تاریخ کے جھروکے سے۔۔

خوف ۔۔!

 

ایران کے سر نگوں ہونے کے بعد دارالحکومت مدائن سے مال غنیمت سے لدے ہوئے قافلے مدینتہ النبی پہنچنے لگے۔اس چھوٹے سے شہر میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹھی بھر ساتھیوں کے ساتھ ہجرت کرکے اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی تھی تو اس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ یہ مختصر سی ریاست، دو عشروں کے اندر اندر دنیا کی دو بڑی طاقتوں کا تختہ الٹ دے گی ۔وہ لوگ جن کے افلاس کی وجہ سے پیٹ،پیٹھوں سے لگے ہوئے رہتے تھے اور جنکی تلواروں پر نیام کی بجائے چیتھڑے لپٹے رہتے تھے ایک دن وہی لوگ عظیم فاتح بن کر ابھریں گے ۔ان کے قدموں میں قیصر و کسریٰ کی دولت کے ڈھیر ہوں گے اور ان کے پرچم وقت کے نا قابل تسخیر قلعوں کی برجوں پر لہرا رہے ہوں گے – لیکن یہ سب کچھ لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔حق کے علمبردار ابر باراں بن کر دور دور تک چھا گئے ۔اب روم و ایران سے فاتحین مال غنیمت لے کر اس چھوٹی سی بستی کی طرف آ رہے تھے جو اب دنیا کی سب سے بڑی طاقت کا مرکز بن چکی تھی ۔
امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو خبر ملی قافلہ مدائن سے مال غنیمت لے کر آ پہنچا ہے – حکم دیا کہ سارا مال مسجد کے صحن میں ڈھیر کر دیا جائے , پھر خود بھی تشریف لائے اور فرمایا : ’’جب تک میں، اس مال و دولت کو تقسیم نہیں کر دیتا اسے آسمان کی نیلی چھت کے سوا اور کوئی چھت نہیں ڈھانپے گی ۔‘‘ گویا دوسرے الفاظ میں اعلان کر دیا کہ مسلمانوں کو اگر مال کی ضرورت ہو تو اسے بیت المال میں بند کرکے نہیں رکھا جا سکتا۔
ایران سے آنے والی ساری دولت مسجد کی دو صفوں کے درمیان رکھ دی گئی تھی – امیر امومنینؓ نے عبد الرحمن بن عوفؓ اور عبد اللہ بن ارقمؓ کو طلب فرمایا اور انھیں پہرا دینے کا حکم دیا- انہوں نے مال چادروں سے ڈھانک دیا اور رات بھر باری باری جاگ کر پہرہ دیتے رہے – صبح امیر المومنین تشریف لائے – ان کے ساتھ کئی بلند مرتبہ اصحاب رسول بھی تھے ۔حکم دیاگیا، ’’چادریں ہٹادو‘‘ اور پھر ان کی آنکھوں نے ایک ایسا منظر دیکھا جو پہلے کبھی خواب و خیال میں بھی نہ آیا تھا ۔جواہرات , موتیوں اور سونے چاندی کے ڈھیر فرش خاک پر پڑے تھے اور سورج کی شعاعیں ان پر پڑ کر چکا چوند پیدا کر رہی تھیں – کوئی دنیا پرست بادشاہ ہوتا تو اس کا چہرا خوشی سے چمک اٹھتا ، آنکھیں دمکنے لگتیں اور وہ اپنے پسماندہ دارالحکومت کو ایک عظیم و جدید شہر میں بدل دینے کا منصوبہ بنانے لگتا – ایک ایسا عظیم شہر جسے دیکھ کر دنیا دنگ ہو جائے جو ایسی عظیم قوم کے شایان شان ہو جس کی تلواروں نے اپنی عظمت و شوکت خود منوائی تھی ۔۔۔۔۔۔لیکن نہیں ۔۔۔اس عظیم قوم کے عظیم سربراہ کا رد عمل بالکل الگ تھا – اس کے چہرے پر اداسی کی پرچھائیں پھیل گئی اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
عبدالرحمن بن عوف ؓحیرت میں ڈوب گئے۔یا امیرالمنین ! انھوں نے کہا ’’یہ تو شکر کا موقع ہےاور آپ رو رہے ہیں؟۔‘‘
اور واقعی یہ بات حیرت انگیز تھی ۔مگر عمر بن خطابؓ کی نگاہیں بہت گہری تھیں – انہیں دولت کی اس چکاچوند کے جلو میں آنے والے شب وروز نے لرزا دیا تھا- کہنے لگے عبدالرحمن تم بجا کہتے ہو – لیکن جب بھی اللہ تعالی کسی قوم کو یہ سب کچھ دیتا ہے اس قوم کے دلوں میں ایک دوسرے سے بغض و عناد کے بیج جڑ پکڑ لیتے ہیں ۔
امیرالمومنین ؓایک لمحے کی لئے خاموش رہتے ہیں – ایک نظر مال و دولت کے اس انبار پر ڈالتے ہیں , ایک لمبی آہ بھرتے ہیں اور فرماتے ہیں ،”اے ابن عوف ؓمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی سنا ہے کہ مجھے اپنی امت کے فقر و افلاس سے کسی فتنے کا کوئی اندیشہ نہیں ہے , ڈر ہے تو اس بات کا کہ اس پر دولت دنیا کے دروازے کھول دئے جائیں گے اور وہ انہیں برباد کر دے گی۔
فارس سے آیا ہوا مال تقسیم ہونے کی خبر دارالخلافہ میں پھیل گئی تھی- لوگ جوق در جوق چلے آتے تھے- جو بھی آتا دم بخود کھڑا ہو کر دولت کے اس انبار کو دیکھنے لگتا جس سے سورج کی طرح شعائیں پھوٹ رہی تھیں – ان سیدھے سادھے لوگوں نے ہیرے جواہرات اور موتیوں کا نام تو سنا تھا , مگر زندگی میں پہلی بار دیکھنے کا موقع ملا تھا – سونے چاندی کے زیورات انہوں نے اونچے خوشحال گھرانوں میں بے شک دیکھے تھے ، لیکن اس طرح ڈھیروں کے ڈھیر کی صورت میں ان کی آنکھیں پہلی بار دیکھ رہی تھیں-
امیرالمومنین ؓنے عبدالرحمن ابن عوف ؓاور دوسرے ساتھیوں سے پوچھا : ’’کہیے کیا خیال یہ زروجواہر کس طرح تقسیم کئے جائیں , ہاتھوں سے یاصاع سے ناپ کر؟‘‘
ہر ایک نے اپنا خیال ظاہر کیا – آخر امیر المومنین نے فیصلہ کیا کہ یہ دولت ہاتھوں ہی سے تقسیم کی جائے گی۔اس وقت تک وظائف وغیرہ کے رجسٹر تیار نہیں ہوئے تھے
۔چنانچہ لوگ آتے گئے اور امیرالمومنین انہیں اپنے ہاتھوں سے ان کا حصہ عطا کرتے گئے ۔یہاں تک کہ سورج غروب ہونے سے پہلے زرو جواہرات کا ایک ٹکڑا بھی مسجد کی صحن میں باقی نہیں بچا۔ (ماخوذ)