کيا ماں اور بچوں ميں دوري بڑھ رہي ہے؟

تربيت کي کمي اور مادہ پرستانہ سوچ سے خانداني نظام متاثر

از : زعيم الدين احمد، حيدرآباد

دنيا ميں انسانوں کے درميان مختلف رشتہ دارياں ہوتي ہيں ان تمام رشتوں ميں سب سے عظيم رشتہ ماں اور بچوں کا ہوتا ہے۔ انسانوں کے درميان سب سے زيادہ مبارک رشتہ اگر کوئي ہے تو وہ ماں کا ہے۔ اللہ تعاليٰ نے اس رشتے کي اہميت کا تذکرہ قرآن ميں فرمايا ہے اور سرور کونين حضرت محمد صلي اللہ عليہ وسلم نے بھي اس مقدس رشتے کي عظمت بيان کي۔ اللہ تعاليٰ نے ماں کي عظمتوں کا ذکر کچھ يوں فرمايا کہ ’’ہم نے انسان کو ہدايت کي کہ وہ اپنے والدين کے ساتھ نيک برتاؤ کرے اس کي ماں نے مشقت اٹھا کر اسے پيٹ ميں رکھا اور مشقت اٹھا کر ہي اس کو جنا اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے ميں تيس مہينے لگ گئے‘‘ 46: 15
رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا کہ ميں نماز شروع کرتا ہوں، ارادہ يہ ہوتا ہے کہ نماز طويل کروں، ليکن بچے کے رونے کي آواز سن کر مختصر کر ديتا ہوں کيونکہ مجھے معلوم ہے کہ ماں کے دل پر بچے کے رونے سے کيسي چوٹ پڑتي ہے۔ اللہ اللہ بچے کے تئيں ماں کي محبت کا يہ عالم کہ رحمت اللعالمين حضرت محمد صلي اللہ عليہ وسلم نماز جيسي عظيم عبادت کو مختصر کر ديا کرتے ہيں تو سوچيں کہ ماں کا کيا مقام ہو گا۔
ماں دنيا کي وہ واحد شخصيت ہے جو اولاد کي محبت ميں اپنا سب کچھ قربان کر ديتي ہے، اپنا پيٹ کاٹ کر اپني اولاد کو کھلاتي ہے، اپنے خون سے اپني اولاد کو سينچتي ہے، اپني اولاد کے آرام و سکون کے ليے اپنا آرام و سکون تج ديتي ہے، جب اولاد بيمار ہوتي ہے تو وہ بے چين و بے کل ہو جاتي ہے اور ہر طرح کے جتن کرتي ہے تاکہ اس کا لخت جگر صحت ياب ہو جائے، وہ يہ سوچتي ہے کہ کاش اس کي اولاد کے بدلے اسے يہ مرض لاحق ہو جاتا، اپني اولاد کي ترقي ديکھ کر وہ خوش ہوتي ہے، اس کو مزيد کاميابياں حاصل ہونے کي دعائيں ديتي ہے، ہر ممکن کوشش کرتي ہے کہ اس کا نور نظر ہميشہ آرام و راحت ميں رہے، وہ ہر تکليف و پريشاني سے بچا رہے۔ ان ساري کيفيتوں کا نام ماں ہے۔
ليکن کيا اپني ماں کے تئيں اولاد کا رويہ بھي ايسا ہي ہوتا ہے؟ کيا اولاد اپني ماں کے متعلق سوچتي ہے کہ اسے کيا پسند ہے؟ وہ کس بات سے خوش ہوتي ہے، اس کي کيا حاجات ہيں، اس کي کيا خواہشات ہيں، اس کي کيا ضروريات ہيں اور ان حاجات، خواہشات، ضروريات کو کيسے پورا کيا جائے، کيا اولاد ان ساري باتوں کو جانتي ہے، کيا اسے اس کا علم ہے؟ جب وہ بيمار ہوتي ہے تو کيا اولاد کي بھي وہي کيفيت ہوتي ہے جيسي ماں کي تھي؟ کيا اولاد اپني ماں سے اسي طرح محبت کرتي ہے جيسے ماں اپني اولاد سے کرتي ہے؟
