کائنات میں غوروخوض اوراسوہ ابراہیمی

استدلال کی غیر معمولی خوبی سےدعوتِ دین کو موثر بنایا جاسکتا ہے

محمد انور حسین

 

جدید دنیا اپنے علمی سفر میں ہمیشہ مذہب کے سامنے چیلنجز پیش کرتی آئی ہے۔بہت سے فلسفی اور سائنسداں علمی ترقی کےنتیجے میں خدا کا ہی انکار کر تے آئے ہیں ۔ان کے مطابق دنیا متعینہ اصولوں کی بنیاد پر چل رہی ہے اور یہ اصول انہوں نےعقل اور کائنات پرغور وخوص کی بنیاد پر معلوم کیے ہیں ۔ اس طرح جدید دنیا میں عقل کو ایک اہم مقام حاصل ہوگیا ہے ،جدید دنیا کے فلسفی عقل کے استعمال اور اس کے نتائج کو ہی قابل تقلید مانتے ہیں ۔ہر چیز کو جانچنے اور پرکھنے کے لیے جدید دنیا نے کچھ اصول مرتب کیے جس میں مفروضہ، مشاہدہ، تجربہ اور نتائج کو اہم مقام حاصل ہے ۔
غور وفکر ایک فطری جذبہ ہے ہر انسان اپنی زندگی میں اس مرحلے سے گزرتا ہے ۔ہر انسان کو اللہ تعالی نے عقل سے نوازا ہے اور عقل کی اقل ترین خوبی یہ ہے کہ وہ بار بار اپنے بارے میں سوال کرنے پر مجبور کرتی ہے ۔وہ کون ہے ؟ اسے کس نے پیدا کیا ؟ لوگ مرکر کہاں جاتے ہیں ؟ وغیرہ وغیرہ ۔ ان سوالات کا پیچھا کرتے ہوئے انسان یا تو صحیح راستہ تلاش کر لیتا ہے یا گمراہی کی طرف چلا جاتا ہے ۔اس کا دارومدار عقل کے استعمال پر ہے ۔ کوئی آدمی اپنی عقل کا صحیح استعمال کرکے صحیح نتیجے پر پہنچتا ہے جبکہ دوسرا اپنی عقل سے زیادہ دوسروں کی عقل پر بھروسہ کرکے گمراہی کی طرف چلا جاتا ہے ۔قران نے واضح کیا کہ :الَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ وَ یَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبۡحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
﴿سورة آل عمران۱۹۱﴾۔ جو اٹھتے ، بیٹھتے اور لیٹتے ، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں ۔ وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں’ پروردگار! یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے ، تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے ۔ پس اے رب! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے ۔
اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انسانوں میں سے عقل صحیح رکھنے والے لوگ اپنے خالق کو پہچاننے اس سے ڈرنے اور اس کی مخلوق پر غور وفکر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بے شمار ا نسان کائنات کی ان بے شمار نشانیوں کو دن رات دیکھنے کے باوجود حقیقی نتیجہ پر نہیں پہنچ پاتے ۔اس کی وجوہات کئی ہیں ۔پہلی وجہ یہ ہے انسان اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات کو نظر انداز کرتا رہتا ہے ۔دوسری وجہ ،جس ماحول یا معاشرے میں اس کی پرورش ہوتی ہے وہ اسی زاویہ سے اس کو دیکھتا اور اس کے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات کو دبادیتا ہے ۔تیسری وجہ یہ ہے کہ انسان دوسروں کی عقل پر زیادہ بھروسہ کرتا ہے ۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ انسان ظاہری آنکھوں سے نظر آنے والی چیزوں پر اکتفا کرتا ہے ۔پانچویں وجہ شیطان کا بہکاوا ہے جو ہر وقت اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ وہ اپنی عقل کا استعمال ہی نہ کرے ۔
