خبر و نظر

پرواز رحمانی

بنگلہ دیش میں شرارت
آج کل بنگلہ دیش کی ان خبروں کا کہ وہاں ہندووں اور ان کے مندروں اور پوجا پاٹھ کے سنٹروں پر حملے ہورہے ہیں اور یہ حملے مسلمان کررہے ہیں، میڈیا اور کچھ مخصوص سماجی حلقوں میں بہت چرچا ہے۔ ایک خاص سیاسی حلقے کے لوگ ان پر تیکھے تبصرے بھی کرہے ہیں۔ ادھر بنگلہ دیش کی وزیراعظم اور ان کے کچھ وزیر مسلمانوں اور مسلم تنظیموں کو مطعون بھی کررہے ہیں۔ علاوہ ازیں کچھ مشرقی سرحدی ریاستوںمیں اس پر ردعمل بھی ظاہر کیا جارہا ہے۔ تری پورہ میں مسجدوں پر حملوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ مگر یقین نہیں آتا کہ بنگلہ دیش میں یہ حملے مسلمان کررہے ہیں۔ جماعتوں اور پارٹیوں کو خود بنگلہ دیش کی حکومت مورد الزام ٹھہرا رہی ہے۔ بنگلہ دیش کے وزیر ایم حسن محمود نے بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور ’’جماعت ‘‘ کا نام لے کر کہا ہے کہ یہ پارٹیاں بنگلہ دیش کو کو کمزور اور بدنام کرنے کے لیے حملے کرارہی ہیں‘‘۔ جماعت سے ان کی مراد غالباًبنگلہ دیش میں جماعت اسلامی ہے۔ یہ اور بھی سنگین الزام ہے۔ حکومت بنگلہ دیش کے نزدیک حملے نہ صرف عام مسلمان کررہے ہیں بلکہ سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان بھی کررہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا ’’بنگلہ دیش کے آئین میں مذہب کو دخیل کرنے والے جنرل ارشاد ہیں‘‘۔

سیاست کا کھیل
ہندوستان اور بنگلہ دیش کے سیاسی تعلقات بہت گہرے ہیں۔ مملکت بنگلہ دیش ایک طرح سے ہندوستان کی ممنون ہے کہ اس کا وجود نئی دلی کی کوششوں ہی کا مرہون منت ہے۔ کوئی شک نہیں کہ بنگلہ دیش میں ہند مخالف قوتیں بھی رہی ہیں۔ برسر اقتدار بھی آئی ہیں۔ سب سے مضبوط مخالف قوت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی ہے- آج بھی میدان میں ہے۔ شیخ حسینہ کی عوامی لیگ کئی بار اس سے شکست کھاچکی ہے۔ بی این پی اپنے ساتھ کچھ اور پارٹیوں اور گروپوں کو بھی رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حسینہ کی پارٹی اور ان کے ہمنوا اس سے خوف کھاتے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں پوری اپوزیشن نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا۔ حسینہ کو معدودے چند ووٹ ملے تھے مگر الیکشن کمیشن نے اسے ’منتخب‘ قرار دیا تھا جب سے وہی برسر اقتدار ہیں مگر اب حسینہ کو آئندہ انتخابات کی فکر ہے۔ لیکن امکان معدوم ہے۔ بنگلہ دیش میں دینی جماعتیں بہت مضبوط ہوئی ہیں۔ اسی لیے وزیر نے ان پر نشانہ سادھا ہے اور اسی لیے اسلامک مومنٹ آف بنگلہ دیش کے امیر جو چارمونئی کے پیر صاحب بھی ہیں سید محمد رضا الکریم نے کہا ہے کہ بنگلہ دیش میں مندروں پر حملے اسلامی تنظیموں کو کمزور کرنے کے لیے کرائے جارہے ہیں۔

اس خوف کے پیچھے کیا ہے
یہ بہرحال واضح ہے کہ بنگلہ دیش کے موجودہ حالات انتخابات کا شاخسانہ ہے۔ طور و طریقے وہی اپنائے جارہے ہیں جو انڈیا میںکام کررہے ہیں۔ عوامی لیگ کی حکومت اپوزیشن کو کچلنے کے طریقے بھی جانتی ہے۔ بنگلہ دیش کے مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت اسلام پسند ہے لیکن عوامی لیگ سمیت اسلام بیزار لوگ، جو اقتدار اور انتظامیہ پر قابض ہیں۔ اکثریت کو دباکر خوف زدہ رکھتے ہیں۔ یہ بات کہ ہندو مندروں پر مسلمان حملے کررہے ہیں کسی طرح سمجھ میں نہیں آتی۔ اس کی تحقیق کسی غیر جانبدار ایجنسی یا بین الاقوامی گروپ کے ذریعے ہونی چاہیے۔ بنگلہ دیش میں جو سنجیدہ اور دور اندیش اسلامی حلقے ہیں، انہیں نہایت ضبط و تحمل اور حکمت سے کام لینا ہوگا اور طریقے امت مسلمہ کے رہبر اعظم ؐسے ماخوذ کرنے ہوں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ آج پوری دنیا کو اسلام کے خوف میں مبتلا کیا جارہا ہے۔ افغانستان میں طالبان کی آمد بے انصاف دنیا کے لیے سوہان روح بنی ہوئی ہے۔ اس کے اثرات ہر جگہ موجود ہیں۔ کچھ لوگ جن کے ہاتھوں میں کچھ ممالک بھی ہیں۔ نہیں چاہتے کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں اسلامی نظام حیات کا نمونہ قائم ہو۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  7 نومبر تا 13 نومبر 2021