خبر و نظر

یہ واقعہ یوپی کا ہے

پرواز رحمانی

 

۲۰۱۴ء میں جب مرکز میں بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد جب یو پی میں یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت بنی تو عام خیال تھا کہ جو کچھ مرکزی حکومت کر رہی ہے وہی سب ریاستی حکومت بھی کرے گی۔ جس طرح گجرات کے وزیر اعلی کو دہلی لایا گیا اُسی طرح اب اتر اکھنڈ کے یوگی کو اتر پردیش میں اپنے مزاج اور طور طریقوں سے کام کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ یوگی نے ہندو نوجوانوں کی ایک تنظیم پہلے ہی بنا رکھی تھی جو ہندتوا کے لیے علانیہ کام کرتی تھی۔ چنانچہ ہندو سنگھٹن کے کارکنوں کو ریاست کے مختلف شعبوں میں کام کرنے کا موقع دیا گیا ۔لیکن وہ اپنے ہاتھ پیر کچھ زیادہ ہی پھیلانے لگے۔ حتیٰ کہ سیاسی لیڈروں کے علاوہ وہ لینڈ مافیا اور سماج دشمن دبنگوں کے حلقوں میں بھی گھس گئے۔ یہی وجہ ہے کہ یوگی کی حکومت لا اینڈ آرڈر کے مسئلے میں بری طرح ناکام ثابت ہو رہی ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت تین جون کو کانپور کا واقعہ ہے جہاں پولیس نے بدنام زمانہ گینگسٹر وکاس دوبے کے مکان (اڈے) پر چھاپا مار کر اسے اور اس کے ساتھیوں کو مارنے یا زندہ پکڑنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ مگر ہوا یہ کہ تین پولیس تھانوں پر مشتمل پولیس کی بھاری نفری اعلیٰ پولس افسران کی نگرانی میں اس کے اڈے بکرو گاؤں پہنچی تو وکاس اور اس کے آدمیوں نے چشم زدن میں آٹھ پولیس والوں کو مار دیا اور بھاگ کھڑے ہوئے۔
بدمعاشوں کو خبر کیسے ہوئی
اب اس واقعے کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کہی جارہی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ریاستی حکومت اور اس کی پولیس ایک عرصے سے اِن بدمعاشوں کو پال رہی تھی۔ لوگ خود وزیر اعلیٰ کی طرف انگشت نمائی کر رہے ہیں۔ ریاستی حکومت اور پولیس انہیں بسا اوقات اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی تھی۔ واقعے کی تفصیل پر غور کیا جائے تو یہ قیاس آرائیاں درست معلوم ہوتی ہیں۔ وکاس دوبے کو پولیس چھاپے کی اطلاع مقامی پولیس تھانے سے ایک پولیس افسر نے دی تھی اس لیے یہ بدمعاش پوری طرح تیار تھے۔ وکاس نے اپنے کچھ ساتھیوں کو باہر سے بلالیا تھا جنہوں نے چھت پر اور ادھر ادھر پوزیشن سنبھالی تھی۔ جب پولیس مقام مطلوب پر پہنچی تو بدمعاشوں نے انہیں موٹر سائیکلوں سے اترنے کا موقع بھی نہیں دیا۔ بدمعاشوں میں سے نہ کوئی ہلاک ہوا نہ پکڑا گیا۔ آٹھ کے آٹھ پولیس والے ہی مارے گئے۔ بعد میں پولیس نے دو افراد کو مار ڈالا جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ وکاس دوبے کے رشتے دار تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ ریاستی حکومت اور وزیر اعلیٰ کے لیے شرمناک واقعہ ہے۔ ایک طرف تو ریاست کی ترقی اور بہتر امن و انتظام کے دعوے کیے جاتے ہیں اور دوسری طرف اندر کی حقیقت حال یہ ہے۔ عوام کا کوئی طبقہ مطمئن نہیں ہے سب پریشان ہیں۔
ایک دوسرے پہلو سے
اب ذرا اِس صورت حال کا جائزہ ایک اور پہلو سے لیا جائے۔ جس ریاستی حکومت کا کردار یہ ہو وہ عوام اور ان کے مختلف فرقوں کے ساتھ کیا انصاف کرتی ہوگی۔ سب جانتے ہیں کہ یوپی کے وزیر اعلیٰ ہندتوا کے آدمی ہیں۔ ان کے پاس سخت گیر ہند و نوجوانوں کا ایک سنگٹھن ہے۔ وکاس دوبے جیسے گینگ ان کی سرپرستی میں کام کرتے ہیں۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جب فرقہ واریت کا کھیل کھیلنا ہوتا ہے تو یہ لوگ کیا کچھ نہیں کرتے ہوں گے۔ دوبے جیسے لوگ تو صرف مال و دولت کے لیے لوٹ مار کرتے ہیں لیکن جب وزیر اعلیٰ کو ان سے فرقہ وارانہ فساد کے نام پر ایک خاص فرقے کے لوگوں کو مروانا ہو تو کیا وہ وزیر اعلیٰ کے لیے یہ کام نہیں کریں گے۔ پولیس ریاستی حکومت کے تابع ہوتی ہے لہذا جیسی حکومت ہوگی ویسی پولیس ہوگی۔دہلی میں پولیس ریاستی سرکار کے تابع نہیں ہے بلکہ براہ راست مرکز کے تابع ہے۔ یہاں کی پولیس جو کچھ کرتی ہے مرکزی ہوم منسٹری کے تحت کرتی ہے اور ہوم منسٹر ہیں امت شاہ جو کبھی شاہین باغ میں کرنٹ دوڑاتے ہیں، کبھی شمالی مغربی دہلی میں بدلے کی بات کرتے ہیں۔ آج کل شمالی مغربی دہلی کے فسادات کی چارج شیٹ دہلی پولیس پیش کر رہی ہے۔ اس کی تفصیلات پڑھیں، پوری بات سمجھ میں آ جائے گی۔

جس ریاستی حکومت کا کردار یہ ہو وہ عوام اور ان کے مختلف فرقوں کے ساتھ کیا انصاف کرتی ہوگی۔ سب جانتے ہیں کہ یوپی کے وزیر اعلیٰ ہندتوا کے آدمی ہیں۔ ان کے پاس سخت گیر ہند و نوجوانوں کا ایک سنگٹھن ہے۔ وکاس دوبے جیسے گینگ ان کی سرپرستی میں کام کرتے ہیں۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جب فرقہ واریت کا کھیل کھیلنا ہوتا ہے تو یہ لوگ کیا کچھ نہیں کرتے ہوں گے۔ دوبے جیسے لوگ تو صرف مال و دولت کے لیے لوٹ مار کرتے ہیں لیکن جب وزیر اعلیٰ کو ان سے فرقہ وارانہ فساد کے نام پر ایک خاص فرقے کے لوگوں کو مروانا ہو تو کیا وہ وزیر اعلیٰ کے لیے یہ کام نہیں کریں گے۔