تیرتھ سنگھ راوت:سنگھ پریوار کی تربیت کا بہترین نمونہ

اترا کھنڈ کےوزیر اعلی پر سوار ہے تنازعات کھڑا کرنے کا جنون؟

ڈاکٹر سلیم خان

 

اتر اکھنڈ میں کانگریسیوں کو توڑ کر 4 سال قبل بی جے پی اقتدار میں آگئی اس کے باوجود اگر سوال کیا جائے کہ چار سالوں تک وہاں کا وزیر اعلیٰ کون تھا تو ۹۰ فیصد لوگ درست جواب دینے میں ناکام ہو جائیں گے۔ اس لیے کہ تریندر سنگھ راوت نہ کچھ کرتے تھے اور نہ بولتے تھے اس لیے ذرائع ابلاغ ان کی جانب توجہ ہی نہیں دیتا تھا لیکن اپنے اقتدار کی چار سالہ سالگرہ منا کر اگلا انتخاب جیتنے کی خاطر انہوں نے ایک ایسی حماقت کی کہ کرسی گنوا بیٹھے۔ اتر اکھنڈ ایک چھوٹا سا صوبہ جس میں کل دو کمشنریٹ ہیں۔ ایک دن اچانک انہوں نے بغیر کسی سے مشورہ کیے چمولی، رودر پریاگ، الموڑا اور باگیشور ضلعوں کو الگ کرکے گیرسین نامی تیسرے کمشنریٹ کا اعلان کر کے اپنے حلقہ انتخاب کو سرمائی اسمبلی اجلاس کا مرکز بنا دیا۔ اس سے کماوں علاقہ میں زبردست ناراضگی پھیل گئی۔ اس کے بعد مرکز نے دشینت گوتم اور رمن سنگھ کو دہرادون بھیجا تو ارکان اسمبلی نے صاف کر دیا کہ ترویندر کی قیادت میں آئندہ انتخاب جیتنا ناممکن ہے۔ ایک جائزے کے مطابق انہیں اب تک کا سب سے غیر مقبول وزیر اعلیٰ پایا گیا۔ اس لیے انہیں ہٹانا لازمی ہوگیا نیز نئے وزیر اعلیٰ نے اب اس فیصلے کو منسوخ بھی کر دیا ہے اس لیے پھر سے اتر اکھنڈ اپنی پہلی والی حالت میں پہنچ گیا ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ سے دیگر ارکان اسمبلی اس لیے بھی ناراض تھے کیونکہ وہ خود 45 وزارتوں پر خود سانپ بن کر بیٹھے ہوئے تھے اور بارہ کی گنجائش ہونے کے باوجود پانچ سے کام چلا رہے تھے جن میں سے تین وزارتیں سابق کانگریسیوں کو دے رکھی تھیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں اپنے ساتھیوں پر اعتماد نہیں تھا یا وہ ان سے خوفزدہ تھے۔ خیر اب وہ اپنی تمام تر مجبوریوں اور کوتاہیوں کے ساتھ وداع ہو گئے ہیں۔ سنگھ کے اس سابق پرچارک کا دوسرا قصور یہ تھا کہ انہوں نے اتر اکھنڈ دیواستھان بورڈ بنا کر کیدار ناتھ، بدری ناتھ، گنگوتری اور جمنوتری جیسے مندروں کو سرکارکے تحت کر لیا تھا جس سے برہمن سماج کے پیٹ پر لات لگ گئی اور خود ان سے سنگھ پریوار بھی ناراض ہو گیا۔ اس فیصلے کے خلاف سبرامنیم سوامی عدالت عالیہ میں گئے اور منہ کی کھائی۔ اب سپریم کورٹ میں یہ معاملہ زیر سماعت ہے لیکن اس سے پارٹی ہائی کمان بھی ناراض ہوگیا اور اس نے ان کی چھٹی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس بابت جب ان سے پوچھا گیا تو وہ انہوں نے کہا کہ یہ پارٹی کا ایک اجتماعی فیصلہ ہے۔ صحافیوں نے اس کی وجہ دریافت کی تو بگڑ کر کہا یہ معلوم کرنے کے لیے آپ کو دہلی جانا پڑے گا۔
