مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے رفیق کار

شعبہ خواتین، جماعت اسلامی ہند کا سب سے منظم و اہم کیڈر

سفیر صدیقی

خدا کے دین میں مردوں اور عورتوں کو ان کے دائرہ کار میں مساوی حقوق حاصل ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی مذہبی، سیاسی، تہذیبی یا اخلاقی تحریک کی کامیابی کے پیچھے خواتین کا اہم کردار رہا ہے۔ اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ خواتین نے دعوتِ دین کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ نبی رحمت حضرت محمد ﷺ پر اولین ایمان لانے والوں سے لے کر اسلام کے لیے پہلی شہادت کا فخر بھی خواتین کو ہی حاصل ہے۔
ہندوستان میں اس وقت مسلمانوں کی مختلف چھوٹی بڑی سیاسی و غیر سیاسی تنظیمیں سرگرم عمل ہیں، لیکن چند ایک کو چھوڑ کر ان میں خواتین کی نمائندگی یا تو ہے ہی نہیں یا نہیں کے برابر ہے۔ وہ چند سنجیدہ اور بڑی تنظیمیں جن میں خواتین کو اہم مقام حاصل ہے اور جو خواتین کی حصے داری اور سرگرمیوں کے تعلق سے سنجیدہ ہیں ان میں جماعت اسلامی ہند سب سے اہم اور ممتاز شناخت کی حامل ہے۔
تقسیم ہند کے بعد قائم ہونے والی ملی جماعتوں میں جماعت اسلامی ہند قدیم اور ملک گیر جماعت ہے۔ جماعت کے اندر شورائی مزاج ہونے کی وجہ سے اسے ہندوستان کی واحد ایسی جماعت کہا جا سکتا ہے جو مکمل طور پر جمہوری ہے۔ جماعت میں خواتین کو بھی ان کے دائرہ کار میں مکمل آزادی اور نمائندگی دی گئی ہے۔
یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ ہندوستان میں جماعت اسلامی ہند کا شعبۂ خواتین قومی سطح پر خواتین کا سب سےبڑا اور منظم شعبہ ہے۔ جماعت اسلامی کے قیام کے ساتھ 1956 میں اس کا دستور بناتے وقت اس بات کا خیال رکھا گیا تھا کہ جماعت کی رکنیت کے لیے مرد و خواتین میں کوئی امتیاز نہ ہو۔
چنانچہ جماعت اسلامی ہند کی تشکیل کے ابتدائی دور ہی سے خواتین بھی اس کی باقاعدہ رکن بنتی رہیں اور اپنے دائرہ کار میں مختلف کام انجام دیتی رہیں۔ خواتین کا یہ کام مختلف ریاستوں میں خواتین کی ریاستی سطح کی زیر قیادت انجام پاتارہا۔ اسی دوران جماعت کے حلقوں میں یہ بھی احساس ہونے لگا کہ مرکزی سطح پر بھی ان کی ایک قیادت ہونی چاہیے اور مختلف مجالس میں ان کو نمائندگی حاصل ہو۔ چنانچہ خواتین کی نمائندگی اور ان کی نمایاں شرکت کے لیے پہلے مرکزی سطح پر ایک کمیٹی بنائی گئی تھی جس کی کنوینر آندھرا پردیش کی محترمہ ناصرہ خانم صاحبہ تھیں۔ خواتین کے امور اور مختلف پروگرام ان کی سرپرستی میں اس کمیٹی کے زیر اہتمام انجام پاتے تھے۔ اسی دوران جماعت اسلامی ہند نے ایک انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے اپنے دستور میں ایک تبدیلی کی اور اس کی سب سے اعلٰی ترین فیصلہ ساز مجلس میں خواتین کو بھی متناسب نمائندگی دینے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ اس وقت جماعت کی مجلس نمائندگان میں خواتین کی نمائندگی تقریباً 15 فیصد ہے۔
