تریپورہ: بھارتی سیاستداں، میڈیااور سیول سوسائٹی کی خاموشی!

کیا بنگلہ دیش سے سبق سیکھنے کی ضرورت نہیں ؟

سید خلیق احمد

تریپورہ ملک کی سب سے چھوٹی ریاستوں میں سے ایک ہے جس کی سرحد بنگلہ دیش سے ملتی ہے جہاں تقریباً ایک ہفتہ تک مسلمانوں کے خلاف تشدد برپا رہا۔ ہندو شدت پسندوں نے مساجد، مسلمانوں کے گھروں اور دکانات کو نقصان پہنچایا۔مسلمانوں کی کئی با اثر شخصیات جسے وکلا پر حملے کیے گئے، کئی دکانوں اور کاروباری اداروں کو اشرار کی جانب سے نذر آتش کرنے سے قبل لوٹ لیا گیا۔ عینی شاہدین نے کہا ہے کہ بیشتر واقعات سیکوریٹی عملے کی موجودگی میں پیش آئے جو خاموش تماشائی بنا رہا۔ پولیس نے اگر اشرار کے خلاف بر وقت کارروائی کی ہوتی تو تشدد برپا نہیں ہوتا اور مسلمانوں کی املاک اور ان کے مذہبی مقامات کو نقصان سے بچایا جاسکتا تھا۔ بد قسمتی سے تریپورہ پولیس تشدد پھوٹ پڑنے کے پہلے دو دن اس حقیقت کو قبول کرنے سے انکار کرتی رہی کہ مسلمانوں کے خلاف کوئی تشدد ہوا ہے۔ پانی ساگر میں وی ایچ پی کی جانب سے نکالی گئی ریلی میں اشرار نے مسلمانوں اور پیغمبر اسلامؐ کی شان میں انتہائی اشتعال انگیز نعرے لگائے۔
وی ایچ پی نے جس کے کارکن تریپورہ کے مسلمانوں کے خلاف تشدد میں ملوث تھے معروف عالمی اداروں جیسے اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق اور یوروپی یونین کو خطوط تحریر کرتے ہوئے بنگلہ دیش میں ہندو اقلیت کے خلاف تشدد کا نوٹ لینے کی اپیل کی ہے۔
تریپورہ میں کیے گئے تمام حملے مقامی مسلمانوں کی جانب سے کسی اشتعال کا نتیجہ نہیں تھے۔ فساد کے بھڑکنے کی واحد وجہ پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں درگا پوجا کے دوران فرقہ پرست عناصر کی جانب سے پوجا پنڈالوں پر کیے گئے حالیہ حملے تھے۔ تریپورہ کے مقامی مسلمانوں کا سرحد پار کے واقعات میں نہ تو کوئی رول تھا اور نہ ہی وہ پڑوسی ملک کے حالات کو روکنے پر اثر انداز ہونے کے قابل تھے۔ انہیں محض اس لیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ ان کا اور بنگلہ دیش کی اکثریتی طبقے کا مذہب مشترک ہے۔ کیا یہ بات منصفانہ ہے کہ بنگلہ دیش اور دیگر مسلم ممالک میں ہندووں پر حملوں پر بھارتی مسلمانوں کو نشانہ بنایا جائے؟
اس دوران چیف منسٹر بپلب کمار دیب نے پڑوسی ملک میں تبدیلیوں سے واقف ہونے کے لیے ۱۶ اکتوبر کو بنگلہ دیش میں متعینہ ہندوستانی ہائی کمشنر کے دورائی سوامی کو ٹیلی فون کیا اور معلوم کیا کہ حکومت بنگلہ دیش نے ہندو طبقہ کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کیے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق دورائی سوامی نے دیب کو اطلاع دی کہ حکومت بنگلہ دیش نے اس مسئلہ سے نمٹنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے ہیں۔ تریپورہ کے چیف منسٹر جنہیں بنگلہ دیش میں اپنے مذہبی ہم منصبوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اسے جاننے میں اس قدر دلچسپی تھی کہ انہوں نے ہائی کمشنر کو تک فون کیا لیکن ایسی بے چینی ان کو اپنی ریاست میں ہندو جنونیوں کے سخت حملوں کا شکار بننے والے مسلم اقلیتوں کے معاملے میں نہیں ہوئی۔
اگرچہ چند ایف آئی آر درج کی گئی ہیں لیکن تریپورہ پولیس نے اس رپورٹ کے لکھے جانے تک کسی واقعہ کے سلسلہ میں کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جس سے مسلمانوں پر حملوں میں ملوث اشرار کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے۔
بی جے پی کے ریاستی قائدین یا مرکز میں حکمراں پارٹی کے قائدین میں سے کسی نے تریپورہ کے مسلم مخالف تشدد کی مذمت نہیں کی۔ اسی طرح وزیراعظم نریندر مودی یا مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی جانب سے تشدد کی مذمت میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ الٹا تریپورہ میں بی جے پی کے بعض مقامی قائدین نے کہا کہ مسلمانوں نے خود اپنی مساجد اور املاک کو نقصان پہنچایا ہے۔ یہ وہی بیانیہ ہے جو بی جے پی قائدین حتیٰ کہ پولیس کے افسر بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں جیسے اترپردیش، مدھیہ پردیش اور ہریانہ میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کے معاملات میں دیتے رہے ہیں۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق بی جے پی یہ سب کچھ سیاسی مجبوریوں کے تحت کرتی ہے کیوں کہ بی جے پی کا وجود تقسیم کی سیاست اور برادریوں بالخصوص ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج کو گہرا کرنے پر ہی منحصر ہے۔ تجزیہ نگاروں کا ایقان ہے کہ بی جے پی اگر فرقہ وارانہ صف بندیوں کی پالیسیوں کو ترک کردے گی تو اس کی ہندوتوا آئیڈیالوجی ڈھیر ہوجائے گی۔
میڈیا نے بھی مسلم مخالف تشدد کو نظر انداز کیا