آپ دیکھیں گے کہ علمی و سائنسی ترقی کے بام عروج پر پہنچ کر بھی اہل علم خدا کو نہیں پہچان سکے ۔ سائنسدانوں نے اپنی تحقیق کے مرحلے میں خدا کی مخلوق کا مشاہدہ اور تجزیہ تو کیا لیکن صحیح نتیجہ نکالنے میں ناکام ہوگئے۔ نیوٹن جیسا سائنسدان جس کی تحقیق کا آغاز ایک گرتے ہوے سیب کے مشاہدے سے ہوا لیکن انتہا میں وہ خدا کا انکار کر بیٹھا ۔اس فہرست میں بہت سے نام ہیں ۔چنانچہ جولین ہکسلے لکھتا ہے ۔۔ ’’نیوٹن نے دکھادیا ہے کہ کوئی خدا نہیں ہے ،جو سیاروں کی گردش پر حکومت کرتا ہو،لاپلاس نے اپنے مشہور نظریے سے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ فلکی نظام کو خدائی مفروضے کی کوئی ضرورت نہیں ،ڈارون اور پاسچر نے یہی کام حیاتیات کے میدان میں کیا ہے ،اور موجودہ صدی میں علم النفس کی ترقی اور تاریخی معلومات کے اضافے نے خدا کو اس مفروضہ مقام سے ہٹادیا ہے کہ وہ انسانی زندگی اور تاریخ کو کنٹرول کرنے والا ہے‘‘۔اسی لیے علامہ اقبال نے کہا کہ
ڈھُونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دُنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حِکمت کے خم و پیچ میں اُلجھا ایسا
آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شُعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک کی سحر کر نہ سکا!
ابراہیم علیہ السلام کی زندگی ایک غور وفکر اور تدبر کرنے والے انسان کی زندگی کے طور پر ہمارے سامنے آتی ہے ۔ابراہیم علیہ السلام نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے ذہن میں ابھرنے والے سوالات کا پیچھا کیا ۔تارے،چاند ،سورج سب کی گردش پر سوال اٹھائے ۔سوال بھی اس وقت اٹھائے جب پوری قوم ان چاند تاروں کو اپنا خدا مان بیٹھی تھی ۔ابراہیم علیہ السلام نے اپنی عقل کا صحیح استعمال کیا اور قوم کو مخاطب کیا کہ جو چاند ،تارے اور سورج ڈوب جاتے ہیں ،جو اپنی مرضی سے ایک منٹ پہلے نہ نکل سکتے ہیں اورنہ ڈوب سکتے ہیں وہ خدا کیسے ہو سکتے ہیں ؟ البتہ ابراہیم علیہ السلام اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ یہ غیر معمولی چیزیں جو طاقتور تو نظر آرہی ہیں لیکن وہ با اختیار نہیں ہیں لہذا ان کا خالق کوئی ایسی ہستی ہے جو ہر چیز سے بے نیاز ہے ۔اس انکشاف کے بعد ابراہیم علیہ السلام نے یکسو ہوکر خدا کی بندگی اختیار کی اور اس کی طرف اپنی قوم کو بلایا ۔اور شرک کا پر زور انکار کیا ۔ اِنِّیۡ وَجَّہۡتُ وَجۡہِیَ لِلَّذِیۡ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ حَنِیۡفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿۷۹﴾ ۔
(سورة الأنعام 79)
’’میں نے تو یکسو ہو کر اپنا رخ اس ہستی کی طرف کر لیا جس نے زمین اور آسمانون کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ‘‘۔
