سيرت صحابيات سيريز(33)

حضرت سفانہ بنت حاتمؓ

جنھوں نے حضورؐ سے اپني اوراہل قبيلہ کي رہائي کا پروانہ حاصل کيا
عرب کے مشہور زمانہ سخي حاتم طائي کي بيٹي تھيں۔ سلسلہ نسب يہ ہے: سفانہ بنت حاتم بن عبدالہ بن سعد بن حشرج بن امرا القيس بن عدي بن ربيعہ بن جرول بن ثعل بن عمرو بن يغوث بن طے۔
قبيلہ طے يمن ميں آباد تھا اور حاتم طائي اس قبيلے کا سردار تھا۔ اس نے اپنے قيبلے سميت عيسائي مذہب اختيار کرليا تھا۔ سرور عالمﷺ کي بعثت سے چند سال پہلے حاتم طائي نے وفات پائي تو قبيلے کي سيادت پر اس کے فرزند عدي فائز ہوئے۔ 9 ھ ميں حضورؐ نے ايک چھوٹا سا لشکر حضرت علي کرم اللہ وجہ، کي قيادت ميں بنو طے کي طرف بھيجا۔ عدي نے اس لشکر کي آمد کي خبر سني تو وہ اپنے اہل و عيال کو لے کر شام چلے گئے اور وہاں ايک بستي جوشيہ ميں اقامت اختيار کرلي۔ گھر سے روانہ ہوتے وقت جو بھگدڑ مچي اس ميں عدي کي بہن سفانہ ان سے بچھڑ گئي اور اسلامي لشکر کے ہاتھ اسير ہوگئيں۔ يہ لشکر مدينہ منورہ پہنچا اور اسيروں کو حضورؐ کي خدمت ميں پيش کيا تو سفانہ نے آگے بڑھ کر عرض کي:
اے صاحب قريش ميں بے يارو مددگار ہوں۔ مجھ پر رحم کيجيے۔ باپ کا سايہ ميرے سر سے اٹھ چکا ہے اور بھائي مجھے تنہا چھوڑ کر بھاگ گيا ہے۔ ميرے والد بنو طے کے سردار تھے، وہ بھوکوں کو کھانا کھلاتے تھے، يتيموں کي سرپرستي کرتے تھے، حاجت مندوں کي حاجتيں پوري کرتے تھے، مظلوموں کي مدد کرتے تھے اور ظالموں کو کيفر کردار تک پہنچاتے تھے۔ ميں اس حاتم طائي کي بيٹي ہوں، جس نے کبھي کسي سائل کو خالي ہاتھ نہيں جانے ديا تھا اگر آپ مناسب سمجھيں تو مجھے آزاد کرديں‘‘۔
حضورؐ نے سفانہ کي باتيں سن کر فرمايا: ’’اے خاتون جو اوصاف تو نے اپنے باپ کے بيان کيے ہيں يہ تو مسلمانوں کي صفات ہيں اگر تيرے والد زندہ ہوتے تو ہم ان سے اچھا سلوک کرتے‘‘۔ اس کے بعد آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو حکم ديا: ’’اس عورت کو چھوڑدو يہ ايک معزز اور نيک خصلت باپ کي بيٹي ہے۔ کوئي معزز شخص ذليل ہوجائے اور کوئي مال دار محتاج ہوجائے تو اس کے حال پر ترس کھايا کرو‘‘۔
صحابہ کرامؓ نے سفانہ کو فوراً چھوڑديا ليکن وہ اپني جگہ پر کھڑي رہيں۔ حضورؐ نے پوچھا: ’’کيوں اب کيا بات ہے‘‘
سفانہ نے عرض کي: ’’اے محمدؐ ميں جس باپ کي بيٹي ہوں اس کو يہ کبھي گوارا نہ تھا کہ قوم مصيبت ميں مبتلا ہو اور وہ سکھ کي نيند سوئے جہاں آپ نے مجھ پر کرم فرمايا وہاں ميرے ساتھيوں پر بھي رحم فرمائيے اللہ آپ کو جزا دے گا‘‘۔
حضورؐ سفانہ کي درخواست سے بڑے متاثر ہوئے اور آپؐ نے حکم ديا کہ سارے اسيران طے کو رہا کرديا جائے۔
اس پر سفانہ کي زبان پر بے اختيار يہ الفاظ جاري ہوگئے۔
’’اللہ آپ کي نيکي کو اس شخص تک پہنچائے جو اس کا مستحق ہو۔ اللہ آپ کو کسي بدکيش اور بدطينت کا محتاج نہ کرے اور جس فياض قوم سے کوئي نعمت چھن جائے اسے آپ کے ذريعے سے واپس دلادے۔
