حیدرآباد: روبن مکیش اور محمد عقیل کا سبق آموز واقعہ

ایک طرف محنت وجانفشانی تو دوسری طرف ہمدردی وغمگساری کی مثال

(دعو ت نیوز ڈیسک)

 

روبن مکیش کی دعوت نیوز سے خاص گفتگو۔ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ضرورت
انسانی زندگی کی تمام بہاریں جد وجہد اور محنت پر ہی منحصر ہوتی ہے۔ محنتی شخص کو معاشرے میں پسند بھی کیا جاتا ہے، خاص طور پر ایسے طلباء قابل ستائش ہوتے ہیں جو تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے کمانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ حال ہی میں جد وجہد کی سنگلاخ راہوں پر چلنے والے حیدرآباد کے محمد عقیل کو بھی سوشل میڈیا پر صارفین نے اپنی محبتوں سے نوازا۔ کیوں کہ انہیں آئی ٹی ملازم روبن مکیش جیسی شخصیت سے سابقہ پڑا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ14جون 2021 کو حیدرآباد کے کنگ کوٹھی میں رہنے والے رابن مکیش نے فوڈ ڈیلیوری ایپ زومیٹو (Zomato)سے ایک چائے آرڈر کیا تھا۔ محمد عقیل پہلے مہندی پٹنم سے لکڑی پل آیا اور چائے لیتے ہوئے تقریباً 20منٹ میں سائیکل کے ذریعے کنگ کوٹھی پہنچگیا۔ محمد عقیل اس قدر برق رفتاری کے ساتھ اپنے طئے شدہ وقت پر پہنچا کہ روبن مکیش حیران و ششدر رہ گئے۔ کیوں کہ عام طور سے زومیٹو ڈلیوری ایگزیکٹو بائیک سے گھروں میں کھانا وغیر پہنچاتے ہیں۔ روبن مکیش نے فوراً سائیکل کے ساتھ محمد عقیل کی تصویر لی اور فیس بک پر اپلوڈ کردی۔ فیس بک پر روبن مکیش نے لکھا کہ ’’میرا آرڈر محمد عقیل نے برق رفتاری کے ساتھ پہنچایا۔ وہ مہدی پٹنم میں تھا جب میرے آرڈر کی تصدیق نیلوفر کیفے، لکڑی پل نے کی۔ اور محمد عقیل نے سائیکل سے آرڈر کو کنگ کوٹھی تک پہنچایا۔ وہ انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ اگر آپ اسے دیکھتے ہیں تو براہ کرم ٹپ (Tip) کے ساتھ سخی بنیں۔ خیر میں نے چائے منگوائی تھی اور یہ بہت گرم ہے۔ خدا سلامت رکھے عقیل۔ آپ کی محنت ایک دن ضرور رنگ لائے گی‘‘۔
فیس بک پر محمد عقیل کی تصویر کے ساتھ یہ تحریر خوب عام ہوئی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے قریب 12گھنٹے میں 73,000ہزار روپے جمع ہو گئے۔ روبن مکیش نے محمد عقیل کے لیے 65 ہزار روپے کی لاگت سے ایک بائک خریدی اور باقی بچی رقم سے ہیلمٹ وغیر ہ مہیا کرایا۔ وہیں محمد عقیل کے کالج کی فیس جمع کرنے کی بات کہی گئی۔ محمد عقیل نے ایک نجی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بائک سے وہ اور زیادہ کما سکیں گے جس سے گھر کی حالت سدھارنے اور تعلیم حاصل کرنے میں مدد ہوگی۔ محمد عقیل خدا کا شکر بجا لاتے ہوئے لاتے ہوئے روبن مکیش کے بھی شکر گزار ہوئے۔
دعوت نیوز ڈیسک نے روبن مکیش سے اس حوالے سے خاص بات چیت کی۔ انہوں نے کہا کہ ’’جب میں نے عقیل سے اس کے بارے میں پوچھا کہ انہیں کس طرح کی مدد کی ضرورت ہے تو اس نے کہا کہ اگر میں اسے موٹرسائیکل مہیا کرا دوں تو یہ اس کے لیے کافی راحت کی بات ہو جائے گی۔ لہٰذا فوراً میں نے فنڈ ریزر (fundraiser) کی شروعات کی۔ صرف 12گھنٹوں میں مجموعی طور پر 73,000روپے اکٹھا ہو گئے اور عقیل کو ٹی وی ایس ایکسیل (TVS XL) موٹر سائیکل تحفے میں دی گئی۔ گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ عقیل بی ٹیک (BTech ) کا طالب علم ہے اور اس کی اجازت سے میں نے اس کی تصویر لی۔ بعد ازاں میں نے فیس میں فوڈ اینڈ ٹریول پیج (food and travel page) پر تصویر اپ لوڈ کی۔‘‘
دعوت نیوز سے خاص گفتگو میں روبن مکیش نے کہا کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی، الفت ومحبت اور آپسی بھائی چارہ کے لیے حیدرآباد بہت ہی اچھا مقام ہے جہاں نفرت وعداوت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی مذہب کا ماننے والا ایک انسان ہی ہوتا ہے۔ ہمیں ہمدرد وغمگسار بننے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ انسانیت وہمدردی سے ہی ملک میں امن وامان باقی رہ سکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ واقعہ ان لوگوں کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے جو صرف دھرم یا مذہب دیکھ کر ڈلیوری بوائے سے آرڈر نہیں لیتے۔ حال ہی میں حیدرآباد کے علی آباد علاقے میں اجے کمار نامی ایک شخص نے آن لائن فوڈ آرڈرنگ سویگی (swiggy) کے مسلم ڈیلیوری بوائے مدثر سے کھانا لینے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد مدثر نے پولیس میں شکایت درج کرائی تھی، وہیں سویگی نے جواب دیا تھا کہ ہم ہر طرح کے نظریات کی قدر کرتے ہیں۔ اس سے پہلے امت شکلا نامی ایک شخص نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر کے ذریعے زومیٹو سے شکایت کی کہ ’’میں نے ابھی ابھی زومیٹو پر آرڈر منسوخ کیا ہے کیونکہ ان کی طرف سے غیر ہندو ڈلیوری بوائے کو بھیجا گیا تھا‘‘۔ امت شکلا مدھیہ پردیش کے جبل پور کا رہنے والا ہے۔ امت شکلا کے ٹوئٹ پر فوڈ کمپنی زومیٹو نے بھی جو جواب دیا تھا اس نے سب کو لا جواب کر دیا تھا اور سوشل میڈیا پر بھی اسے خوب شیئر کیا گیا تھا۔ زومیٹو نے امت شکلا کو جواب دیتے ٹوئٹ کیا تھا کہ ’’کھانے کا کوئی مذہب نہیں ہوتا بلکہ وہ خود ایک مذہب ہے’’۔ اسی طرح ممبئی میں ایک ڈیلیوری بوائے سے ایک شخص نے صرف اس لیے سامان لینے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ وہ مسلم تھا۔ اس طرح اور بھی بے شمار واقعات ہیں جو ملک کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔
لیکن روبن مکیش اور محمد عقیل کے اس واقعے سے ملک میں ایک امید کی کرن جاگی ہے۔ اس واقعہ نے احساس دلایا ہے کہ آج بھی انسانیت زندہ ہے۔ بس اسے منظر عام پر لانے کی ضروت ہے۔اور محبت کے پیغام کو عام کرنے کے لیے سوشل میڈیا ایک موثر ترین ذریعہ ثابت ہوا ہے۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 جون تا 3 جولائی 2021