دلت ’گڑیا‘ کے ساتھ زیادتی کی انتہا۔ ترقی و تحفظ کےتمام دعووں کی کھل رہی ہے پول

پجاری کی شرمناک حرکتوں پر مرکزی قیادت کی خاموشی افسوسناک

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

 

9سالہ معصوم گڑیا (تبدیل شدہ نام) کے قتل نے دہلی کو پھر ایک بار بدنام کردیا اور اس پر عصمت دری کے دارالخلافہ کےلیبل کا جواز فراہم کردیا ۔ 16؍ دسمبر 2012 کو 23 ؍ سالہ جیوتی سنگھ عرف نربھیا کی چلتی بس میں عصمت دری کرکے اسے سڑک پر پھینک دیا گیا تھا۔ نربھیا ملک و بیرون ملک علاج کے باوجود جانبر نہ ہوسکی تھی۔ اس جرم کے 6؍ مجرمین میں سے ایک نے جیل میں خودکشی کرلی ۔ ایک کم عمری کے سبب تین سال بعد رہا کردیا گیا اور باقی چار پچھلے سال 20؍ مارچ کو پھانسی چڑھا دیے گئے۔ اس کے باوجود دہلی شہر کے اندر نربھیا سے بھی زیادہ خوفناک واردات رونما ہوگئی ۔ دہلی کے کینٹ علاقہ میں نابالغ گڑیا کو اجتماعی آبروریزی کے بعد قتل کرکےاس کی لاش کو والدین کے حوالے کرنے کے بجائے جلادیا گیا ۔ کسی بس میں اوباش نوجوانوں نےیہ حرکت نہیں کی بلکہ مبینہ طور پر شمشان کا پجاری بھی اس میں ملوث ہے۔ گڑیا کے ساتھ ہونے والے اس ظلم نےپورےعالمِ انسانیت کو شرمسار کردیا ہے ۔ تہذیب و تمدن اور ترقی و تحفظ کے سارے نعرے ایک دم سے کھوکھلے نظر آنے لگے ہیں۔
نر بھیا پر زیادتی اور گڑیا کی پیدائش ایک ہی سال میں ہوئی ۔ پچھلے تقریباً ۹ ؍ سالوں میں سیاسی سطح پر بہت کچھ بدل گیا۔اس وقت دہلی حکومت کی باگ ڈور کانگریس کی شیلا دکشت کے ہاتھوں میں تھی۔ عام آدمی پارٹی کے ابھرتے ہوئے رہنما اروند کیجریوال نے اس ظلم کےبعد ریاستی سرکار کے خلاف زبردست محاذ کھول کرپوری دہلی کو ہلا دیا تھا ۔ آج وہ دہلی کے وزیر اعلیٰ ہیں اس کے باوجود اس سانحہ کو رونما ہونے سے روک نہیں سکے ۔ اروند کیجریوال نے متاثرہ کنبہ سے ملاقات کرکے دس لاکھ روپے کی مالی تعاون کا اعلان کیا ۔ اس کے علاوہ مجسٹریٹ جانچ اور قصورواروں کو سزا دلانے کے لیے بڑے وکیل مقررکرکے قانونی مدد کا وعدہ کیا ۔ کیجریوال نے ۹؍ سالہ گڑیا کے ساتھ حیوانیت اور قتل کو نہایت شرمناک واقعہ بتا کر دہلی میں امن وقانون درست کیے جانے کی ضرورت پر زور دیا اور قصورواروں کو جلد از جلد پھانسی کی سزا کا مطالبہ کیا ۔ انہوں نے مرکزی حکومت کو دہلی میں امن وقانون کےانتظامات درست کرنے کی خاطر سخت اقدامات میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ۔ اروند کیجریوال نے وہی کہاجو شیلا دکشت نے کیا تھا لیکن اس سے فرق کیا پڑا؟ اس طرح کی وارداتوں کا سلسلہ جاری ہے اس لیے یکم اگست کو مسلم خواتین کا دن کے بجائے یوم تحفظ خواتین مناناچاہیے۔
