خبر و نظر

پرواز رحمانی

 

مسلم یونیورسٹی؟
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام کے سو سال مکمل ہونے پر ۲۲؍ دسمبر کو ایک شاندار مگر سادہ اور پُر وقار جشن صد سالہ کا اہتمام کیا گیا۔ تقریب کی خاص الخاص بات یہ رہی کہ اس تقریب سے وزیر اعظم مودی نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے خطاب کیا۔ خطاب کی خصوصیات یہ تھیں کہ اس میں وزیر اعظم نے مسلم یونیورسٹی کے تعلق سے وہ حقیقت پسندانہ باتیں کہیں جنہیں ملک کا ایک طبقہ سُننا پسند نہیں کرتا بلکہ ان کے خلاف اول روز سے محاذ کھولے ہوئے ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ طبقہ خود وزیر اعظم کے سیاسی پریوار سے تعلق رکھتا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ یونیورسٹی اپنے طلبہ، ٹیچنگ اسٹاف، انتظامی اسٹاف اور اپنی عمارتوں اور مختلف شعبوں کی وجہ سے انڈیا میں ایک منی انڈیا کی حیثیت رکھتا ہے۔ اپنے نصاب کی وجہ سے اِس ادارے نے بھارت کو فخر بخشا ہے۔ اس سے فارغ ہونے والے طلباء ملک اور بیرون ملک اہم انسانی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ادارے کی یہ حیثیت نہ صرف یونیورسٹی بلکہ پوری قوم کی طاقت ہے اور پوری دنیا میں معروف ہے۔ اردو، عربی کے ساتھ طلباء ہندی اور سنسکرت میں بھی دسترس رکھتے ہیں۔مسلم یونیورسٹی نے مختلف موضوعات پر وسیع تر تحقیقات کے ذریعے پوری دنیا میں ملک کا نام روشن کیا ہے۔ ملک کا وقار بلند کیا ہے۔
دو اور باتیں
وزیر اعظم کی دو اور باتیں تاریخی نوعیت کی تھیں (۱) بانی ادارہ سر سید احمد خاں کے ایک قول کا ذکر کہ ’’جب آپ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور بعد میں میدان عمل میں اترتے ہیں تو آپ کو بلا لحاظ مذہب و ملت، عقیدہ اور ذات پات، پورے ملک اور تمام انسانوں کی خدمت کرنی چاہیے۔ (۲) یونیورسٹی نے عربی اور فارسی زبانوں میں اسلامی تاریخ اور ثقافت پر جو تحقیق کی ہے اس سے دنیا میں بھارت کا مقام بلند ہوا ہے۔‘‘….سنگھ پریوار کی چھ سات سال کی حکومت میں یہ دوسرا موقع ہے کہ اس کے لیڈروں نے اعلیٰ سطح پر اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں نہایت مثبت خیالات کا اظہار کیا ہے اور انہیں ساتھ لے کر چلنے کی بات کہی ہے۔ اب سے دو سال قبل نئی دہلی وگیان بھون میں تین دن کے لگاتار خطابات میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے مسلم شہریوں کے ساتھ اپنائیت کا اظہار کرتے ہوئے انہیں برابر کے شہریوں کے طور پر ساتھ رکھنے کی بات کہی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ اس کے بعد انہوں نے اِن باتوں کا ذکر کبھی نہیں کیا بلکہ حکومت کو شاندار رام مندر بنانے کا مشورہ دیا اور حکومت نے مسلم شہریوں کے حق میں کوئی بہتر کام کرنے کی بجائے سی اے اے یعنی شہریت کے قانون میں سراسر مسلم مخالف رخ قانون بنایا۔ اس دوران بی جے پی، ہندو پریشد اور بجرنگ دل کی مسلم مخالف سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔
حالات پر نظر رکھیے
آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک کے وگیان بھون والے بیان کی حقیقت تو جلد ہی کھل گئی۔ یہ ایک وقتی اور جذباتی پالیسی تھی جس پر سنگھ کے لیڈروں نے نظر ثانی کے بعد مسترد کردیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم کا مسلم یونیورسٹی والا بیان کیا رنگ لاتا ہے۔ اس پر کچھ عمل بھی ہوتا ہے یا یہ بھی ایک وقتی اور جذباتی بیان ثابت ہوتا ہے۔ سابق بیانات اور اعلانات کا جو حشر ہوا اس سے تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ یہ مثبت خیالات بھی محض زبانی جمع وخرچ ثابت ہوں گے، اس کے عملی مظاہر کبھی سامنے نہیں آئیں گے۔ عملی مظاہر یہ ہیں کہ سب سے پہلے یونیوسٹی کا اقلیتی کردار بحال کیا جائے، ان لوگوں کی ذہنیت بدلی جائے جو یونیورسٹی کے ممبر ہوتے ہوئے بھی اس کے خلاف بیانات دیتے ہیں، اس کی تباہی چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم نے علی گڑھ کے کردار، اس کی خدمات اور کارکردگی کا جو ذکر کیا ہے اسے اہل ملک کے سامنے سرکاری طور پر بھی آنا چاہیے۔ وزیر اعظم کے اِس بیان سے کوئی امید تو نہیں کی جاسکتی لیکن پھر بھی ہمیں توقع رکھنی چاہیے کہ وزیر اعظم کم از کم اپنے ان لوگوں کو قابومیں رکھنے کی کوشش کریں گے جو یونیورسٹی کے خلاف علانیہ سرگرم رہتے ہیں۔ یونیورسٹی کے جشن صد سالہ میں اس کے چانسلر سیدنا مفضل سیف الدین اور وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے بھی اظہار خیال کیا اور پُر امید باتیں کیں۔ امید رکھنی چاہیے کہ وہ بھی حالات پر مستقل نظر رکھیں گے اور وزیر اعظم کو وقتاً فوقتاً توجہ بھی دلاتے رہیں گے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 3 جنوری تا 9 جنوری 2021