ابراہیم علیہ والسلام کا یہ ا نداز غور فکر جدید سائنس کے بنیادی اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے ۔جدید مفکرین نے مفروضہ ،مشاہدہ ،تجربہ اور نتیجے کے جو اصول قائم کیے ہیں ابراہیم علیہ السلام نے ان ہی اصولوں کی بنیاد پر خدا کے وجود اور اس کے واحد ہونے کے بارے میں قوم سے کلام کیا اور اس کو مشاہدہ اور تجربہ کی دعوت دی ۔اس کا نتیجہ بھی صاف اور منطقی تھا لیکن جب انسان شرک میں اندھا ہوجاتا ہے اور اپنی عقل کو دوسروں کے تابع کردیتا ہے تو اسے شرک چھوڑنا مشکل ہوجاتا ہے ۔
یہ ایک اہم سوال ہے کہ دنیا میں شرک کس طرح پنپتا رہا ہے ۔اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو مختلف قوتوں سے نوازا ،اس کو دنیا کی اشیا پر تصرف کا اختیار دیا عقل و شعور کے ساتھ جسمانی طاقت بھی عطا کی تاکہ وہ ایک خدا شناسی اور خدا ترسی کی زندگی گزار سکے ۔لیکن انسان اور انسانی گروہ جب بھی طاقتور ہوتے گئے تو کمزورں پر حکومت کرنے اور اپنا غلبہ و تسلط قائم رکھنے کے لیے انہوں نے کچھ بت ترشوائے اور عوام کو اپنی طاقت اور ظلم کی بنیاد پر مبتلائے شرک رکھا ۔اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ یہ طاقتور گروہ لوگوں کو فرضی خداؤں سے ڈراتا رہا ہے تاکہ ان کو غلام بنایا جاسکے۔کسی حق پرست نے اس چالبازی کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کی تو انہیں اپنی سلطنت اورچودھراہٹ خطرہ میں محسوس ہونے لگی ۔اور اس طرح کی تمام آوازوں کو طاقت سے دبانے کی کوشش کی جاتی رہی ۔ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا اور بعدکے پیغمبروں کےساتھ بھی ۔
جب بھی توحید اور شرک کا مقابلہ ہوا شرک کو طاقتور بتایا گیا لیکن کشمکش کے بعد توحید کو فتح نصیب ہوئی ۔ ابراہیم علیہ السلام کے سامنے نمرود کی خدائی ۔موسی علیہ السلام کے سامنے فرعون کی طاقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مشرکینِ مکہ کی چالبازیاں اس کا ثبوت ہیں ۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بو الہبی
نمرود کی خدائی کا دعویٰ بھی شرک پر ہی قائم تھا وہ جا نتا تھا کہ وہ خود خدا نہیں ہے لیکن دولت اور سلطنت پر قائم رہنے کے لیے اسے ہزاروں بتوں کو تراشنا پڑا تھا اور ان تراشیدہ خداؤں سے ڈرا ڈرا کر حکومت کرتا رہا اور ایک وقت یہ بھی آگیا کہ وہ اپنی خدائی کا دعویٰ کرنے لگا ۔اپنی طاقت کی بنیاد پر حق کی آواز کو دبانے کی کوشش کرنے لگا ۔
ابراہیم علیہ السلام نے ان کے تراشیدہ خداؤں پر سوال اٹھائے تو ان سے مکالمہ کیا گیا ۔قران ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کے اس مکالمے کو خوبصورت انداز میں پیش کرتا ہے ۔مغربی سائنسدانوں اور عقلیت پسندی اور اثباتیت کے اصول وضع کرنے والوں کو ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کے اس مکالمے کو ایک بار غیر جانبدار ہوکر دیکھنا چاہیے ۔ ابراہیم علیہ السلام کی عقل، فراست اور طرز استدلال انتہائی سائنٹیفک ہے جبکہ شرک کا استدلال، بھونڈا ،غیر سائنٹیفک اور تکبرانہ ہے ۔
