’خطباتمدراس‘حیات طیبہؐ پر ایک جامع کتاب

مولانا سید سلیمان ندویؒ کے 8 لکچرز کی کتابی شکل

فضل الرحمان قاسمی

سیرت النبیؐ کی عصری معنویت اور مختلف پہلوؤں کا جائزہ
’’خطبات مدراس ‘‘ در اصل سیرت نبویﷺ کے مختلف پہلوؤں پر مولانا سید سلیمان ندوی کے دیے ہوئے آٹھ لکچرز ہیں یہ ۱۹۲۵ء میں مدراس میں دیے گئے تھے ، بعد میں انہیں’’ خطبات مدراس ‘‘کے نام ہی سے کتابی صورت میں شائع کیا گیا ۔ یہ کتاب سیرت کی اہم کتابوں میں شامل ہے ،جس طرح علامہ شبلی نعمانیؒ کی سیرۃ النبیﷺ ایک بے مثال کتا ب ہے ،ایسے ہی خطبات مدراس اپنے موضوع اور اسلوب کی ندرت کی وجہ سے ایک بے بدل کتاب ہے۔چنانچہ اس کی اہمیت کے پیش نظراس کے ہندی،انگریزی اور عربی زبانوں میں ترجمے کیے گئے ہیں ۔ سید صاحب اکتوبر ونومبر ۱۹۲۵ء میں بعض دینی حمیت رکھنے والے اورصاحب خیر حضرات کی دعوت پر مدراس تشریف لے گئے تھے اور وہاں کے ’لالی ہال ،میں ہرہفتہ بعد نماز مغرب اور بعض وقت ہفتہ میں دو د فعہ یہ خطبات دیے۔ اس طرح یہ کل آٹھ خطبات اکتوبر ۱۹۲۵ء کے پہلے ہفتے سے شروع ہوکر نومبر ۱۹۲۵ء کے اخیر ہفتہ میں ختم ہوئے۔سید صاحب خطبات مدراس کے دیباچہ میں لکھتے ہیں:
’’سیٹھ حمید حسن صاحب ناظم مجلس کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے خطبات کے لیے ہر قسم کااہتمام ،اعلان اور ان کے انگریزی ترجمہ کاکام انجام دیا۔۔۔۔غیر مسلم اصحاب بھی شکریہ کے مستحق ہیں جنہوں نے با وجوداردو آسانی سے نہ سمجھ سکنے کے،حقیقت کی جستجو کے لیے ان جلسوں میں شرکت کی۔‘‘ (خطبات مدراس ص۷)
مولانا سید عروج احمد قادریؒ سابق ماہنامہ زندگی نَو نے ان خطبات کا بڑا جامع تعارف ان الفاظ میں کرایا ہے :
’’یہ آٹھ تقریریں در اصل آٹھ کتابیں ہیں،خطبات مدراس میرے نزدیک صنعت ایجاز کاایک نادر نمونہ ہیں۔اگر انہیں صنعت اطناب میں منتقل کیا جائے تو ہر خطبہ ایک کتاب بن سکتا ہے ‘‘
( مطالعات سلیمانی ،مجموعہ مقالات،۱۹۸۵ء ،ص۳۲۲)
یہ خطبات اس قدر عمدہ اور زور دار تھے کہ مقامی اخبار ات کے علاوہ انگریزی اخبار’’دی ڈیلی اکسپریس مدراس‘‘ نے ان کا خلاصہ ہر ہفتہ شائع کیا ۔سید صاحب ان خطبات کا آغاز یوں کرتے ہیں :
’’حضرات!آ ج پندرہ برس کے بعدمجھے موقع ملا ہے کہ میں آپ کی تعلیمی انجمن ‘‘مسلم ایجو کیشنل ایسو سی ایشن آ ف سدرن انڈیا ‘‘کی طلب پرآپ کی خدمت میں حاضر ہوں اور یہاں آکرآپ کے سامنے سیرت نبوی ﷺ کے مختلف پہلوؤں پرخطبے دوں،آٹھ خطبے ہوں گے جن کی ترتیب یہ ہوگی۔
۱- انسانیت کی تکمیل صرف انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرتوں سے ہو سکتی ہے ۔
۲- عالم گیر اور دائمی نمونہ عمل صرف محمد رسول اللہﷺ کی سیرت ہے ۔
۳- سیرت نبوی ﷺکا تاریخی پہلو
۴- سیرت نبوی ﷺکی کاملیت
۵- سیرت نبوی ﷺکی جامعیت
۶- سیرت نبوی ﷺکی عملیت
۷- اسلام کے پیغمبر کا پیغام
۸- ایمان اور عمل