نربھیا کا واقعہ جس وقت رونما ہوا نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ آگے چل کر اپنی انتخابی مہم کے دوران وہ مظلوم کے گھر گئے ۔ اس کے والدین کے غم میں شریک ہوئے اور نعرہ لگایا کہ ’بہت ہوا ناری پر اتیاچار، اب کی بار مودی سرکار‘۔ مودی جی کی انتخابی کامیابی میں اس نعرے کا بھی حصہ ہے۔ آج وہ وزیر اعظم ہیں ۔ان کی ناک کے نیچے گڑیا کے ساتھ یہ اندوہناک سانحہ رونما ہوگیا مگر وہ اولمپک دیکھنے اور مبارک سلامت میں مصروف ہیں ۔ وہ ٹوکیو میں فون کرکے خواتین ہاکی ٹیم کا غم تو ہلکا کرتے ہیں مگر گڑیا کے اہل خانہ سے ملاقات تو دور فون کرنے کی بھی زحمت نہیں کرتے۔ ان کے ٹویٹ سے ہمدردی کے دوالفاظ تک نہیں نکلتے ۔ دہلی میں نظم و نسق کی ذمہ داری ان کے دست راست امیت شاہ کے کندھوں پر ہے۔ کاش کے شاہ جی جھوٹے منہ سہی مظلومین کے تئیں ہمدردی کے دوبول کہہ دیتے یا لکھ دیتے لیکن انہیں اس کی بھی توفیق نہیں ہوئی کہ کم از کم مجرمین کو سزا دلانے کی یقین دہانی کرادیں ۔ بے قصور لوگوں کو جیل بھیجنے والے وزیر داخلہ کی یہ بے حسی شرمناک ہے۔ دہلی مہیلا کانگریس نےوزیر اعظم کی خاموشی پر حیرانی ظاہر کرکے اس کو بدانتظامی و بدانصرامی کی مثال قراردیا نیز خواتین کے تحفظ میں ناکامی کے لیے کیجریوال سرکار کو ذمہ دار ٹھیرایا۔
کانگریسی رہنما راہل گاندھی نے دہلی کینٹ جاکر متاثرہ کنبہ سے ملاقات کے بعد کہا کہ مظلوم خاندان صرف اور صرف انصاف چاہتا ہے۔ متاثرہ کے اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ انہیں انصاف نہیں مل رہا ہے، لہٰذا ان کی پوری مدد ہونی چاہیے۔ جب تک انصاف نہیں ملے گا تب تک وہ ان کے ساتھ ہیں اور ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ راہل گاندھی کے اس اقدام کو سراہنے کی بجائے ان کے خلاف شکایت کے بعد دہلی پولیس نے ایک ایف آئی آر درج کرلی ہے۔ ونیت جندال نامی ایڈووکیٹ نے مقتولہ کے افراد خاندان کی شناخت کو عام کرنے کا الزام لگا کر راہل گاندھی کے خلاف دہلی پولیس میں شکایت درج کروائی تھی ۔ بی جے پی ترجمان سمبت پاترا نے بھی اعتراض کیا کہ عصمت ریزی اور قتل کی شکار لڑکی اور اس کے افراد خاندان کی شناخت ظاہر کرکے راہل گاندھی نے پوسکو ایکٹ اور جوینائیل جسٹس ایکٹ کے قواعد کی خلاف ورزی کی ہےاور وہ اس سے سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (این سی پی سی آر) نے بھی راہل گاندھی کے خلاف متاثرہ لڑکی اور اس کے افراد خاندان کی شناخت کو ظاہر کیے جانے پر سخت موقف اختیار کرتے ہوئے اسے ضابطے کی خلاف ورزی قرار دیا ۔ اسی کو کہتے ہیں الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ۔
ملت اسلامیہ کے اندر اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف احتجاج کرنے کا مثبت رحجان تو پایا جاتا ہے مگر جب دیگر لوگ کسی ظلم کا شکار ہوتے ہیں تو اس کی جانب توجہ نہیں ہوتی۔ ہاتھرس کے بعد اس رویہ میں معمولی تبدیلی آئی ہے۔ اس بار ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے صدر کی قیادت میں ایک وفد نے متاثرہ بچی کے والدین سے ملاقات کر کےگڑیا کی والدہ کو تسلی دی اور یقین دلایا کہ ان کو انصاف دلانے کے لیے ویلفیئر پارٹی آف انڈیا ہر ممکن مدد کرے گی۔