نمرود جوعراق کا بادشاہ تھا اسے اس بات کا غرور تھا کہ میری طاقت اتنی زیادہ ہے کہ میں لوگوں کی جان بخشی بھی کر سکتا ہوں اور انہیں موت بھی دے سکتا ہوں ۔جب ابراہیم علیہ السلام نے قوم کو بتوں کی بے بسی اور بے وقعتی سمجھانے کے لیے سارے بت توڑدیے اور ایک بڑے بت پر الزام لگادیا ۔اس الزام میں انہیں نمرود کے سامنے لایا گیا، ابراہیم علیہ السلام نے پر زور طریقے سے اپنی بات پیش کی کہ رب تو وہ ہوتا ہے جو انسانوں کو زندگی اور موت دے سکتا ہے ۔اس بات کو سنتے ہی نمرود کے دل میں غرور اور تکبر کے جذبات ابھر آئے اور اس کی عقل اندھی ہوگئی۔ایک واضح حقیقت کو وہ فراموش کر بیٹھا کہ اس کی زندگی اور موت بھی کسی عظیم ہستی کے ہاتھ میں ہے ۔فوری اعلان کر بیٹھا کہ زندگی اور موت تو میرے ہاتھ میں ہے میں جسے چاہوں قتل کروا سکتا ہوں اور جسے چاہوں آزاد کر سکتا ہوں ۔ وہ ابراہیم علیہ السلام کے حکیمانہ اور جدید اصطلاح کے مطابق سائنٹیفیک استدلال سے چکرا گیا ۔جب ابراہیم علیہ السلام نے دوسرا سوال کیا کہ اگر تو خدا ہے تو سورج جو روز مشرق سے نکلتا ہے تو اسے مغرب سے نکال کر دکھادے یہ سوال سنتے ہی وہ ششدر رہ گیا کوئی جواب اس کے پاس نہ تھا۔ اسے تو بس اپنی سلطنت اور حکومت کے چلے جانے کا خوف ستا رہا تھا ۔وہ ظالم تھا اس نے اپنی عقل و فراست پر ظلم کیا تھا لہذا ہدایت نہیں پا سکا اور ہر ظالم بادشاہ کی طرح ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالنے کا حکم دیا لیکن اللہ کو یہ کیسے منظور تھا کہ اس کے خلیل کو نمرود کی لگائی ہوئی آگ کچھ بگاڑ سکے ۔ابراہیم علیہ السلام کے اس استدلال کو کہ انسانوں کو مارنے اور بچانے کا اختیار اس کے خالق کے سوا کسی کو نہیں ہے سچ ثابت کرنے کے لیے آگ کو ٹھنڈا کردیا گیا ۔ پوری قوم کے سامنے نمرود کے دعویٰ کو بوسیدہ اور ابراہیم علیہ السلام کے استدلال کو صحیح ٹھیرایا گیا ۔اس کے باوجود بھی اگر کسی کی عقل میں یہ حقیقت نہیں بیٹھتی کہ آگ کو جلنے اور ٹھنڈا ہونے کا حکم بھی اس کے خالق کی طرف سے ملتا ہے ۔تو اس کی عقل پر سوائے رونے کہ کچھ نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ بالکل اسی طرح کہ موجودہ سائنس آکسیجن اور ہائیڈروجن کو پانی کا حصہ ثابت کرنے کے بعد بھی کوئی خود سے پانی بنانے اور برسانے کا دعوی نہیں کر سکتا ۔
ذرا وہ مکالمہ پڑھیے کہ ابراہیم علیہ السلام ایک داعی ،مدبر ،مفکر اور بہترین طرز استدلال کے ساتھ کس طرح گفتگو کرتے ہیں جو داعی کی بنیادی صفات ہیں ۔۔چنانچہ قران کہتا ہے ۔۔۔
اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡ حَآجَّ اِبۡرٰہٖمَ فِیۡ رَبِّہٖۤ اَنۡ اٰتٰىہُ اللّٰہُ الۡمُلۡکَ ۘ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہٖمُ رَبِّیَ الَّذِیۡ یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ ۙ قَالَ اَنَا اُحۡیٖ وَ اُمِیۡتُ ؕ قَالَ اِبۡرٰہٖمُ فَاِنَّ اللّٰہَ یَاۡتِیۡ بِالشَّمۡسِ مِنَ الۡمَشۡرِقِ فَاۡتِ بِہَا مِنَ الۡمَغۡرِبِ فَبُہِتَ الَّذِیۡ کَفَرَ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿البقرہ ۲۵۸)
