سلطان محمد فاتح ؒ

لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر

خان یاسر، دلی

ہر ملک میں کچھ عمارتوں کی حیثیت اینٹ، پتھر اور گارے کے مجموعے کی نہیں، صرف معبد، محل، قلعہ یا پارلیمنٹ کی نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر غلبہ و استیلا کی علامت ہوتی ہے۔ قسطنطنیہ میں یہی حیثیت آیا صوفیہ کو حاصل تھی۔ جس مقام پر آیا صوفیہ قائم ہے وہ زمانہ ماقبل مسیح ہی سے اہمیت کا حامل رہا ہے۔ پہلے پہل وہاں ایک معبد (pagan) قائم تھا، بعد ازاں 325 عیسوی میں کلیسا، اور پھر 537 عیسوی میں بازنطینی کیتھیڈرل کی تعمیر ہوئی۔ 1054 میں برسوں کی فرقہ وارانہ کشمکش کے نتیجے میں اس کی حیثیت ایک یونانی آرتھوڈوکس کیتھیڈرل کی ہوئی اور 1204 میں جب صلیبیوں نے قسطنطنیہ پر قبضہ کیا تو اسے اپنے فرقے کی مناسبت سے رومن کیتھولک کیتھیڈرل بنا ڈالا۔ بازنطینیوں کی واپسی پر 1261 میں یہ دوبارہ یونانی آرتھوڈوکس کیتھیڈرل بن گیا۔

1453 میں سلطان محمد فاتحؒ نے قسطنطنیہ کو فتح کرنے کے بعد اسے مسجد بنانے کا فیصلہ کیا۔ یہ بر وقت ایک سیاسی لیکن شرعی و قانونی طور پر بھی ایک درست فیصلہ تھا۔ اس فیصلے میں مزید اخلاقی وزن اس وقت پڑگیا جب سلطان نے کیتھیڈرل کی عمارت پر زبردستی قبضہ کرنے کے بجائے اسے زر کثیر کے عوض خریدا۔ یہ مصارف اس نے جیبِ خاص سے ادا کیے اور عمارت کو بطور مسجد وقف کردیا۔

یوں آیا صوفیہ ہر زمانے میں وقت کے غالب سیاسی و نظریاتی قوتوں کا علمبردار رہا۔ حد یہ ہے کہ جب مصطفیٰ کمال پاشا نے نئے ترکی کو سیکولر بنیادوں پر استوار کرنا شروع کیا تو آیا صوفیہ کو بھی سیکولر ہونا پڑا اور اسے مسجد سے میوزیم بنا دیا گیا۔ اب اس کا پھر مسجد بنا دیا جانا قانون اور انصاف کا تقاضا تو خیر تھا ہی، اللّٰہ کرے کہ یہ ترک اسلام پسندوں کے لیے فالِ نیک بھی ثابت ہو۔ (آج اس بحث کا موقع نہیں ہے کہ سلطان محمد فاتحؒ کا کیتھیڈرل کو مسجد بنا دینا شرعی و قانونی طور پر کیسے درست تھا۔ اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے یہ مضمون ملاحظہ فرمالیں)

