سپریم کورٹ کے وکیل محمود پراچہ کے دفتر پر چھاپہ

دلی پولیس کس کی ایما پر کن عناصر کی کررہی ہے پردہ پوشی؟۔ وکیل کے پاس موجود شواہد سے اتنی بے چینی کیوں ہے؟

دعوت نیوز دلی بیورو

 

شمال مشرقی دلی میں فرقہ وارانہ فسادات کو ہوئے دس مہینے ہو رہے ہیں۔ اس عرصے میں مظلومین کو انصاف تو دور اب تک ایف آئی آر تک درج نہیں کی گئی، الٹا انہیں نہ صرف ہراساں کیا جا رہا ہے بلکہ دباؤ بھی ڈالا جا رہا ہے وہ اپنے مقدمات واپس لے لیں یا پھر اپنا وکیل ہٹا لیں۔
گزشتہ دنوں دلی کے پریس کلب میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں ان فسادات کے متاثرین کے ایک گروپ نے یہ الزام لگایا ہے کہ انہیں اپنی شکایت واپس لینے اور ایک وکیل کے خلاف بیان دینے پر مجبور کیا گیا ہے۔ اس وکیل کا نام محمود پراچا ہے، جن کے دفتر پر دلی پولیس کے اسپیشل سیل کی چھاپہ مار کارروائی کرنے کی روداد بھی سامنے آچکی ہے۔
ہفت روزہ دعوت نے اس الزام کے بعد دلی کے نارتھ گھونڈا علاقے میں رہنے والے محمد ناصرخان سے بات چیت کی جس میں انہوں نے بتایا کہ ان کی ایف آئی آر کی لمبی داستان ہے جو اب تک درج نہیں ہوئی ہے۔ 34 سالہ ناصر خان ان فسادات میں اپنی بائیں آنکھ ہمیشہ کے لیے کھو چکے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ پہلے انہیں معاوضہ کا لالچ دیا گیا اس کے بعد ان سے کہا گیا کہ وہ اپنے وکیل سے اپنا کیس واپس لے لیں۔ انہیں بار بار دھمکایا جاتا رہا، بار بار انہیں بتایا جاتا رہا کہ جن ملزموں کے خلاف وہ کارروائی کی بات کر رہے ہیں ان کے کنکشن کہاں تک ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ ان کی پہنچ امیت شاہ تک ہے۔ ان کے مطابق 25 دن قبل مقامی پولیس اسٹیشن کے ہیڈ کانسٹبل نے آکر اس مقدمہ سے وکیل محمود پراچا کو ہٹانے کی بات کہی تھی۔ ان کی شکایت میں نامزد ملزم بھی انہیں دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ انصاف کی اس لڑائی میں وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
اہم بات یہ ہے کہ پچھلے 9مہینوں سے ناصر خان اپنے معاملے میں ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مقامی پولیس اسٹیشن نے نہ صرف ان کی ایف آئی آر درج نہیں کی بلکہ الٹا ان کو ڈرانے کی بھی کوشش کی۔ جب مقامی تھانے نے ایف آئی آئی درج نہیں کی تو انہوں نے ہر جگہ اس کی شکایت کی، وہ کمشنر آف پولیس تک بھی پہنچے۔ یہاں تک کہ وزرات داخلہ میں بھی اپنی شکایت بھیجی، لیکن کہیں سے کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ تب ان کی ملاقات وکیل محمود پراچا سے ہوئی، وہ ان کے معاملے کو عدالت لے کر گئے، ان کی مداخلت کے بعد ایف آئی آر درج کی گئی تھی لیکن پولیس اس ایف آئی آر پر عدالت سے اسٹے آرڈر لے آئی ہے جو ناصر کو 25 روز قبل ملا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ناصر کے ساتھ واقعہ 24 فروری کو پیش آیا لیکن اس نے اپنی شکایت 19 مارچ کو درج کروائی ہے۔ اسی بنیاد پر عدالت سے انہیں ایف آئی آر پر اسٹے آرڈر مل گیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ پولیس ملزمین کو بچانا چاہتی ہے۔
شکایت درج کرانے میں تاخیر کی وجہ پوچھنے پر ناصر خان کہتے ہیں کہ ’’میں 11مارچ کو اسپتال سے ڈسچارج ہوا، اس سے پہلے تک میں ہوش میں ہی نہیں تھا۔ 12 مارچ کو پھر سے مجھے اسپتال جانا پڑا۔ وہاں سے مجھے دوسرے اسپتال میں ریفر کیا گیا۔ ایسے میں ایف آئی آر درج کرانے پولیس اسٹیشن کیسے جاتا‘‘ وہ مزید کہتے ہیں ’’بھلے ہی میری ایف آئی آر ابھی تک درج نہیں ہوئی ہے لیکن ایک دوسری ایف آئی آر میں میرا نام بطور چشم دید موجود ہے۔ ناصر نیشنل کیڈٹ کورپس (این سی سی) میں اکاؤنٹنٹ ہیں۔ انہوں نے پھر سے اپنے آفس جانا شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس واقعہ کے بعد ان کی بہن ذہنی طور پر کافی پریشان رہیں، ان کا علاج چل رہا ہے اور اب وہ بہتر ہیں۔ آج بھی گھر کے سامنے لوگ جمع ہوتے ہیں تو ان کا پورا گھر سہم جاتا ہے‘‘۔