’’ کیا تم نے اس شخص کے حال پر غور نہیں کیا ، جس نے ابراہیم سے جھگڑا کیا تھا ؟ جھگڑا اس بات پر کہ ابراہیم کا رب کون ہے ، اور اس بنا پر کہ اس شخص کو اللہ نے حکومت دے رکھی تھی ۔ جب ابراہیم نے کہا کہ میرا رب وہ ہے ، جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے تو اس نے جواب دیا: زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے ۔ ابراہیم نے کہا : اچھا ، اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے ، تو ذرا اسے مغرب سے نکال لا ۔ یہ سن کر وہ منکر حق ششدرہ رہ گیا ، مگر اللہ ظالموں کو راہ راست نہیں دکھایا کرتا ۔‘‘
اس طرح کئی اور مقامات پر ابراہیم علیہ السلام کی کائنات میں غور وفکر کی خوبی کو نمایاں کیا گیا ۔سورج کا نکلنا اور ڈوبنا تو ہر کوئی دیکھ رہا تھا لیکن ابراہیم علیہ السلام کا غور وفکر ان کو ایک واضح نتیجے پر پہنچاتا تھا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر ہر انسان اللہ کی اس کائنات میں غور فکر کرے تو راہ راست پا سکتا ہے چنانچہ قران میں فرمایا گیا ۔ وَ کَذٰلِکَ نُرِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ مَلَکُوۡتَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لِیَکُوۡنَ مِنَ الۡمُوۡقِنِیۡنَ ﴿الانعام ۔۷۵﴾
ابراہیم (علیہ السلام) کو ہم اِسی طرح زمین اور آسمانوں کا نظام سلطنت دکھاتے تھے 51 اور اس لیے دکھاتے تھے کہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو جائے ۔ اس کے بعد دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ کس طرح اپنی قوم کو یہ سمجھایا جائے کہ مرنے کے بعد خدا انسانوں کو دوبارہ زندہ کرتا ہے ۔ اس کے لیے انہوں نے خدا سے مطالبہ کیا کہ وہ اس عمل کو اس دنیا کی تجربہ گاہ میں ثابت کر یں ۔ابراہیم علیہ السلام نے اللہ سے سوال کیا کہ وہ مردوں کو زندہ ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں ۔اللہ نے کہا کہ تم کو یقین نہیں ۔ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا یقین تو ہے لیکن تجربہ گاہ کے ذریعے ثابت ہوتا دیکھنا چاہتا ہوں ۔اللہ کا حکم ہوا کہ چار پرندوں کو ٹکڑے کر کے پہاڑوں میں پھیلادو اور اللہ نے ان کو دوبارہ زندہ کرکے بتادیا کہ وہی مردوں کو زندہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ یہ ابراہیم علیہ السلام کی فراست کا بہترین مظہر ہے ۔چنانچہ اس واقعے کا تذکرہ اللہ رب العزت نے سورہ بقرہ میں فرمایا۔
وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہٖمُ رَبِّ اَرِنِیۡ کَیۡفَ تُحۡیِ الۡمَوۡتٰی ؕ قَالَ اَوَ لَمۡ تُؤۡمِنۡ ؕ قَالَ بَلٰی وَ لٰکِنۡ لِّیَطۡمَئِنَّ قَلۡبِیۡ ؕ قَالَ فَخُذۡ اَرۡبَعَۃً مِّنَ الطَّیۡرِ فَصُرۡہُنَّ اِلَیۡکَ ثُمَّ اجۡعَلۡ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِّنۡہُنَّ جُزۡءًا ثُمَّ ادۡعُہُنَّ یَاۡتِیۡنَکَ سَعۡیًا ؕ وَ اعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ ﴿سورة البقرة ۲۶۰﴾
