نئی تعلیمی پالیسی میں معاشرتی انصاف، مساوات اور جمہوری اقدار نظر انداز

پالیسی کو اصلاح کے بعد پارلیمنٹ سے منظور کروایا جائے: جماعت اسلامی ہند

 

 

نئی دلی (دعوت نیوز نیٹ ورک) جماعت اسلامی ہند کے مرکزی تعلیمی بورڈ نے حکومت کی نئی تعلیمی پالیسی پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اس کی کچھ خصوصیات کو سراہا ہے مگر دیگر کچھ شقوں پر تنقید بھی کی ہے۔ جماعت کے مرکزی تعلیمی بورڈ کے صدرنشین جناب نصرت علی نے اس نئی پالیسی کے تمام اہم پہلوؤں پر تبصرہ کرتے
ہوئے کہا:
٭ حکومت نے’نئی ایجوکیشن پالیسی (این ای پی) 2020‘ کو پارلیمنٹ میں بحث کے لیے پیش کئے بغیر اعلان کیا ہے۔جبکہ اس سے قبل حکومت کے ذریعہ منظور کی جانے والی تمام تعلیمی پالیسیوں پر پارلیمنٹ میں مباحثے ہوا کرتے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجود حکومت جمہوری طریقوں کو اپنانا نہیں چاہتی ہے۔
٭ حکومت نے جس پالیسی کا اعلان کیا ہے، اس کا ویژن واضح نہیں ہے، اس میں وضاحت کا فقدان ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس میں معاشرتی تبدیلی پر توجہ دینے سے زیادہ مادیت پسندی پر دھیان دیا گیا ہے جبکہ ہمارے ملک میں ایک ایسی تعلیمی پالیسی کی ضرورت ہے جس کا مقصد معاشرتی انصاف، جمہوری اقدار، مساوات اور باہمی اعتماد کی بحالی کے ذریعے معاشرتی تبدیلی ہو۔
٭ پالیسی میں تعلیم کے جامع اور مربوط اپروچ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ اس میں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ ہندوستانی تناظر میں جامع اپروچ کی تعریف کیا ہونی چاہئے۔ جماعت اسلامی ہند شدت سے اس بات کو محسوس کرتی ہے کہ تعلیم کے لیے ایک جامع نقطہ نظر اپنا کر ہی معاشرے میں ترقی، خوشی اور امن حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس کو پرائمری اسکول اور سیکنڈری اسکول کے نصاب و اقدار کو مربوط نصاب کی شکل میں لاکر حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ان اقدار کو ہمہ گیر مشترکہ اقدار سے اخذ کیا جاسکتا ہے اور یہ ہمارے آئین میں موجود ہیں۔
٭ اعلیٰ تعلیم کے لیے درجہ بند کئے گئے اداروں کے نظام کے تئیں بہت مہنگی یونیورسٹیوں اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں کو اجازت دینا، ہمارے تعلیمی نظام کو ایسا بنادے گا جس سے امیر طلباء کے لیے ہی یہ نظام قابل رسائی اور آسان ہو گا۔ اس سے معاشرتی عدم مساوات کو بڑھاوا ملے گا اور معاشرتی انصاف پر منفی اثر پڑے گا۔ جبکہ معاشرتی مساوات اور انصاف ہمارے آئین کی روح ہے۔
٭ مادری زبان میں پرائمری تعلیم دینے کی پالیسی ایک اچھا قدم ہے، لیکن اس کے نفاذ کے لیے سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
٭ ابتدائی بچپن کی تعلیم میں بچوں کی ماوؤں اور مربیوں دونوں کی ٹریننگ لازمی ہوتی ہے، بصورت دیگر یہ مڈل کلاس کے لیے صرف ایک خیال بن کر رہ جائے گا اور اس سے ان کا استحصال کرنے اور تعلیمی اداروں کے کاروباری بنانے کا ایک بڑا مارکیٹ فراہم ہوگا۔
٭اسکِل ڈیولپمنٹ پروگرام ایک طویل مدتی آئیڈیا ہے، اگر اسے پرائیویٹ اداروں کو دے دیا گیا تو اس پر عمل درآمد ناقص ہوجائے گا۔
٭ جہاں تک اعلی تعلیمی درجات میں داخلے کی شرح میں 26فیصد سے 50فیصد تک اضافے کی بات ہے، یہ ایک مختلف الجہات ہدف ہے۔اس مقصد کے حصول کے لیے عوامی اخراجات میں اضافہ کیا جانا چاہئے۔ حکومت کو چاہئے کہ اپنی جی ڈی پی کا آٹھ فیصد تعلیم پر خرچ کرنے کا منصوبہ بنائے۔
٭ پالیسی میں کہا گیا ہے کہ آٹھ زبانوں کے لیے ’’ای مواد‘‘ تیار کیا جائے گا، مگر اس میں اردو شامل نہیں کی گئی ہے۔اگر پالیسی کا مقصد محروم طبقات کی مجموعی حالت کو بہتر بنانا ہے تو ’ای مواد‘ کو اردو زبان میں بھی تیار کیا جائے۔
٭پری پرائمری سے18 سال تک کی عمر کے بچوں کی مفت اور لازمی تعلیم کا فیصلہ خوش آئند قدم ہے۔
٭تعلیم ایک ریاستی سبجیکٹ ہے، لہٰذا متعدد تعلیمی اداروں کو ایک مرکزی یونٹ میں ضم کردینا، اسے کلی مرکزی حیثیت دے دے گا اور یہ ہماری وفاقی پالیسی کے لیے دھچکا ثابت ہوگا۔
جماعت اسلامی ہند نے حکومت کے ماہرین کے ذریعے بنائی گئی تعلیمی پالیسی پر تنقیدوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے این ای پی 2020 کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو دور کرکے اسے پارلیمنٹ سے منظور کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔

پالیسی میں کہا گیا ہے کہ آٹھ زبانوں کے لیے ’’ای مواد‘‘ تیار کیا جائے گا، مگر اس میں اردو شامل نہیں کی گئی ہے۔اگر پالیسی کا مقصد محروم طبقات کی مجموعی حالت کو بہتر بنانا ہے تو ’ای مواد‘ کو اردو زبان میں بھی تیار کیا جائے۔