حتیٰ کہ میڈیا نے بھی تریپورہ میں مسلم مخالف تشدد کو نظر انداز کردیا ہے اور اسے کوریج نہیں دی۔ حالانکہ پڑوسی ریاست آسام کے دارالحکومت گوہاٹی میں تمام بڑے میڈیا ادارے اپنی اچھی خاصی موجودگی رکھتے ہیں۔ تریپورہ تشدد سے متعلق خبریں ابھی تک دلی میں مسلم گروپوں کی جانب سے چلائے جانے والے نیوز پورٹلس کےذریعہ ہی سامنے آئی ہیں۔ فروری 2020دلی فسادات کا احاطہ کرنے والے میڈیا کے ایک گوشے نے الٹا مسلمانوں کو نشانہ بنایا اور کسی شواہد کے بغیر ان کے خلاف الزام طرازی کی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ مرکزی حکومت نے 2020میںوبا کے ابتدائی دنوں میں کوویڈ 19کے مذہب پر مبنی اعداد و شمارآگے بڑھائے تھے۔ حکومت کے اس طرح کے اقدامات کے زیر اثر میڈیا نے کوویڈ 19 کے کوریج کو فرقہ وارانہ رنگ دیا اور بھارت میں کورونا وبا کو پھیلانے کے لیے تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کو براہ راست ذمہ دار ٹھیرایا تھا۔ میڈیا کا یہ رول ملک بھر میں کئی مقامات پر مسلمانوں پر ہجومی حملوں کا سبب بنا۔دوسری طرف سیول سوسائٹی گروپس ، این جی اوز اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے تریپورہ کے مسئلہ پر خاموشی برقرار کھی ہے۔
اس کے برعکس وزیراعظم شیخ حسینہ نے جو اقدامات کیے ہیں وہ دنیا کی تمام جمہوریتوں کے لیے لازماً ایک سبق ہونا چاہیے۔ ہندو مخالف تشدد کے سلسلہ میں ابھی تک 680افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جملہ 71ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ اصل خاطی جو ایک مسلمان ہے اسے گرفتار کیا گیا ہے۔
جیسے ہی ہندو مخالف تشدد کا بنگلہ دیش میں آغاز ہوا شیخ حسینہ نے سختی سے اس کی مذمت کی اور ملک کے وزیر دفاع کو ہدایت دی کہ وہ تشدد میں ملوث مجرموں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کریں۔ سوشل میڈیا پر انہوں نے سماجی اور سیاسی اتحاد کے بارے میں ایک بیان جاری کیا۔ ایک ٹویٹ کرتے ہوئے حسینہ نے کہا ’’ہندووں کو کسی خوف کے بغیر عبادت کرنے کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا مسلمانوں اور دیگر مذہبی گروپوں کو ہے۔ انہوں نے اپنے مسلم بھائیوں کے ساتھ مل کر 1971کی آزادی کی جنگ لڑی تھی اور وہ بنگلہ دیش میں مساوی حقوق رکھتے ہیں۔
(مضمون نگار نیوز پورٹل ’انڈیا ٹو مارو‘ سے وابستہ صحافی ہیں)
***

 

***

 ’’ہندووں کو کسی خوف کے بغیر عبادت کرنے کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا مسلمانوں اور دیگر مذہبی گروپوں کو ہے۔ انہوں نے اپنے مسلم بھائیوں کے ساتھ مل کر 1971کی آزادی کی جنگ لڑی تھی اور وہ بنگلہ دیش میں مساوی حقوق رکھتے ہیں۔ ‘‘
(وزیراعظم بنگلہ دیش شیخ حسینہ)


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  7 نومبر تا 13 نومبر 2021