اور وہ واقعہ بھی پیش نظر رہے ، جب ابراہیم نے کہا تھا کہ میرے مالک ! مجھے دکھا دے تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے ۔ فرمایا: کیا تو ایمان نہیں رکھتا ؟ اس نے عرض کیا ایمان تو رکھتا ہوں ، مگر دل کا اطمینان درکار ہے ۔ 296 فرمایا: اچھا ، تو چار پرندے لے اور ان کو اپنے سے مانوس کر لے ۔ پھر ان کا ایک ایک جز ایک ایک پہاڑ پر رکھ دے ۔ پھر ان کو پکار ، وہ تیرے پاس دوڑے چلے آئیں گے ۔ خوب جان لو کہ اللہ نہایت بااقتدار اور حکیم ہے ۔
جب یہ قرآن مکہ میں نازل ہورہا تھا اس وقت اہل شرک و کفر سے یہی سوال تو کیا جارہا تھا کہ تم اپنے باپ ابراہیم کو اپنا پیشوا تو مانتے ہو لیکن اس کی عقلمندی، فراست اور داںنشمندی پر ذرا بھی غور نہیں کرتے ۔ کس طرح اس نے کائنات پر غور وفکر کے بعد دین حنیف کو اپنایا اور اپنی ساری زندگی اس کے لیے یکسو کردی بلکہ عظیم المرتبت قربانیاں بھی پیش کیں ۔
ان کی غفلت کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ کائنات پر غور خوض کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے بلکہ تعصب ،سرداری ،معاشی برتری ،باپ دادا کی پر فریپ پیروی اور شرک کی نحوست نے ان کی عقلوں پر پردے ڈال دیئے تھے ۔ عصر حاضر میں بھی نمرود کی خدائی کا بول بالا ہے ۔نمرود کی نمائندگی کرنے والے ایک طرف کفن چور سرمایہ دار ہیں تو دوسری طرف ظالم ڈکٹیٹر اور مذہب کے ٹھیکیدار ہیں ۔انسانی عقلوں پر انہوں نے اثباتیت،ریشنلزم ،سائنٹیفک اپروچ اور عقل پرستی کی گمراہ کن اصطلاحوں سے ایسی کنڈشننگ کی ہے کہ وہ کائنات پر غور وخوض تو کرتے ہیں ،مشاہدہ،تجربہ اور نتایج کے مرحلوں سے گزرتے ہیں لیکن نتیجہ نکالنے میں نمرود جیسے خدائی کا دعویٰ کرنے والوں کے بہکاوے میں آجاتے ہیں ۔۔اس انسان کو کیا کہیں جو مریخ پر پہنچ تو رہا ہے لیکن اپنے خالق کو پہچاننے سے قاصر ہے یا پہچاننا نہیں چاہتا۔
آج ابراہیم علیہ السلام کا اسوہ ہمیں دعوت دے رہا ہے کہ اللہ کے دین کو دنیا کے مروجہ علم و حکمت کی زبان میں پیش کیا جائے ۔کاینات پر ایسا غورو خوض ہو اور اس کی حقیقتوں کو استدلال کی غیر معمولی خوبی کے ساتھ اس طرح پیش کیا جائے کہ نیوٹن ،لاپلاس ،ڈارون ،پاسچر، نٹشے ،کامٹ اور مارکس جیسے لوگ بونے نظر آنے لگیں۔شاید اقبال نے اسی لیے کہا تھا ؎
یہ دَور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ

آج ابراہیم علیہ السلام کا اسوہ ہمیں دعوت دے رہا ہے کہ اللہ کے دین کو دنیا کے مروجہ علم و حکمت کی زبان میں پیش کیا جائے ۔کاینات پر ایسا غورو خوض ہو اور اس کی حقیقتوں کو استدلال کی غیر معمولی خوبی کے ساتھ اس طرح پیش کیا جائے کہ نیوٹن ،لاپلاس ،ڈارون ،پاسچر، نٹشے ،کامٹ اور مارکس جیسے لوگ بونے نظر آنے لگیں