قصہ مختصر یہ کہ ترک عدالت نے اپنے حالیہ فیصلے میں مسجد کو میوزیم بنائے جانے کو غیر قانونی قرار دیا تو مسجد کی بازیافت کی راہیں ہموار ہوئیں۔ اس پر ایک بحث کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس بحث کے بہت سے مثبت و منفی پہلو تھے جن پر تفصیل کا یہاں موقع نہیں لیکن ایک مذموم پہلو یہ تھا کہ بہتوں نے کلیسا کی وکالت کرتے کرتے سلطان محمد فاتحؒ کی شان میں گستاخی کا رویہ اپنانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ حالانکہ سلطان کی شخصیت نبی آخر الزماںﷺ کے اس ارشاد کا مصداق تھی کہ ”تم ضرور قسطنطنیہ فتح کرکے رہو گے، وہ امیر بھی کیا خوب ہوگا اور وہ فوج بھی کیا خوب ہوگی۔“ (مسند احمد) آپﷺ کی اس پیشن گوئی کا یقیناً یہ مطلب نہیں کہ سلطان معصوم عن الخطا تھے لیکن یہ مطلب ضرور ہے کہ وہ ایک عظیم فاتح اور ایک عظیم سلطان تھے، جن سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے اور سیکھا جانا چاہیے۔ ائے کاش کہ اس محسنِ قسطنطنیہ کے حقیقی و فرضی عیوب کی ٹوہ میں پڑنے والے ان کی درخشاں زندگی سے سبق حاصل کرتے۔مجھے آج بھی یاد ہے کہ ترکی کے سفر سے لوٹ کر شجاعت بھائی (شجاعت اللّٰہ حسینی، اس وقت قومی جنرل سیکریٹری SIO) نے جب اپنے سفر کی روداد کے ساتھ ساتھ فتح قسطنطنیہ اور سلطان محمد فاتحؒ کی اولولعزمی اور جنگی اسٹریٹجی کی تاریخ سنائی تھی تو ہم سب ساتھی بے حد متاثر ہوئے تھے۔ وہ باتیں یاد ہوتیں تو شاید یہ گفتگو ذرا اور موثر ہوتی لیکن وہ جذبہ ضرور یاد ہے اور اسی جذبے کے تحت نسل نو کے لیے بہت ہی مختصر اور سرسری طور پر سلطان محمد فاتحؒ کی زندگی سے کچھ اسباق پیش کیے جارہے ہیں:

1۔ سلطان بطور فاتح کچھ ایسا مشہور ہوئے کہ ان کی علمی استعداد کی طرف عموماً دھیان نہیں جاتا۔ لیکن واضح رہے کہ وہ اعلیٰ ذہنی و علمی صلاحیتوں کے حامل تھے۔ انہیں ترکی کے علاوہ عربی، فارسی، لاطینی، عبرانی، اور یونانی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ مطالعہ اور علمی گفتگو کا ذوق رکھتے تھے۔ قرآن و حدیث کے علاوہ ادب، فلسفہ، اور تاریخ بالخصوص سلاطین و سالاروں کے تذکرے اور فنون جنگ سے متعلق ان کا مطالعہ بڑا وسیع تھا۔ سلطان کا ذاتی کتب خانہ بھی بہت بڑا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک علمی شہر سے سونے اور چاندی کے بدلے سلطان نے خراج میں کتابیں وصول کی تھیں۔ سلطان کی زندگی سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ عملی میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے لیے ضروری ہے کہ ذہنی و علمی افق بھی وسیع ہو۔

2۔ قسطنطنیہ پر کئی ’ناکام‘ چڑھائیاں ہو چکی تھیں، یہ ایک مشکل مہم تھی لیکن سلطان اس سے نہیں گھبرائے بلکہ اللّٰہ پر توکل کرتے ہوئے نکل کھڑے ہوئے۔ اپنے عمل سے انہوں نے ہمیں مشکل مہمات سے نہ گھبرانے، ٹال مٹول نہ کرنے اور عزم و حوصلہ سے آگے بڑھنے کا سبق دیا۔

3۔ اس مہم کے لیے سلطان کچھ یونہی الل ٹپ انداز سے نہیں نکلے بل

کہ باقاعدہ ایک طویل منصوبہ بنایا اور اس پر عمل درآمد کیا۔ اس منصوبے کے تحت انہوں نے متعدد شورشوں کو فرو کر کے اس بڑی مہم کے لیے خود کو یکسو کرلیا۔ کئی محاذوں پر صلح اور رشتہ داریاں قائم کرکے انہیں محفوظ کیا۔ کچھ فوجوں کو ایسے چنندہ علاقوں اور شاہراہوں پر مامور کیا جہاں سے وہ قسطنطنیہ کی مدد کو آنے والے عساکر، رسد اور دیگر امداد کا راستہ روک سکیں۔ سلطان نے آبنائے باسفورس کے یورپی ساحل اور قسطنطنیہ سے تقریباً پانچ میل کے فاصلے پر ایک زبردست قلعہ بنایا، اس قلعے میں جدید ترین اسلحہ جات اور سامان حرب و ضرب کا ذخیرہ کیا۔ اسی طرح ایک بڑا بحری بیڑہ تیار کیا اور آبنائے باسفورس کی نقل و حرکت پر عملاً اپنا تسلط قائم کرلیا۔ ان تمام اقدامات کے ذریعہ سلطان محمد فاتحؒ نے ہمیں توکل کے معنی سمجھائے اور بتایا کہ ایک طویل اور صبر آزما مہم درپیش ہو تو اس کی ہمہ پہلو منصوبہ بندی کیسے کی جاتی ہے۔

