جانوروں کی قربانی پر اعتراض لیکن بیف ایکسپورٹ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ؟

کاروباریوں سے کروڑہا روپے کےچندوں کی وصولی۔بھارت بیف برآمد کرنے والا 5 واں بڑا ملک

A Dawat Investigation

افروز عالم ساحل

جس ملک میں دیوی دیوتاؤں کے سامنے جانوروں کی بلی چڑھانے کا رواج صدیوں سے چلا آرہا ہو۔ جس ملک میں 70 فیصد سے زائد آبادی گوشت خور ہے۔ جہاں سےلاکھوں میٹرک ٹن گوشت ہر سال دوسرے ممالک کو بھیجا جاتا ہےاور جو ملک بیف ایکسپورٹ کے معاملے میں پوری دنیا میں پانچواں مقام رکھتا ہو۔ اس ملک میں ایک خاص تہوار کے موقع پر ایک خاص طبقے کے لوگوں میں اچانک جانوروں سے محبت پروان چڑھنے لگے تو یقیناً یہ جانوروں سے محبت نہیں بلکہ ایک خاص قوم سے ان کی غمازی نفرت ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جانوروں کی قربانی کی مخالفت کرنے والے ان لوگوں کی جس خاص آئیڈیالوجی سے قربت ہے، یا جس سیاسی پارٹی کے یہ پیروکار ہیں، اسی آئیڈیولوجی سے تعلق رکھنے والی ان کی سیاسی پارٹی کو بیف ایکسپورٹ کرنے والی کمپنیوں سے اپنے پارٹی فنڈ میں چندہ لینے سے کوئی پرہیز نہیں ہے۔ اس پارٹی کے ذریعے چندہ حاصل کرنے کا یہ کھیل اقتدار میں آنے کے قبل سے چلتا آرہا ہے۔ انہیں اس میں کوئی پریشانی نظر نہیں آتی ہے۔ جبکہ اس سیاسی پارٹی کی پوری سیاست اسی بیف پر ٹکی ہوئی ہے۔

بیف سے پرہیز، ’چندے‘ سے نہیں

بیف پر مرکز میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی سیاست جو بھی ہو، ان کے کارکن ہر سال عید الاضحیٰ کے موقع پر جانوروں کی قربانی کی چاہے جتنی مخالفت کریں، لیکن جب بات پیسے کی ہو تو اس پارٹی کو بیف ایکسپورٹ کرنے والی کمپنی سے بھی چندہ لینےمیں کوئی عار نہیں ہے۔ یہ پارٹی اب تک کروڑوں روپئے کا چندہ بیف ایکسپورٹ کرنے والی کمپنیوں سے لے چکی ہے۔

بیف ایکسپورٹ کرنے والی کمپنیوں سے چندہ لینے کی یہ جانکاری سب سے پہلے راقم الحروف نے بی بی سی کے ذریعہ سال 2015 میں دنیا کے سامنے رکھی تھی۔ اس زمانے میں اس جانکاری کے آنے کے بعد کافی ہنگامہ برپا ہوا تھا۔ تب بی جے پی نے اپنی صفائی میں کہا تھا کہ انہیں اس چندے کی جانکاری نہیں تھی۔

لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی کمپنی سے چندہ حاصل کرنے کا کام یہ پارٹی آگے بھی کرتی رہی بلکہ چندہ دینے والوں میں ایک اور کمپنی کا نام جڑ گیا ہے جو بیف ایکسپورٹ کرنے کا کام کرتی ہے۔

بی جے پی کی جانب سے الیکشن کمیشن کو دیئے گئے عطیات کی فہرست کے مطابق سال 2018-19یں اترپردیش کے بریلی سے تعلق رکھنے والی ماریہ فروزن ایگرو فوڈ، جو بیف اور دیگر جانوروں کا گوشت ایکسپورٹ کرتی ہے، نے 5 لاکھ روپے کا چندہ چیک (اسٹیٹ بینک آف انڈیا، چیک نمبر – 050965) کے ذریعہ دیا۔ واضح رہے کہ یہ کمپنی ابھی نئی ہے۔ سال 2016 کے فروری مہینے میں یہ کمپنی کانپور میں رجسٹرڈ ہوئی ہے۔

وہیں سال 2016-17 میں بیف ایکسپورٹ کرنے والی مہاراشٹرہ کی کمپنی فرائیگوریفیکو الانا پرائیوٹ لمیٹیڈ نے 50 لاکھ روپے کا چندہ دیا ہے۔ کمپنی نے یہ رقم پانچ چیکوں کے ذریعے دی ہے۔ یہ کمپنی 1986 میں رجسٹرڈ ہوئی ہے۔

اس سے پہلے بھی یہ کمپنی سال 2014-15 میں 50 لاکھ اور سال 2013-14 (عام انتخابات ہونے والے سال) میں میں 75 لاکھ روپئے کا چندہ دے چکی ہے۔یہی نہیں، ممبئی کے جس پتے سے یہ چندہ دیا گیا ہے، اسی پتے سے دوسری کمپنی انڈاگرو فوڈز لمیٹڈ نے بھی سال 2013-14 میں بی جے پی کو 75 لاکھ روپے کا چندہ دیا تھا۔ ایک تیسری کمپنی فرائیگیریو کونویروا الانا لمیٹیڈ نے بھی اسی سال پارٹی کو 50 لاکھ روپے کا چندہ دیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک چوتھی کمپنی الانا انویسٹمنٹ اینڈ ٹریڈنگ کمپنی نے بھی اسی سال یعنی سال 2013-14 میں 25 لاکھ روپے کا چندہ بی جے پی کو دیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ کمپنیاں بھی بیف ایکسپورٹ کرنے کا کام کرتی ہیں۔

