حضرت ابراہیم علیہ السلام ۔خلیلِ شرک شکن

دلائل کی قوت کے ساتھ توحید کی دعوت حضرت ابراہیم کی حقیقی سنّت

محی الدین غازی

 

ریختہ کی سائٹ پر خلیلِ بت شکن کے نام سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مختصر تعارف ان لفظوں میں دیکھا: ’’خلیل کےمعنی دوست کے آتے ہیں۔ قرآن میں خدا نے ابراہیم کو اپنا دوست بتایا ہے، اسی وجہ سے ابراہیم کو خلیل اللہ بھی کہا جاتا ہے۔ اسلامی روایت میں ابراہیم کی حیثیت ایک نہایت برگزیدہ نبی کی ہے۔ وہ اپنےعہد میں کی جانے والی بتوں کی پوجا سے بہت نالاں تھے اورصرف ایک خدا کی عبادت کی طرف دعوت دیتے تھے۔ ایک مرتبہ قومی تہوارکے موقعے پرجب ساری قوم میلے میں گئی ہوئی تھی انہوں نے بت خانے میں جاکر سارے بتوں کوتوڑ دیا۔ اسی مناسبت سے ابراہیم کا لقب خلیلِ بت شکن پڑا۔‘‘
یہ تعارف دل کو مطمئن نہیں کرسکا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے بت شکن کا لقب آپ کا ادھورا تعارف پیش کرتا ہے، دوسرے یہ کہ بت خانے میں جاکر سارے بتوں کو توڑ دینا ایک بڑے واقعہ کا حصہ ہے، اس حصے کو پورے واقعہ سے کاٹ کر پیش کرنے سے پوری بات سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک عالمی شہرت یافتہ باورچی کا تعارف آتش افروز سے کرایا جائے، محض اس لیے کہ وہ لذیذ ترین کھانے پکانے سے پہلے چولھے میں آگ جلاتا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب بت شکن کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، اور بت شکنی کو آپ کی سنت قرار دیا جاتا ہے اور آسمانی کتابوں میں آپ کے راستے پر چلنے کی زبردست ترغیب بھی ملتی ہے تو ان سب باتوں کا اثر آپ کے عقیدت مندوں کے اوپر یہی ہوسکتا ہے کہ وہ اسے سنت ابراہیمی سمجھ کر کسی بت خانے میں جاکر بت شکنی کی کارروائی انجام دیں۔
قرآن مجید میں ابراہیم علیہ السلام کو بت شکن کی حیثیت سے نہیں بلکہ شرک شکن کے طور پر پیش کیا گیا ہے، بت شکنی کے جذبے اور شرک شکنی کے جذبے میں بڑا فرق ہے۔ شرک شکنی کا جذبہ بہترین مصلح اور زبردست داعی تیار کرتا ہے، جو دلائل کی قوت سے شرک کے خلاف ایک معرکہ بپا کردیتا ہے، اور شرک کے اندھیرے میں بھٹکتے ہوئے انسانوں کو توحید کے اجالے میں لاتا ہے۔ جب کہ بت شکنی کا جذبہ داعی تیار نہیں کرتا ہے، وہ محض بے نتیجہ اور بے ثمر کارروائیاں کرواسکتا ہے، جن سے شرک میں گرفتار لوگوں کی ضد میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ اور بسا اوقات توحید اور ملت توحید کو ان حرکتوں سے شدید نقصان پہونچتا ہے۔ غرض شرک شکنی تو بت پرستی کا جڑ سے خاتمہ کردیتی ہے، مگر بت شکنی شرک کو ختم کرنے کا راستہ نہیں ہے۔ توحید کے علم بردار بتوں کے بجائے بت پرستی کو نشانہ بناتے ہیں۔ وہ خدائی کے دعوے دار حاکموں کا تخت الٹنے کے بجائے انسانوں کو غلام بنانے والے نظام حکومت سے انسانوں کے دلوں کو بیزار کرتے ہیں اور ان کے اندر حاکمیت الہ کا شعور جگاتے ہیں، تاکہ انسان اپنی آزادی اور اپنے رب کی بندگی کے لیے خود ہی آگے بڑھ کر سیاسی بت پرستی کا خاتمہ کردیں۔ وہ خود کو مالک حقیقی سمجھنے والے سرمایہ داروں کے خلاف عوام کو کھڑا کرنے کے بجائے سرمایہ داری کے ظلم کو اس طرح بے نقاب کرتے ہیں کہ سرمایہ داری اور مالکیت بشر کا جھوٹا سحر ٹوٹ جائے، اور مالکیت الہ اور اجتماعی عدل کی نئی مبارک سحر طلوع ہو۔