ڈاکٹر الیاس نے یاد دلایا کہ دہلی کا نظم و نسق مرکزی وزیر داخلہ کے تحت ہے لیکن افسوس کہ وزیراعظم اور وزیر داخلہ خاموش ہیں ۔ انہوں نے ملزمین کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے فاسٹ ٹریک کورٹ قائم کرنےاورمتاثرہ خاندان کو اندرآواس یوجنا کے تحت گھر فراہم کرنےکے ساتھ مناسب اور معقول معاوضہ دینے کا مطالبہ کیا ۔ موصوف نےخبردار کیا کہ دلت اور کمزور طبقات کی خواتین پر بڑھتے مظالم اور عصمت دری کے واقعات کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ اس طرح گویا ڈاکٹر الیاس نے خیر امت کی طرف سے فرض کفایہ ادا کردیا ۔
ڈاکٹر قاسم رسول الیاس اور دہلی کی مہیلا کانگریس نے حکمراں طبقے کی جس بے حسی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے وہ قابلِ توجہ ہے۔ جمہوری نظام سیاست میں سارے انسانی مسائل کو انتخابی فائدے یا نقصان کے تناظر میں دیکھا جاتاہے۔ ان ووٹ کے بندوں کو حق اور ناحق سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اس لیے ایسے کام کیے جاتے ہیں جن کے کرنے میں سیاسی فائدہ ہو یا نہ کرنے سے نقصان کا امکان ہو ۔کوئی ایسا کام نہیں کیا جاتا جس کو کرنے میں ووٹ کا خسارہ نظر آئے یا اس کے نہ کرنے سے کوئی نقصان نہ ہو۔ گڑیا کا تعلق اگر متوسط طبقے سے یا نام نہاد اونچی ذات سے ہوتا تو ایسی سردمہری کا مظاہرہ ہر گزنہ ہوتا بلکہ خوب گرمجوشی دکھا ئی جاتی اور پورا میڈیا چیخ چیخ کر اس کو سر پر اٹھا لیتا کیونکہ وہ بی جے پی کا ووٹ بنک ہے اور اس پر خاموشی نقصان دہ ہوسکتی ہے۔
بی جے پی کے ذریعہ غریب دلتوں کی ان دیکھی کرنے کی دو وجوہات ہیں۔ اول تو وہ لوگ ازخود اسے ووٹ نہیں دیتے اس لیے ان کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ دوسرے اگر دلت رہنماوں کو خرید لیا جائے تو وہ بڑی آسانی سے آنکھ موند کران کی پیروی کرتے ہیں ۔ اس لیے ہر انتخاب سے قبل خریدو فروخت کا بازار لگ جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاستداں عصمت دری جیسے معاملات کو بھی ذات پات کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کمال درندگی کے باوجود ہاتھرس کے ٹھاکروں کی حمایت میں یوگی انتظامیہ لنگوٹ کس کر کود پڑتا ہے۔ انہیں مہاپنچایت کرکے دھونس دھمکی دینے کی اجازت دی جاتی ہے اور اس پر کوئی تادیبی کارروائی نہیں ہوتی ۔ ان واقعات کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر بھی اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہےمثلاً اپنے ووٹرس کو خوش کرنے کی خاطر بی جے پی کے حامی وکیل کھٹوعہ کی مظلوم آصفہ کے مجرمین کی فرد جرم داخل ہونے نہیں دیتے ۔ زعفرانی ارکان اسمبلی درندوں کی حمایت میں سڑکوں پر جلوس نکالتے ہیں۔ خواتین پر مظالم میں اضافہ کی یہ اہم وجوہات ہیں ۔
