قرآن مجید کےعربی سے دیگرزبانوں میں تراجم و تفاسیر

خواتین کے ذریعے کیے گئے تراجم و تفاسیر قرآن کا ایک مختصر تعارف

مجتبیٰ فاروق،حیدرآباد

خواتین نے عربی زبان میں تفاسیر قرآن کے تعلق سے قابل رشک کام کیا ہے ۔اس سلسلے میں ہاشم صبری کا نام لیا جاسکتا ہے۔ وہ ایک عظیم عالمہ ہیں اور فلسطین سے تعلق ل رکھتی ہیں۔ انھوں نے”المبصر لنور القرآن” کے عنوان سے ایک ضخیم تفسیر لکھی ہے۔ یہ تفسیر سولہ جلدوں پر مشتمل ہے۔ یہ تفسیر بالماثور کے طرز پر لکھی گئی تفسیر ہے۔ تفسیرِ قرآن کے تعلق سے ماجدہ الفارس الشمری بھی ایک معروف نام ہے۔ انھوں نے قرآن کی تفسیر پر مفصل کام کیا ہے۔ ان کی تفسیر کا نام "التوضیح و البیان فی تفسیر القرآن” ہے۔ اس سلسلے میں فاطمہ کریمان حمزہ بھی ایک معروف نام ہے جنھوں نے سورۃ الکہف کی مفصل تفسیر لکھی ہے۔ زینب الغزالی ہر دلعزیز داعیہ تھیں۔ ان کو قدیم و جدید علم میں کافی دسترس حاصل تھی۔ وہ دور طالب علمی ہی سے طالبات اور خواتین میں پرجوش اور خطیبہ بے باک عالمہ کی حیثیت سے مشہور تھیں۔ وہ خواتین کی مختلف تنظیموں سے بھی وابستہ رہیں۔ انھوں نے ۱۹۳۷ء میں خواتین کی ایک تنظیم کی بنا ڈالی جس کو بعد میں انھوں نے شیخ حسن البناء شہید کے کہنے پر اخوان میں ضم کر دی۔ زینب الغزالی قرآنی آیتوں کی عملی تفسیر تھیں۔ وہ ایک بہترین مصنفہ اور قرآنیات کی ماہرہ بھی تھیں۔انھوں نے قرآن کی تفسیر بھی لکھی جس کا نام "نظرات فی کتاب اللہ” ہے۔ یہ دو جلدوں پر مشتمل ہے۔باس تفسیر میں انھوں سلف کا منہج اختیار کیا ہے اور کئی اہم قدیم تفاسیر سے استفادہ کیا جن میں تفسیر قرطبی، تفسیر ابن کثیر اور کشاف قابل ذکر ہیں۔ یہ تفسیر ماثور کے طرز پر لکھی گئی ہے۔ اس میں آیتوں کی تعبیر وتشریح حالات حاضرہ اور جدید افکار کو مد نظر رکھ کر کی گئی ہے۔ اس تفسیر میں دعوت کا پہلو غالب ہے۔ ڈاکٹر عائشہ بنت عبد الرحمٰن الشاطبی بھی ایک معروف نام ہے۔ انہیں قرآنیات سے بے حد لگاؤ تھا اور اس فیلڈ میں انھوں نے تین درجن سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔ علوم القرآن پر ان کی دو کتابیں مشور ہیں ایک نام "التفسیر البیانی للقرآن الکریم” اور دوسری کتاب کا نام "الاعجاز البیانی للقرآن الکریم” ہے اور ان کی تیسری کتاب کا نام "القرآن و قضایا الانسان” ہے۔ انہیں تصانیف کی بنیاد پر شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کے علاوہ خواتین نے عربی زبان میں علوم القرآن اور تفاسیر پر بھی قابل ذکر کام کیا ہے جو ہنوز جاری ہے۔
خواتین کے اردو تراجم و تفاسیرِ قرآن
اردو زبان اسلامی لٹریچر سے مالا مال ہے۔ اردو زبان میں علوم اسلامیہ کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ اس میں جہاں مردوں نے کام کیا ہے وہیں خواتین نے بھی دلچسپی دکھائی۔ قرآنیات پر کئی خواتین نے عمدہ علمی کام کیا ہے۔ سب سے پہلے محمود النساء بیگم کا نام لیا جاسکتا ہے۔ وہ حیدر آباد دکن کے ایک علمی گھرانے میں 1898ء میں پیدا ہوئیں۔ ان کا قرآن فہمی کا ذوق نہایت عمدہ تھا۔بان کا شمار اردو زبان کے اولین مفسراتِ قرآن میں ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی اشاعت میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ موصوفہ نے قرآن مجید کا ترجمہ وتفسیر لکھی ہے اور اس کا نام تفسیر قرآن مجید مع ترجمہ احکام قرآن بہ اردو رکھا ہے۔ اس ترجمہ اور تفسیر کی خاص بات یہ ہے کہ یہ کسی خاتون کی طرف سے سب سے پہلا مکمل ترجمہ و تفسیر ہے۔ اس تفسیر کو اب مولانا سراج الہدیٰ ازہری نے ایڈیٹ کر کے دو جلدوں میں شائع کیا ہے۔ ایک اور مایہ ناز مترجمہ و مفسرہ کرناٹک کی ثریا شحنہ ہیں۔ وہ 1941ء میں پیدا ہوئیں اور الحمد للہ با حیات ہیں۔ انھوں نے قرآن مجید کا عام فہم ترجمہ و تفسیر لکھا ہے اور اس تفسیر کا نام تبیین القرآن فی تفسیر القرآن ہے۔ سرورق پر اس تفسیر کا تعارف اس طرح کیا گیا ہے: یہ تفسیر قرآن کریم کا لفظ بہ لفظ آسان اردو ترجمہ اور آیات کی تفسیر احادیث مبارکہ سے۔ ایک اور مایہ ناز داعیہ اور عالمہ پروفیسر نگہت ہاشمی کا نام اس مبارک فہرست میں شامل ہے۔ نگہت ہاشمی 1960ء میں سرگودھا پنجاب میں ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے عربی، اسلامیات اور ایجوکیشن میں ایم ۔اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ اور ایم فل بھی کر رکھا ہے۔ انھوں نے 1996ء میں ایک عالمی ادارہ النور انٹرنیشنل قائم کیا جس میں خواتین کو اسلامی و عصری علوم سے باخبر کرانے کے لیے مختلف کورسس متعارف کرائے گئے۔ انھوں نے قرآن مجید کی مکمل تفسیر بھی لکھی جس سے خواتین برابر مستفید ہو رہی ہیں۔ اس ترجمہ و تفسیر کا نام قرآن مجید کا ترجمہ وتفسیر ہے اور الگ الگ پاروں پر مشتمل تیس اجزاء میں شائع کیا گیا ہے۔ اس کا اسلوب نہایت آسان اور دل کو چھو لینے ولا ہے۔ فرحت ہاشمی بھی تفسیر پر کام کر رہی ہیں۔ ترجم و تفاسیر کے معاملے میں پرفیسر فریدہ خانم کا بھی اہم رول ہے۔ فریدہ خانم 1952ء میں اعظم گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے خود کوئی ترجمہ یاتفسیر نہیں لکھا بلکہ اپنے والد مولانا وحید الدین خان کے ترجمہ وتفسیر تذکیرالقرآن کو انگریزی زبان میں منتقل کیا ہے۔ اس انگریزی ترجمہ کی زبان بہت آسان ہے۔ ان کے علاوہ بھی کئی خواتین نے اردو زبان میں جزوی ترجمے و تفاسیر لکھی ہیں۔ حیدر آباد کی ایک خاتون (اس وقت ذہن میں نام مستحضر نہیں ہے) نے کئی اجزاء میں قرآن مجدید کا ترجمہ تفسیر لکھا ہے۔موصوفہ نے تفہیم القرآن اور تدبر قرآن سے استفادہ کرتے ہوئے اس کو کئی اجزاء میں شائع کیا ہے۔ تراجم و تفاسیرِ قرآن کے سلسلے میں خواتین کا کام جاری ہے۔ الحمد اللہ
اردو زبان میں کسی خاتون کا سب سے پہلا مکمل ترجمہ وتفسیر قرآن
اردو زبان اسلامی لٹریچر خاص کر تراجم قرآن و تفاسیر سے مالا مال ہے۔ اردو زبان میں علوم اسلامیہ کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ اس میدان میں جہاں مردوں نے کام کیا ہے وہیں خواتین نے بھی دلچسپی دکھائی ہے۔ قرآنیات پر کئی خواتین نے عمدہ علمی کام کیا ہے۔ برصغیر کی حد تک سب سے پہلے محمود النساء بیگم کا نام لیا جا سکتا ہے۔ محمود النساء بیگم ایک باصلاحیت اور نہایت متقی خاتون تھیں۔ وہ حیدر آباد دکن کے ایک علمی گھرانے میں 1898ء میں پیدا ہوئیں اور 1965ء میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کا قرآن فہمی کا ذوق نہایت عمدہ تھا۔ وہ بچپن ہی سے ذہین تھیں۔ انہیں کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا جن میں عربی، فارسی، اردو اور انگریزی قابل ذکر ہیں۔ علوم اسلامیہ پر ان کا مطالعہ کافی وسیع تھا۔ ان کا شمار اردو زبان کے اولین مفسراتِ قرآن میں ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی اشاعت میں انھوں نےاہم کردار ادا کیا ہے۔ موصوفہ نے جو قرآن مجید کا ترجمہ وتفسیر لکھا ہے اس کا نام تفسیر قرآن مجیدمع ترجمہ، احکام قرآن بہ اردو رکھا ہے۔ بعد میں اس کو اور آسان کر کے اس کا نام آسان ترجمہ و تفسیر قرآن مجید رکھا گیا ہے۔ انھوں نے اس ترجمہ اور تفسیر میں صرف اپنی صلاحیتوں پر اعتماد نہیں کیا بلکہ شاہ عبدالقادر کے موضح القرآن اور مولانا محمود الحسن کے ترجمے سے بھی بھر پور استفادہ کیا ہے۔ اس ترجمہ اور تفسیر کی خاص بات یہ ہے یہ کسی خاتون کی طرف سے سب سے پہلا مکمل ترجمہ و تفسیر ہے۔ اس کے سرورق پر اس کا تعارف اس طرح کرایا گیا "قرآن مجید کا ایک ایسا مکمل ترجمہ و تفسیر جسے دنیا کے کتب خانوں میں خواتین کے قلم سے تراجم و تفاسیر میں اولیت حاصل ہے۔ غالباً مؤلفہ کی عزلت پسندی اور گمنامی اور شہرت سے دور رہنے کے جذبے نے اسے تاریخ کے سرد خانے میں ڈال دیا تھا لیکن اب تحقیق و تعلیق کے ساتھ تقریباً آٹھ دہائی کے بعد طبع دوم کے ساتھ اسے پیش کیا جا رہا ہے جو عام فہم انداز آسان ترجمہ، مختصر تفسیر اور معتبر روایات کا حسین مرقع ہے۔ اس تفسیر کو چار سال قبل مولانا سراج الہدیٰ ندوی ازہری نے انتہائی خلوص اور عرق ریزی کے ساتھ ایڈیٹ کرکے دو جلدوں میں شائع کیا تھا۔ اس ترجمہ و تفسیر کو کئی مستند علماء نے سراہا ہے جن میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، سعید الرحٰمن اعظمی، مولانا رابع حسنی ندوی اور مولانا سالم قاسمی قابل ذکر ہیں۔
محمود النساء بیگم صاحبہ نے اس تفسیر کے تمہید میں اس کی غرض وغایت اور اس کی ضرورت کے بارے میں لکھا ہے کہ "اس کے لکھنے کی یہ غایت یہ ہوئی کہ جو لوگ قرآن نہیں پڑھائے گئے ہیں یا نہیں پڑھ سکتے مگر اردو میں خاصی مہارت رکھتے ہیں وہ کم از کم اپنی مادری زبان ہی میں پڑھ کر واقف ہوسکیں کہ کلام الٰہی میں ہمارے لیے کیا احکام آئے ہیں”
کسی خاتون کی طرف سے اس طرح کا مستند ترجمہ و تفسیر منصئہ شہود پر آنا واقعی ایک بڑا کارنامہ ہے امید ہے یہ مبارک سلسلہ جاری رہے گا۔
انگریزی تراجم قرآن مجید اور خواتین
قرآن مجید کے تراجم و تفاسیر کا کام جہاں مردوں نے انجام دیا وہیں خواتین بھی اس میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ دور حاضر میں خواتین نے قرآن مجید کےتراجم نگاری پر اچھا خاصا کام کیا ہے جس کو متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ اس تعلق سے انگریزی اور اردو میں خواتین نے سب سے زیادہ تراجم کا کام انجام دیا ہے۔ انگریزی زبان میں پانچ سے زائد مکمل تراجم و تفاسیر موجود ہیں جو خواتین نے انجام دیے ہیں۔ سب سے پہلے امریکہ کی ایک نو مسلمہ ام محمد نے The Arabic Text with Corresponding English Meaning ” کے عنوان سے قرآن کا ترجمہ اور اس کی تفسیر لکھی ہے۔ قرآن مجید کا دوسرا ترجمہ ایک اور نو مسلمہ نے انجام دیا اور ان کا نام کیمائل اڈمس ہلمنسکی (Camile Adams Helminski) ہے۔ ان کے ترجمے کانام Daily Readings fom the Holly Quran ہے۔ قرآن مجید کا ایک اور ترجمہ ایران کی طاہرہ سفر زادہ نے کیا اور ان کے ترجمے کا نام The Holly Quran : Translation with Commentary ہے۔ امریکی بیسڈ لیلیٰ بختیار نے بھی قرآن مجید کا ترجمہ کیا ہے اور ان کے ترجمے کا نام The Sublime Quran ہے یہ ترجمہ 2007 میں شائع ہوا۔ لیکن یہ ترجمہ فکری لحاظ سے مغالطہ آمیز ہے اور اس میں بہت سے مقام پر مترجمہ نے غلطیاں کی ہیں۔ یہ ترجمہ آزادی نسواں کا نمائندہ ترجمہ ہے۔ خواتین نے قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر مردوں کے ساتھ مل کر بھی کیا ہے جس کو Rim Hassen نے Team work Translations کی اصطلاح استعمال کی۔ اس کی ایک مثال دینا الزہرہ زیدان کی ہے۔ انھوں نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر قرآن مجید کا ترجمہ کیا ہے اس ترجمے کا نام The Glorious Quran:Text and Translstion ہے ۔Team work Translation کی ایک اور مثال سمیرہ احمد کی ہے انھوں نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر The Quran : Complete Dictionary and literal Translation کے عنوان سے کیا ہے ۔عبدالحق اور عائشہ بولی کا ترجمہ بھی اس کٹیگیری میں شامل ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس رفتار سے قرآن مجید کے ترجمہ نگاری کا کام ہو رہا ہے
روسی زبان میں ترجمہ
روسی مترجمہ قرآن ایمان ولیریا ایمان ولیریا ( Valeria Iman Porokhova) روس کے ایک مشہور شہر سارکیو سلو میں 1940ء میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نےPedagogical Institute of Foreign anguages سے گریجویشن کیا۔ اس کے بعد انہوں نے شعبہ زبان و ادب میں 18سال تک لکچرر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔روسی زبان و ادب پر انہیں کافی عبور حاصل تھا۔وہ ایک عیسائی آرتھوڈوکس تھیں لیکن بعد میں انہوں نے اسلام قبول کیا۔ انھوں نے سیریا کے ایک مسلم اسکالر سے شادی کی۔ اس کے بعد 1985ء میں انہوں نے دمشق کی طرف ہجرت کی جہاں سے انھوں نے قرآن مجید کا روسی زبان میں ترجمہ کرنا شروع کیا اور یہ ترجمہ موصوفہ نے 1991ء میں پایہ تکمیل تک پہنچایا. سب سے اہم بات یہ ہے کہ قرآن مجید کا یہ ترجمہ انھوں نے کئی اسلامی اسکالرس کی سرپرستی میں کیا. اسی لیے اس ترجمے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ روسی زبان میں معیاری ترجمہ ہے اور یہ شاعری کے اسلوب میں کیا گیا ہے۔ ایمان ولیریا نے اس ترجمہ کو اسلامی اکیڈمی الازہر کو ریویو کرنے کے لیے بھی دیا تھا۔ انھوں نے قرآن سے محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ When I read the Quran, I felt in love with it, which made me translate it into Russian”.روسی زبان میں سب سے پہلا ترجمہ 1976ء میں Petter The Great کی سرپستی میں "Alkoran about Magomet, or the aw Turkish” کے عنوان سے کیا گیا۔ اسے عیسائیوں نے اپنے مقصد کے لیے کیا تھا۔ بعد میں اچھے تراجم بھی کیے گئے۔ روسی زبان میں اب تک تقریباً اٹھارہ سے زائد تراجم ہوچکے ہیں اور ایمان ولیریا کا ترجمہ بھی اس میں ایک اہم اضافہ ہے۔ اس کے اب تک بارہ ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں.
*
(مضمون نگار اسلامک اسٹیڈیز کے ریسرچ اسکالر ہیں)