ایڈووکیٹ محمود پراچا کے دفتر پر چھاپہ
۲۴ دسمبر کو دہلی پولیس (اسپیشل سیل) کی ایک ٹیم نے نظام الدین ایسٹ میں مقیم ایڈووکیٹ محمود پراچا کے دفتر پر چھاپہ مار کارروائی کی۔ پولیس افسران کی یہ کارروائی 24 دسمبر کو دوپہر 12 بجے شروع ہوئی جو 25 دسمبر کی صبح 3 بجے تک جاری رہی۔ واضح رہے کہ محمود پراچا فروری میں دہلی میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے متعدد ملزمان کی جانب سے مقدمات لڑ رہے ہیں۔
دلی پولیس کے اسپیشل سیل نے ان کے دفتر سے ان کا لیپ ٹاپ ضبط کیا ہے اور کئی اہم دستاویز بھی ضبط کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ حالانکہ اس دوران مختلف صحافیوں کی جانب سے ٹویٹر پر پوسٹ ہونے والے ویڈیوز میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ محمود پراچا نہ صرف تفتیشی ایجنسی سے تعاون کر رہے ہیں بلکہ انہیں قانون کے مطابق عمل کرنے کی تلقین بھی کر رہے ہیں۔ اس دوران وہ اپنے لیپ ٹاپ کو ضبط کیے جانےکے خلاف احتجاج بھی کرتے نظر آئے۔ انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق لیپ ٹاپ کی جانچ تو کی جا سکتی ہے لیکن اسے ضبط نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ یہ ایک وکیل اور اس کے موکلین کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے باوجود دلی پولیس کے افسر اُن کی بات نہیں مان رہے تھے۔
دلی پولیس کے اسپیشل سیل کے مطابق محمود پراچا کے خلاف یہ کارروائی دلی فسادات کے معاملوں میں اہم ثبوت حاصل کرنے اور ان کے دفتر کے ای میل کا میٹا ڈیٹا (metadata) حاصل کرنے کے لیے کی جا رہی ہے۔
تفتیشی افسر کو عدالت نے طلب کیا
ایڈووکیٹ محمود پراچا کے دفتر میں کی گئی تلاشی کے سلسلے میں دلی کی ایک عدالت نے پولیس سے 5جنوری تک اسٹیٹس رپورٹ طلب کی ہے۔ ساتھ ہی عدالت نے کیس کے تفتیشی افسر سے بھی کہا ہے کہ وہ 27دسمبر کو اگلی سماعت میں حاضر ہوں اور تلاشی کی پوری ویڈیو فوٹیج پیش کریں۔
قومی دارالحکومت میں پٹیالہ ہاؤس ٹرائل کورٹ جمعہ کے روز اپنے دفتر میں دلی پولیس کے ذریعہ چھاپوں کی ویڈیو فوٹیج کی کاپیاں محفوظ رکھنے کے لیے محمود پراچا کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت کر رہی تھی۔ اپنی درخواست میں محمود پراچا نے کہا کہ وہ فوٹیج کی کاپی کے حق دار ہیں اور تفتیشی افسر نے دھمکی دی ہے کہ وہ ان کے خلاف جھوٹا مقدمہ بنا دے گا۔ اس سلسلے میں دلی پولیس اسپیشل سیل کے کاؤنٹر انٹلیجنس یونٹ نے بھی پراچا کے خلاف ایک ایف آیہ آر درج کی ہے، جس میں مبینہ طور پر سرکاری ملازم کو مجرمانہ طاقت کا استعمال کرکے عوامی ڈیوٹی سے روکنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ اس معاملے میں بھی تفتیش جاری ہے۔
غور طلب ہے کہ اگست میں پولیس نے پراچا کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کی تھی، جس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ وکیل نے فسادات سے متعلق مقدمات میں جھوٹے بیانات دینے کے لیے متاثرین کو تیار کیا ہے۔ حالانکہ دلی فسادات کے تعلق سے دلی پولیس کی تفتیش شروع سے ہی سوالات کے گھیرے میں رہی ہے اور متعدد سابق بیوروکریٹس اور سماجی کارکنوں کی طرف سے اس پر تعصب اور جانب داری کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔ دلی پولیس پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ تشدد کے کچھ واقعات میں، زیادہ تر مسلم محلوں میں یا تو عدم فعال رہی یا خود بھی تشدد میں ملوث رہی ہے۔