يہ بہت اہم سوالات ہيں۔ اگر اولاد ان پر غور کرے گي تو اميد ہے کہ وہ انہيں حل بھي کر سکے گي، والدين کي مشقتوں کا اگر اولاد کو اندازہ ہي نہ ہو تو وہ ان کي ضعيفي ميں ان کا کيا خاک خيال رکھ پائے گي۔ اگر اسے يہ اندازہ ہي نہ ہو کہ اس کي پيدائش کے وقت اس کي ماں نے کتني مشقتيں جھيلي ہيں تو وہ کيسے اپني ماں کي خدمت کرے گي اور کيسے اپني ماں کے احسانات کا حق ادا کرے گي؟ اگر اس کو يہ احساس ہي نہ ہو کہ اس کي ترقي ميں اس کے والدين کي رات دن کي محنتيں شامل ہيں تو بھلا وہ کيسے اپنے والدين کا سہارا بنے گي؟ اگر اولاد کو يہ احساس ہي نہ ہو کہ کس بات ميں والدين کي خوشياں ہيں، وہ کيا کام ہيں جن کے کرنے سے ماں باپ کو سکون و راحت مل سکتي ہے تو اپنے والدين کا کيسے خيال رکھے گي؟
کيا موجودہ دور ميں اولاد ان سوالات پر غور کرتي ہے؟ ماں کے ذريعے انساني سماج ميں رونما ہونے والي تبديلياں کيا ہيں اس سے متعلق يونيورسٹي آف حيدرآباد کے شعبہ سنٹر فار ہيلتھ سائيکالوجي ميں پروفيسر مينا ہري ہرن کي نگراني ميں طلبہ کے ايک گروپ نے تحقيق کي ہے۔ اس مادہ پرستانہ دور ميں اس طرح کي تحقيق لائق ستائش ہے، کيوں کہ جب ہر چيز کو دولت کے ترازو ميں تولا جا رہا ہے اور انسان کي کوئي قدر و قيمت نہيں رہ گئي ہے تو والدين کي قدر و قيمت کہاں باقي رہ جاتي ہے چناں چہ والدين آج سماج کا وہ مظلوم طبقہ بن گئے ہيں جسے اولاد اپنے ساتھ رکھنا نہيں چاہتي، وہ ماں باپ کو ايک بوجھ سمجھتي ہے اس ليے انہيں اپنے سے دور کرنے کي ہر ممکن کوشش کرتي ہے۔ وہ دور لد گيا جب بڑا خاندان ہونے پر فخر کيا جاتا تھا، يہ دور مختصر خاندان کا دور ہے جہاں مياں بيوي اور ايک دو بچوں کے سوا کوئي نہيں ہوتا، اس مختصر خاندان ميں بوڑھے ماں باپ کے ليے کوئي جگہ نہيں ہے، ان کے ناز و نعم اٹھانے والا کوئي نہيں۔ آئے دن ہم والدين پر مظالم کي داستانيں سنتے رہتے ہيں، بيت المعمورين ميں وہ دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ ديے جاتے ہيں، ان کي آپ بيتي سننے والا کوئي نہيں ہوتا۔
اس ريسرچ ميں سماج کے متوسط طبقے کے بچوں سے جن کي عمريں دس سے بيس کے درميان ہيں يہ سوال کيا گيا کہ ان کي مائيں ان سے کيسے خوش ہوتي ہيں تو ان کا جواب تھا کہ وہ امتحانات ميں اچھے نمبرات لانے پر خوش ہوتي ہيں۔ بعض بچوں سے جب يہ سوال کيا گيا کہ ان کے تئيں ان کي ماؤں کے کيا جذبات و احساسات کيا ہيں تو ساٹھ فيصد سے زيادہ بچے اس سوال کا جواب ہي نہيں دے سکے۔ يہ سانحہ ہے آج کل کے بچوں کا، اس سے ان کي ماؤں سے دلي وابستگي ظاہر ہوتي ہے۔ اس سے يہ بھي ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپني ماؤں سے کتنے دور ہو چکے ہيں اور ماں اور بچوں کے درميان کتني بڑي خليج پائي جاتي ہے۔
