عالمی یوم خواتین! ایک دن کی سوغات نہیں ،عورتوں کو حقوق دیجیے

جاویدہ بیگم ورنگلی، حیدر آباد

یہ یوم خواتین اور پھر اسے اس نام سے عالمی سطح پر منانا! بات کچھ سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔ ہم ہر سال 15 اگست کو یوم آزادی مناتے ہیں کیونکہ 1947 کو اسی دن ہم نے مسلسل کوششوں اور بے انتہا قربانیوں کے نتیجے میں انگریزوں کی دو سو سالہ غلامی سے نجات حاصل کی تھی۔ اس لحاظ سے 15/اگست کا دن ہم ہندوستانیوں کے لیے یادگار دن ہے اس لیے 15 اگست کو ہم آزادی کا جشن مناتے ہیں۔ مگر یہ عالمی سطح پر یوم خواتین منانے کی بات کچھ سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔ عورت کی مظلومیت کی ایک طویل داستان رہی ہے۔ 1910 میں جرمنی کی ایک خاتون کلارا زیڈ نے خواتین کے حقوق کے سلسلے میں ایک تجویز پیش کی تھی کہ ہر سال ایک دن خصوصی طور پر ’’یوم خواتین‘‘ منایا جانا چاہیے۔ آٹھ ممالک کی سو خواتین نے اس تجویز کا خیر مقدم کیا چنانچہ 1911کو پہلا یوم خواتین منایا گیا۔ اس کے بعد دیگر ممالک میں بھی یوم خواتین منایا جانے لگا۔ یوم خواتین کا محرک در اصل عورتوں کا، مردوں کی جانب سے ان پر ہونے والے ظلم و استحصال کے خلاف آواز اٹھانا اور اپنے حقوق کے لیے لڑائی لڑنا تھا. اس کے نتیجے میں عورتوں نے کچھ حقوق حاصل بھی کیے جو ان کی جد وجہد کا ثمرہ تھا۔ اگر مغربی خواتین اپنی اس کامیابی کی خوشی میں ہر سال ایک خاص دن ’’یوم خواتین‘‘ کے طور پر مناتی ہیں تو یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کی تقلید کی جائے۔ اگر مغربی دنیا اس دن کے لیے 8 مارچ کی تاریخ طئے کرتی ہے تو ساری دنیا کی خواتین کے لیے بھی 8 مارچ کا دن ہی کیوں منتخب کیا گیا؟ جس وقت مغرب کی خواتین نے اپنے حقوق کے لیے لڑائی شروع کی تھی اس سے بہت پہلے مسلمان عورت کو وہ تمام حقوق بغیر کسی احتجاج و لڑائی کے حاصل ہو چکے تھے۔
مسلمان عورتوں کو وہ تمام حقوق اس کے خالق و مالک نے صدیوں پہلے عطا کر دیے ہیں جن کے بارے میں وہ آج بھی نہیں سوچ سکتی۔ وہ کسی مرد کی مرہونِ منت نہیں کہ جس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے اسے سال میں ایک مرتبہ دنیا بھر میں پروگرامس کرنا پڑے۔ بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضلِ خاص اور اس کی مہربانی ہے کہ اس نے عورتوں کو مَردوں کا ممنونِ احسان ہونے اور ان کی خودی کو مجروح ہونے سے بچالیا۔ اگر کوئی مَرد عورتوں کا حق غصب کرتا ہے تو وہ ظالم ہے۔ اور اگر کوئی خواتین کا حق تسلیم کرتا ہے تو وہ ان پر احسان نہیں کرتا بلکہ اپنے آپ پر احسان کرتا ہے کہ اس نے اپنے نفس کو آزمائش ڈالنے سے بچا لیا (کہ اگر عورت کے حقوق کی ادائیگی اس کی صوابدید پر رکھ دی جاتی تو وہ اس کو ادا نہ کرتا اور سزا پاتا)
قرآن مجید میں عورتوں کے حقوق اس قدر تفصیل اور وضاحت کے ساتھ بیان کر دیے گئے ہیں کہ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ اگر میں اسے خدا کی کتاب نہ سمجھتا تو کسی عورت کی تصنیف کردہ کتاب سمجھتا۔ مسلمان خواتین کے لیے یادگار دن تو وہ ہے جب قرآن کا نزول شروع ہوا۔ قرآن بھیجنے والے نے صاف صاف بتا دیا کہ تمام انسان ایک مرد آدم، اور ایک عورت حوا سے پیدا کیے گئے ہیں، یعنی عورت اور مرد کی اصل ایک ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے "لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے (النساء :1) دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے "اس نے تم میں ہی تمہارے جوڑے پیدا کیے اور جانوروں میں بھی جوڑے پیدا کیے (الشوری :11) جب پیدا کرنے والے ہی نے وضاحت سے بیان کر دیا ہے کہ تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور تم ہی میں تمہارے جوڑے پیدا کیے ہیں تو بحیثیتِ انسان مرد کی بڑائی اور عورت کی کمتری کا سوال ہی پیدا نہیں ہونا چاہیے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے آخرت کی جزا و سزا کے بارے میں وضاحت کر دی کہ’’میں تم میں سے کسی کا حق ضائع کرنے والا نہیں ہوں خواہ مرد ہو یا عورت تم سب ایک جنس ہو‘‘ (آل عمران 195) ’’ایمان لانے والے مرد اور ایمان لانے والی عورتیں ایک دوسرے کے معاون ہوتے ہیں وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ ادا کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں ان لوگوں پر اللہ ضرور رحم کرے گا‘‘ (توبہ 71) اللہ تعالیٰ نے اس ایک آیت میں مرد اور عورت کے درمیان بحیثیتِ انسان ہونے کے ہر طرح کے فرق و امتیاز کو مٹا دیا ہے۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہر دن احسان و اعتراف کا دن ہے اور ہر دن یومِ خواتین کہلائے جانے کے لائق ہے۔ دنیا کو یہ بتلانے کا دن ہے کہ اسلام نے عورت کو بحیثیتِ ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کے یہ اور یہ حقوق دیے ہیں۔ آج مادی ترقی کے عام ہونے کے نتیجے میں پروپیگنڈے کے وہ سارے وسائل ہم کو بھی حاصل ہیں جو دوسروں کو حاصل ہیں۔ لیکن اہل مغرب جس چابکدستی کے ساتھ اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں اور دنیا بھر میں پھیلا دیتے ہیں اس پھرتی سے ہم اس پروپیگنڈے کا جواب نہیں دے پاتے جس کی وجہ سے غیر مسلم نہیں جان پاتے کہ اسلام نے مسلمان خواتین کو کس قدر حقوق دیے ہیں۔ اس لیے وہ مسلمان خواتین کو خود کی خواتین کی طرح مظلوم و مقہور سمجھ کر ان کو حقوق دینے کی بات کرتے ہیں جس سے دنیا بھی یہ سمجھنے لگی ہے کہ مسلمان عورت بھی اپنے حقوق سے محروم ہے۔ حالانکہ اہل مغرب عورت کو حق دینے کے نام پر اس کا اصل حق (حقِ نسوانیت) چھین رہے ہیں۔ اس کی پہچان ختم کر رہے ہیں اس کی شخصیت کی نفی کررہے ہیں اور اس پر دوہرا (کمر توڑ) بوجھ ڈال رہے ہیں۔
اس نام نہاد عالمی یوم خواتین پر سنجیدگی سے غور کریں تو اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس کے پیچھے در اصل مرد کی برتری والی نفسیات ہیں۔ وہ بظاہر تو خواتین میں حقوق کو تقسیم کر رہا ہے لیکن در اصل وہ ان کے حقوق کو غصب کر رہا ہے۔
ادھر مساواتِ مرد وزن کے پُرجوش نعروں سے مغربی عورت اس طرح ہوش و حواس کھو بیٹھی ہے کہ وہ اپنی ذلت کو محسوس ہی نہیں کر پا رہی ہے۔ وہ عزت و ذلت کے فرق سے محروم ہو چکی ہے وہ آزادی کے نام پر دیے گئے بھیک کے چند ٹکڑوں کو اپنا سب کچھ سمجھ رہی ہے۔ اس کو سوچنا چاہیے کہ اس نے اپنی اصل متاع (عفت و عصمت) کو کھو کر اگر کچھ بظاہر خوشنما نظر آنے والی خوشیوں کو پایا تو کیا پایا؟ مغرب میں عورت کو جو آزادی حاصل ہے وہ بے لگام آزادی ہے اور یہ یومِ خواتین در اصل اسی بے لگام آزادی کا نشان ہے نہ کہ حقیقی آزادی کا؟