خاندانی نظام پر مغرب کی یلغار‎ کے افسوسناک پہلو

گھروں کو داخلی انتشار اور آپسی ٹکراو سے بچانا وقت کی اہم ضرورت

بشریٰ ثبات روشن

 

کم و بیش ڈیڑھ سو سال کے وقفے میں دنیا کے سیاسی، جمہوری ومعاشی نظام پر مغرب نے مسلسل حملے کر کے جو کچھ حاصل کیا ہے اس سے مغربی تہذیب کے حوصلے کافی بلند ہیں۔ اس کا نتیجہ ہے کہ اپنی وقتی کامیابی کے بعد اب وہ اسلام کے خاندانی نظام پر حملہ آور ہو گیا ہے۔
‌اب تک دشمنان اسلام ہم پر، ہمارے خاندانی نظام پر چور دروازے سے حملہ آور تھے مگر اب یہ راست طور پر ہماری بقا، ہماری حیا اور ہماری حمیت کے اوپر حملہ آور ہیں۔ اس کے لیے دشمن نے بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ ہمارے نظامِ تعلیم کا سہارا لیا۔ ‌مغرب کے گھسے پٹے، فرسودہ اور الحاد پر مبنی نظام تعلیم کے ذریعے ہماری نوجوان نسلوں کے ذہن و دماغ کو بدلا گیا۔ اس نئے نظام تعلیم کے ذریعے ہماری نسلوں کو ان کی تہذیب و تمدن سے الگ کرنے کی کوشش کی گئی۔ ‌نتیجہ یہ ہوا کی تعلیم نبوی کی بجائے ڈاروِن اور کارل مارکس کی باتیں کرنے والے تعلیم یافتہ، مہذب اور متمدن قرار دیے گئے۔ لاکھوں عراقیوں کے قاتل ٹونی بلئیر کا وہ بیان یاد کیجیے جب اس سے کسی صحافی نے پوچھا تھا کہ اہنی ثقافت کو پوری دنیا میں پھیلانے کے لیے آپ کیا منصوبہ رکھتے ہیں تو اس نے کہا تھا: تعلیم ، تعلیم اورتعلیم‘‘۔
اب اگر ہم ہمارے تعلیمی اداروں کا جائزہ لیں تو ہمارا سر شرم سے جھک جائے گا کیونکہ ہماری تعلیم گاہوں میں تعلیم کے علاوہ باقی وہ سب چیزیں سکھائی جاتی ہیں جو اسلامی تہذیب کے خلاف ہوتی ہیں۔
مغرب نے فکری تعلیم کے نام پر فکری تخریب کا کام کیا جس سے بڑی آسانی کے ساتھ ہماری نسل نے روشن خیالی کے نام پر حیا سے سمجھوتہ کر لیا۔ ہمارے اندر حیا کا جو بنیادی تصور تھا اس کا پیمانہ بدل دیا گیا اس سے بھی مغرب کی بھوک نہیں مٹی تو اس نے فیشن انڈسٹری کا سہارا لیا۔اس سے دو کام مقصود تھے۔ پہلے نمبر پر انہوں نے عورتوں سے حیا کا زیور اتار دیا۔ دوسرے اپنی economy کو مضبوط کرنے کے لیے فیشن انڈسٹری کو قائم کیا۔
جب عثمانی سلطنت کا زوال ہوا تو اسی وقت سے فرنگی تہذیب کو اولیت دینی شروع کی گئی۔ سلطنت عثمانی کی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کس طرح سے ترک قوم کو ایک سو سال کے لیے مغلوب کر دیا گیا۔ تاریخ کا ہر صفحہ ان کی مکاریوں اور چالوں سے بھرا پڑا ہے۔ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کو اس لیے شکست ہوئی کہ بڑے بڑے کمانڈروں کی بیویاں یہودی یا پھر عیسائی تھیں جو پل پل کی جنگی خبریں اسرائیل کو پہنچایا کرتی تھیں لیکن آج تک عربوں کی آنکھیں نہیں کھلیں۔ مصر کا موجودہ ڈکٹیٹر عبدالفتاح السیسی یہودی ماں کا بیٹا ہے اس کا ماموں ایک عرصے تک اسرائیل کا وزیر تعلیم رہا۔ شاہ اردن کی بیوی بھی عیسائی ہے۔ مرحوم یاسر عرفات کی بیوی بھی عیسائی تھی۔ شادی کے بعد بھی اس نے نہ تو اپنا مذہب چھوڑا نہ ہی اپنے شوہر کے لیے وفادار ثابت ہوئی۔
یاد رکھیے! ہمارے خاندانی نظام کا بکھراؤ ان کے معاشی حالات کو بہتر بناتا ہے اور مغرب کی معیشت یہود کے قبضے میں ہے۔ وہ اس طرح کہ وہاں کی معیشت consumer based economy ہے، جتنے زیادہ صارف (consumer) ہوں گے اتنی زیادہ ان کی معیشت مضبوط ہوگی۔ جب ہم ایک کنزیومر سوسائٹی بنائیں گے، لوگ زیادہ سے زیادہ خرچ کریں گے تو لازمی طور پر فائدہ یہودیوں کا ہو گا۔
اب اگر ان کے بچھائے ہوئے جال کے مطابق گھر کا ہر فرد کمائے گا اور کمانے کی دوڑ میں ایک دوسرے کا مقابلہ ہوگا شوہر بھی کمائے گا بیوی بھی کمائے گی گھر میں آسائش آئے گی۔ دونوں کے ملازمت کے اوقات میں فرق ہو گا نتیجہ میں میاں بیوی میں فاصلہ بڑھے گا۔ دونوں ملازمت کے مسائل میں گھرے ہوئے گھر آئیں گے تو گھر کا ماحول خراب ہو گا۔ دونوں میں قربتیں نہیں ہوں گی، جس کی وجہ سے آبادی نہیں بڑھے گی۔ یوں ایک ایک کر کے صہیونی منصوبوں کی تکمیل ہو گی۔
ہمارے اور ان کے درمیان ایک اہم فرق اجتماعیت اور انفرادیت کا ہے۔ ہمارا طرز معاشرت اجتماعیت لیے ہوئے ہے اور اس خوبصورت نظام کو توڑنے کے لئے انہوں نے آزادی نسواں کا پر فریب نعرہ دیا۔جس آزادی کی وہ بات کرتے ہیں وہ عزتِ نسواں نہیں ذلتِ نسواں ہے، وہ جمالِ نسواں نہیں زوالِ نسواں ہے، وہ کمالِ نسواں نہیں توہینِ نسواں ہے، آزادی نسواں نہیں قیدِ نسواں ہے۔
خدارا مغرب کی اس یلغار کو روکیے۔ اگر ہم نے وقت رہتے اس کا تدارک نہ کیا تو یہ طوفانِ بلا خیز کل ہمارے دروازے پر بھی دستک دے گا۔

مغرب نے فکری تعلیم کے نام پر فکری تخریب کا کام کیا جس سے بڑی آسانی کے ساتھ ہماری نسل نے روشن خیالی کے نام پر حیا سے سمجھوتہ کر لیا۔ ہمارے اندر حیا کا جو بنیادی تصور تھا اس کا پیمانہ بدل دیا گیا اس سے بھی مغرب کی بھوک نہیں مٹی تو اس نے فیشن انڈسٹری کا سہارا لیا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 21 فروری تا 27 فروری 2021