اس کی سختی سے پیروی کی گئی ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ تقرریاں کنونشن کی بنیاد پر کی جاتی ہیں اور سی ای سی کے پاس الگ سے تقرری کا کوئی عمل نہیں ہے۔ اس پر  جسٹس رستوگی نے کہا کہ الیکشن کمشنر کی تقرری میں شفاف طریقہ کار ہونا چاہئے اوروہ بھی  ایسا کہ کوئی بھی  انگلی نہ اٹھاسکے۔  انہوں نے کہا کہ آپ نے دو دن پہلے ہی کسی کو الیکشن کمیشن کے عہدے پر تعینات کیا ہے، ان کی تقرری میں اختیار کیا گیا طریقہ کار بتائیں۔اس موقع پر اے جی نے جواب دیا، تو کیا  عدالت یہ کہہ رہی ہے کہ  اسے وزراء کی کونسل پر اعتماد نہیں ہے؟ اس پر جسٹس رستوگی نے کہا کہ ہم اپنے اطمینان کے  لئے تفصیل مانگ رہے ہیں۔
اس دوران یہ مطالبہ بھی ہوا کہ الیکشن کمشنرس کی تقرری کا کام سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، وزیر اعظم اور لوک سبھا میں حزب مخالف لیڈر کی کمیٹی کو سونپا جانا چاہئے۔ بنچ نے بھی اس سے کسی حد تک اتفاق کیا اور کہا کہ اس کمیٹی میں چیف جسٹس کی موجودگی ضروری ہو، ایسا کوئی انتظام کیا جانا چاہئے۔