4۔ شہر قسطنطنیہ کی اونچی فصیلیں ناقابل تسخیر سمجھی جاتی تھیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان دیواروں نے کل 21 محاصروں میں شہر کی دشمنوں سے حفاظت کی تھی۔ سلطان نے ان دیواروں پر کامیاب حملے کے لیے خصوصی توپیں تیار کروائیں اور اس کے لیے ایک عیسائی انجینئر کی خدمات حاصل کیں۔ یوں انہوں نے ہمیں علم و صلاحیت کی قدر اور حکمت جہاں کہیں ہو اس سے استفادے کا عملی سبق دیا۔

5۔ محاصرے کے دوران جب معاملہ تقریباً stalemate پر پہنچ چکا تھا — بلکہ ایک بحری جھڑپ میں عثمانی بیڑے کو ہی ہزیمت اٹھانی پڑی تھی کیونکہ قسطنطنیہ کے جہاز بہت اونچے اور بڑے تھے جہاں سے عثمانی جہازوں پر آگ اور پتھر برسانا آسان تھا — سلطان، غور و فکر کے بعد، اس نتیجے پر پہنچے کہ گہرے پانی میں ان طاقتور اور بڑے ڈیل ڈول والے جہازوں سے مقابلہ دشوار ہے لیکن بندرگاہ کے بالائی حصے (گولڈن ہارن) میں جہاں پانی کم اور اتھلا ہے وہاں چھوٹے اور سبک رفتار جہاز کارآمد اور بڑے قد و قامت والے جہاز بے کار ثابت ہوں گے۔ سلطان کے پیش نظر یہ بات بھی تھی کہ اس حصے میں فصیل کی اونچائی اور خندق کی گہرائی نسبتاً کم تھی لہٰذا لشکر اسلام کا بحری بیڑہ اگر یہاں پہنچ جائے تو شہر پر کرارا حملہ کیا جاسکتا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ بندرگاہ کے اس حصے تک پہنچنے کے لیے جس بحری راستے کو اختیار کرنا پڑتا اس پر بازنطینی بیڑے کا سخت پہرہ تھا۔ علاوہ ازیں سمندر کی جانب بندرگاہ کے دہانے پر مضبوط آہنی زنجیریں کچھ اس طرح باندھی گئی تھیں کہ کوئی جہاز بندرگاہ میں داخل نہ ہوسکتا تھا۔ (بازنطینی جہازوں کے دخول کے لیے ان زنجیروں کو نیچے کردیا جاتا تھا۔) اب صورتحال یہ تھی کہ بازنطینی بحری بیڑے سے کھلے سمندر میں تصادم مناسب نہیں تھا اور اس طاقتور بیڑے اور زنجیر کی وجہ سے گولڈن ہارن پہنچنا تقریباً ناممکن تھا۔ سلطان نے یہ دیکھ کر ناممکن کو ممکن کرنے کی ٹھانی۔ انہوں نے کچھ ایسا طے کیا جس کا دشمن کو وہم و گمان بھی نہیں گزرا ہوگا۔ انہوں نے عثمانی بیڑے کو دشمن کے بحری بیڑے سے بچا کر بندرگاہ کے بالائی حصے تک پہنچانے کے لیے طے کیا کہ بحری نہیں بلکہ برّی راستہ اختیار کیا جائے گا۔ سمندر سے کشتیاں نکال کر زمین پر چلانا، سننے میں دیوانے کا خواب معلوم ہوتا ہے لیکن یہی سلطان کی جنگی حکمت عملی قرار پائی۔ اس نے 5 سے 10 میل لمبے ناہموار پہاڑی راستے پر لکڑی کے تختے بچھوائے، چربی اور تیل سے ان تختوں کو خوب چکنا کروایا، اور راتوں رات ستر انہی کشتیوں کو ان تختوں پر کھنچوا کر بندرگاہ میں اتار دیا۔ دشمن کی توجہ خشکی پر چلتی ہوئی ان کشتیوں کی طرف نہ ہو اس کے لیے عثمانی توپوں نے اس رات جم کر گولہ باری کی۔ یوں صبح سویرے جب عثمانی بیڑا آہنی زنجیروں کے باوجود اور بغیر بازنطینی بیڑے سے متصادم ہوئے گولڈن ہارن میں آموجود ہوا تو دشمن کے حوصلے پست ہوگئے اور فتح کی راہ ہموار ہوگئی۔ سلطان کی اس جنگی حکمت عملی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اپنی اور دشمن کی کمزوری اور طاقت کو جاننا اپنی کمزوری کو طاقت اور دشمن کی طاقت کو کمزوری میں بدل دینا فتح کے لیے ناگزیر ہے۔ مورخین لکھتے ہیں کہ کشتیوں کو خشکی پہ چلانے کی اس out of the box thinking کی وجہ سے میدان اسلامی افواج کے ہاتھ رہا۔ اس سے ہمیں ابتدائی جھٹکوں سے نا امید نہ ہونے، نئی سوچ اور نئی تدبیر اختیار کرنے اور نئے تجربات کرنے کا شاندار درس ملتا ہے۔