2007 میں جماعت نے مرکزی سطح پر بھی باضابطہ ایک شعبۂ خواتین قائم کیا جس کی مرکزی سکریٹری اس وقت مہاراشٹر کے ناندیڑ کی اردو و عربی سے پوسٹ گریجویٹ عطیہ صدیقہ صاحبہ ہیں، جو 2007 سے تا حال اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی نبھا رہی ہیں۔ ان کے ساتھ کیرالہ کی رحمت النسا صاحبہ بھی معاون سکریٹری کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ واضح رہے کہ قومی سطح پر جماعت کے تمام ۱۹ ریاستی حلقوں میں باضابطہ شعبۂ خواتین پہلے ہی سے قائم تھے اور ریاستی سطح پر ہر حلقے کے لیے ایک ناظمہ تقرر عمل میں لایا جاتا تھا جن کی نگرانی میں چار سالہ منصوبہ تیار کر کے ان کے مطابق خواتین سے متعلق مختلف سرگرمیاں انجام پاتی ہیں۔ جماعت کا شعبۂ خواتین مرکزی سطح پر امیر جماعت اور حلقے کی سطح پر امیرِ حلقہ کی سرپرستی میں کام کرتا ہے۔ کیرالہ، تلنگانہ، مہاراشٹرا اور کرناٹک وغیرہ جیسی ریاستوں میں خواتین کی سرگرمیاں کافی وسیع اور موثر ہیں۔
اسی دہے کے اوائل میں جس وقت جماعت اسلامی ہند کی طلباء تنظیم ایس آئی او کا قیام عمل میں آیا، تب طالبات کی تنظیم کا بھی خیال ابھرا۔ اس وقت تقریباً 11 ریاستوں میں جی آئی او (گرلس اسلامک آرگنائزیشن) کے نام سے طالبات کی تنظیم سرگرم عمل ہے اور طالبات کی مناسب نمائندگی کر رہی ہے۔ جماعت کے مرکزی شعبۂ خواتین کی سکریٹری عطیہ صدیقہ صاحبہ بھی 2000 سے 2007 تک حلقہ مہاراشٹر کے جی آئی او کی ناظمہ رہ چکی تھیں۔
کسی بھی صاحبِ نظر کے لیے ان حقائق کی روشنی میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جماعت اسلامی ہند واحد ایسی ملی تنظیم ہے جس میں خواتین اپنے دائرہ کار میں مکمل نمائندگی کرتی ہیں اور جماعت کے اہم جز کے طور پر سرگرم عمل ہیں۔
جماعت کے شعبۂ خواتین میں تقریباً ہر طرح کے مذہبی، سماجی اور رفاہی پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ چار سالہ منصوبے کے تحت بہت سی سرگرمیاں انجام دی جاتی ہیں، جن میں خواتین کے منصوبوں پر نظر رکھنا، جائزہ اور تربیتی نشستوں کا انعقاد، تنظیمی اجتماعات کا انعقاد، سہ ماہی رپورٹوں کے ذریعے اپنی سرگرمیوں کا جائزہ لینا اور لائحۂ عمل تیار کرنا، ریاستوں کے دورے کر کے ریاستی و علاقائی ذمہ داران کی تربیت کرنا، طالبات کی تنظیم جی آئی او کا قیام، وطنی بہنوں میں اسلام کی دعوت کا کام کرنا، سماج کے مشترکہ مسائل کے حل لیے کوشاں رہنا شامل ہیں۔ ان کے علاوہ اصلاح معاشرہ کے تحت شادی سے قبل مسلم لڑکیوں کو اسلامی مسائل و تعلیمات سے واقفیت اور شادی کے بعد تنازعات کو حل کرنے کے لیے کاؤنسلنگ سینٹر وغیرہ کا قیام بھی شعبۂ خواتین انجام دیتا ہے۔ ان کے علاوہ بھی الگ الگ مواقع پر گوناگوں تربیتی، سماجی اور اصلاحی پروگراموں کا انعقاد ہوتا رہتا ہے۔
جماعت کی کوشش ہے کہ خواتین میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان کے صحیح مقام و مرتبہ کا شعور پیدا ہو اور وہ اپنے حقوق کا استعمال کرتے ہوئے گھر، معاشرہ اور ملک و ملت کے لیے اہم کردار ادا کریں۔ جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر انجینئر محمد سلیم کے بقول جماعت اسلامی ہند پورے معاشرے میں انقلاب لانا چاہتی ہے اور وہ انقلاب خواتین کو ساتھ لیے بغیر اور ان کے فعال کردار کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اور خواتین کو ان کے دائرۂ کار میں مکمل آزادی اور نمائندگی دی جانی چاہیے کہ قرآن میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے کہ مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں، نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔
*