یہاں تک عدالت بھی دلی پولیس کو پھٹکار لگا چکی ہے کہ اس کی کارروائی یکطرفہ ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ 26فروری کو دلی ہائی کورٹ کے جج جسٹس ایس مرلی دھر نے پولیس کو پھٹکار لگائی اور سوال کیا کہ ’’اشتعال انگیز تقاریر کرنے والے لیڈروں پر ایف آئی آر کیوں نہیں دج کی گئی‘‘ جج صاحب کا اشارہ بی چے پی کے لیڈروں کی طرف تھا۔ باضابطہ طور پر ان لیڈروں کے تقریروں کی ویڈیو کلپ انہوں نے عدالت میں چلا کر دکھائی تھی۔ اس کے باوجود آج تک ان لیڈروں پر ایف آئی آر درج نہیں ہو سکی ہے البتہ جج صاحب کا تبادلہ ضرور کر دیا گیا ہے۔ پھر 27مئی 2020کو دہلی کے پٹیالہ ہاؤس کورٹ کے جج جسٹس دھرمیندر رانا نے دلی پولیس کو پھٹکار لگائی اور اس کی تفتیش پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’’کیس ڈائری دیکھنے سے آپ کی کارروائی یکطرفہ نظر آرہی ہے‘‘۔ اس کے پیش نظر عدالت نے متعلقہ ڈپٹی کمشنر آف پولیس کو ہدایت دی کہ وہ منصفانہ تحقیقات کو یقینی بنائے۔وہیں دلی پولیس کا دعویٰ ہے کہ دلی فسادات وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو بدنام کرنے کی ایک بڑی سازش کا حصہ تھے اور اس میں ان لوگوں کو گرفتار کیا گیا جنہوں نے شہریت ترمیم قانون مخالف احتجاج میں حصہ لیا تھا۔ پولیس ان ’’سازشی‘‘ الزامات کی بنا پر متعدد کارکنوں اور طلبا کو گرفتار کرچکی ہے۔
محمود پراچا کے دفتر پر ہوئی کارروائی کی ہر طرف سے مذمت ہو رہی ہے
ایڈووکیٹ محمود پراچا کے دفتر پر ہوئی دلی پولیس (اسپیشل سیل) کی چھاپہ مار کارروائی کی اب ہر طرف مذمت ہو رہی ہے۔ جماعت اسلامی ہند (جے آئی ایچ) نے چھاپے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’یہ چھاپہ انتقام اور دھمکی ہے، کیوں کہ ایڈووکیٹ محمود پراچا شمال مشرقی دلی فسادات کے بہت سے متاثرین اور سی اے اے مخالف مظاہروں میں اپنے کردار کے لیے ناجائز طور پر گرفتار افراد کے لیے مقدمات لڑ رہے ہیں۔‘‘
جے آئی ایچ کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ دلی پولیس کی حالیہ گرفتاریوں میں ایک واضح نمونہ موجود ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پولیس کوئی پیغام بھیجنا چاہتی ہے کہ جو لوگ ناانصافی کا نشانہ بننے والوں کے ساتھ اور پولیس کی متعصبانہ کارروائیوں کے خلاف کھڑے ہوں گے، ان کو انکوائریوں، چھاپوں اور گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جے آئی ایچ کے نائب امیر نے سرکاری اداروں کی ’’چھاپہ مار کلچر‘‘ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ’’حکومت مختلف ایجنسیوں کا غلط استعمال کرکے ان لوگوں کو ڈرا دھمکا رہی ہے جو اس کی پالیسیوں اور اقدامات کی مخالفت کرتے ہیں‘‘
اس بات کی نشان دہی کرتے ہوئے کہ آئین نے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سرکاری اداروں کو آزاد اور ایگزیکیٹو کنٹرول سے آزاد رہنے کا حکم دیا ہے انہوں نے کہا کہ حالیہ واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان آئینی اصولوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے‘‘ واضح رہے کہ بہت سے سینئر وکلا نے اس چھاپے کی مذمت کی ہے اور اسے قانون کی حکم رانی کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