نہ کھاوں گا اور نہ کھانے دوں گا کا نعرہ لگانے والی بی جے پی کے اس سابق وزیر اعلیٰ پر بدعنوانی کے الزام میں ہائی کورٹ نے تفتیش کا حکم بھی دے رکھا ہے اور وہ معاملہ بھی فی الحال سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ راوت کو دہلی بلا کر اتر اکھنڈ کے رہنے والے پارٹی صدر جے پی نڈا نے استعفیٰ کا حکم دیا اور پھر نئے وزیر اعلیٰ کا انتخاب کرنے کی خاطر رمن سنگھ کو صوبے میں بھیجا لیکن وہاں ارکان اسمبلی کے درمیان اس قدر خلفشار تھا کہ کسی کے نام پر اتفاق نہیں ہو سکا اس لیے مجبوراً رکن پارلیمان تیرتھ سنگھ راوت کو وزیر اعلیٰ بنانے پر مجبور ہونا پڑا۔ یہ ہے سنگھ کا وہ نظم و ضبط جس کی قسمیں کھائی جاتی ہیں۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ ایک پرچارک کے بعد دوسرا پرچارک وزیر اعلیٰ بنا اور اس نے سنگھ کی تربیت کا بھانڈا بیچ بازار میں پھوڑ دیا۔ نئے وزیر اعلیٰ تیرتھ سنگھ راوت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد یکے بعد دیگرے متنازع بیانات کی جھڑی لگا کر راتوں رات مودی جی کی مانند ذرائع ابلاغ میں مقبولیت حاصل کر لی۔ پچھلے چار سالوں سے اقتدار میں رہنے کے باوجود گجرات کے وجئے روپانی اتنے مشہور نہیں ہوئے جتنا تیرتھ سنگھ راوت چار دن میں ہو گئے۔
۱۹ سال کی نو عمری میں سنگھ کے پرچارک بن جانے والے تیرتھ سنگھ نے کالی ٹوپی پہن کر سب سے پہلے آر ایس ایس سے اپنے تعلق پر فخر جتایا اس لیے ان کی بے مثال تربیت کو سنگھ کی شاکھا سے منسوب کرنا بالکل بھی غلط نہیں ہوگا۔ وہ اگر کانگریس سے بی جے پی میں آنے والے رہنماؤں میں سے ایک ہوتے تو بات اور تھی لیکن اپنے پیش رو کی مانند وہ بھی سنگھ کے پرچارک نکلے اور انہوں نے بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ کی قوالی یاد دلا دی۔ وزیر اعلیٰ بننے کے بعد تیرتھ سنگھ راوت اپنے عہدے سے اس قدر خوش ہوئے کہ انہوں نے حلف برداری کے تیسرے ہی دن ہردوار میں ہنس فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام منعقدہ نیتر کمبھ پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے پی ایم مودی کی تعریف میں جذبات سے مغلوب ہوکر انہیں ’کل یُگ‘ کا بھگوان رام بتا دیا۔ دورانِ تقریب انہوں نے کہہ دیا کہ ’’پی ایم مودی نے اپنے کاموں سے خود کو ایک چمتکاری انسان ثابت کر دیا ہے۔ پہلے ہندوستان کے قومی لیڈروں کو دنیا میں کوئی خاصتوجہ نہیں ملتی تھی لیکن آج دنیا کا بڑے سے بڑا لیڈر پی ایم مودی کے ساتھ صرف تصویر کھنچوانے کے لیے پر جوش رہتا ہے۔ یہ بات درست ہے لیکن مودی جی کو بھی تصویر کھنچوانے کا کم شوق نہیں ہے۔ وہ تو زکربرگ کی بیوی کے ساتھ فوٹو کھنچوانے کے لیے اس کو بھی کنارے کر دیتے ہیں۔
بات یہیں تک رہتی تو کوئی بات نہیں تھی لیکن تیرتھ سنگھ اور آگے بڑھے اور کہا کہ جس طرح سے دواپر اور تریتا یُگ میں بھگوان رام اور کرشن نے سماج کے لیے کام کیے تو لوگ انہیں بھگوان ماننے لگے تھے آنے والے وقت میں کچھ ایسا ہی پی ایم مودی کے ساتھ ہونے والا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب پی ایم مودی کو لوگ بھگوان کی شکل میں دیکھیں گے۔ نو منتخب وزیر اعلیٰ کے اس بیان سے وزیر اعظم کے اندھے بھکت تو خوشی سے جھوم اٹھے ہوں گے لیکن رام اور کرشن کے بھکتوں کو یقیناً اس سے دکھ ہوا ہو گا اس لیے کہ وہ ان کے دیوتاوں کی توہین ہے۔ وزیر اعظم اپنے اقتدار کو بچانے کی خاطر کیا کیا کھیل تماشے کرتے ہیں اور کیسی کیسی جھوٹی سچی باتیں کرتے ہیں یہ سب کے سامنے ہے ایسے میں ان کا موازنہ رام اور کرشن سے کر دینا مضحکہ خیز ہے۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ تقریباً دو سال قبل ۳ فروری ۲۰۱۹ کو معروف سابق جج مارکنڈے کاٹجو نے اتر اکھنڈ کی راجدھانی دہرہ دون میں منعقدہ ایک پروگرام کے بعد نیوز ۱۸ سے بات چیت میں کہا تھا کہ رام، بھگوان نہیں بلکہ ایک عام آدمی تھے والمیکی کے اصل رامائن میں انہیں ویسا ہی بتایا گیا ہے۔ وہیں گائے کو ’ماتا‘ کہے جانے پر اعتراض ظاہر کرتے ہوئے کاٹجو نے کہا تھا کہ گائے بھی گھوڑے اور کتے کی طرح ایک جانور ہے چنانچہ جو لوگ گائے کو ماتا کہتے ہیں ان کے دماغ میں گوبر بھرا ہے۔ ویسے مارکنڈے کاٹجو کے دوسرے بیان سے اتفاق کرنے کی جرأت تیرتھ سنگھ راوت نہیں کر سکتے کیونکہ اس صورت میں انہیں اپنا عہدہ گنوانا پڑے گا۔ جسٹس کاٹجو جیسے دلیر لوگ ملک میں کم ہیں کہ جنہوں نے لوک سبھا الیکشن سے قبل کہا تھا کہ رام مندر کوئی موضوع نہیں ہے۔ اصل میں لوگوں کی صرف توجہ بھٹکائی جا رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ لوگ چاہے بھوکے مر جائیں، بے روزگار رہیں، اسے تو کوئی موضوع نہیں بنا رہا ہے اور رام مندرکو موضوع بنائے بیٹھے ہیں؟
ہندوستانی عوام کاٹجو کی مانند نہیں سوچتے وہ جذباتی موضوعات کو اہمیت دیتے ہیں اس لیے اپنے جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے پھر سے مودی جی کے سر پر تاج رکھ دیا۔ وزیر اعظم نے اتر اکھنڈ کے عوام کا شکریہ ادا کرنے کے لیے انہیں تیرتھ سنگھ راوت جیسا وزیر اعلیٰ عطا کر دیا۔ وزیر اعظم کی احسان مندی میں تیرتھ نے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’اگر نریندر مودی کی جگہ کوئی اور وزیر اعظم ہوتا تو ہماری حالت بہت خراب ہوتی، لیکن پردھان سیوک نے ہمیں بہت راحت پہنچائی ہے‘‘ یہ بات تیرتھ سنگھ روات نے ملک کے رعایا کے متعلق نہیں بلکہ خود اپنے بارے میں کہی تھی لیکن اس کے بعد جو کچھ بولے اس سے آر ایس ایس کی قلعی کھل گئی۔ دن رات آر ایس ایس کے گن گا کر مسلمانوں کو عار دلانے والے دانشوروں کو ان کا بیان غور سے پڑھنا چاہیے۔ تیرتھ سنگھ نے کہا ’’دوسرے ممالک کے مقابلہ ہندوستان کورونا کی وبا سے زیادہ بہتر انداز میں نمٹ رہا ہے۔ امریکہ جس نے ہمارے اوپر دو سو سال تک حکومت کی اور دنیا پر راج کیا، وہ اس وبا کے دوران جدو جہد کر رہا ہے۔ تین لاکھ ۷۵ ہزار سے زیادہ لوگوں کی امریکہ میں موت ہو چکی ہے، اٹلی جہاں دنیا کی بہترین طبی سہولتیں موجود ہیں وہاں پچاس لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاک ہو گئے اور اب وہ دوسرے لاک ڈاؤن کی جانب گامزن ہے‘‘ یہ بیان ایک ایسا شخص دے رہا ہے جس کے پاس پوسٹ گریجویٹ کی ڈگری ہے اور وہ امریکہ اور برطانیہ کے درمیان فرق نہیں جانتا۔