9؍ سالہ گڑیا دہلی کینٹ کے نانگل گاوں میں اپنے والدین کے ساتھ کرایہ کی مکان میں رہتی تھی۔ اس کےوالدین صبح سویرے کباڑ جمع کرتے اور دن میں قریب کے پیر بابا کی درگاہ پر صفائی کا کام کرتے ہیں ۔ اس کے عوض ان کو زائرین کی جانب سے خیرات مل جاتی ہے ۔ گڑیا کی ماں کبھی کبھار شمشان میں بنے کمروں کی صفائی کردیتی اور پجاری کے لیے چائے بھی بنادیتی تھی ۔ اس خدمت کے بدلے پجاری انہیں کھانے پینے کا سامان دے دیا کرتا تھا۔ لڑکیوں کے ساتھ ہونے والی دست درازی کے واقعات سن کر گڑیا کی والدہ کو یہ اندیشہ لاحق ہوجاتا کہ ان کی بیٹی اس کا شکار نہ ہوجائے۔ اس لیے اسے اسکول بھی نہیں بھیجا گیالیکن شمشان کے پجاری پر سب کو اعتماد تھا ۔ گڑیا شمشان میں لگے واٹر کولر سے پانی لینے جاتی تھی ۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ اس غریب خاندان کو مزار پر تو لنگر میں کھانے پینے کا سامان مل جاتا لیکن شمشان سے کچھ نہیں ملتا، جو پانی ملتا تھا اسی نے گڑیا کی جان لے لی ۔
یکم اگست کو ساڑھے پانچ بجے جب گڑیا کے والد سبزی لانے گئے تھے اور ماں مزار سے لوٹ آئی تھی شمشان کے پجاری نے آکر بتایا کہ ان کی بیٹی کو بجلی کا جھٹکا لگا اور وہ ختم ہوگئی۔ یہ سن ایک غمزدہ ماں شمشان کی جانب دوڑی کیونکہ گڑیا تو ہرروز پانی لینے جاتی تھی اور اسے کبھی بھی کرنٹ نہیں لگا تھا۔ وہاں پہنچ کر دیکھا کہ بیٹی کی لاش کو جلانے کی تیاری چل رہی ہے۔اس نے اپنی بیٹی کی لاش مانگی تو پجاری نے کہا تو چونکہ مزار پر بھیک مانگتی ہے اس لیے آخری رسومات کی خاطر پیسوں کا بندو بست کیسے کرے گی؟ پولیس آئے گی تو وہ چیر پھاڑ کرے گی۔گڑیا کی ماں نے اپنی بیٹی کی کیفیت اس طرح بیان کی کہ اس کی آنکھیں بند تھیں، بال کھلے تھے، ناک سے خون بہہ رہا تھا ، ہاتھ میں چوٹ لگی تھی اور کالے پڑے ہونٹ بند تھے۔ چتا پر بچی کی لاش اوندھی ڈالی گئی تھی تاکہ مخصوص اعضاء کو سب سے پہلے جلا کر سارے ثبوت مٹا دیے جائیں ۔
اس اندوہناک منظر کودیکھ کر اس مظلوم ماں کے دل پر کیا گزری ہوگی اس کا بیان ناممکن ہے ۔ وہ اپنی بیٹی کی لاش کے لیے فریاد کرتی رہی مگر اس کو جلا دیا گیا۔اس نے پانی ڈالنے اور لاش کو کھینچنے کی کوشش کی تو دھکا دے کر بھگا دیا گیا۔ پجاری نے ماں کو دھمکایا کہ چپ چاپ جانا کسی کو مت بتانا لیکن اس نے بدحواسی کے عالم میں سب کو بتا دیا کہ میری گڑیا چلی گئی ۔ اس کو پھونک دیا گیا۔ لوگوں کے شور مچانے پر محلے والے تالا توڑ کر شمشان میں گھس گئے مگر اس وقت تک لاش کا بیشتر حصہ جل چکا تھا ۔ یہاں پر ایک ننھی بچی کی شمشان میں پجاری کے ذریعہ اجتماعی آبروریزی اور قتل میں کھٹوعہ کی آصفہ یاد آتی ہے۔ اس کا دلت برادری سے تعلق اور زبردستی لاش کا جلا دینا ہاتھرس کے واقعہ کا اعادہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ آصفہ کے بعد کسی مندر میں ایسی گھناونی وارادات پیش ہی نہیں آئی اور ہاتھرس پر عالمی شور شرابہ کے بعد دلتوں کے اوپر ہونے والے جنسی مظالم کا سلسلہ تھم گیا۔