6۔ فتح کے بعد سلطان محمد فاتحؒ نے مفتوح شہریوں کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کا رویہ اختیار کیا۔ انہوں نے شہر چھوڑ کر بھاگ جانے والے عیسائیوں کو دوبارہ اپنے وطن لوٹ آنے اور اپنے پیشوں اور روزگار سے بے جھجک منسلک ہو جانے کی دعوت دی۔ رعایا کو مکمل مذہبی آزادی عطا کی۔ یونانی آرتھوڈوکس بطریق کو اپنے مذہبی عہدے پر برقرار رکھا، اسے مذہبی معاملات میں مکمل آزادی دی، درکار فنڈس دیے، اور کلیسا کی سرپرستی خود قبول کی، مذہبی عہدیداروں کے ٹیکس معاف کر دیے۔ پرسنل لاء کی آزادی کے علاوہ مسیحیوں کو اپنے مقدمات اپنے قوانین کے مطابق فیصل کرنے کی سہولت بخشی۔ ان عدالتوں کے احکام کا نفاذ ریاست کے ذمے تھا۔ ان عدالتوں کو قید اور سزائے موت تک دینے کے اختیارات حاصل تھے۔مورخ اکبر شاہ نجیب آبادی رقمطراز ہیں، ”قسطنطنیہ کے باشندوں کو سلطان فاتح نے امن و امان عطا کیا، جو لوگ اپنے مکانوں اور جائیدادوں پر قابض رہے اور بخوشی اطاعت قبول کی ان کو اور ان کے اموال کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ عیسائیوں کے معبدوں اور گرجوں کو (بجز آیا صوفیہ کے) علی حالہ قائم اور عیسائیوں کے تصرف میں رکھا۔ قسطنطنیہ کے بشپ اعظم کو سلطان نے اپنی خدمت میں بلا کر خوش خبری سنائی کہ آپ بدستور یونانی چرچ کے پیشوا رہیں گے۔ آپ کے مذہبی اختیارات میں کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ سلطان محمد خاں فاتح نے خود یونانی چرچ کی سرپرستی قبول کی اور بشپ اعظم اور پادریوں کو وہ اختیارات حاصل ہوگئے جو عیسائی سلطنت میں بھی ان کو حاصل نہ تھے، عیسائیوں کو کامل مذہبی آزادی عطا کی گئی۔ گرجوں کے مصارف اور چرچ کے اخراجات پورا کرنے کے لیے بڑی بڑی جاگیریں عطا کیں۔ جنگی اسیروں کو جو فتح مند فوج نے گرفتار کیے تھے سلطان فاتح نے خود اپنے سپاہیوں سے خرید کر آزاد کیا اور ان کو شہر قسطنطنیہ کے ایک خاص محلہ میں آباد کیا۔“ (تاریخ اسلام، جلد سوم)