غور طلب رہے کہ ریپریزنٹیشن آف پیپلس ایکٹ (1951) میں سال 2003 میں ایک ترمیم کے تحت یہ قاعدہ بنایا گیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو دفعہ 29 (سی) کی ذیلی دفعہ (1) کے تحت فارم 24 (اے) کے ذریعے الیکشن کمیشن کو یہ جانکاری دینی ہوگی کہ انہیں ہر مالی سال کے دوران کن کن افراد اور اداروں سے کُل کتنا چندہ ملا۔ سیاسی جماعتوں کو اس اصول کے تحت صرف 20 ہزار سے اوپر کے چندے کے بارے میں معلومات دینی ہوتی ہے۔ یہ تمام معلومات الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔

اس سے قبل بی جے پی بھوپال گیس سانحہ کی ذمہ دار یونین کاربائڈ کے موجودہ مالک ڈاؤ کیمیکلز سے چندہ لے کر تنازعوں میں رہی تھی۔ ڈاؤ کیمیکلز نے سال 2006-07 میں بی جے پی کو ایک لاکھ روپے (سٹی بینک کے چیک نمبر 9189 کے ذریعہ) ایک چندہ دیا تھا۔ اور اس جانکاری کا انکشاف بھی راقم الحروف کے ذریعہ ہوا تھا۔

مودی دور میں بیف ایکسپورٹ میں اضافہ

لوک سبھا میں وزیر تجارت و صنعت پیوش گوئل کے ذریعےایک تحریری جواب میں پیش کردہ اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ سابقہ ​​حکومت کے مقابلے میں ملک سے بیف ایکسپورٹ میں کافی اضافہ ہوا ہے، وہیں اس سے کمائی بھی بڑھی ہے۔

وزارت تجارت و صنعت کے یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی دوسری حکومت میں 47.7 لاکھ میٹرک ٹن بیف ایکسپورٹ کیا گیا تھا اور اس سے ہندوستان میں 71،752 کروڑ روپے آئے تھے۔ وہیں نریندر مودی کی پہلی حکومت میں 67.2 لاکھ میٹرک ٹن بیف ہندوستان سے دوسرے ممالک میں گئے۔ دوسری طرف اگر ہم آمدنی کی بات کریں تو اس برآمد سے 1،33،340 کروڑ روپے کی کمائی ہوئی۔

مودی 2.0 حکومت میں اکتوبر 2019 تک کےاعدادوشمار بتاتے ہیں کہ 6.7 لاکھ ٹن بیف ایکسپورٹ کیا جا چکا ہے اور اس سے 13،346 کروڑ کی کمائی ہوئی ہے۔

یہاں یہ واضح رہے کہ یہ تمام اعداد و شمار صرف بیف ایکسپورٹ کی ہیں۔ باقی جانوروں کے گوشت کے ایکسپورٹ کا حساب کتاب اس سے مختلف ہے اور ایک اندازے کے مطابق یہ اس سے کئی گنا زیادہ ہوسکتا ہے۔

سب سےزیادہ بیف ایکسپورٹ کرنےوالا ریاست

آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جس ریاست میں بیف کو لے کر سب سے زیادہ ہنگامہ آرائی ہے، اسی ریاست میں بیف ایکسپورٹ کرنے والی کمپنیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور وہی ریاست دنیا کے تمام ممالک میں سب سے زیادہ بیف ایکسپورٹ کرتی ہے۔ اس ریاست کا نام اترپردیش ہے۔

لوک سبھا میں وزیر تجارت و صنعت پیوش گوئل نے اپنے ایک تحریری جواب میں ہندوستان سے بیف ایکسپورٹ کرنے والی دس سب سے بڑے کمپنیوں کی فہرست دی ہے۔ ان دس کمپنیوں میں سے 7 کا تعلق اتر پردیش سے ہے۔

یہی نہیں، وزیر مملکت برائے فوڈ پروسیسنگ انڈسٹریز نے گذشتہ سال جون میں لوک سبھا میں ایک تحریری جواب میں بتایا ہے کہ صنعتوں کے تازہ ترین سالانہ سروے 2016-17 کے مطابق، ملک میں گوشت کی پروسیسنگ اور تحفظ کے لئے 183 رجسٹرڈ یونٹ ہیں۔ ان میں سے 71 کا تعلق اتر پردیش سے ہے۔

بتادیں کہ اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن (ایف اے او) کی رپورٹ کے مطابق مالی سال 2018-19 میں بیف ایکسپورٹ کے معاملے میں ہندوستان عالمی سطح پر پانچویں نمبر پر ہے۔

جس ملک میں 70 فیصد سے زائد آبادی گوشت خور ہے۔ جس ملک سےلاکھوں میٹرک ٹن گوشت ہر سال دوسرے ممالک کو بھیجا جاتا ہے۔ اور جو ملک بیف ایکسپورٹ کے معاملے میں پوری دنیا میں پانچواں مقام رکھتا ہو۔ اس ملک میں ایک خاص تہوار کے موقع پر ایک خاص طبقے کے لوگوں میں اچانک جانوروں سے محبت پروان چڑھنے لگے تو یقیناً یہ جانوروں سے محبت نہیں بلکہ ایک خاص قوم سے ان کی نشانی نفرت ہے۔