آخر کيا وجہ ہے کہ ماں اور بچوں کے درميان يہ خليج پيدا ہو گئي ہے اور بڑھتي ہي جا رہي ہے؟ کيوں اس کي اولاد اس کے جذبات و احساسات کو، اس کي خواہشات و پسند و ناپسند کو جان نہيں پا رہي ہے اور کيوں ان کے درميان دوري پائي جا رہي ہے؟ يہ دوري بڑي تشويش ناک ہے۔ بچوں کي باپ سے دوري کا جواز تو ديا جاسکتا ہے کہ وہ مزاجاً سخت ہوتا ہے ليکن ماں سے دوري بڑي تعجب خيز بات ہے۔ ماں تو سراپا محبت ہوتي ہے۔
بچے کے دل ميں يہ بات کيوں بيٹھ گئي ہے کہ اس کي ماں اچھے نشانات لانے پر خوش ہوتي ہے، اچھا بڑھنے پر خوش ہوتي ہے؟ کيوں کہ ماں کا تعلق بھي اپني اولاد کے ساتھ ايسا ہي ہو گيا ہے۔ وہ بچوں کي دنيا سنوارنے ميں اپني ساري توانائياں صرف کر رہي ہے، اس کو مادي طور پر خود کفيل بنانے کي کوششوں ميں مصروف ہے۔ بچہ اچھا پڑھ لے کہيں اچھي سي نوکري حاصل کر لے بس يہي اس کا واحد مقصد رہ گيا ہے۔ بچپن سے اس کو يہ احساس دلايا جا رہا ہے کہ اس کو اس ليے اچھے نمبرات لانے ہيں تاکہ آساني سے نوکري مل جائے، اس کے دل و دماغ ميں يہ بات بٹھائي جا رہي ہے کہ اصل چيز دنيا کا حصول ہے، اس کو مقصد زندگي، خدا سے اس کا تعلق اور انسانوں سے اس کے رشتوں کے متعلق کوئي بات نہيں بتائي جاتي ہے۔ علم کا حصول بھي دنيا کمانے کے ليے کيا جا رہا ہے اور تعليم بھي اس کو ايسي دي جا رہي ہے جس ميں انساني حقوق کا کوئي تذکرہ نہيں، سماجي رشتوں کا دور دور تک نام و نشان نہيں، اسکولوں ميں صرف اور صرف مادہ پرستي کي تعليم دي جا رہي ہے۔ گويا يہ دانش گاہيں نہيں بلکہ کارخانے ہيں جہاں سے مشيني پرزے تيار ہو کر باہر نکل رہے ہيں۔ اگر آدمي کے اندر سے روحاني پہلو کو نکال ديا جائے، اگر جذبات و احساسات کو ختم کر ديا جائے تو وہ محض حيوان بن کر رہ جاتا ہے، وہ انسانيت کے ليے بے فيض ہو جاتا ہے۔ انسان اس دنيا ميں نرا حيوان بنا کر نہيں پيدا کيا گيا بلکہ اس کے اندر جذبات و احساسات رکھے گئے ہيں، سماجي رشتوں کے جال ميں وہ جکڑا ہوا ہے، وہ دنيا ميں بے حس و بے غرض نہيں ہے۔
والدين کا فرض ہے کہ اپني اولاد کو ايسي تعليم سے دور رکھيں جہاں صرف ماديت کي تعليم دي جاتي ہو، جہاں اسے صرف حيوان گردانا جاتا ہو۔ انہيں چاہيے کہ اپني اولاد کو ايسي تعليم دلائيں جس کے نتيجے ميں ان کے اندر انسانيت پروان چڑھے، ان کي تعليم کا محور و مرکز انسانيت ہو نہ کہ ماديت؟ تب ہي يہ سماج ايک باکمال سماج بن سکتا ہے۔

 

***

 والدین کا فرض ہے کہ اپنی اولاد کو ایسی تعلیم سے دور رکھیں جہاں صرف مادیت کی تعلیم دی جاتی ہو، جہاں اسے صرف حیوان گردانا جاتا ہو۔ انھیں چاہیے کہ اپنی اولاد کو ایسی تعلیم دلائیں جس کے نتیجے میں ان کے اندر انسانیت پروان چڑھے، ان کی تعلیم کا محور و مرکز انسانیت ہو نہ کہ مادیت؟ تب ہی یہ سماج ایک باکمال سماج بن سکتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  05 جون تا 11 جون  2022