انجینئر سلیم نے امید ظاہر کی کہ تمام انصاف پسند لوگ ایڈووکیٹ محمود پراچا کے دفتر پر چھاپے کی مذمت کریں گے اور پولیس مزید من مانی اور ہراساں کرنے سے باز آجائے گی۔جماعت اسلامی ہند کے علاوہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا نے بھی اس چھاپہ ماری کی مذمت کی ہے۔ پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے قومی سکریٹری محمد ثاقب نے میڈیا کو جاری اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے معروف وکیل محمود پراچا کے دفاتر پر دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کا چھاپہ، سنگھ پریوار کے ذریعہ انجام دیے گئے شمال مشرقی دلی تشدد کے متاثرین کی نمائندگی کرنے کی پاداش میں محمود پراچا کو ہراساں و پریشان کیے جانے کا حصہ ہے۔ وہ ایک حقوقِ انسانی کے وکیل ہیں جنہوں نے یو اے پی اے جیسے ظالمانہ دہشت گردی کے قوانین کے تحت جیلوں میں قید بے قصور افراد کو انصاف دلانے کے لیے کام کیا ہےاور کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی وہ ان چند جواں مرد وکیلوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے شمال مشرقی دلی کے مسلم کش فسادات میں سنگھ پریوار اور دلی پولیس کے کردار کو بے نقاب کیا ہے۔ ایڈووکیٹ محمود پراچا پر لگائے گئے فرضی مقدمات اور انہیں ہراساں کیا جانا یہ ثابت کرتا ہے کہ قتلِ عام مچانے والی طاقتیں ہی اب مظلوموں کو انصاف ملنے میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ پراچا کی ہارڈ ڈسک ضبط کرنے کی کوشش کرنے والے افسران دراصل مؤکل اور وکیل کی آپسی رازداری اور تقدس کو پامال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ حرکت پورے قانونی پیشے اور ملک کے نظام امن و امان کے لیے نقصان دہ ہے۔اس سے قبل ایڈووکیٹ محمود پراچا بھی یہ الزام لگا چکے ہیں کہ شمال مشرقی دلی میں ہونے والے فسادات کے الزامات پولیس کے ذریعے سیاسی مالکان کے دباؤ میں تیار ہوئے ہیں۔ چارج شیٹوں میں مذکور کہانیاں پولیس ہی کے ذریعہ منسلک جعلی ثبوتوں کے ساتھ منوائی گئیں۔ اس میں حقیقت سے متعلق شواہد موجود نہیں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ اُن کے سیاسی مالکان کی ہدایت پر تیار کی گئی ہیں۔ جعلی مقدمات میں فرد جرم عائد کیے جانے والے افراد کو چارج شیٹ تیار کرنے میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی کرنی چاہیے۔
اہم بات یہ ہے کہ ایڈووکیٹ محمود پراچا طالب علم کارکن گلفشاں فاطمہ کے بھی وکیل ہیں جن کی گزشتہ 22 نومبر کو دلی کی ایک عدالت نے ضمانت منظور کرلی تھی، انہیں بھی فروری میں شمال مشرقی دلی میں ہونے والے تشدد کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
سماعت کے دوران گلفشاں فاطمہ کے وکیل محمود پراچا نے کہا تھا کہ انہیں اس مقدمہ میں بغیر کسی ثبوت کے جھوٹ اور بدنیتی سے پھنسایا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ مبہم اور غیر تصدیق شدہ دعوؤں کے علاوہ ان کی طرف سے کسی بھی قسم کی شمولیت کا الزام نہیں ہے اور ان کا مبینہ جرم سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ وہیں پولیس کی نمائندگی کرنے والے خصوصی سرکاری وکیل راجیو کرشن شرما نے ضمانت کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ گلفشاں فاطمہ نے اس معاملے میں مبینہ طور پر سازش کی تھی اور دسمبر 2019 سے مقامی باشندوں کو مسلسل مشتعل کیا تھا۔
حالانکہ ضمانت ملنے کے باوجود گلفشاں فاطمہ جیل میں ہی ہیں کیوں کہ وہ ایک دوسری ایف آئی آر (59/2020) میں سخت غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت زیر حراست ہیں۔ وہ فی الحال دہلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 3 جنوری تا 9 جنوری 2021