امسال جنوری میں یوپی کے بدایوں میں اسی طرز کی درندگی کا مظاہرہ ہوا ۔ وہاں اوگھوتی علاقہ میں واقع ایک مندر کے اندر درندہ صفت پجاری نے دو مردوں کے ساتھ مل کر ایک دلت خاتون کی اجتماعی عصمت دری کی اور پھر اسے قتل کردیا ۔ یہاں فرق صرف عمر کا ہے باقی معاملہ یکساں ہے۔ اوگھوتی تھانے سے 2 کلومیٹر کے فاصلے پرمویلی نامی گاؤں میں واقع ایک ’پاپ کا مندر‘ ہے ، جہاں 50 سالہ دلت خاتون کے ساتھ اجتماعی آبرو ریزی کرکےسفاکانہ قتل کیا گیا۔ لوگ سمجھتے رہے ہوں گے کہ یہاں پاپ دھل جاتے ہیں لیکن وہ تو گناہ کا اڈہ تھا ۔ اس گاؤں کے دلت چوکیدار نے بتایا کہ اسے مندر میں گھسنے کی اجازت نہیں ہے۔ مندر کے آس پاس والمیکی اور جاٹو برادی کے 65-70 گھر ہیں لیکن ان کو مندر جاتے نہیں دیکھا گیا کیونکہ داخلہ ممنوع ہے۔ یعنی وہ پوجاپاٹ کے لیے مندر میں نہیں جاسکتے مگر متاثرہ کے پسماندگان نے بتایا کہ خود پجاری نے فون کرکے اس کو بلایا اور آبروریزی کرنے بعد قتل کرکے فرار ہوگیا۔
یہ سب یوگی جی کے رام راجیہ میں ہوا۔ اس کے باوجود پچھلے ہفتے وزیر داخلہ امیت شاہ نے لکھنو جاکر یوگی کو جرائم ختم کرنے والے کامیاب ترین وزیر اعلیٰ کا سپاس نامہ دیا ۔ انہوں بتایا کہ لوگ بے خوف زندگی گزار رہے ہیں ۔یہ بات شاید پجاری جیسے لوگوں کی بابت کہی گئی تھیْ ورنہ گاوں بلکہ صوبے کے سارے دلت اور اقلیتیں جبر و استبداد کا شکار ہیں۔ عوام کی مانند سیاستدانوں کی یادداشت بہت کمزور ہوتی ہے اس لیے ممکن ہے کہ یہ لوگ نربھیا ، آصفہ، ہاتھرس اور بدایوں کی واردات بھول گئے ہوں مگر دہلی کے اس واقعہ کے ٹھیک ایک ماہ قبل اترپردیش میں محض 72 گھنٹے کے اندر پانچ بچیاں حیوانیت کا شکار ہوگئیں اس کے باوجود کسی کے کان پرجوں نہیں رینگی، ذرائع ابلاغ یوگی ، مودی اور امیت شاہ کی خانہ جنگی دکھانے میں مصروف رہا۔ان واقعات کے اندر سلطانپور اور پریاگ راج میں دلت لڑکیاں اجتماعی آبروریزی کا شکار ہوئیں ۔ جونپور اور کانپور میں آبرو ریزی کے بعد قتل کردیا گیا اور مہاراج گنج میں ایک 13 ؍سال کی بچی کو سبزی توڑنے کی قیمت عصمت دری کی شکل میں چکانی پڑی ۔ حیوانیت کا شکار ہونے والی ان ساری دوشیزاوں کی عمریں 13 سے 17 کے درمیان تھی۔ ان واقعات کی تفصیل زندہ ضمیر کے حامل ہر فرد کو شرمسار کرنے کے لیے کافی ہے۔ پریاگ راج میں ایک 16 سالہ لڑکی نیم عریاں حالت میں پیپل کے درخت کے نیچے بے ہوش ملی ۔ لڑکی نے الزام لگایا کہ7 لوگوں نے اس پر زیادتی کی مگر دبنگوں کے دباو کی وجہ سے صرف 2 لوگوں پر آبرو ریزی کی کوشش کرنے کا معاملہ درج کرایا۔ یعنی مقدمہ کو اس قدر ہلکا کردیا کہ اصل مجرم تو ویسے ہی فارغ ہوگئے اور جن کا نام ہے ان کا بھی بال بیکا نہیں ہوگا۔ یوگی راج میں اس طرح ظالموں کی پشت پناہی ہوتی ہے۔