وزیر اعلیٰ کے اس بیان سے نہ صرف ملک کے تعلیمی معیار کا پتہ چلتا ہے بلکہ یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سنگھ کے سرسوتی ودیا مندر میں کس طرح کی تعلیم دی جاتی ہو گی کیونکہ بلدیہ کے ناقص اسکول میں پڑھائی کرنے والے طلباء بھی جانتے ہیں کہ برطانیہ یوروپ میں ہے اور ریاستہائے متحدہ امریکہ ایک مختلف بر اعظم ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اتر اکھنڈ ریاست بننے کے بعد وہ صوبے کے پہلے وزیر تعلیم تھے۔ اب اگر وزیر تعلیم کی عام معلومات کا یہ حال ہے تو سنگھ کے جاہل بھکتوں کا کیا حال ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ان کو شاید یہ بھی نہیں معلوم کہ کورونا سے ہلاک شدگان کی تعداد میں اٹلی ساتویں نمبر پر ہے جہاں مرنے والوں کی تعداد پچاس لاکھ نہیں بلکہ صرف ایک لاکھ سات ہزار سے کچھ زیادہ ہے جبکہ ہندوستان تیسرے نمبر ہے اور یہاں ہلاک شدگان کی تعداد تا دمِ تحریر ایک لاکھ اکسٹھ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ گوگل کے مطابق چین میں اب تک صرف چار ہزار آٹھ سو لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔ مودی جی اگر واقعی بہت قابل ہوتے تو اپنے دوست شی جن پنگ سے سبق لیتے لیکن اس نے تو لداخ میں دوسرا ہی سبق سکھا دیا۔
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا کہ مصداق اتر اکھنڈ کے وزیر اعلیٰ تیرتھ سنگھ راوت نے اپنے ’پھٹی جینز‘ والے بیان سے بہت زیادہ مقبولیت سمیٹی بلکہ مودی جی سے بھی آگے نکل گئے۔ ویسے بنگلا دیش کے لیے ستیہ گرہ کا اعلان کر کے وزیر اعظم نے انہیں مات دے دی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شئے اور مات کا کھیل کہاں تک جاتا ہے۔ تیرتھ سنگھ راوت کو خواتین کی پھٹی ہوئی جینز دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے اور ان کے دل میں سوال اٹھتا ہے کہ اس سے سماج میں کیا پیغام جائے گا۔ وزیر اعلیٰ کا یہ بیان تو درست تھا لیکن اس کی سوشل میڈیا پر مذمت ہوئی تو گھبرا کر انہوں نے یہ کہہ کر معافی مانگ لی کہ میں دیہات سے تعلق رکھتا ہوں اس لیے اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو معذرت چاہتا ہوں۔ یہ ہے سنگھ پریوار کے کاغذی شیروں کی دلیری۔ اس معاملے میں حیرت انگیز طور پر ان کی زوجہ رشمی تیاگی حمایت کے لیے میدان میں کود پڑیں۔
رشمی دہرا دون میں نفسیات پڑھاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تیرتھ سنگھ نے جینس پر مغربی تہذیب کی علامت کے طور پر تنقید کی ہے اور ان کا ایسا کرنا درست ہے۔ رشمی تیاگی ایک زمانے میں میرٹھ کی ملکہ حسن رہی ہیں۔ انہیں پہلے تو یہ بتانا ہوگا کہ ملکہ حسن کے مقابلے میں حصہ لینا کیا ہندوستانی تہذیب کا حصہ ہے؟ اس طرح کے مقابلوں میں جو لباس زیب تن کر کے اپنے جسم نمائش کی جاتی ہے کیا وہ پھٹی ہوئی جینس سے زیادہ مہذب ہوتے ہیں۔ ان کے شوہر کو اگر سودیشی تہذیب کا اتنا ہی خیال تھا تو انہوں نے شادی کرنے کے لیے کسی ستی ساوتری کا انتخاب کیوں نہیں کیا؟ آر ایس ایس کے لوگ جو خاکی نیکر پہنتے رہے ہیں وہ ہندوستانی لباس ہے یا مغربی؟ اور اس میں جو برہنہ ٹانگیں نظر آتی ہیں اس پر کسی کو حیرانی کیوں نہیں ہوتی؟ تیرتھ اور رشمی کو پتہ ہونا چاہیے کہ جن کے مکان شیشے کے ہوتے ہیں وہ پردہ لگا کر کپڑے تبدیل کرتے ہیں۔