قرآن مجید شرک شکنی کو ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو بناکر پیش کرتا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام نے شرک کے خلاف کئی زبردست دلیلیں قائم کیں جو قیامت تک باقی رہیں گی۔
ابراہیم علیہ السلام نے بادشاہ کے ساتھ اس پر مباحثہ کیا کہ موت اور زندگی کا اختیار کس کے پاس ہے، اور ایک عظیم کائناتی دلیل کا حوالہ دے کر اسے نہ صرف لاجواب بلکہ مبہوت کردیا۔ جب خدائی کے دعوے دار بادشاہ نے کہا موت اور زندگی میرے اختیار میں ہے، تو ابراہیم علیہ السلام نے کہا اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تم اسے مغرب سے نکال کر دکھاؤ۔ اس مطالبے نے اللہ کی قدرت اور انسان کی بے بسی کو اس طرح ظاہر کیا کہ خدائی کا دعوی کرنے والا ہر انسان ہمیشہ کے لیے دلیل سے عاری ہوگیا۔
ابراہیم علیہ السلام نے تارے، چاند اور سورج کو باری باری میرا رب کہا، اور ڈوب جانے پر ان کے رب ہونے کا انکار کردیا، دلیل یہ دی کہ ڈوب جانے والا محبت وعبادت کے لائق نہیں ہوسکتا ہے۔ یہ واقعہ کب اور کس طرح پیش آیا، اس کے بارے میں جو کچھ بھی کہا جائے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ واقعہ ایک طاقت ور دلیل بن کر قیامت تک شرک کے سر پر ہتھوڑے برساتا رہے گا۔ یہ واقعہ کائنات کی بڑی سے بڑی شئے کو اللہ کے ساتھ شریک کرنے کے خلاف کھلی ہوئی دلیل ہے۔ اس دلیل کو جان لینے کے بعد خود تارے، چاند اور سورج اپنی روشنی اور چمک دمک سے اور اپنے طلوع وغروب سے شرک کے خلاف کھلی ہوئی روشن دلیل نظر آتے ہیں۔
ابراہیم علیہ السلام نے شرک کی ایک اور قسم کو دلیل کی ضرب سے پاش پاش کردیا۔ دنیا بھر میں انسان اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے بے جان بتوں کو پوجتے آئے ہیں، ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کو اس شرک کی نامعقولیت سے آگاہ کرنے کا منصوبہ بنایا، اور اپنی جان پر کھیلتے ہوئے شرک
کے خلاف ایک نہایت طاقت ور دلیل قائم کی، قرآن نے اس پورے واقعہ کو اس کی اصلی روح کے ساتھ محفوظ کردیا ہے۔ (دیکھیں: سورہ انبیاء 51-70)
یہ واقعہ صاف صاف بتاتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کو اس لیے نہیں توڑا تھا کہ وہ اس طرح بت شکنی کے جذبات کی تسکین چاہتے تھے، یا بتوں کو توڑنے کی کوئی سنت جاری کرنا چاہتے تھے، بلکہ حقیقت میں بتوں کو اس لیے توڑا تھا کہ وہ شرک کے خلاف ایک طاقت ور دلیل قائم کرنا چاہتے تھے، اس دلیل سے پہلے یہ ضروری تھا کہ شرک کی نامعقولیت کو اچھی طرح مختلف دلائل سے اچھی طرح سمجھادیں تاکہ اس عظیم دلیل کے لیے زمین ہموار ہوجائے۔ اس دلیل کا پہلا حصہ یہ تھا کہ چھوٹے بتوں کو توڑیں، اس دلیل کا دوسرا حصہ یہ تھا کہ بڑے بت کو باقی رکھیں، اس دلیل کا تیسرا حصہ یہ تھا کہ جائے وقوع سے فرار اختیار نہیں کریں، اس دلیل کا چوتھا حصہ یہ تھا کہ بڑے بت پر الزام دھر کر انھیں سوچنے پر مجبور کریں، اور اس دلیل کا پانچواں حصہ یہ تھا کہ انھیں ان کے شرک کی نامعقولیت کھول کھول کر بتائیں، اور اس دلیل کا چھٹا حصہ یہ تھا کہ اپنے موقف اور دلیل کی خاطر آگ کے الاؤ میں ڈالے جانے کو بھی قبول کرلیں۔ اللہ کی طرف سے اس دلیل پر عظمت کا تاج اس طرح رکھا گیا کہ اللہ نے انھیں آگ میں جلنے سے بچالیا۔ یہ صحیح ہے کہ گم راہی میں ڈوبی ہوئی اس بت پرست قوم نے ہٹ دھرمی کا راستہ اختیار کرتے ہوئے سورج سے زیادہ روشن اس دلیل کو بھی نہیں مانا اور دوبارہ بہت سے بت بنالیے، لیکن اس دلیل نے شرک کی بنیادیں ہلاکر رکھ دیں، اور یہ واقعہ ایک روشن برہان بن کر قیامت تک شرک وبت پرستی کو چیلنج کرتا رہے گا۔
غرض حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بتوں کو توڑنا شرک کے خلاف دلیل کا حصہ تھا، جس طرح ان کا سورج کو ھذا ربی ھذا اکبر کہنا شرک کے خلاف دلیل کا حصہ تھا۔ دونوں موقعوں پر ان کا اصل نشانہ شرک تھا۔ یہ دونوں ہی دلیلیں توحید کی دعوت دینے والوں کا قیمتی سرمایہ ہیں، اور ان کا حوالہ دینا ہی شرک کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ وہ عظیم ترین دلیلیں ہیں جو ایک بار قائم کردی جاتی ہیں تو ہر دور میں کام آتی ہیں، اور کبھی بوسیدہ نہیں ہوتی ہیں۔
شرک کے خلاف دلائل کی قوت کے ساتھ جنگ چھیڑے رکھنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حقیقی سنت ہے۔ شرک کی نوعیت کچھ بھی ہو، وہ عبادت وبندگی کا شرک ہو یا سیاسی ومعاشی بت پرستی ہو، وہ ابراہیمی دلیلوں کے سامنے نہیں ٹھیرسکتا ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے راستے پر چلنے والوں کے لیے یہی زیبا ہے کہ وہ شرک کی کسی صورت کو قبول نہ کریں، اور ہر طرح کے شرک کے خلاف دلائل سے اچھی طرح آراستہ ہوکر اٹھیں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ بت کی کوئی بھی شکل ہو، بت توڑے جانے سے نہیں ٹوٹتے ہیں، وہ حقیقت میں اسی وقت ٹوٹتے ہیں جب شرک ٹوٹتا ہے۔ اور جب شرک ٹوٹ جاتا ہے، تو بت اگر نہیں ٹوٹیں تو بھی وہ بت نہیں رہ جاتے ہیں۔
تارکِ آفل براهيمِ خليل
انبيا را نقش پاي او دليل

شرک شکنی تو بت پرستی کا جڑ سے خاتمہ کردیتی ہے، مگر بت شکنی شرک کو ختم کرنے کا راستہ نہیں ہے۔ توحید کے علم بردار بتوں کے بجائے بت پرستی کو نشانہ بناتے ہیں۔ وہ خدائی کے دعوے دار حاکموں کا تخت الٹنے کے بجائے انسانوں کو غلام بنانے والے نظام حکومت سے انسانوں کے دلوں کو بیزار کرتے ہیں اور ان کے اندر حاکمیت الہ کا شعور جگاتے ہیں، تاکہ انسان اپنی آزادی اور اپنے رب کی بندگی کے لیے خود ہی آگے بڑھ کر سیاسی بت پرستی کا خاتمہ کردیں۔ وہ خود کو مالک حقیقی سمجھنے والے سرمایہ داروں کے خلاف عوام کو کھڑا کرنے کے بجائے سرمایہ داری کے ظلم کو اس طرح بے نقاب کرتے ہیں کہ سرمایہ داری اور مالکیت بشر کا جھوٹا سحر ٹوٹ جائے، اور مالکیت الہ اور اجتماعی عدل کی نئی مبارک سحر طلوع ہو۔