سلطانپور میں 15 سالہ لڑکی کی عصمت دری میں اس کی بہن کےعاشق کو تین ساتھیوں سمیت پکڑا گیا۔ اس میں متاثرہ کو شیوپوجن کے بہانے کجران گلبہا گاوں میں لے جایا گیا اور پوجا پاٹ کے بعد تین لوگوں نے اس کی عصمت کو تار تار کیا ۔جونپور میں تو ہوم گارڈ کی 15 سالہ بیٹی کونصف شب میں برآمدے سے اغوا کرکے آبروریزی کی گئی اور اس کا قتل کرکے لاش تالاب کنارے پھینک دی گئی۔ کانپور میں 12 سالہ لڑکی کی عزت تاراج کرنے کے بعد اسے زندہ جلا دیا گیا۔ اس کی ادھ جلی لاش گھر سے 200 میٹر دور باغیچے میں ملی۔ مہاراج گنج میں ایک 13 سال کی لڑکی کو سبزی توڑنے کے جرم میں عزت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس بچی کے والدین پولیس میں شکایت کرنے لیے گئےتو کسی نے کان نہیں دھرا۔ پنچایت میں معاملہ پہنچا تو ظالم کو سب سے سامنے 5 چپل مارنے اور50 ہزار روپیہ جرمانہ کی سزا سنائی گئی نیز یہ کہا گیا کہ اگر یہ حرکت دوہرائی گئی تو مجرم کو انتظامیہ کے حوالے کیا جائے گا ۔ کیا کسی مہذب سماج میں قانون کی حکمرانی اسی کو کہتے ہیں ؟
دہلی سے متصل اتر پردیش میں خواتین کے ساتھ اس بدسلوکی کے باوجوداگر وزیر داخلہ صوبائی حکومت کی تعریف میں رطب اللسان ہوں تو مرکزی حکومت سے کسی خیر کی توقع فضول ہے۔ اس کے برعکس نانگل گاوں کے صدر دروازے پر علاقہ کےمقامی لوگوں نے ایک سفید پنڈال لگوادیا ہے۔ ان میں شدید غم و غصہ ہے اور سارے لوگ گڑیا کو انصاف دلانے کی خاطرکمر بستہ ہوگئے ہیں ۔ انصاف دلانے کی خاطر احتجاج جاری ہے ۔ دہلی کے کونے کونے سے لوگوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ یہی چیز راہل گاندھی ، اروند کیجریوال اور ڈاکٹر قاسم رسول الیاس جیسے لوگوں کو وہاں لے کر آئی۔ اس مظاہرے میں موجود سماجی کارکن ٹینا ورما سوال کرتی ہیں :’’میں ہر جمعرات کو یہاں پیر بابا کی مزار پر آتی تھی۔ یہ لڑکی مسکراتی ہوئی مل جاتی تھی۔ اس کے ساتھ یہ درندگی کی گئی۔ آخر یہ سلسلہ کب رکے گا؟ وہاں موجود 15-16 سال کی دولڑکیا ں گڑیا کو یاد کرکے کہتی ہیں وہ ہمیشہ ہنستے ہوئے ملتی تھی اور فوراً نمستے دیدی کہتی تھی۔ عوام کی ہمدردی، وابستگی ، جوش اور ولولہ سے یہ توقع ہے کہ گڑیا کے پسماندگان کو انصاف ضرور ملے گا اور مجرمین کو بہت جلد قرار واقعی سزا سنائی جائے گی۔ گڑیا پر ہونے والے مظالم کے خلاف احتجاج کرنے والے جیالے ساحر لدھیانوی کےاس سوال کا جواب ہیں؎
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی
پیمبر کی امت زلیخا کی بیٹی
ثناخوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟
***

ملت اسلامیہ کے اندر اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف احتجاج کرنے کا مثبت رحجان تو پایا جاتا ہے مگر جب دیگر لوگ کسی ظلم کا شکار ہوتے ہیں تو اس کی جانب توجہ نہیں ہوتی۔ ہاتھرس کے بعد اس رویہ میں معمولی تبدیلی آئی ہے۔ اس بار ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے صدر کی قیادت میں ایک وفد نے متاثرہ بچی کے والدین سے ملاقات کر کےگڑیا کی والدہ کو تسلی دی اور یقین دلایا کہ ان کو انصاف دلانے کے لیے ویلفیئر پارٹی آف انڈیا ہر ممکن مدد کرے گی۔ڈاکٹر الیاس نے یاد دلایا کہ دہلی کا نظم و نسق مرکزی وزیر داخلہ کے تحت ہے لیکن افسوس کہ وزیراعظم اور وزیر داخلہ خاموش ہیں ۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 اگست تا 21  اگست 2021