ايک دوسري روايت ميں ہے کہ سفانہ نے جب پہلي مرتبہ حضورؐ سے اپني رہائي کے ليے درخواست کي تو منجملہ دوسري باتوں کے يہ بھي کہا کہ مجھ کو چھڑانے والا موجود نہيں ہے اس ليے آپ خود ہي مجھ پر احسان کيجيے۔ خدا آپ پر احسان کرے گا۔
حضور نے پوچھا۔ ’’چھڑانے والا کون؟‘‘
انھوں نے جواب ديا : ’’عدي بن حاتم۔ ميں اس کي بہن ہوں‘‘
حضور نے فرمايا: ’’وہي عدي بن حاتم، جس نے خدا اور رسول سے فرار اختيار کيا‘‘۔
سفانہ نے اثبات ميں جواب ديا تو حضورؐ کوئي فيصلہ کيے بغير تشريف لے گئے، دوسرے دن بھي سفانہ اور حضورؐ کے درميان ايسا ہي مکالمہ ہوا ليکن آپ ؐ نے کوئي فيصلہ صادر نہ فرمايا۔ تيسرے دن سفانہ نے پھر وہي درخواست کي۔ اس مرتبہ حضرت علي کرم اللہ وجہ نے بھي ان کي سفارش کي۔ رحمت عالم ﷺ نے اب يہ درخواست قبول فرمالي اور سفانہ کو رہا کرنے کا حکم ديا ساتھ ہي ارشاد فرمايا کہ ابھي وطن جانے ميں جلدي نہ کرو، جب يمن جانے والا کوئي معتبر آدمي مل جائے تو مجھے اطلاع دو۔
چند دن بعد يمن کے قيبلہ بلي يا قضاعہ کا ايک وفد مدينے آيا۔ سفانہ نے حضورؐ سے استدعا کي کہ اس وفد کي واپسي کے وقت مجھے اس کے ہم راہ بھيج ديجيے۔ چناںچہ حضور نے سفانہ سفانے کے مرتبے کے مطابق سوراي، لباس اور زادارہ کا انتظام کرکے انہيں قافلے کے ساتھ روانہ کرديا۔
سفانہ کو علم تھا کہ عدي بن حاتم وطن سے بھاگ کو جوشيہ ميں مقيم ہيں۔ چناں چہ حضور ؐ سے رخصت ہوکر سيدھي جوشيہ پہنچيں۔ بہن اور بھائي کي ملاقات کيسے ہوئي، اس کو حضرت عدي بن حاتمؓ کے اپنے الفاظ ميں سنيے:
’’ايک دن جوشيہ ميں ہمارے گھر کے سامنے ايک سانڈني آکر رکي۔ محمل ميں ايک نقاب پوش عورت بيٹھي تھي مجھے شک گزرا کہ ميري بہن ہے ليکن پھر خيال آيا کہ اسے تو مسلمان اسير کرکے لے گئے ہيں وہ اس شاندار انداز ميں کيسے آسکتي ہے۔ معاً محمل کا پردہ اٹھا اور يہ الفاظ ميرے کان ميں پڑے، ظالم، قاطع رحم تف ہے تجھ پر اپنے اہل و عيال کو لے آئے اور مجھ کو بے يار و مددگار چھوڑديا۔
بہن کي باتيں سن کر ميں سخت شرمندہ ہوا۔ اپني غلطي کا اعتراف کيا اور معافي مانگي۔ بہن خاموش ہوگئي۔ پھر سواري سے اترکر جب کچھ دير آرام کرچکي تو ميں نے پوچھا، تم ہوشيار اور عاقلہ ہو، صاحب قريش سے مل کر تم نے کيا رائے قائم کي؟ بہن نے جواب ديا، جس قدر جلد ہوسکے تم ان سے ملو اگر وہ نبي ہيں تو ان سے ملنے ميں سبقت کرنا شرف و سعادت ہے اور اگر بادشاہ ہيں تو بھي يمن کا کوئي فرماں روا ان کا کچھ نہيں بگاڑسکتا اور ايک بادشاہ سے ملنے ميں سبقت بھي تمھاري قدر و منزلت کا وسيلہ ہوگي‘‘
سفانہ کے مشورے کے مطابق حضرت عديؓ مدينہ پہنچ کر بارگاہ رسالت ميں حاضر ہوئے اور شرف اسلام سے بہرور ہوگئے۔ ان کے بعد سفانہؓ بھي سعادت اندوز اسلام ہوگئيں۔
حافظ ابن حجر نے الاصابہ ميں ان کے بارے ميں لکھا ہے:
و کانت السمت و احسنت اسلامھا
وہ اسلام لائي اور اسے حسن و خوبي سے نباہا
سال وفات اور زندگي کے دوسرے حالات معلوم نہيں ہيں۔
(طالب الہاشمي کي کتاب تذکارصحابياتؓ سے ماخوذ)

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  05 جون تا 11 جون  2022