جنوب کاحال: منگلورو میں جھوٹے الزامات میں پھنسے ملزمین بری

فائرنگ کی ایف آئی آردرج نہ کرنے پر عدالت کی برہمی

(دعوت نیوز نیٹ ورک)منگلورو میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف 19 دسمبر 2019 کو ہوئے احتجاج کے دوران پولیس کی جانب سے کی گئی لاٹھی چارج اور فائرنگ کے سلسلے میں کرناٹک ہائی کورٹ کی ڈویژن بنچ کے رکن جسٹس جان مائیکل نے ملزمان کی ضمانت کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کو اس معاملے میں ایف آئی درج کرنا چاہیے۔ اکیس گرفتار ملزمین جن پر احتجاج کے دوران تشدد برپا کرنے کے الزامات ہیں۔ عدالت میں 17 فروری کو بحث کرتے ہوئے ملزمین کے وکلاء نے یہ دلیل عدالت کے سامنے رکھی تھی کہ ’’پولیس نے جھوٹے الزامات لگا کر ان تمام لوگوں کو گرفتار کیا ہے لیکن تشدد میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت عدالت میں پیش نہیں کیا ہے جبکہ پولیس نے لاٹھی چارج اور فائرنگ کرتے ہوئے عوام پر ظلم ڈھایا ہے اس کے خلاف کوئی ایف آر آئی درج نہیں کی گئی ہے” اس نکتے کو عدالتی بنچ نے سنجیدگی سے لیتے ہوئے حکومت سے پوچھا تھا کہ ایف آر آئی داخل کیے جانے کے متعلق اس کے پاس کیا تفصیلات ہیں۔ دوسرے دن جب دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا تو سرکاری وکیل نے عدالت سے کہا اس معاملے سے متعلق تمام تفصیلات چوبیس فروری کو ڈویژن بنچ کے سامنے پیش کی جا سکیں گی اس لیے تب تک کی مہلت دی جائے۔ لیکن عدالت کے جسٹس جان مائیکل کو للیتا کماری نے اس معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قابلِ گرفت جرم میں ایف آئی آر درج کا اندراج ضروری ہے۔اس لیے فائرنگ میں ہلاک ہونے والے افراد کے ورثاء یا رشتے داروں کی طرف سے جو شکایت درج کروائی گئی ہے اس پر پولیس کو ایف آئی آر درج کرنا چاہیے۔ عدالت نے ملزمین کی ضمانت کی عرضی پر سماعت کے دوران یہ تبصرہ بھی کیا کہ پولیس نے جو تصاویر اور ویڈیو فوٹیج بطور ثبوت پیش کیے ہیں ان میں کہیں بھی ملزمین کے موجود ہونے کا ثبوت نہیں ملتا۔ اس کے علاوہ ان تصاویر اور فوٹیج میں مظاہرین کے پاس کوئی ہلاکت خیز ہتھیار ہونے کی بات بھی ثابت نہیں ہو رہی ہے سوائے ایک شخص کے جس کے ہاتھ میں بوتل دکھائی دے رہی ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی تصویر میں پولیس عملہ یا پولیس اسٹیشن دکھائی نہیں دے رہا ہے جبکہ درخواست گزاروں (ملزمین) کی طرف سے پیش کردہ تصویروں میں خود پولیس کی طرف سے عوام پر پتھراؤ کرنے کی شہادت مل رہی ہے۔ عدالت نے ملزمین کو دیگر شرائط کے ساتھ ایک لاکھ روپے فی کس اور اتنی ہی شخصی ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا۔ ضمانت منظور کرتے ہوئے عدالت نے واضح تبصرہ کیا کہ ”جو ریکارڈ یہاں موجود ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر جھوٹے ثبوت پیش کرکے درخواست گزاروں کی شخصی آزادی چھیننے کی کوشش کی گئی ہے۔ درخواست گزاروں کا کوئی سابقہ مجرمانہ ریکارڈ بھی نہیں ہے اور عائد کردہ الزامات جرائم کے ساتھ ان لوگوں کابراہ راست کوئی تعلق بھی نظر نہیں آرہا ہے۔“ عدالت نے یہ بھی کہا کہ چونکہ پولیس کے خلاف بھی شکایات درج کی گئی تھیں اس لیے پولیس کی طرف سے خود ساختہ مقدمات اور غلط طریقے سے لوگوں کو جرائم میں ملوث کرنے کے امکانات موجود ہیں۔
احتجاجاً اکاونٹ سےرقم نکالنے پر بینک افسران کو چھوٹے پسینے
این پی آر مخالف تحریک کے دوران تمل ناڈو میں انوکھا احتجاج
(دعوت نیوز نیٹ ورک)ریاست تامل ناڈو کے ضلع ناگاپٹنم کے سو سے زیادہ باشندوں نے قومی مردم شماری رجسٹر (این پی آر) پر پائی جانے والی الجھن کے دوران اپنی بچت کا ایک بڑا حصہ بینکوں سے واپس لے لیا ہے۔ ایک اسکول کیمپس میں مقامی جماعت کے انچارج نے بتایا کہ دیہاتیوں کو خوف ہے کہ شاید وہ اپنی محنت سے کمائی جانے والی رقم سے محروم ہوجائیں گے۔ انڈین اوورسیز بینک کے عملے کے ارکان نے مقامی لوگوں سے ملاقات کرتے ہوئے ان میں پائی جانے والی الجھن دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے انہیں بتایا ہے کہ این پی آر دستاویزات پیش کرنا لازمی نہیں ہے۔ تاہم این پی آر دستاویزات کے وائی سی کے لزوم پرالجھن اور گھبراہٹ کے شکار صارفین یقین کرنے سے گریزاں ہیں۔ واضح رہے کہ اس سے قبل کیلاپٹنم کے سینٹرل بینک آف انڈیا کے اس نوٹیفکیشن کے بعد جس میں صارفین کی ابتدائی معلومات کے اندراج کے لیے ’این پی آر دستاویزات کا لزوم قرار دینے کے بعد صارفین کی کثیر تعداد نے بینکوں میں جمع اپنی خطیر نقد رقم واپس لے لی تھی۔ اس کے بعد بینک نے ایک وضاحت جاری کی تھی کہ این پی آردستاویزات لازمی نہیں ہیں بلکہ یہ ایک اضافی دستاویز ہے۔ بینک کی جانب وضاحت جاری کرنے کے باوجود الجھن غالب رہی جس کے نتیجے میں ‘نقد رقم نکالنے کا عمل جاری رہا۔ بتایا جاتا ہے کہ کچھ لوگ این آر سی، این پی آر کے خلاف بطور احتجاج بھی بینکوں میں جمع اپنی پونجی نکال رہے ہیں۔