اتر اکھنڈ کے وزیر اعلیٰ پر تنازعات کھڑا کرنے کا جنون سوارہے۔ ایک تقریب میں انہوں نے کہہ دیا کہ حکومت ہر کنبہ کو پانچ کیلو گرام فی فرد کے حساب سے راشن دیتی ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ دو لوگوں کی فیملی کو دس کیلو گرام اور بیس ممبر والے کنبہ کو سو کیلو گرام راشن ملے گا۔ ایسے میں اگر ایک خاندان دوسرے سے حسد کرنے لگے کہ اس کو صرف دس کیلو گرام اور دوسرے کو ایک کوئنٹل راشن کیوں مل رہا ہے تو اس میں اسی کا قصور ہے۔ اس نے صرف دو بچوں پر اکتفا کیوں کیا بیس بچے کیوں نہیں پیدا کیے؟ تیرتھ سنگھ نے اپنی بدزبانی سے مسلمانوں پر بلاواسطہ کیچڑ تو اچھال دیا جو کہ فرقہ پرستوں کی پرانی عادت ہے لیکن ان میں سے اکثر شادی تک نہیں کرتے۔ سنگھ میں بھی برہما چاریہ کا پالن کیا جاتا ہے یعنی پرچارک کو شادی کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اس لیے ۱۹۸۸ میں تیرتھ نے پرچارک کے جنجال سے جان چھڑا کر گیارہ سال کی تگ و دو کے بعد بیاہ رچایا لیکن اپنی ۲۳ سالہ ازدواجی زندگی میں بیس تو دور دو بچے بھی پیدا نہیں کیے اور صرف ایک بیٹی پر اکتفا کر لیا۔ دوسروں کو اوٹ پٹانگ مشورہ دینے سے قبل انسان کو اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھ لینا چاہیے۔تیرتھ سنگھ کے سامنے سب سے پہلا چیلنج ہری دوار میں منعقد ہونے والے کمبھ میلے کا اہتمام ہے۔ اس بابت ۱۱ جنوری کو اتر اکھنڈ ہائی کورٹ نے کمبھ کے معاملے میں اپنے اہم فیصلے کے تحت مرکز اور ریاستی حکومت کو سخت ہدایت دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس بابت خصوصی ہدایات (ایس او پی) جاری کرے اور ۱۳ جنوری سے پہلے اس کی مفصل رپورٹ عدالت میں پیش کرے۔ عدالت نے ریاست کے چیف سکریٹری، چیف ہیلتھ سکریٹری، میلہ افسر اور ضلع افسر ہردوار کو بھی ہدایات دی تھی کہ وہ کورونا وبا کے تناظر میں کمبھ میلے کی بابت خصوصی میٹنگ کر کے اس کی تفصیل عدالت کے سامنے رکھے۔ اس معاملے میں ترویندر سنگھ خاصے سنجیدہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ہردوار کو ووہان نہیں بنانا چاہتے لیکن تیرتھ نے ساری احتیاط گنگا برد کر دی۔ تیرتھ نے جب کمبھ میلہ سب کے لیے کھولنے پر اصرار کیا تو سرکاری افسروں نے مرکزکی ہدایات کا حوالہ دیا۔ اس پر وہ بولے میں وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور پارٹی صدر کو منوا لوں گا۔ تیرتھ بھول گئے کہ کورونا ان میں سے کسی کی نہیں مانتا۔انڈین ایکسپریس کے مطابق مارچ کی گیارہ تاریخ کو ۳۲ لاکھ لوگ ڈبکی لگانے کے لیے ہردوار میں جمع ہوئے۔ اس وقت تک شہر میں کورونا سے متاثرین کی تعداد بڑھ کر ۱۰۹۴ ہو چکی تھی جبکہ دو ہفتہ قبل وہ صرف ۱۴۱ تھی۔ یہ ۷ گنا کا اضافہ معمولی نہیں ہے لیکن اپنی سیاسی دوکان چمکانے کے لیے وزیر اعلیٰ نے اپنے ہی عوام کی جان سے کھلواڑ کیا۔ وزیر اعلیٰ نے کہہ دیا کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی البتہ مرکز کی ہدایت کے مطابق ماسک لگایا جائے گا اور سینیٹائزر کا استعمال ہوگا۔ یہ تو مکھی چھاننے اور اونٹ نگلنے والی بات ہے کیونکہ ماسک لگا کر ڈبکی لگانے اور اس کے بعد سینیٹائز استعمال کرنے کا آخر فائدہ ہی کیا ہے؟ وزیر اعلیٰ تیرتھ سنگھ نے جوش میں آ کر بذاتِ خود سادھوسنتوں سے ملاقات کی اور کورونا پازیٹیو ہو گئے۔ اس کے بعد قرنطینہ میں بند ہو کر ورچول کانفرنس کرنے لگے۔ ان کے متاثر ہونے کا پتہ تو اس لیے چلا کہ ٹسٹ کیا گیا مگر جن سادھو سنتوں کا ٹسٹ ہی نہیں کیا گیا ان کیا حال ہوگا وہ کوئی نہیں جانتا۔ ویسے بھی یہ سادھو بی جے پی کو ووٹ دینے کے لیے پولنگ بوتھ پر جاتے نہیں ہوں گے اس لیے سرکار کو ان کی فکر کم ہی ہو گی ہاں انہیں خوش رکھنا اس لیے ضروری ہے تاکہ ان کے عقیدتمندوں کا ووٹ ملتا رہے۔چوٹ کھانے کے بعد تیرتھ سنگھ کا دماغ درست ہوا تو ساری دنیا سے کٹ کر ورچول خطاب میں انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ کورونا جیسی بیماریاں مہلک ہیں اس لیے کورونا کے اصولوں پر عمل کرنا چاہیے۔ کورونا کے ضوابط کی عدم تعمیل سے لوگوں کو صحت کا نقصان خطرناک ثابت ہو گا۔ اس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ ہوا میں اڑنے والے تیرتھ کو کورونا کا قہر زمین پر لے آیا۔ بنا روک ٹوک کمبھ میلہ کی حمایت کرنے والے وزیر اعلٰی نے ریاست کی سرحدوں پر شدید چیکنگ شروع کردی ہے تاکہ کورونا اور دیگر بد نظمی کو بڑھنے سے روکا جا سکے۔ اب تو انہیں ہائی کورٹ بھی یاد آگیا اور اس کے احکامات پر ہر ممکن عمل کرنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ یہ تو ایسا ہے کہ جب اپنے جوتے میں کیل لگتی ہے تو درد کا احساس ہوتا ہے۔ کمبھ کی بابت وزیر اعلیٰ ایک مشکل توازن قائم رکھنے کی کوشش میں ہیں۔ انہوں نے پولیس اہلکاروں سے کہا کہ غیر ضروری طور پر عام عقیدت مندوں کو پریشان نہ کیا جائے۔ اس طرح یہ ضروری اور غیر ضروری کا فیصلہ انہوں نے پولیس پر چھوڑ دیا کہ جو جس کو ضروری سمجھے کرے نہ سمجھے نہ کرے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک چیز پولیس کے لیے ضروری ہو اور کسی سادھو کے لیے غیر ضروری ہو۔
تیرتھ سنگھ بہترین انتظامات مہیا کر کے ہردوار کمبھ کو شاندار اور عالیشان بنانا چاہتے ہیں تاکہ کسی کا مذہبی عقیدہ مجروح نہ ہو۔ کمبھ میلے کو وہ سناتن روایت کا ایک اہم حصہ بتا کر بہتر سے بہتر بنانے کو سب کی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ اس بیان بازی سے قطع نظر وزیر اعلیٰ فی الحال اس قدر خوفزدہ ہیں کہ انہوں نے کووڈ کی رہنمائی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہولی بھی گھر میں منانے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ اس پورے منظر نامہ سے کورونا جہاد کا نعرہ لگانے والا میڈیا گدھے کے سر سے سینگ کی مانند غائب ہے۔ ہولی کے موقع پر سابق وزیر اعلیٰ ترویندر سنگھ نے ملک اور صوبے کے لوگوں کو مبارکباد دے کر ڈھول تاشہ اور ناچ گانا کر کے خوشی منائی لیکن رنگ کھیلنے سے گریز کیا۔ اس موقع پر سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ کورونا وائرس دوبارہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس لیے بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ اس وبا کو روکنے کے لیے جاری کی جانے والی سرکاری رہنمائی پر خو د اپنی مرضی سے پوری طرح عمل در آمد ہونا چاہیے۔ یہ ہماری سماجی اور اخلاقی ذمہ داری ہے اس سے ہم خود بھی محفوظ رہیں گے اور دوسروں کی بھی حفاظت کر سکیں گے۔ ترویندر سنگھ نے یاد دلایا کہ ماہرین کے مطابق کورونا کی وبا کا دوسرا حملہ کافی خطرناک ہو سکتا ہے اور اعداد و شمار اس کی تائید کرتے ہیں۔ پچھلے نو ماہ کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے یکم فروری کو ہندوستان میں سب سے کم ۸,۵۰۰ کورونا کے معاملات سامنے آئے لیکن اس کے بعد اضافہ شروع ہو گیا اور یکم مارچ تک یہ تعداد بڑھ کر ۱۱,۵۰۰ ہو گئی۔ اس کے بعد دس دن کے اندر اندر متاثرین کی تعداد تقریباً دوگنا ہو گئی یعنی ۲۲,۸۰۰ پر پہنچ گئی۔ اب شروع ہوتا ہے کمبھ کا میلہ اور دس دن بعد یہ پھر سے صد فیصد بڑھوتری دیکھنے میں آئی یعنی کل تعداد ۴۳,۸۰۰ پر جا پہنچی۔ اس کے بعد پانچ دن کے اندر ۲۵ مارچ کو ۵۹,۰۰۰ کورونا کے مصدقہ مریض ملک میں تھے جو دو دن بعد ۶۸,۰۰۰ ہو گئے۔ مودی جی کی تعریف کرنے والے تیرتھ سنگھ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ امریکہ اور برازیل کے مقابلے میں ڈیڑھ گنا زیادہ تعداد ہے۔ اس میں کمبھ کا کتنا حصہ ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے اور یہ اس کے سبب مزید کتنا پھیلے گا یہ بھی کوئی نہیں بتائے گا کیونکہ ایسا کرنا قومی مفاد کے خلاف ہوگا۔ انسانی تاریخ میں شاید پہلی بار قومی مفاد کے نام پر سرکار کا فائدہ ہی سب کچھ ہو کر رہ گیا ہے۔ آج کے اس سفاک دور میں قوم پرستی نے انسانی جان کے احترام کو قومی مفاد کے مرگھٹ پر بلی چڑھا دیا ہے اس قوم پرستانہ سیاست پر علامہ اقبال یہ شعر ہو بہو صادق آتا ہے؎
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے

یہ حسن اتفاق ہے کہ ایک پرچارک کے بعد دوسرا پرچارک وزیر اعلیٰ بنا اور اس نے سنگھ کی تربیت کا بھانڈا بیچ بازار میں پھوڑ دیا۔ نئے وزیر اعلیٰ تیرتھ سنگھ راوت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد یکے بعد دیگرے متنازع بیانات کی جھڑی لگا کر راتوں رات مودی جی کی مانند ذرائع ابلاغ میں مقبولیت حاصل کرلی۔ پچھلے چار سالوں سے اقتدار میں رہنے کے باوجود گجرات کے وجئے روپانی اتنے مشہور نہیں ہوئے جتنا تیرتھ سنگھ راوت چار دن میں ہو گئے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 4 اپریل تا  10 اپریل 2021