یہ حقیقت ہے کہ اس طرح کے سنجیدہ اور باوقار موضوع پر خطبات کا یہ سلسلہ جب یہ خطبات دیے گیے تھے دوسرے صوبوں کے نوجوانوں کے لیے پہلا قدم تھا جیسا کہ سید صاحب لکھتے ہیں’’ مدراس نے اپنے نوجوان فرزندوں کو ایک سلسلہ ’’خطبات اسلامیہ‘‘کے ذریعہ مذہب اسلام سے واقف کرانے کاجو طریقہ اختیار کیا ہے وہ یقیناٌ ہندوستان کے صوبوں میں ہماری اسلامی تعلیمی انجمنوں کااس راہ میں پہلا قدم ہے۔ مدراس کی سر زمین پورے ہندوستان میں سب سے پہلا صوبہ ہے جہاں اسلام کی شعائیں سب سے پہلے آکر چمکیں اور یہ اس وقت ہوا جب ہندوستان کے کسی گوشہ میں بھی اسلام کے کسی سپاہی کا قدم نہیں پڑا تھا،۔۔۔۔مدراس کی ایک اسلامی تعلیمی انجمن کی اس قابل رشک سبقت پرکوئی تعجب نہیں ہے کہ مدراس کواسلام کی خدمات میں پہل کرنے کاتاریخی حق آج سے نہیں بلکہ تیرہ سو برس پہلے سے پہنچتا ہے ،امید ہے کہ دوسرے صوبوں کی اسلامی انجمنیں اس کی تقلید کریں گی۔‘‘ ( خطبات مدراس ،ص۹)
ان تمام خطبات کے مطالعہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان تمام میں ایک منطقی ربط ہے،اگر چہ سید صاحب نے انہیں سرسری طور پر مرتب کیا تھالیکن سوچ سمجھ کر مرتب کیا ہے اس لیے منطقی ربط اس میں موجود ہے ۔بقول مولانا سید عروج احمد قادریؒ:
’’ منطقی ربط کے معنی یہ ہیں کہ غور وفکر کرنے والے قاری کے سامنے جب ایک عنوان پرمعلومات و خیا لات آجاتے ہیں تو آپ سے آپ دوسرے عنوان کی ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے ۔‘‘( مطا لعات سلیمانی ص۳۲۲)
پہلا عنوان یہ ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ’انسانیت کی تکمیل صرف انبیاء علیہم السلام کی سیرتوں سے ہو سکتی ہے ۔ا س خطبے سے متعدد دلیلوں سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ انسانوں میں جتنے طبقات پائے جاتے ہیں ، ان میں انبیا ء کرام کے سوا کوئی دوسرا طبقہ ایسا نہیں ہےجن کی سیرتیں انسانیت کی تکمیل کر سکتی ہوں۔ اس کے بعد قاری کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ دنیا میں انبیا ء و رسل کی تعداد بے شمار ہے ،انسان ان میں کس نبی کو اپنا آئیڈیل بنائے ؟ اس سوال کا فوری جواب خطبہ نمبر ۲ میں مل جاتا ہے ۔یہی معنی میں منطقی ربط ہے کیوں کہ قرآن مجید قیامت تک انسانوں کے لیے کتاب ہدایت ہے ،اس نے صاف طور پر یہ اعلان کر دیا : ’’لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ‘‘ یعنی عالم گیراور دائمی نمونۂ عمل صرف محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت ہے ۔یہ ایک دعویٰ ہے ،اس کے ثبوت میں بعد چار خطبات پیش کیے گئے ہیں ،وہ با لتر تیب یہ ہیں۔سیرت نبویﷺ کاتاریخی پہلو،اس کی کاملیت ،اس کی جامعیت اور اس کی عملیت ۔
ان خطبات کا استدلالی رنگ یہ ہے کہ انسا نیت کی تکمیل صرف اسی سیرت سے ہو سکتی ہےجس ذات گرامی میں یہ چاروں شرائط پائی جاتی ہوں۔سید صاحب نے بدلائل پیش کیا ہے یہ چاروں خصوصیات صرف محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت میں پائی جاتی ہیں ۔ع
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو،تنہا داری!