عزیر احمد اپنی کتاب ”دولت عثمانیہ“ (جلد اول) میں ایورسلے کی شہادت نقل کرتے ہیں کہ سلطان کی یہ ”عظیم الشان رواداری“ دراصل ”مسیحی یورپین سیاسی اخلاقیات سے بہت آگے تھی“۔ تھامس آرنلڈ نے بھی اپنی کتاب The Spread of Islam میں سلطان کا تذکرہ بڑے ادب و احترام سے کیا ہے۔ اور مفتوح آبادی کے ساتھ ان کے سلوک کو دل جیتنے والا سلوک قرار دیا ہے جس کے بعد یونانی عوام ہر قسم کے عیسائی تسلط پر مسلمانوں کی حکومت کو ترجیح دینے لگے تھے۔

حسن کایا اور ڈاکٹر سعید اوزترک اپنے مقالے میں حوالہ دیتے ہیں کہ سلطان کی قیادت میں قسطنطنیہ جیسے تاریخی شہر کے آثار اور قدیم عمارتوں کے ساتھ مسلمانوں نے جو رویہ اختیار کیا اس کی روسی مورخ آسپنسکی جم کر تعریف کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ جن عمارتوں کو جنگ میں نقصان پہنچا تھا مسلمانوں نے ان کی مرمت کا خصوصی اہتمام کیا اور ان تاریخی آثار کے معاملے میں 1204 کے صلیبیوں سے زیادہ حساسیت کا مظاہرہ کیا۔ مورخ ولاسٹو لکھتے ہیں کہ اتنی صدیوں بعد بھی اگر آیا صوفیہ کی عمارت کھڑی ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ترک صرف تلوار کی نہیں بلکہ علم، سائنس اور فنونِ لطیفہ کی اہمیت سے واقف تھے۔ سلطان کے اس رویے سے فتح پاکر انکساری کا رویہ اختیار کرنے اور دشمن کے ساتھ بھی احسان و حسن سلوک کرنے کا بیش بہا سبق ملتا ہے۔

7۔ فتح قسطنطنیہ کے وقت سلطان محمد فاتحؒ کی عمر محض 23 سال تھی۔ جوانی کی اس عمر میں سلطنت کو سنبھالا دینا، دقیقہ رسی اور باریک بینی کے ساتھ منصوبہ بنانا اور اس پر عمل درآمد کرانا، نامساعد حالات سے نہ گھبرانا بلکہ نئی نئی راہیں نکالنا… بازنطینی سلطنت سے لوہا لینا اور اسے شکست فاش دے دینا سلطان کا تاریخ ساز کارنامہ ہے۔ ان کی پوری زندگی اس بات کی عملی شہادت ہے کہ بڑے کارناموں کا تعلق بڑی عمر سے نہیں بلکہ بڑے عزائم سے ہوتا ہے۔

(یاسر خان، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ ریسرچ، دلی میں فیکلٹی ہیں۔)

فتح کے بعد سلطان محمد فاتحؒ نے مفتوح شہریوں کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کا رویہ اختیار کیا۔ انہوں نے شہر چھوڑ کر بھاگ جانے والے عیسائیوں کو دوبارہ اپنے وطن لوٹ آنے اور اپنے پیشوں اور روزگار سے بے جھجک منسلک ہو جانے کی دعوت دی۔ رعایا کو مکمل مذہبی آزادی عطا کی۔ یونانی آرتھوڈوکس بطریق کو اپنے مذہبی عہدے پر برقرار رکھا، اسے مذہبی معاملات میں مکمل آزادی دی، درکار فنڈس دیے، اور کلیسا کی سرپرستی خود قبول کی، مذہبی عہدیداروں کے ٹیکس معاف کر دیے۔ پرسنل لاء کی آزادی کے علاوہ مسیحیوں کو اپنے مقدمات اپنے قوانین کے مطابق فیصل کرنے کی سہولت بخشی۔ ان عدالتوں کے احکام کا نفاذ ریاست کے ذمے تھا۔ ان عدالتوں کو قید اور سزائے موت تک دینے کے اختیارات حاصل تھے۔