اس کتاب میں بہت سے غیر مسلم دانش وروں کے بھی کافی حوالے پیش کیے گئے ہیں ۔ مثلاً مشہو ر جرمن مستشرق ڈاکٹراسپرنگر جو ۸۵۴ ۱ء اور اس کے بعد تک ہندوستان میں حکومت برطانیہ میں علمی وتعلیمی صیغہ سے متعلق تھے ،ان کا دعویٰ ہے کہ وہ پہلے یورپین شخص ہیں جنہوں نے ( خاص ابتدائی عربی ماخذوں سے ’’لائف آف محمد لکھی ہے اورمخالفانہ لکھی ہے۔ وہ بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں :
’’ کوئی قوم دنیا میں ایسی نہیں گزری،نہ آج موجود ہے ،جس نے مسلمانوں کی طرح اسماء الرجال کاعظیم الشان فن ایجاد کیا ہو،جس کی بدولت آج پانچ لاکھ شخصوں کا حال معلوم ہو سکتا ہے ‘‘ (خطبات مدراس ،ص ۴۰)
اس کے بعد دوسر ی شہادت مارگو لیس جو آکسفورڈ یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسرتھے ،ان کی لکھی ہوئی سیرت ’’ محمد‘ ‘ہے ، جوا نتہائی منفی ( Nagative) انداز میں لکھی گئی ہے۔اس کے باجوود ا س کتا ب کے مقدمہ میں اس حقیقت کا اعتراف ہے ۔
’’ محمد کے سوانح نگاروں کا ایک طویل سلسلہ ہے ،جس کا ختم ہونا نا ممکن ہے ،لیکن اس میں جگہ پانا عزت کی بات ہے ۔‘‘ ( خطبات مدراس ،ص۵۷)
یہ سچ ہے ’’الفضل بما شہدت الا عداء‘یعنی فضیلت یہ ہے کہ دشمنوں کو بھی اس کا اعتراف ہو۔
محمد ﷺ کی زندگی ہردور اور ہر شخص کے لیے مشعل راہ ہے ’’۔۔اگرتم دولت مند ہوتو مکہ کے تاجر اور بحرین کے خزینہ دارکی تقلید کرو،اگر تم غریب ہو توشعب ابی طالب کے قیدی اور مدینہ کے مہمان کی کیفیت سنو،اگر تم بادشاہ ہوتو سلطان عرب کا حال پڑھو۔۔۔‘‘ (مطالعہ سلیمانی ص۳۲۶)
علامہ سید سلیمان ندوی جیسے عظیم سیرت نگار کے خطبات مدراس کی سید عروج احمد قادری نے ان بلند الفاظ میں مدح سرائی کی ہے ۔:
’’علامہ سید سلیمان ندوی کا ہر خطبہ،ایک مرصع غزل کی حیثیت رکھتا ہے اس لیے اس میں کچھ لینے اور کچھ چھوڑنے کی گنجائش نہیں ہے ۔،،( حوالہ سابق ص۳۲۷)
ساتواں خطبہ : ’پیغمبر اسلام کا پیغام ‘ ہے ،اس میں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ہر مذہب کے دو جزہیں ،ایک کاتعلق دل سے ہے ،اور دوسرے کاہاتھ ،پاؤں اور دیگر اعضا ء یا انسان کے مال ودولت سے ہے ۔پہلے کوایمان اور دوسرے کو عمل کہتے تھے ۔
آخری خطبے کا خاتمہ اس طرح کیا گیا ہے :
’’ نو جوانو مجھے صفائی کے ساتھ یہ کہنے دوکہ خاموشی،سکون،خلوت نشینی اور منفردانہ زندگی،اسلام نہیں ہے ،اسلام جد وجہد ،سعی وعمل اور سر گرمی کانام ہے،وہ موت نہیں حیات ہے،۔۔۔محمد ﷺکا پیغام بودھ کے پیغام کی طرح ترک خواہش نہیں ہے،بلکہ تصحیح خواہش ہے ۔مسیحیت میں دولت و قوت کی تحقیرہے ،لیکن ان کے حصول اور صرف کے طریقوں کی درستی اور اس کے صحیح استعمال اور مصرف کا تعین ہے ۔‘‘
ان خطبات کا نچوڑ ایک جملہ میں سید صاحب نے یوں ادا کیا ہے : ’’انسان کانوں سے نہیں بنتا ، آنکھوں سے بنتاہے۔‘‘یعنی دنیا کے سامنے عملی نمونہ ہونا چاہیے جو سراپا عملی کردار کا سراپا مجسم ہونا چاہیے ۔
موجود حالات میں سیرت نبیﷺ کے پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے،اس کے لیے جو بھی وسائل آج کے ترقی یافتہ دور میں ممکن ہو ں ، ان سے بھر پور فائدہ اٹھا یا جائے مثلاً :اسکولوں اور کالجوں میں سیرت رسول ﷺکے موضوع پر کوئز ،کمپٹیشن اورسیرت پر تقریری مقابلوں کا انعقاد ہو،اور سوشل میڈیا پر مؤثر سیرت کے اہم واقعات کی ویڈیو کلپس بنا کر ڈالی جا سکتی ہیں ،غیر مسلم شعراء کی کہی ہوئی نعتیں اور رسول ﷺ کی سیرت پر ان کے لکھے ہوئے مضامین اور کتا بوں وغیرہ کو عام کیا جائے ۔تاکہ دینا کے سامنے رحمۃ للعالمینﷺ کا تعارف اورپیغام نوع بہ نوع ہمیشہ تازہ ہوتارہے ۔اس ضمن میں محسن انسانیت ﷺ کے مصنف مولانا نعیم صدیقیؒ کے اس اقتباس کوملت کے ہر فرد کے ذہن میں نقش کرانے کی ضرورت ہے :
’’حق یہ ہے کہ اصل مجرم ہم خود ہیں،اور ہم ہی محسن انسانیت کی شخصیت،پیغام اور کارنامے کودنیا سے بھی اوجھل رکھنے والے ہیں،اور اپنی نگاہوں سے چھپانے والے ہیں۔آج محسن انسانیت کی ہستی کا از سر نو تعارف کرانے کی ضرورت ہے اور یہ خدمت شاید جوہری توانائی کے انکشاف سے بڑی خدمت ہوگی‘‘۔
( محسن انسانیت ص ۷۱،۷۲)
تنگ آجائے گی خود اپنی چلن سے دنیا
تجھ سے سیکھے گا زمانہ ترے انداز کبھی !
( کیفی مرحوم)
***

 

***

 موجود حالات میں سیرت نبیﷺ کے پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے،اس کے لیے جو بھی وسائل آج کے ترقی یافتہ دور میں ممکن ہو ں ، ان سے بھر پور فائدہ اٹھا یا جائے مثلاً :اسکولوں اور کالجوں میں سیرت رسول ﷺ کے موضوع پر کوئز ،کمپٹیشن اورسیرت پر تقریری مقابلوں کا انعقاد ہو،اور سوشل میڈیا پر مؤثر سیرت کے اہم واقعات کی ویڈیو کلپس بنا کر ڈالی جا سکتی ہیں ،غیر مسلم شعراء کی کہی ہوئی نعتیں اور رسول ﷺ کی سیرت پر ان کے لکھے ہوئے مضامین اور کتا بوں وغیرہ کو عام کیا جائے۔تاکہ دینا کے سامنے رحمۃ للعالمینﷺ کا تعارف اورپیغام نوع بہ نوع ہمیشہ تازہ ہوتارہے ۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  7 نومبر تا 13 نومبر 2021